فلسطین قضیے کا کوئی حل نہیں، ذمہ دار کون؟

ساجد ولی المدنی سیاسیات

مسئلہ فلسطین: یاسر عرفات اور ملک فہد کا کردار


العربیۃ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا الامیر بندر بن سلطان کا دوسرا انٹرویو
ہم ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے تک پہنچ گئے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ اوسلو معاہدے میں کیا ہوا تھا اور یہ بھی پتہ ہے کہ ابوعمار، اسحاق رابن اور شمعون پیریز نے واشنگٹن آکر معاہدے پر دستخط کردیے اور اس میں وارد ان سارے نکات پر سب نے اتفاق جتایا جن کے متعلق پہلے بات کرنا حرام سمجھا جاتا تھا۔اس وقت اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی مثبت پیش رفت نہیں دکھ رہی تھی، ہم ایک اہم مرحلے کو نہیں بھول سکتے وہ یہ کہ ان ساری کوششوں اور مواقف کے باوجود جن کا میں نے ذکر کیا ابو عمار نے کویت پرحملے کے بعدصدام حسین سے رسم وراہ قائم کی نیز نابلس میں صدام کی فوٹو اٹھاکر نوجوانوں نےڈانس کر خوشی کا اظہار کیا اس کے بعد گرچہ ابوعمار اور اس کے رفقاء کار سے ہم نے اپنے تعلقات وقتی طور پر منقطع کرلیے تھے لیکن فلسطینی قضیے اور اس کی خدمت سے ہم نے اپنے آپ کوبالکل الگ نہیں کیا، نہ ہی وہاں کی عوام سے اپنا رشتہ توڑا۔ کیونکہ ہماری نظر میں یہ قیادت فلسطین نہیں ہے، فلسطین تو فلسطین ہی ہے ہم نہیں، یہ قیادت ہمیشہ اس مسئلے کو نقصان پہنچاتی رہی ہے۔اگر کسی طرح کی کوئی قطع تعلقی بھی کی گئی ہے تب بھی یہی قیادت سبب تھی۔
کویتی جنگ کے فورا بعد ملک فہد نے مجھے حکم دیا کہ میں صدر بش اور وزیر خارجہ بیکرکے ساتھ مل کر اس کوشش میں لگ جاؤں کہ وہ خطے کی سلامتی کے لیے کوئی مثبت کام کریں۔اکتوبر ۱۹۹۱ء میں امیر سعود فیصل، جیم بیکر اور میں نے بیٹھ کر یہ اتفاق کیا کہ مڈریڈ کے اندر مشرق وسطی کی سلامتی پر ایک کانفرنس منعقد کی جائے۔ یہ کانفرس اس لیے بڑی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس کی سرپرستی دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکہ اور سوویت یونین کرر ہیں تھیں، اس میں صدر بش اور صدرمیخائیل گورباتشوف دونوں بنفس نفیس حاضر ہونے والے تھے۔ شامی صدرحافظ الاسد نے اس میں عدم مشارکت کا فیصلہ کیا توملک فہد نے مجھے اس بات کا مکلف کیا کہ میں شام جاکر حافظ الاسد سے ملاقات کروں۔ میں نے ان سے لاذقیہ میں واقع ان کے محل میں ملاقات کی، ایک لمبی گفتگو کے بعدمیں نے ملک فہد کی رائے کے بارے میں انھیں تفصیل سے بتلایا اور ان کے لیے واضح کیا کہ یہ کانفرنس شام کے مفاد ہی میں ہے، خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ نیز اس سے فلسطینی مسئلے کے متعلق عرب کی آواز کو مضبوطی ملے گی اور ان کے اثر ورسوخ میں اضافہ بھی ہوگا۔ چنانچہ محترم صدر آپ پر دو ذمہ داریاں ہیں ایک جولان کی مقبوضہ پہاڑی کی ذمہ داری اور دوسری مقبوضہ فلسطین کی ذمہ داری – جو ان شاء اللہ آزاد ہوں گے- ایسا بہتر نہیں کہ سارے عرب شرکت کریں اور آپ اس کانفرنس میں حاضر نہ ہوں، بالخصوص اس وقت جب دنیا کی دو بڑی طاقتیں اس میں حاضر ہورہی ہوں، یہ بالکل بہتر نہیں۔ آپ نے میری باتیں سن کر تھوڑا سا سوچا، میں اور وہ دونوں ایک ایسی وسیع وعریض بالکنی میں بیٹھے تھےجس کا رخ سمندر کی طرف تھا، وہاں مجھے ایک نوجوان نظر آرہا تھا جس کے پاس کلاشنکوف تھی اور وہ لگاتار حرکت میں تھا۔ حافظ الاسد پر اللہ رحم فرمائے، اس میں کچھ برائیاں تھیں تو کچھ اچھائیاں بھی تھیں، ساتھ ساتھ آپ کے بعض مخصوص مواقف تھے میں ان کی ایک خصوصیت یہاں ذکر کرتا ہوں، وہ یہ کہ انھوں نے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، انھیں کسی بات پر راضی کرنا نہایت مشکل ہوتا تھا لیکن جب کسی بات پر راضی ہوجاتے تو پھر اس سے ہرگز نہیں مکرتے، اس پر اٹل رہتے۔ ایک لمبی کوشش کے بعد انھوں نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا اوروعدہ کیا کہ میں اس کانفرنس میں اپنا ایک وفد ضرور بھیجوں گا۔ جہاں تک لبنانیوں کا مسئلہ ہے تو وہ چاہیں تو شرکت کریں۔ میں نے کہا محترم صدراگر آپ جائیں گے تو وہ بھی ضرور جائیں گے، اس وقت ان کے وزیر خارجہ السید بویض تھے۔ پھر انھوں نے ایک جملہ کہا جسے میں چاہ کر بھی نہیں بھلا پاتا، کہنے لگے : دیکھتے ہو وہاں پر جو نوجوان ہے،میں نے کہا جی دیکھ رہا ہوں، جب ہم اس بات کا اعلان کردیں گے کہ ہم اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جارہے ہیں جہاں پر آمنے سامنے اسرائیلیوں سے بھی مڈ بھیڑ ہوگی، ایسی صورت حال میں مجھے نہیں سمجھ آرہا کہ میں کیا کروں گا، اس کی توہین کرپاوں گا کہ نہیں؟
تب مجھےان کی داخلی کیفیت کا اندازہ ہوا کہ وہ کس بڑی کشمکش سے جوجھ رہے تھے۔ جب میں نے اس بات پر غور کیا تو سمجھ آیا کہ اگر کسی قوم کو آپ خاص طریقے سے تیار کریں، اس کے ذہن ودماغ پر خاص طرز کے افکار کو مسلط کردیں، پھر اچانک کوئی ایسا موقع آجائے جس میں مصلحت وحکمت کا تقاضہ اس فکر کے برخلاف ہو تو پھر اس قوم کو اس مخصوص طرز فکر سے ہٹانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔میں نے ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا محترم صدر جو آپ سمجھ رہے ہیں ویسی بات نہیں ہے،آپ کی پوری قوم آپ کے تابع ہے، آپ پر بھروسہ کرتی ہے، اگر آپ کوئی موقف اختیار کریں گے تو وہ فورا اس پر اکتفا کریں گے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہم اس کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے، شرکت کی، جو ہوا سو ہوا،البتہ مڈریڈ کے اندر ایک چھوٹا ساحادثہ ضرور پیش آیا،فلسطینی وفد میں شرکت کناں ایک کارکن نے فلسطینی رومال اپنے کاندھے پرڈال رکھا تھا، میں اور عبد اللہ میٹنگ ہال میں داخل ہونے کی غرض سے آہی رہے تھے کہ مجھے کچھ شور اور ہنگامہ سا سنائی دیا، ہم نے ٹھہر کر وجہ دریافت کی تو مجھے بتلایا گیا کہ اسرائیلی وفد کا اس فلسطینی نوجوان پر اعتراض ہے، ہم نے پوچھا کیوں؟ بتلایا گیا کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ میٹنگ ہال میں اسی وقت داخل ہوسکتا ہے جب اس رومال کو اپنے کاندھے سے ہٹادے۔ میں نے جب اس باہمی جھگڑے اور گفتگو کو غور سے سنا تو لگا کہ بالکل عام سی بے بنیاد باتیں ہیں،لیکن میرے اندر غیرت پیدا ہوگئی۔عجیب بات ہے، ان کی سرزمین پر قبضہ کیا ہواہےاور اس کے بعد بھی اس لباس کے پہننے پر اعتراض؟ میں نے کہا ذرا ٹھہریں، میری کچھ سننے کی زحمت کریں، اگر یہ فلسطینی نوجوان اپنی پسند کے لباس کے ساتھ داخل نہیں ہوسکتا تومیں اور عبد اللہ بھائی یعنی خلیجی وفد ابھی اس کانفرنس سے واپس ہوجائیں گے، میں نے غور کیا، مسئلہ بڑاحساس تھا، انسان کو ایسے مواقع پر ہمیشہ منطقی اورعقلانی رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اپنی اطاعت کرانا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا حکم صادر نہ کریں جسے بجالانا لوگوں کے بس کی بات نہ ہو۔
میں نے کہا کہ میں خود اس فلسطینی نوجوان کے قومی رومال کو اس کے کاندھے سے اتاردوں گا اگر اسرائیلی وفد بھی اپنے سروں سے یہودی ٹوپیاں اتاردیں۔ جن سے گفتگو وتکرار ہورہی تھی، وہ سب خاموش ہوگئے۔ وہاں اسپینش، امریکی، سپاہی تھے۔ ان میں کچھ اسرائیلی بھی ہوں گے، اسی دوران ہمارے پاس جم بیکر بھی آگئے، حال دریافت کیا، سب لوگوں نے اپنی باتیں رکھیں، ان کی باتیں سن کراس نے کہا کہ مجھے اب سمجھ آیا ہے کہ مشرق وسطی کی لڑائی کس نوعیت کی ہے۔ اگر تم ایک دوسرے کے قومی لباس پر بھی اعتراض کرتے ہو تو تمھارا یہ جھگڑا ہمارے تصور سے بھی بڑا ہے،میں نے جم سے کہا:Jim bakkar, welcome to the middle east.
ہمارا باہم کچھ ہنسی مذاق بھی ہوا۔ اس کے بعد وہ کہنے لگے آپ لوگ غور سے سنیے! صدر میخائیل گورباتشوف اور صدر بش ابھی آتے ہی ہوں گے، آپ لوگ وقت ضائع کیے بغیر اپنی مرضی کی ہیئت میں اپنی جگہ لے لیں اور معاملہ برخاست کریں۔ بعض لوگوں کے گمان میں یہ واقعہ ایک بیکار سا واقعہ ہوگا لیکن درحقیقت اس کے اندر سمجھنے والے کے لیےبڑی گہرائی ہے، اس کے اور اوسلو کے بعد سنہ ۱۹۹۵ ء نے دستک دی۔اب حالت یہ تھی کہ اسرائیلی اور فلسطینی ثالثی کےبغیر خود ہی باہم ملاقاتیں کرنے لگے تھے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے لگے، خفیہ ملاقاتوں کا دور ختم ہوگیا۔ یہ میٹنگیں علی الاعلان طے پانے لگیں۔ اس سال گرچہ کچھ ایسی ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں شامی وفد نے شرکت تو کی البتہ ایک ٹیبل اور ایک کمرے میں نہیں۔شامی وفد کا خود اس بات پر اصرار تھا کہ یہ ملاقات مشترک نہیں ہوگی، فلسطینی اسرائیلیوں کے ساتھ الگ میٹنگ کریں گے اور پھر شامی اسرائیلیوں کے ساتھ الگ بیٹھک کریں گے۔ اس سال سے سنہ ۲۰۰۰ء تک مذاکرات تو چلتے رہے البتہ بلا خاطر خواہ فائدے کے،سنہ ۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد کی وفات ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے شامی وفد ایک محدود وقت کے لیےان مذاکرات میں شرکت کو موقوف کر اپنے نومنتخب صدر بشار الاسد کی سرپرستی میں مستقبل کی حکمت عملیاں طے کرنے اور کاز حکومت کی تنظیم وتنسیق میں لگ جاتے ہیں۔ ان کے یہ نئے صدر ابھی نوجوان نومنتخب شدہ تھے، ان کا شامی قوم میں اپنے والد کا سا اثر ورسوخ بھی نہیں تھا۔
اسی سال کے ماہ دسمبر میں کیمپ ڈیوڈ کے اندر امریکی، فلسطینی اور اسرائیلی وفود کی ایک میٹنگ طے پائی اور صدر کلنٹن نے اپنا خطہ پیش کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب آئندہ ماہ جنوری میں صدر کلنٹن کی جگہ صدر بش لینے والےتھے، یہ خطہ جسے امریکی وفد نے پیش کیا تھا اسے فلسطینی وفد نے مسترد کردیا تھا۔ جب میں نے اس کی تفصیلات دیکھ کر امیر سعود الفیصل اور امیر عبد اللہ کو بتلائیں تو مجھے یہ حکم ہوا کہ ہم بھی اسے مسترد کردیں۔ میں نے امریکن اتھارٹی کو اس بات سے خبردار کردیا کہ ہم کبھی بھی اس معاہدے کو قبول نہیں کرسکتے۔
فلسطین کے اس حساس اور نازک مسئلے میں پیش آمدہ کھلواڑ اور چال بازیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ابوعمار اور ان کا عملہ بار بار یہ بات دہراتے تھے کہ ہمارے سامنےاس معاہدے میں انھوں نے جو تجاویز رکھی ہیں وہ کسی بھی طرح سے ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہوسکتیں،البتہ جو بات وہ چھپاتے رہے وہ یہ تھی کہ جب امریکی وفد نے یہ محسوس کیا کہ اس معاہدے کے اندر کچھ ایسی اصلاحات ہونی چاہئیں جن کی وجہ سے اس پر اتفاق ممکن ہو جائے اور سنہ ۲۰۰۱ کے ماہ جنوری کی ابتدا میں ابو عمار یاسر عرفات اور کلنٹن کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی جس میں کلنٹن نے اپنااصلاح شدہ خطہ پیش کیا۔ میرے خیال میں اس میں مجوزہ بنود سے سارے خطے کی شکل ہی بدل جانی تھی، طرفہ یہ کہ پوری فلسطینی برادری بھی اس کے مشمولات پر متفق تھی۔ لیکن یہاں پر کسی نے ابوعمار کے کان بھر دیے یا پھر اسے اللہ کی طرف سے ہی عدم توفیق کہیے کہ جارج ہاربرٹ واکر بش سے سعودی عرب کے چونکہ اچھے تعلقات تھے، اس لیے جارج ڈبلیو بش سے بھی بڑھیا رسم وراہ رہے گی،پھر کیوں ہم ایک ایسے صدر کے زمانے میں اتفاق کا اعلان کریں جس کا دور حکومت اختتام پذیر ہونے والا ہے۔ہم ایک معاہدہ تیار کرتے ہیں، حالیہ پیش رفت کو مسترد کردیتے ہیں اور جب نئے صدر اپنی ذمہ داری سنبھال لیں تو ہم اس اتفاق کو ان کے سامنے رکھیں۔
