شیخ محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ(۱۹۶۵-۲۰۲۰)

عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی تاریخ و سیرت

جماعت کے بے باک ترجمان،معروف عالم دین ہمارے فاضل شیخ محمد مقیم فیضی اب ہمارے درمیان نہ رہے۔فیضی رحمہ اللہ سے ہمارا یارانہ اس وقت ہوا جب میں ۲۰۰۱ءمیں جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی میں تدریس سے وابستہ ہوا۔ آپ بھی اسی ادارے کے سینیر مدرس تھے، لیکن مجھ سے کچھ سالوں پہلے ہی جامعہ سےسبکدوش ہوچکے تھے۔پورےعلاقے اور شہر میں آپ کا بڑا غلغلہ تھا، دعوت کے میدان میں بمبئی شہر کی سطح پرہرسو چھائے ہوئے تھے۔میری طبیعت اورعمل دونوں دعوت وتبلیغ میں دلچسپی کا باعث تھے، میں نے بھی آپ کا ساتھ پکڑلیا۔ اس وقت صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اپنے داخلی اختلافات اورعہدے ومنصب کی رسہ کشی کے بیچ ہچکولے کھارہی تھی، بس مرکزالاحیاء کے بینر تلے منہج وجماعت کاکام شیخ مقیم کی نگرانی میں رواں دواں تھا۔میں نے بھی کئی مساجد میں تقریریں کیں، ماحول بنا، شیخ عبدالسلام سلفی اوردیگر علماء کے ساتھ یہ قافلہ چلتارہا۔ جماعتی اختلافات اورسردمہری سے کوئی خوش نہیں تھا، دونوں دھڑوں کو ختم کرکے ایک متحدہ پلیٹ فارم بنانے کی سوچ بننے لگی،جماعت کے اساطین واعیان سے سلسلہ جنبانی شروع ہوئی، شیخ مقیم فیضی اس کام میں سب سے آگے تھے، اورمنہجی غیرت بیدارکرنے، افرادکوجوڑنے اورذہن سازی کرنے میں ماہرتھے، جلدہی اپنی اسی تنظیمی صلاحیت ومنہجی غیرت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اترگئے اورپھر سب کو سرجوڑکر بیٹھنے اورایک نئے اورمنظم انتخاب کے لیے مجبورہوناپڑا۔ بالآخر دو تین ماہ کی مسلسل محنتوں، دوروں اورتنظیمی افرادکے ساتھ ملاقاتوں اورمشوروں کے بعد ایک منظم انتخاب کے ذریعہ نئے عہدیداران بنائے گئے، جس میں مولانا عبدالسلام سلفی امیر اورمولانا سعید بستوی ناظم اوردیگر عہدیداران کے ساتھ مولانا محمد مقیم فیضی کو نائب ناظم بنایا گیا۔جمعیت میں جان آگئی اورسلفی کارواں چل پڑا۔ در اصل ان سب تبدیلیوں اور پیش رفت نیزترقیوں کے پیچھے اصل میں شیخ محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ ہی تھے۔ذیل میں آپ کے سوانح اورخدمات کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے ۔امید کہ قارئین اورشیخ رحمہ اللہ کے تلامذہ اورمحبین کے لیے نفع بخش ہوگا۔
نام ونسب:
مولانا محمد مقیم فیضی بن حامد علی بن شمشیر علی
پیدائش:
آپ کا آبائی وطن موضع بہرہ پور، ضلع پرتاپ گڈھ یوپی ہےاور پیدائش۱۹۶۵ ء میں کلکتہ شہرمیں ہوئی کہ آپ کے والد یہیں پر ایک کمپنی میں ملازم تھے۔
مراحل تعلیم:
۱۔ابتدائی تعلیم کلکتہ کے معروف علاقے خضر پور میں ہوئی۔
۲۔عربی تعلیم
مدرسہ قرآنیہ تنویرالعلوم داراپور،پرتاپ گڈھ:گلستاں بوستاں وغیرہ(اس وقت شیخ مقصود الحسن فیضی مدرس تھے)
جامعہ ریاض العلوم دہلی:عربی تیسری سے پانچویں تک( یہاں بھی شیخ مقصود الحسن مدرس تھے اورانھی کے واسطے سے یہاں داخلہ ملا تھا۔اس وقت عبدالمنان برادرخورد مولانا عبدالرشید ازہری ناظم تھے)
