بے روح دعوت با اثر نہیں ہوتی!

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

دین بےزاری کا مرض روز افزوں ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاج وتدارک کی کوششیں بھی بظاہر بہت زیادہ کی جاتی ہیں۔ہرشخص اپنی بساط بھر سعی کرتا ہے۔لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ ہے۔مثبت تاثیر پر منفی تاثیر کا غلبہ دکھائی دے رہا ہے۔مرض کے مطابق دوا تجویز نہ کی جائے تو افاقہ نہیں اعاقہ ہی کا امکان ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مریض ڈاکٹر کے طرز تعامل سے متاثر ہوتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ ڈاکٹر کے اندر کتنی خوداعتمادی ہے،مرض کی تشخیص کے وقت اس کی خود اعتمادی برقرار رہتی ہے یا تذبذب کا شکار ہوجاتی ہے۔اگراس کے اندر تذبذب کا ذرا سا بھی اثر دکھتاہےتو مریض کی نظر میں اس کی قابلیت مشکوک ہوجاتی ہے۔پھر چاہے وہ لاکھ کوشش کرلے اور مرض کے عین مطابق دوا تجویز کرے ،لیکن مریض کا اس کی تجویز کردہ دوا پراعتماد نہیں ہوتا اور جب اعتماد نہ ہو تو دوا کی تاثیر کا فقدان اور اس کی عدم افادیت کا رجحان غالب ہوجاتا ہے۔
کامیاب ڈاکٹر کا قابل اعتماد ہونا جتنا ضروری ہےاتنا ہی ضروری اس کا جسمانی اور ذہنی اعتبار سے صحیح وسالم ہونا بھی ہے۔معالج اگر خود قابل علاج ہو تولاکھ کوششوں کے باوجود وہ مریض کےنزدیک قابل وثوق اور تشفی بخش نہیں بن سکتا۔داعی اور دعوت کا معاملہ بھی معالج اور علاج جیساہے۔ جس طرح مریض کے لیے معالج کی خوداعتمادی،قابلیت اور سالمیت تسکین قلب کا باعث ہےاسی طرح مدعو کے لیے داعی کا مطلوبہ اوصاف کے ساتھ متصف ہونابھی انشراح صدر کا محرک ہے۔
اۤج کل عام طور پر بہت زیادہ یہ کہا اور سنا جاتا ہے کہ دین بےزاری کا بازار ہر طرف گرم ہے،مدعیانِ اسلام نے دین کے بنیادی احکام وفرائض تک کوبھی متروک و مہجور بنا رکھا ہے،دعوتی فریضے بڑے زور وشور سے انجام دیے جاتے ہیں،لیکن خاطر خواہ فوائد کا حصول نہیں ہوتا ،دعوت کے مطلوبہ نتائج واثرات سماج پر مرتب نہیں ہوتے،تمام تر کوششوں کے باوجود دین سے دوری کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے۔وعظ ونصیحت کی مجلسیں،اصلاحی کانفرنسیں اور جمعے کے خطبے ایک طرح سے لذتِ گوش کا سامان بنتے جارہے ہیں۔اس میں بہت حد تک سچائی بھی ہے، لیکن اس سچائی کے پیچھے کی سچائی کیا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دین بےزاری کا رونا رونے والاخود دین بےزار ہو،نماز کی طرف بلانے والا خود بے نمازی ہو،حلال وحرام کا درس دینے والا خود ازفرق تا بہ قدم حرام خوری میں ملوث ہو،احیاےسنت کی دعوت دینے والے کی شکل وصورت اور طرز بود وباش سے اگر سنت کی دھجیاں اڑ رہی ہوں، تو دعوتی تاثیر کی توقع ظاہر ہے فضول ہی ہوگی۔فساد زدہ سے اصلاح نہیں افساد ہی ممکن ہے۔باتوں میں وزن پیدا کرنے کے لیے خود باوزن ہونا ضروری ہے۔دوسروں کے اخلاق و کردار کی کجی درست کرنے سے پہلے اپنی کج اخلاقی کی تقویم ضروری ہے۔ورنہ صداے منبرومحراب اور مختلف اسٹیجوں سے ’’چیخ وپکار‘‘ سامعین کی سمع خراشی کرکے فضا میں تحلیل ہوتی رہے گی اور نتیجہ صفر!!
سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ بڑا مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب معاہدۂ صلح حدیبیہ لکھوا کر فارغ ہو چکے تو صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اٹھو اور اپنے اپنے جانور قربان کردو، لیکن کسی نے بھی مخصوص سبب کے پیش نظر تعمیلِ ارشاد نہیں کیا،حتی کہ آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا، تو آپ ﷺ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور لوگوں کے اس پیش آمدہ طرز عمل کا ذکر کیا۔ام المومنین نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ ﷺ کو مشورہ دیا کہ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو تشریف لے جائیے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنا جانور ذبح کردیجیے اور اپنے حجام کو بلاکر سر منڈا لیجیے۔ آپ ﷺ نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔جب صحابۂ کرام نے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کردیے اور اس کے بعد باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔اس واقعہ کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مدعو کو کسی عمل کی جانب راغب کرنے کا نبوی طریقہ یہ ہے کہ داعی اس کا عملی نمونہ پیش کرے۔یہ محض ایک مثال ہے ورنہ اس طرح کے متعدد واقعات کتب سیرت وحدیث کے اندر موجود ہیں جن میں نبی ﷺ کا یہ دعوتی طریقہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔دعوت کو بااثر بنانے کے لیے داعی کا باعمل ہونا ضروری ہے۔منبر ومحراب سے پرجوش تقریر تو ہو لیکن خود مقرر کی عملی زندگی اس کے مطابق نہ ہو تو حصول نتائج کی توقع جوے شیر لانے کی مترادف ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم گھر گھر جاکر لوگوں کو نماز پڑھنے کی دعوت دیں،انھیں مسجد کی طرف بلائیں اور وہ مسجد آنے بھی لگیں،لیکن فجر کی امامت کے لیے کوئی موجود نہ ہو تو ایسے میں ہماری دعوتی امیج کا کیا حال بنے گا، لوگ باگ ہماری کھوکھلی اور بےروح دعوت پر لبیک کیسے کہیں گے۔یہ بات صرف نماز کی حد تک محدود نہیں ہے۔اخلاقی،سماجی ، معاشرتی ہر اعتبار سے یہ نقائص ہمارے اندر موجود ہیں۔ اسی وجہ سے بعض دفعہ تو ہماری بےروح دعوت عوام الناس کے تمسخر واستہزا کا نشانہ بھی بن جاتی ہے۔دعوت کو بااثر بنانے کے لیے اس پہلو پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ موجودہ حالات میں اس کی ضرورت شدید ترین بن گئی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس پر سنجیدہ غوروفکر کی توفیق دے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000