انتحال، انتساب اور علمی بددیانتی

ڈاکٹر شمس کمال انجم معاملات

لفظ انتخال (کسی منظوم یا منثور تخلیق کو گھڑ کر کسی اور کی طرف منسوب کرنا) سب سے پہلے میں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں۱۹۹۲ کے اواخر میں تاریخ ادب عربی کا مضمون پڑھتے ہوئے سنا۔تاریخ ادب عربی پڑھانے والے استاد ڈاکٹر محمد الفلاح اپنے خاص اسلوب میں بتارہے تھے کہ مشہور مستشرق مرجلیوث نے سب سے پہلے انتحال کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ زمانۂ جاہلیت اور ما بعد کے زمانوں کے قصائد کا بہت سارا حصہ منحول ہے یعنی بعد کے زمانوں میں انھیں گھڑ کرزمانۂ جاہلیت اور بعد کے دور کے شعراء کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔مرجلیوث کے اس نظریے کی بنیاد پر مشہور مصری ادیب ڈاکٹر طہ حسین نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے فی الشعر الجاہلی میں جاہلیت کے شعری شہ پاروں پر خوب خوب تیر ونشتر چلائے اورانھیں منحول (یعنی گھڑے ہوئے) ثابت کرنے کی کوشش کی۔پورے مصر میں ہنگامہ ہوگیا۔ مصری پارلیامنٹ میں خوب گرماگرم بحث ہوئی۔ فیصلہ ہوا کہ فی الشعر الجاہلی کے تمام نسخے ضبط کرلیے جائیں۔مگر جس طرح طہ حسین ڈٹے رہے اسی طرح ہمارے استاد محترم نے بھی اس موضوع پر ایسی سیر حاصل بحث کی اور اتنے دونوں تک کی کہ ہمارے کان مرجلیوث کا نام سن سن کر پک گئے تھے۔اور عاجز آکر ہم نے تاریخ ادب عربی کے استاد محترم کا نام ہی مرجلیوث رکھ دیا تھا۔ وہ جب بھی کہیں نظر آتے یا کلاس میں آتے ہم کہتے مرجلیوث آرہے ہیں۔ اللہ استاد محترم کو سلامت رکھے کہ ابھی وہ باحیات ہیں۔
جاحظ عباسی دور کا ایک لاثانی ادیب تھا۔صاحب اسلوب ادیب تھا۔ اس کی ادبی خدمات لافانی ہیں۔کئی وقیع علمی وادبی کتابیں اس نے لکھیں جو آج بھی زندہ وجاوید ہیں۔ تشنگان علوم آج بھی ان سے اپنی تشنگی فر وکرتے ہیں۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر شوقی ضیف نے لکھا ہے کہ ابتدائی زندگی میں جب وہ کوئی کتاب لکھتا تو اس کے حاسدین اس پر تنقید اور نکتہ چینی کرتے۔ لہٰذا اس نے تنقید اور نکتہ چینی کے ڈر سے اپنی کتابوں کو ابن مقفع ، خلیل بن احمد اور عتابی جیسے بڑے ناموں سے منسوب کرنا شروع کردیا۔ بعد میں جب مشہور ہوا تو اس نے اپنی کتابو ں پر اپنا نام لکھا۔
ابن الندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں ایک لمبی فہرست دی ہے جس میں ایسی کتابوں کا ذکر کیا ہے جس کے مصنفین کا ہی پتہ نہیں۔ اس کے برخلاف کتابوں کو نقلی مولفین کے نام سے بھی شائع کرنے کی بھی روایت بہت پرانی ہے۔کہاجاتا ہے کہ افلاطون کی طرف ایسی کتابوں کی نسبت کی گئی جنھیں اس نے لکھا ہی نہیں۔اہل حدیث ڈاٹ کام پر عبد الرحمن فقیہ نے لکھا ہے کہ تاریخ الانبیاء کو خطیب بغداد ی کے نام سے شائع کیا گیا لیکن محقق کتاب نے ایسے دلائل وشواہد ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب خطیب بغدادی کی نہیں ہے۔اسی طرح انوار اللمعۃ فی الجمع بین مفردات الصحاح السبعۃ کے نام سے ایک کتاب حافظ ابن صلاح کی طرف منسوب کرکے شائع کی گئی ہے لیکن یہ کتاب تاج الدین ساوی کی ہے۔ ابن الصلاح کی نہیں۔غراس الاساس کے نام سے ایک کتاب ابن حجر کے نام سے شائع کی گئی ہے لیکن سخاوی کے بقول یہ ان کی کتاب نہیں ہے۔