اس کے بعد جامعہ سلفیہ اورجامعہ فیض عام وغیرہ داخلے کے لیے گئے مگر تاخیر ہوچکی تھی اس لیے بنارس کے ایک مدرسہ چراغ العلوم میں داخل ہوگئے اور ایک سال رہ کرعالمیت مکمل کی۔
۱۹۸۳ءمیں جامعہ فیض عام مئو میں داخل ہوئے اور یہاں دوسال رہ کرفضیلت کی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۸۵ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
دو تین سال تدریس کےبعد۱۹۸۹ءمیں جامعۃ الملک سعود ریاض سعودی عرب میں داخلہ مل گیا، یہاں تین سال رہ کر تدریب المعلمین وغیرہ کا کورس مکمل کیا۔اور۱۹۹۱ ء میں فارغ ہو کر موسسۃ الحرمین کی کفالت میں جامعہ رحمانیہ بمبئی سے منسلک ہوگئے ۔
مشاہیر اساتذہ:
آپ کے مشاہیر اساتذہ میں آپ کے ہم وطن شیخ مقصود الحسن فیضی (الغاط سعودیہ)، شیخ الحدیث مولانا امان اللہ سلفیؒ( بہار)،مولانا محمد یونس سلفی( بلرامپور)، مولانا محمود الحسن فیضیؒ( دہلی )،مولانا محفوظ الرحمن فیضی( مئو)، مولانا عبدالحمید فیضی( مئو)، قاری نثاراحمد فیضیؒ( مئو)، مفتی حبیب الرحمنؒ (مئو) اور شیخ عبداللہ ظافر قحطانی اوردکتورراشد ریاض سعودی قابل ذکر ہیں ۔
آپ کے جونیر اورہم وطن ساتھیوں میں مولانا ناصر ربانی ممبئی جو کافی عرصہ تک داراپوراورریاض العلوم میں آپ کے ساتھ پڑھ چکے ہیں اورہم سبق ساتھیوں میں مولانا امان اللہ سلفی کے صاحبزادہ پروفیسرولی اختر ندوی تھے جو اسی کورونا کے فترہ میں چند ماہ قبل دہلی میں اللہ کوپیارے ہوگئے۔
تدریسی ودعوتی خدمات:
(۱)فراغت کے بعددوسال تک جامعہ دارالحدیث رحمانیہ سیڑم، گلبرگہ میں مدرس رہےاور کچھ مہینوں تک اپنے وطن کے قریب مدرسہ ابوبکر صدیق دیلھوپور،پرتاپ گڈھ میں بھی تدریس سے منسلک رہے، اسی اثنا میں ریاض داخلہ ہوگیااورپڑھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔یہ فترہ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۹ ء تک ہے۔
(۲)ریاض سعودی سے تین سال (۱۹۸۹ء تا۱۹۹۱ء)تعلیم مکمل کرنے کے بعد۱۹۹۱ء میں ممبئی کے مشہور ادارہ جامعہ رحمانیہ کاندیولی سے منسلک ہوگئے اور کم وبیش چھ سالوں تک وابستہ رہے۔صحیح بخاری، حدیث اوردیگر فنون کی اعلی کتابیں آپ کے زیرتدریس رہیں ۔شیخ کا زمانہ یہاں مجھ سے چار سال پہلے ۱۹۹۶ ءتک کا تھا ۔۱۹۹۶ ء میں رحمانیہ سے سبکدوش ہوکر الاحیاء اوردعوت وغیرہ کے کام سے منسلک ہوگئے ۔جامعہ رحمانیہ میں تلامذہ کی ایک بڑی تعداد آپ سے فیض یابی کا شرف پاچکی ہے۔فللہ الحمد
(۳)آ پ فطری طور پر داعیانہ اوصاف وجذبے کے مالک تھے، ہمیشہ منہج ومسلک کی ترجمانی اور جماعت وجمعیت کے مشن کو آگےبڑھانے کا جذبہ تھا، جہاں بھی رہے دعوت سے وابستہ رہے۔ممبئی میں اسی نیک جذبے سے مرکز الاحیاء میں چار پانچ سال اور اس کے بعد صوبائی جمعیت ممبئی سے وابستگی ہوئی ۔اور پھر رفتہ رفتہ اسی راہ کے مسافر بن گئے۔
