مدارس کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک تجویز(دوسری قسط)

شیرخان جمیل احمد عمری معاملات

مدارس کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک تجویز(پہلی قسط)
تعليمى اداروں کو چار کیٹگریز میں تقسیم کردیں: (۱)بڑے (۲)درمیانی (۳)چھوٹے (۴) بہت چھوٹے ادارے۔
بڑے اداروں کے اِنکم سورسز عموما بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ایسے اداروں کی اوقاف بھی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں، ان کے لیے اس مسئلہ پر قابو پانا زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا ہے۔
مسئلہ بقیہ کیٹگریز کا ہے۔ یہ تجویز بھی عموما انھی اداروں کے لیے ہے۔
آپ جانتے ہیں زیادہ تر مدارس عوامی چندہ پر چلتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان مدارس کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ اساتذہ کی چھٹنی ہورہی ہے، کئی معزز اور عمر رسیدہ اساتذہ سڑک پر آگئے ہیں۔ اور کئی مدارس کے بند ہونے کی بھی افسوس ناک خبر مل رہی ہے۔ اس صورت حال سے ہزاروں بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے؟اور آخر اس کا حل کیا ہے؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنا مایوسی کی علامت ہے اور مردہ دلی بھی۔ یاد رکھیے حرکت میں برکت ہے۔ لہذا اس مسئلہ کا آسان اور عملی حل یہی ہے کہ مدرسہ اور اس کے جملہ متعلقین کو ایک خاندان میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ اور سب مل کر اس بحران کا مقابلہ کریں اور اس پر قابو پائیں۔ یقین مانیے سب مل کر، یک جٹ ہوکر اگر محنت کریں گے تو کامیابی ضرور ان کے قدم چومے گی إن شاءالله۔
مدارس کے ذمہ داروں کو یکطرفہ مورد الزام ٹھہرانا بھی غلط ہے اور دھڑا دھڑ بے دردی سے اساتذہ کو مدارس سے نکالنا بھی غلط ہے۔
اب مسئلہ ہے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری کس پر آتی ہے۔ کون اقدام کرے؟ بلاشبہ اس کی اولین ذمہ داری مدارس کی لیڈرشپ پر ہی آتی ہے۔ انھیں چاہیے کہ سبھوں کو اپنے سینہ سے لگالیں۔ سبھوں کو آن بورڈ لے لیں۔ ان کے سامنے مسائل رکھیں اور اس پر قابو پانے کے لیے مشورے حاصل کریں۔ اچھی مناسب اور عملی تجاویز اور مشوروں کو قبول کرکے ان کی روشنی میں ایکشن پلان بنائیں۔ اور اللہ کا نام لے کر میدان میں اتر جائیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جب ذمہ دار ایمانداری کے ساتھ سبھوں کو اعتماد میں لے کر یک جٹ ہوکر محنت کریں گے تو ضرور کامیابی کی راہیں کھلیں گی۔ ایسے متحد اداروں کو ضرور اللہ کی تائید حاصل ہوگی اور وہاں وہاں سے مدد ملے گی جہاں سے کوئی گمان بھی نہ ہوگا۔ اور عوام کا بھر پور اعتماد بھی حاصل ہوجائے گا۔ شکوے شکایتیں زیادہ تر ناکام لوگ ہی کرتے ہیں۔ جواں مردی یہی ہے کہ اس مشکل پر ہر حال میں قابو پانے کا عزم کیا جائے۔ آخر ہم کب تک ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے؟
آخر میں اداروں کے دیگر متعلقین سے میری گذارش ہے کہ:
٭ ہر فارغ التحصیل اپنے ادارہ کی ضرور خبر گیری کرے۔ حسب استطاعت اپنی مادر علمی کا کچھ نہ کچھ ضرور تعاون کرے۔ مالی تعاون چاہے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو اس کو وہ حقیر نہ سمجھیں، ’’قطرہ قطرہ دریا شود‘‘ کے مصداق آپ کا معمولی قسم کا تعاون بھی بجٹ کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
٭ طلبہ و طالبات کے والدین اور سرپرستوں سے بھی میری مؤدبانہ گذارش ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے تعلیمی اداروں کے مالی تعاون کے لیے آگے بڑھیں۔ یہ ادارے آپ کے بھی ہیں کیونکہ وہ آپ کے بچوں کے مستقبل کے ضامن ہیں۔ آپ خود بھی دست تعاون بڑھائیں، اگر کسی وجہ سے آپ مشکل میں ہیں تب بھی خاموش نہ بیٹھیں بلکہ دوچار آٹھ دس والدین کا گروپ بناکر محسنین سے اور جہاں جہاں سے بھی تعاون ملنے کا امکان ہو وہاں پہنچ کر تعاون حاصل کریں، اپنے بچوں کے اداروں کو گرنے اور بکھرنے سے بچانے کے لیے ضرور کچھ وقت نکالیں۔ یاد رکھیے اس مشکل گھڑی میں ذمہ داری کسی حد تک آپ کے کندھوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
٭ اسی طرح سے مدرسہ کے محلہ اور گاؤں کی جنرل پبلک اور عوام بھی تماشائی بن کر نہ بیٹھے۔ دینی ادارے اسلام کے قلعے ہیں۔ ان کے گرجانے سے آپ بھی اور آپ کی نسلیں بھی متأثر ہوں گی۔ لہذا ان کی حفاظت کی ذمہ داری آپ پر بھی آتی ہے۔
٭ آخر میں مال داروں، تجار اور صاحب استطاعت طبقہ سے میری گذارش ہے کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کو ’’الید العلیا‘‘ یعنی دینے والے ہاتھ کے گروپ میں شامل کیا ہے۔ جو خیر ہے۔ اس عظیم نعمت کے چھن جانے سے قبل آپ اس کو استعمال کیجیے اور شرف پائیے اور اللہ کا شکر بھی ادا کیجیے تاکہ یہ نعمت نہ صرف باقی رہے بلکہ اس میں برکت بھی آئے۔ ’’لئن شكرتم لازيدنكم‘‘۔ اسی طرح سے اللہ کے پیارے نبی صلی الله تعالى عليہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں ہمیں یہ اشورنس دلایا ہے کہ ’’ما نقص مال من صدقة‘‘ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا مال کبھی کم نہیں ہوتا ہے۔ یاد رکھیں، دینی اداروں پر خرچ کیا جانے والا مال صرف صدقہ نہیں ہے بلکہ صدقہ جاریہ بھی ہے۔ دنیا کی کامیابی حقیقی کامیابی نہیں ہے بلکہ حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ اس لیے اپنے مال کواس راہ میں خرچ کرکے اسے صدقہ جاریہ میں تبدیل کرلیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ دنیا میں آخرت کے لیے جینے کی توفیق دے۔آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد ارشد

جیسا پروڈکٹ ویسا تعاون (چندہ)، اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے، ادارے جتنے قدیم ہوتے ہیں ان کے چندوں کی کڑی اتنی ہی مضبوط اور ثمرآور ہوتی ہے، اس کے بعد معیار چاہے جتنا گرے اس سے کسی کو کوئ فرق نہیں پڑتا۔ مستقل ایوالویشن کی کوئ ترتیب ہونی چاہئے، جس سے ذمہ داروں کو ہمیشہ الرٹ رہنا پڑے۔