اسی طرح شعری سرقات بھی قدیم زمانے سے ہی مسلسل بحث کا موضوع رہے۔ ان پر بڑے عالمانہ انداز میں بحث بھی ہوئی۔ سرقات کے اصول وضوابط بھی متعین ومقرر کیے گئے۔اس ضمن میں آمد وآورد پر بھی مباحثے اور مناقشے ہوئے۔ان کے حدود وضوابط متعین کیے گئے۔ اسی ضمن میں ایک واقعہ سنتے چلیں۔
ہمارے والد صاحب کا پہلا نعتیہ مجموعہ ۱۹۶۹ء میں’’چراغ حرم‘‘کے نام سے شائع ہوا اور خوب خوب مشہور ہوا۔ اس مجموعے کو اتنی لاثانی مقبولیت حاصل ہوئی کہ مختصر سے عرصے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ اس کے بعد والد صاحب کا دوسرا مجموعہ ’’منار حرم‘‘ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو والد صاحب مشرقی یوپی کے بیشتر اضلاع بالخصوص ہند ونپیال کے سرحدی علاقوں میں استاد شاعر اور خطیب سحر البیان کی حیثیت سے شہر ت کے ہفت آسماں پر تھے۔وہ خود بھی بے انتہا خوش الحان تھے۔مذہبی جلسوں میں اپنی نعتیں بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس لیے بھی چراغ حرم اور منار حرم کی نعتوں کو بے انتہا شہرت حاصل ہوگئی۔ ان کی بہت ساری نعتیں لوگوں کو ازبر ہوگئیں۔ ان کی نعتوں کے بہت سارے مصرعے اور اشعار تک زباں زد خاص وعام ہوگئے۔ مدارس ومکاتب اور دینی اجلاس وکانفرنسوں میں ان کی نعتوں کا جلوہ ہوتا تھا۔ یہی کوئی۱۹۸۱-۱۹۸۲ کی بات ہے ہمارے گاؤں کے پڑوس کے ایک گاؤں میں ایک نوجوان عالم رہتے تھے جن کا نام میں یہاں ذکرکرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ شاعر تھے اور والد صاحب کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان سے اصلاح بھی لیتے تھے۔ گاؤں کے پڑوس کے تھے اس لیے ان کے اپنے گاؤں آنے جانے کا راستہ بھی ہمارے ہی یہاں سے گذرتا تھا اس لیے علیک سلیک سب سے ہوا کرتی تھی۔ یعنی خرد وکلاں سب انھیں پہچانتے تھے۔ ایک دن ان کا نعتیہ مجموعہ منظر عام پر آیا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچا تو ہنگامہ ہوگیا۔ چراغ حرم اور منار حرم کی نعتوں کے اشعار کے اشعار اور نعتوں کے عناوین تک سرقہ کرلیے گئے تھے۔ زباں زد نعتوں کے بھی مصرعے انھوں نے لے لیے تھے۔ابا نے اعلان کیا تھا کہ ان کا اگلا مجموعہ منبر ومحراب ہوگا۔ اس میں بھی اعلان کردیاگیا تھا کہ ان صاحب کا اگلا مجموعہ ’’منبر ومحراب ‘‘کے نام سے شائع ہوگا۔ ابا تک بھی یہ بات پہنچی۔ بہت ناراض ہوئے مگر موصوف کی نادانی سمجھ کر کچھ نہیں کہانہ کوئی ایکشن لیا۔ مگر یہ بات جنگل کی آگ کی طرح اس قد رپھیل گئی تھی کہ موصوف کانام ہی لوگوں نے ’’چور‘‘رکھ دیا۔ وہ جب بھی اس راستے سے گذرتے چھوٹے چھوٹے بچے تک انھیں’’چوروا‘‘ کہہ کر آواز لگاتے تھے۔ میں خود ان چیزوں کا عینی شاہد ہوں۔ اس کے بعد کافی عرصے تک وہ صاحب نظر نہیں آئے۔ ۲۰۰۴ء میں جب ابا کا تذکرہ ’’نقوش جاوداں‘‘ کے نام سے مرتب کررہا تھا تو ان کے کاغذات میں مجھے موصوف کا ایک خط بھی ملا جسے میں اپنے دفاع میں وہ لکھتے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرم ومحترم حضرت مولانا حامد الانصاری صاحب انجمؔ مدظلہ العالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد التسلیم گذارش خدمت یہ ہے کہ آج کل میں ضلع الہ آباد میں پڑھا رہا ہوں اور مجھ کو آئے ہوئے آج چوتھا دن ہے لیکن طبیعت راستے ہی میں خراب ہوگئی تھی۔ آج بھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ آپ تک آسکوں ورنہ آتا تو ضرور۔ بہر کیف میں نے سنا ہے کہ آپ مجھ پر خفا ہیں۔ لیکن خدا گواہ ہے آج سے ڈیڑھ یا دو سال قبل آپ کا نعتیہ مجموعہ مسمی ’’منار حرم‘‘ آپ ہی کے صاحبزادے سہیل کے بدست ملا تھاوہ بھی قیمتاً۔ اور وہیں پر سرسری نظر سے چیدہ چیدہ دیکھا اور جو کچھ بھی دیکھا وہیں پر دیکھا۔ اس کے بعد گھر آکر طاق پر رکھ دیا اس کے بعد صبح کو جب دیکھا تووہ کتاب نہ ملی۔ اور گم ہوجانے کا بڑا افسوس ہوا اور پھر آپ سے مانگ بھی نہ سکا۔اس کے بعد ’’منار حرم‘‘کہیں بھی میری نظر سے نہیں گزری۔ ہاں آپ کے بمبئی جانے سے قبل جب ہم اور مولانا باب اللہ صاحب ساکن مونڈا ڈیہہ آپ کے پاس آئے تھے تو مولانا باب اللہ صاحب کو ایک نسخہ آپ نے دیا تھا اور اس وقت ہماری کتاب ’’غبار حرم‘‘ شائع ہوچکی تھی مگر اس وقت پاس موجود نہ تھی کہ آپ کو دے دیتا اور نہ ہونے کی وجہ سے اس کا تذکرہ بھی آپ سے کرنا مناسب نہ سمجھا اور آپ نے اس وقت کہا تھا کہ ہمارا نظموں کا مجموعہ ’’منبر ومحراب‘‘ کے نام سے شائع ہونے والا ہے اور اس سے پہلے ہم نے سرخی لگارکھی تھی۔ جیسا کہ آپ نے غبار حرم کے آخر میں ٹائٹل پر دیکھا ہوگا۔ منبر ومحراب نظموں کا مجموعہ۔ اورجب وہاں سے گئے تو منار حرم کا بغور از سر نو مطالعہ کیا تو دیکھا کہ یقینا کچھ مصرعے اس کے اس سے مل رہے ہیں تو مجھے بڑا افسوس ہوا اور مولانا باب اللہ سے کہا بھی کہ یہ دیکھیے اور یہ دیکھیے اگر کہیں اسے مولانا انجم صاحب نے دیکھا تو فورا شبہ کرلیں گے کہ ہونہ ہو…نے اس سے نقل کیا ہے جیسا کہ آج اس قول کی تصدیق بھی ہوگئی اور افسوس کرکے کرتا ہی کیا جب کہ غبار حرم بھی شائع ہوچکی تھی۔ لیکن چونکہ آپ کی کتاب پہلے شائع ہوئی تھی اس لیے الفضل للمتقدِّم کے تحت آپ ہماری پکڑ کرسکتے ہیں۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ ہم نے نقل نہیں کیا ہے اور ان بعض الظن اثم کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ ہمارے بارے میں ایسا نہ خیال کریں اور ہمیں نقل ہی کرنا ہوتا تو فقط آپ ہی کی کتاب نہیں تھی جب کہ ہم کو اور آپ کو ایک ہی جگہ رہنا ہے اور ساتھ میں ہی چوبیس گھنٹہ اٹھنا بیٹھنا ہے۔