۲۰۰۲ءمیں صوبائی جمعیت کا انتخاب ہوا اوراپنے رفیق دعوت شیخ عبدالسلام سلفی کے ساتھ نائب ناظم منتخب ہوئے ۔قسمت نے یاوری کی اوراپنی ہمہ جہت منہجی ودعوتی خدمات اورجماعتی لگاؤ کی وجہ سے۲۰۰۳ ء ہی میں مرکزی جمعیت دہلی سے وابستہ ہوگئے اور دیکھتے دیکھتے اس کے نائب ناظم، خاص طورپر شعبہ دعوت وتبلیغ کے ناظم مقرر ہوئے اور پھر پورے ہندوستان میں جماعت اورمنہج کی ترجمانی، بڑی بڑی کانفرنسوں بالخصوص پاکوڑ کانفرنس منعقدہ ۲۰۰۴ءوغیرہ کے اسٹیج سے سب کے دلوں میں چھاگئے، آپ ہی اس عظیم الشان آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے کنوینر تھے۔منہجی غیرت ،سلفی دعوت کےگھرگھرپہنچا نےاوراس کے عالمی فروغ کاجذبہ پیہم اتنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا کہ عمر عزیز کی بقیہ بہاریں سب اسی راہ کے لیے وقف کردیں۔کچھ سالوں بعددہلی سے ممبئی واپس لوٹ آئےاور اس کارواں کے سالار شیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ کی رفاقت میں ایک منظم تبلیغ نیزہمہ جہت خدمات کے لیے صوبائی جمعیت سے جڑگئے اور آخر تک لگے رہے۔ادھرآخری سالوں میں آپ جمعیت کے نائب امیربھی تھے۔ اورمولانا سعیداحمد بستوی کی علالت اوروطن میں اقامت کی وجہ سے عموما ناظم کے سارے کام آپ ہی ا نجام دیتے تھے۔ اورپوری فعالیت، نشاط اوردلجمعی سے آفس کے دیگردعوتی وتنظیمی امور کی نگرانی بھی فرمایاکرتے تھے۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۹ ء کے اخیرمیں جب سے آپریشن ہوا، طبیعت بگڑتی چلی گئی اوراپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے سے بالکل معذور ہوگئے۔
(۴)کچھ دنوں تک مرکز الاحیاء کے زیر اہتمام شائع ہونے والے مجلہ السنہ کے مدیر اعلی رہےاوربرسوں سے صوبائی جمعیت کے ماہانہ میگزین الجماعۃ کے مرتب اور نگران اعلی رہے۔مرکز کے دوران عمل جریدہ ترجمان کے بھی مدیررہے۔
(۵)دہلی سے واپسی کے بعد کچھ دنوں تک اقرأ اسکول مجگاؤں ریاض بھائی دانے والے کے ساتھ وابستہ ہوگئے اورشعبہ عربی کے مشرف اوردیگرتعلیمی ذمہ داریوں کو انجام دینے لگے۔
(۶)اپنے آبائی وطن میں ایک ادارہ ’’مدرسہ دارالحکمہ‘‘نامی کچھ سالوں پہلے شروع کیا تھا، جس میں مکتب اورشعبہ نسواں فضیلت تک تعلیم ہوتی ہے۔آپ اس ادارہ کے بانی اورصدر تھے ۔ یہ ادارہ آپ کے بھائی مولانا عبدالمبین کی نگرانی میں جاری ہے۔
(۷)فن مناظرہ اور اہل بدعت سے مقابلہ میں بھی آپ جری، نڈر اورماہرتھے۔دوران تعلیم ریاض العلوم مولانا بلال دیوبندی سے باضابطہ لاٹھی بھی سیکھی تھی، اس میں مہارت کی وجہ سے بھی بڑے بےخوف اورباہمت تھے۔شولا پور، اڑیسہ اورممبئی وغیرہ میں آپ نے مختلف موضوعات پر کئی مناظرے کیے۔اڑیسہ کے مناظرے میں بمبئی سے راقم خاکسار عبدالحکیم مدنی، مولانا عبدالسلام سلفی، مولانا سعید احمد بستوی اورمولانا عبدالحق سلفی رحمہ اللہ وغیرہم بھی شریک تھے۔اورجنوبی ہندوستان سے شیخ انیس الرحمن اعظمی اوردیگر علماء واعیان جماعت نے بھی شرکت کی تھی۔مناظرہ کچھ دیر چلنے کے بعد حالات کی نزاکت کی وجہ سے صلح وصفائی اوروہاں سارے مسالک کے مسلمانوں کے باہمی اتحاد اورمیل جول پر اختتام پذیر ہوا۔
تصنیفی خدمات :
شیخ کے قلم میں اللہ نے غضب کی قوت عطاکی تھی،عمدہ مضامین ،مقالات اور کتابیں ہمیشہ لکھنے نیز عربی کتابوں کی ترجمانی واشاعت کے شوقین رہے۔مندرجہ ذیل کتابیں آپ کے قلم سے منصہ شہود پر آئیں :
پیرزادہ محدثین کی عدالت میں
سلفی دعوت ایک تعارف
قیامت کی نشانیاں
ایمان کی کمزوری
داعش عالم اسلام کے سینے میں گھوپا ہواایک خنجر
عظمت صحابہ کے چند پہلو
رقیہ وراقیوں سے متعلق سوال
