میرا ماننا ہے کہ مدارس اور جامعات کو اگر ہر حال میں کامیاب بنانا ہے، انھیں کسی آزمائش میں بحران سے بچانا ہے تو مدارس و جامعات کے سارے عناصر کو ایک جسم، ایک جان بن جانا ہوگا۔ ان سب کو ایک گھر ایک خاندان کی شکل اختیار کرکے ادارہ کو چلانا ہوگا۔ ڈونرز، محسنین، ٹرسٹیز، انتظامیہ، اساتذہ، سرپرست، والدین، طلبہ و طالبات اور غیر تدریسی عملہ جامعات اور مدارس کے ایسے عناصر ہیں جن کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں مومنین کے لیے ’’کمثل الجسد‘‘ (ایک جسم کی مانند ہیں) کی جو مثال دی ہے وہی مثال مدارس پر بھی لاگو ہونی چاہیے۔ مدرسہ کا ہر متعلق مدرسہ کے جسم کا ایک حصہ مان لیا جائے۔ جسم کا کوئی عضو بے کار ہے اور نہ ہی اس کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو جسم سے جدا کیا جاسکتا ہے الا یہ کہ وہ عضو اتنا بیمار اور خراب ہوجائے اور اس کی وجہ سے بدن کے دوسرے اعضاء متأثر ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے تو ایسی صورت میں ایسے بیمار عضو کو جسم سے جدا کرنے ہی میں بہتری ہے۔
جب مدارس و جامعات کی اسٹریٹجی، سسٹم، نظام اور طریقہ کار اس طرح بن جائے تو ادارہ کا کوئی مسئلہ یا مشکل سب کا مسئلہ اور سب کی مشکل بن جائے گی۔ چنانچہ اس کو حل کرنے کے لیے بھی سب کے سب ذمہ دار ہوں گے۔ سب سر جوڑ کر، مل کر آپسی مشورہ سے درپیش مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کی تدبیر کریں گے۔
اس تجویز پر عمل درآمد کے لیے دو عناصر ’’ڈونرز اور انتظامیہ‘‘ذمہ دار ہوں گے۔ انھی حضرات کو گھر کے سربراہ جیسا رول ادا کرنا ہوگا۔ انھیں سب سے پہلے ادارہ کے سارے معاملات اور مسائل کو ٹرانسپیرنٹ بنانا ہوگا۔ کوئی چیز ڈھکی چھپی نہ ہو ۔ پھر یہ حضرات بالترتیب تدریسی اسٹاف پھر غیر تدریسی اسٹاف پھر والدین پھر طلبہ وغیرہ کو بھی آن بورڈ لے لیں، ادارہ کا بجٹ بنائیں اور سب کے سامنے رکھیں۔ آمدنی ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اس کے تمام سورسز کو بھی سب کے سامنے لے آئیں۔ بجٹ کی فراہمی کے لیے سب مل کر مشورہ دیں اور اس کی فراہمی کے لیے مؤثر خاکہ بنائیں۔ وقت ضرورت اس کی تکمیل کے لیے بھی سب کو مل کر محنت کرنی پڑے تو وہ بھی کر گزریں۔ اگر کوئی ایمرجنسی صورت حال پیش آجائے جیسا کہ اب ’’کورونا وائرس‘‘ کی وجہ سے لاک ڈاؤن كا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں ادارہ چلانے کی مشکلات اور اس کے مسائل دن کے اجالے کی طرح سب کے سامنے موجود ہیں۔ انتظامیہ کے رول اور ان کی مجبوریوں کا بھی سب کو علم ہے۔ اس مشکل اور بحران سے باہر نکلنے کی ذمہ داری کسی پر کچھ زیادہ اور کسی پر کچھ کم لیکن سب پر عائد ہوتی ہے۔ بجٹ کی فراہمی کے لیے سب مل کر اگر محنت کریں اور جب تک مسئلہ حل نہ ہو تب تک مثلا اگر بیس افراد کا اسٹاف ہے، تو موجود بجٹ کو بیس حصوں میں تقسیم کرکے آپس میں تقسیم کرلیں۔ اس میں بھی اگر کسی اسٹاف کے گھر زیادہ افراد ہوں اور کسی کے ہاں کم تو جس کے ہاں کم افراد ہوں وہ اپنے حصے کی روٹی کا کچھ حصہ اپنے اس بھائی کو دے دے جس کے گھر افراد زیادہ ہوں۔ إن شاءالله اس پریکٹس سے ہر آزمائش اور ہر مشکل کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی فریق کو مورد الزام ٹہرانے کا کوئی جواز بھی باقی نہیں رہ جائے گا۔ اور اندرون خانہ ہی ہر مسئلہ کا حل نکل آئے گا اور اس عمل سے إن شاءالله نہ صرف خیر وبرکت نازل ہوگی بلکہ تمام اعضا میں آپسی پیار ومحبت میں بے حد اضافہ ہوجائے گا اور ایسے ادارہ پر دنیا رشک کرنے پر مجبور ہوگی۔ والله ولى التوفيق !
مدارس کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک تجویز(دوسری قسط)
مرحوم مولانا عبدالوہاب خلیجی نے ایک کل ہند اہل حدیث directory بنائ تھئ ۔۔شاید ان کا مقصد ان مدارس کو ایک لڑی میں پرونا ہوگا،۔۔دراصل ہمارے ہیاں سماجی مسئلہ پر کچھ پختہ کام نہیں ہوتا ۔مرکزیت نہیں ہے ۔اب جبکہ کرانا نے سب کو رلایا ہے تب بھی آنکھ نہیں کھل رہی ہے ۔ہنگامی میٹنگ کی ضرورت ہے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ۔