اوریہ کتاب غبار حرم تو ہم نے آپ ہی جیسے لوگوں سے خراج تحسین وپذیرائی وصول کرنے کے لیے شائع کی تھی نہ کہ الٹے تحقیر وتذلیل کی آماجگاہ بننے کے لیے۔اور دوسرے یہ کہ غبار حرم کی اکثر نعتیں آپ ہی کی تصحیح کردہ ہیں اور جو مصرع آپ سے مل رہا تھا اس پر آپ نے ایک لمبی خط کھینچ دی تھی، اس کا پتہ تو اب ملا ہے ورنہ مجھے کیا پتہ آخر یہ لکیر غلط کی کھینچی ہوئی ہے جب ا س کو ہم نے تحقیقی نظر سے دیکھا تو بظاہر ان مصرعوں میں کوئی خامی نہ تھی اس لیے ہم نے ان مصرعوں کو بھی رکھ دیا ۔اگر آپ ذرا سا ہم سے کہہ دیتے یااشارہ کردیتے تو یقینا نہ رکھتا اور اب چونکہ آپ کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے اس لیے اب جو غیر مطبوعہ نعتیں ہیں اور کسی مصرع سے کوئی مصرع مل رہا ہے تو اس کو الفضل للمتقدم کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے مجموعہ میں شامل نہ کروں گا۔
مثال کے طور پر ہم نے ایک قطعہ کہا تھا؎
جب دیار حرم یاد آنے لگا
شوق دیدار بطحا ستانے لگا
ہوک اٹھنے لگی دل میں …ؔ کے
جب مدینے کو کوئی بھی جانے لگا
ا س زمین میں چونکہ آپ کی نعت ہے اور ذرا سا لفظوں کے تغیر وتبدل سے ہمارا قطعہ ہے لیکن ابھی شائع نہیں ہوا ہے لیکن آپ کی اس نعت کو دیکھتے ہی ہم نے اس کو قلمزد کردیا …اور آپ کی اسی نعت کا ایک مصرعہ ہماری نعت میں بعینہ مل رہا تھا…
جب وہ شمع ہدایت ہوئی ضوفشاں
آسمان و زمیں جگمگانے لگے
…اور پہلا مصرعہ آپ سے بعینہ مل رہا تھا لہذا ہم نے اس کو بدل کر …
جب طلوع آفتاب رسالت ہوا
آسمان و زمیں جگمگانے لگے
…کر دیا اور اگر ہم کو آپ ہی کی کتاب سے نقل کرنا تھا تو اس میں اور کہیں زیادہ بہتر آپ کی کتاب میں موجود ہیں لیکن ایسا نہیں کیا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نقل کیا ہی نہیں ہے اور منبر ومحراب کے نام سے اگر آپ نظموں کا مجموعہ شائع کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے کوئی اور نام نظموں کے مجموعہ کا تجویز کردیں۔ اور ہم تو آپ کی ہر بات دل وجان سے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ او رآپ کو یاد ہوگا کہ:
میں وحدت کا پرچم اڑانے چلا ہوں
اسی زمین میں ہم نے کہی تھی جس کا مطلع تھا؎
زمانے کو میں آزمانے چلا ہوں
میں اپنا مقدر بنانے چلا ہوں
لیکن مرور ایام کے ساتھ آدمی ہی نہیں بڑھتا بلکہ ذہن بھی ترقی پر ہوتا ہے پھر ہم نے سوچا کہ یہ نعت ہے اور نعت کا مطلع اس طرح نہیں ہوتا ہے اس لیے ہم نے خود ہی تبدیل کردیا۔
دوسرے یہ کہ غبار حرم کی تمام تر نعتیں آپ ہی کی فقط تصحیح کردہ نہیں ہیں بلکہ مولانا عبدالحفیظ رحمانی اور مولانا صادق علی قاسمی اور مولانا منور بستوی وغیرہ نے بھی تصحیح کی تھی اس لیے اس میں چار چاند لگ گئے تھے۔ اور جو آپ سوچ رہے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے اس کی حقیقت یہی ہے جو باتیں ہم نے لکھ دی ہیں اور اس زمین میں ہم نے او رنعتیں کہی ہیں نیز قافیہ کے رد وبدل سے نعتیں کہی ہیں ان سب کو عنقریب آپ کو دکھاؤں گا ۔جب بغل میں رہ کر آپ خفا ہوجائیں گے اور میں ہی آپ سے بغاوت کروں گا تو کیسے کام چلے گا یہ سب حرکتیں نادانستہ ہوگئی ہیں لہذا میں دامن عفو میں جگہ چاہوں گا اور اب آپ کے علاوہ کسی اور کو اپنا کلام نہیں دکھاؤں گا اور ہوسکتا ہے کہ کسی مصرع پر میری نظر نہ پڑے اور آپ کے مصرع سے مل جائے تو فورا نشاندہی کردیجیے گا۔ اور دوسرے مجموعہ ’’گنبد خضریٰ‘‘ پر آپ ہی کو پیش لفظ لکھنا ہے۔