رقیہ مروجہ کے منکرات (۱۸۰۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب زیر طباعت ہے)
اس کے علاوہ درجنوں علمی اورمفید مضامین، مقالات اورتقاریروخطبات ہیں جو صوبائی جمعیت کے ماہانہ آرگن’’ الجماعۃ‘‘اورجریدہ ترجمان ودیگرجماعتی رسائل وجرائدمیں شائع ہوچکے ہیں۔
مشاہیر تلامذہ:
ذیل میں جامعہ رحمانیہ ممبئی کےچند مشاہیر تلامذہ کے نام درج ہیں۔
مولانا شاہ عالم رحمانی( کرلا، ممبئی)
مولانا ابوذرعبدالمجید مدنی( ممبئی)
مولانا عبدالسلام قمرالدین رحمانی لچھمی نگر( دہلی)
مولانارضوان اللہ عبدالرحمن چودھری ( ممبرا)
مولاناعتیق الرحمن رحمانی( نوگڈھ)
حافظ نذیر اختر رحمانی (کامن گاؤں ممبئی)
مولانا عبدالرحمن سراجی (منکورا، سدھارتھ نگر)
مولانامشتاق احمد دین محمد(شہرت گڈھ)
مولانا عبداللطیف دین محمد نیپالی
مولاناعبدالحق افتخاراحمدنوری( دربھنگہ)
مولاناعزیزالرحمن شہاب الدین رحمانی( ممبئی)
پسماندگان:
پسماندگان میں ایک بیوہ، تین لڑکے اورپانچ بچیاں ہیں۔ لڑکوں کے نام حسب ذیل ہیں:
مولوی عبدالنافع ریاضی،ممبرا( الاحسان اسکول میں مدرس ہے)
حمید (یہ آئی ٹی کررہا ہے)
عبداللہ(یہ کاروبار کررہاہے)
اللہ سب کو صبر وحوصلہ دے اورشیخ کے مشن پر چلنے کی توفیق دے۔
بیماری اوروفات:
کافی سالوں سے ماوتھ کینسر جیسے مہلک مرض سے دوچارتھے، چنانچہ بیماری اورصحت یابی کے مراحل طے کرتے ہوئے دسمبر۲۰۱۹ میں جب سے پانچویں بار آپریشن ہوا طبیعت بحال نہ ہوسکی۔ باتیں اورملاقاتیں ہوتی رہیں، ادھر لاک ڈاؤن اور کورونا کی مصیبت در مصیبت ۔ایک دن بقرعید سے پہلے اچانک خبر ملی کہ شیخ کی طبیعت بہت نازک چل رہی ہے، میں اور جماعت کے بزرگ شیخ الطاف حسین فیضی کاندیولی سے ممبراملاقات کے لیے فوری روانہ ہوگئے، گھر پر ملاقات ہوئی، ہم سب آپ کی جسمانی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے اورپھر تین چار دنوں کے بعد یہ خبربتاریخ ۲؍ اگست۲۰۲۰مطابق۱۱؍ذی الحجہ۱۴۴۱ھ بروز اتوار رات ۱؍ بجکر۲۰ منٹ پر بجلی بن کر گری کہ شیخ اب اس دنیا میں نہ رہے۔ اوراس طرح جماعت کا یہ مضبوط سپاہی ہم لوگوں سے رخصت ہوچلا،نماز جنازہ مولانا عبدالسلام سلفی نے پڑھائی اورہزاروں سوگواروں کی پرنم آنکھوں کے ساتھ ممبرا ایم ایم ویلی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگھبانی کریں
(۲؍اگست ۲۰۲۰)
مراجع:
ریکارڈ مرکز تاریخ اہل حدیث ،بڑھنی سدھارتھ نگر
استفساراز شیخ فیضی اورذاتی معلومات
افادات مولانا ناصر ربانی گوونڈی،ہم وطن وزمیل شیخ
مجلہ الجماعۃ، ترجمان اورشیخ کی تصنیفات

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
آصف تنویر تیمی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ما شاء اللہ مضمون اہنے مشمولات کے اعتبار سے جامع ہے.تفصیل سے گریز کیا گیا ہے.ویسے شیخ رحمہ اللہ کی خدمات پر کتاب شائع ہونی چاہئے، اور اس سلسلے میں بمبئ کے اخوان واحباب زیادہ اہم رول ادا کرسکتے ہیں اس لئے کہ شیخ کی زندگی کا زیادہ تر حصہ اسی شہر میں گزرا ہے.
مضمون میں شیخ الحدیث امان اللہ سلفی لکھا گیا ہے جو درست نہیں ہے،شیخ امان اللہ جامعہ فیض عام مئو کے فارغین میں سے تھے چنانچہ.”سلفی” کو “فیضی” سے بدل دیا جائے تو بہتر ہوگا.