ہماری طبیعت تو خراب ہی تھی اور جب سے یہ سنا ہے تو طبیعت کی خرابی میں اور اضافہ ہوگیا۔ دماغ بہت الجھن میں ہے طبیعت ٹھیک ہونے پر آپ سے میں تفصیلی ملاقات کروں گا لیکن فوری طور پر اس کا کچھ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں اجمالی طور پر۔ امید کہ ان چند کلمات کا جواب گستاخی معاف فرماتے ہی آج بالاختصار دینے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے اور قوی امید ہے کہ آپ کی جانب سے معاف فرمائیں گے۔
والسلام
محتاج دعا،ذرۂ بے مقدار

۲۸/۴/۸۱ء
اس سانحے کے بعد والد صاحب نے چراغ حرم کا نام بدل کر شمع حرم رکھ دیا۔ اللہ تعالی نے شمع حرم (چراغ حرم) اور منار حرم کو اتنی مقبولیت دی کہ ان کے اب تک چار چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مگر سارق موصوف کا کہیں نام ونشان نہیں۔
اسی طرح میں ایک اورنوجوان ادیب کوجانتا ہوں جن کے بڑے عالمانہ مضامین اکثر وبیشتر اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔حالانکہ بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ ان مضامین میں سے کسی ایک پیراگراف کی بے عیب ریڈنگ تک وہ نہیں کرسکتے۔شاعری بھی کرتے ہیں لیکن یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کی غزلوں میں وارد کئی الفاظ کا تلفظ وہ بتا نہیں سکتے۔ان کا ایک شعر تو ایک دن کسی بڑے شاعر سے ٹکراگیا۔یقین جانیے جہاز کی سائیکل سے تو ٹکر ہونے سے رہی،یہ سائیکل ہی اڑ کر جہاز سے ٹکرائی ہوگی۔
در اصل بہت سارے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا نام بھی کہیں کسی کتاب میں آجائے۔ ان کا ذکر بھی کسی تحریر میں آجائے یا وہ بھی کسی طرح صاحب کتاب بن جائیں۔ مصنف، مولف اور ادیب بن جائیں۔ لیکن انھیں لکھنا پڑھتا آتا نہیں۔ سو وہ سرقہ کرکے نام کمانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ مصنف، مولف اور ادیب بننے کے لیے صلاحیت درکارہوتی ہے۔اس کے لیے علم وفن میں دسترس اور مہارت درکارہوتی ہے۔اس کے لیے قلم کی دولت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے تحریری مشق وممارست درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے مطالعے کی وسعت درکار ہوتی ہے۔اس کے لیے اصول تحقیق کی معرفت درکار ہوتی ہے۔اس کے لیے مکتب ادب میں بوریہ نشینی کرنی پڑتی ہے۔کسی ادیب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے علم سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی کتاب سے پورا پورا مضمون نقل کردینے کے بعد کتاب کا حوالہ نہ دینایا اخیر میں صرف کتاب کا نام ذکر کردینا تحقیق کے اصولوں کے منافی بات ہے۔غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکت ہے۔ شرعا ناجائز اور حرام اور قابل مواخذہ عمل ہے۔

آپ کے تبصرے

3000