میں نے فلسطینی برادرس کو خبردار کیا کہ آپ کا یہ نقطہ نظر غلط ہے،کیونکہ امریکن کرسی صدارت پر بیٹھنے والا شخص خارجہ پالیسیوں میں حالیہ صدر سے کلی طور پر مختلف ہے۔ اگر ہم اس وقت کچھ اپنے مفاد کی باتوں پر امریکن اتھارٹی کو آمادہ کرسکیں تو کرلیں، یہی ہماری بہتری میں ہوگا۔ کہنے لگے کہ کم از کم آپ نومنتخب صدر سے ذرا بات تو کرلیں،میں نے صدر بش سے رابطہ کیا، میں نے فلسطینی برادرس کی ساری باتیں انھیں بتلائیں کہ وہ صدر کلنٹن کے دور حکومت کے آخری ایام میں اتفاق پر سائن نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش یہ ہے کہ اس اتفاق پر سائن آپ کے عہد حکومت میں ہو۔ مجھ سے انھوں نے کہا بندر تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو،دیکھو! میں یہاں تم سے تین باتیں کہتا ہوں۔ ایک بات کا تعلق تو فلسطینیوں سے ہے، آپ اسے ان تک پہنچادیں۔ دوباتیں میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں، آپ چاہیں تو انھیں بتلائیں یا نہیں بتلائیں، آپ کی مرضی۔
پہلی بات یہ کہ امریکہ کے اندر ایک وقت میں ایک ہی صدر ہوتا ہے،میرے ساتھ اس وقت تک اس طرح کے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے جب تک کہ میں صدر کا عہدہ نہ سنبھال لوں۔
دوسری بات یہ کہ کیمپ ڈیوڈ کوئی عام راستے کا چھوٹا موٹا ہوٹل نہیں ہے، میں اس کا سہارا لے کر کچھ راحت کی سانس لینا چاہتا ہوں یا اس کی روشنی میں امریکن اتھارٹی سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، میں کیمپ ڈیوڈ کا کوئی ہوٹل کھولنے نہیں جارہا ہوں جیسا کہ کلنٹن کے زمانے میں ہوتا رہا۔
تیسر ی بات یہ کہ میں فون سے رابطہ بالکل پسند نہیں کرتا، مجھے پتہ چلا ہے کہ صدر کلنٹن یاسر عرفات کے ساتھ فون پر چار چار گھنٹہ گفتگو کیا کرتے تھے، میں اپنی ماں سے آدھا گھنٹہ بھی فون پر بات نہیں کرتا، ان سے میں اتنی لمبی باتیں کیسے کرسکتا ہوں۔ مجھے جو اتفاق بھی امریکن اتھارٹی کا سائن شدہ ملے گا، میں اس کی پابندی کروں گا، اس کے علاوہ میں کچھ اور کہنےکی پوزیشن میں نہیں ہوں۔
میں نے ان باتوں کو فلسطینیوں تک پہنچا یا تو کہنے لگے کہ یہاں ایک اور پریشانی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ میں یہاں آپ کو بتلاؤں، ایسا لگتا ہے کہ یہ خود اس مسئلے کے حل سے قریب ہونا نہیں چاہتے، نہیں چاہتے کہ انھیں کوئی ایسا حل مل جائے جس سے ان کی زندگی کی گاڑی حرکت میں آجائے اور فلسطینی قوم اپنی پریشانیوں سے آزاد ہوجائے۔ کہنے لگے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مستقبل کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول –جسے رسمی طور پر امریکن اتھارٹی وزارت خارجہ میں اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل ایک کرسی عطا کرتی ہے تاکہ وہ آئندہ ایام میں اپنامنصب سنبھالنے کی تیاری کریں –نے اسرائیلی وفد سے ملاقات کی ہے، ایسا کیوں ہوا؟ یہ تو ابھی سے جانب داری دکھارہے ہیں۔ ہم نے ملاقات کے لیے وقت مانگا تو مشغولیت کا بہانہ بناکر ہمیں ٹائم دینے سے انکار کردیا، لاحول ولاقوۃ إلا باللہ۔ میں نے ان سے کہا بھائی میں کولن پاول کو شخصی طو رپر اچھی طرح سے جانتا ہوں، میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ تمھارے متعلق ان کا موقف سلبی نہیں ہوگا،آپ مطمئن رہیں، ابھی وہ وزیر خارجہ بھی نہیں ہیں۔ میری ان باتوں کے باوجود انھوں نے اپنی باتوں پر اصرار کیا، میں نے کولن پاول سے رابطہ کر کہا: بھئی آپ نے جس طرح اسرائیلیوں سے ملاقات کی ہےفلسطینیوں سے بھی کرلیں، اس طرح کی کارکردگی مثبت نہیں لگتی۔ میری باتیں سن کر وہ تھوڑے خاموش ہوئے اور پھر کہنے لگے کہ فلسطینیوں سے کہیں کہ مجھ سے رابطہ کریں، صرف پندرہ منٹ کا وقت میرے پاس ہے۔میں نے کہا صرف دو ہی منٹ نکالیں، لیکن نکال لیں۔
امریکن اتھارٹی نے مجھے اس نئی پیش رفت کے متعلق بتلایا اور یہ بھی بتلایا کہ فلسطینی اس نئی پیش رفت سے خوش ہیں۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ لوگ ہمیں دوبارہ عالمی برادری کے سامنے رسوا کردیں گے، میں نے امیر سعود الفیصل اور امیر عبد اللہ سے اجازت لی اور میرے حق کی آخری چھٹیاں لے کر میں چھٹیوں پر چلا گیا۔ میں کلوراڈو میں تھا کہ ملک عبد اللہ مجھ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ ابوعمار واشنگٹن میں موجود ہیں،میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی چھٹیاں ختم کر امریکہ لوٹیں اور ان کے ساتھ رہیں۔ میں نے کہا اللہ آپ کی عمر دراز کرے، جب وہ اس پیش رفت کے نکات سے خوش ہیں تو میری کوئی ضرورت نہیں۔ میرا اپنا خیال تھا کہ میرے ان کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، آپ نے مجھ سے اصرار کیا تو میں نے حامی بھرلی۔ میں نے حسنی مبارک رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ خطہ مرتب کیا کہ آپ اور آپ کے مصری سفیر ابوعمار کے پاس جائیں اور معاملے کا جائزہ لیں۔ میں اسپین سے امریکہ لوٹا، میں نے اپنے گھر میں ابوعمار اور مصری سفیر سے ملاقات کی، ہم نے معاہدے پر اتفاق کے موضوع سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی، شکر وسپاس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ بتلائیے آپ کے معاملات کیسے چل رہے ہیں، کہنے لگے کہ بالکل مرضی کے موافق چل رہے ہیں، بس کچھ تفصیلات ہیں۔ وائٹ ہاوس میں صبح ہماری ایک میٹنگ ہے، اس کے بعد اس اتفاق کا اعلان کردیا جائے گا۔ بس میری آپ اور مصری سفیر فہمی سے ایک گزارش ہے کہ آپ دونوں میرے لیے اس بات کی گارنٹی دیں کہ امیر عبد اللہ، ملک حسن اور صدر حسنی مبارک ہمارے اعلان اتفاق کے فورا بعد یہ اعلان کریں گے کہ ہم اس اتفاق کی تائید کرتے ہیں تاکہ ہمیں تقویت ملے اور شامی حکومت ہمیں دبانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ سن کر مصری سفیر فہمی نے ان سے کہا کہ جیسے آپ اعلان کریں گے وہ صرف وہیں سے آپ کی تائید نہیں کریں گے بلکہ یہاں حاضر ہوکر آپ کے موقف کو مضبوط کریں گے۔ یہ سن کر انھوں نے اپنی موافقت کا اظہار کیا، وہ صرف مغرب، سعودی عرب اور مصر کی حکومتوں سے اعلان تائید چاہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس بات کی گارنٹی دیتا ہوں کہ سارے خلیجی ممالک بشمول اردن بھی آپ کی تائید کریں گے، اس میں کوئی اشکال ہی نہیں ہے، آپ نے اپنی رضامندی جتلائی اور ہمارے پاس سے چلے گئے۔ میں نے اپنے بھائی مصری سفیر سے ان کی رائے دریافت کی، کہنے لگے کہ مجھے تو شک ہوچلاہے۔ہم نے آپس میں یہ طے کیا کہ میں اپنے طریقے سے اور آپ اپنے طریقے سے امریکن اتھارٹی سے رابطہ بنائے رکھیں، حالات کا جائزہ لیتے رہیں تاکہ اگر کہیں ہماری مداخلت کی ضرورت پڑنے لگے تو فورا بلا وقت گزرے ہوئے ہم مداخلت کرسکیں۔ اگر معاملہ ہمارے بس سے باہر ہوا تو فورا ہم اپنے حکمرانوں کو حالات سے باخبر کرسکیں، کیونکہ اب کوئی اور موقع نہیں ملے گا، جو ہونا ہے کل ہوجائے گا۔ دوسرے دن میرے پاس صبح کے وقت فون آتا ہے کہ ابوعمار فورا مجھ سے اور مصری سفیر سے ہوٹل کے اندر اپنی رہائش پر ملنا چاہتے ہیں، ہم دونوں گئے، سلام کلام کر ان کے پاس بیٹھ گئے، مجھے وہ کچھ بدلے بدلے سے دکھائی دیے۔ میں نے پوچھا برادر ابوعمار خیر خبر بتلائیے، کہنے لگے آپ سب مطمئن رہیں معاملات صحیح راہ پر گامزن ہیں۔ میں نے پوچھا صحیح کہہ رہے ہیں ؟ کہا بالکل۔
ہم نے کہا پھر آپ لوگوں نے اس کا اعلان کیوں نہ کردیا، کہنے لگے بس امن وسلامتی سے متعلق ایک معمولی سا نکتہ ہے، آپ اور میں یہاں بیٹھے ہیں،سی آئی اے کے ذمہ دار اعلی جارج ٹالنٹ یہاں آنے والے ہیں تاکہ اس نکتے میں تھوڑی سی لغوی غلطی کی اصلاح کریں، اسے ختم کر ہم وائٹ ہاوس جائیں گےاور اتفاق کا اعلان کر دیں گے۔ میں نے انھیں بہتری کی امید دلائی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اسی دوران میرے ساتھ کے سعودی افسر کمرہ میں داخل ہوتے ہیں اور مجھے ایک ورقہ تھمادیتے ہیں، میں نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا : ہم چاہتے ہیں کہ بندر جتنی جلدی ہوسکے وائٹ ہاوس سے رابطہ کرے، امریکن قومی سیکورٹی کے مشیرکار ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اسے بند کیا اور ابوعمار کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ محترم صدر تھوڑا سا باہر جاکر میں ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتا ہوں، کہنے لگے یہاں پر ٹیلی فون ہے، آپ یہیں سے بات کرلیں۔ میں نے کہا نہیں میں باہر سے بات کرنا چاہتا ہوں، اصرار کرنے لگے کہ یہاں روم میں ٹیلی فون ہے، یہاں سے بات کرلیں۔ میں نے کہا ابوعمار ایک گھریلو معاملہ ہے جس کے متعلق میں کچھ خاص گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ میں وہاں سے باہر نکل گیا اور امریکن قومی سیکورٹی مشیر سے بات کرنے کی رغبت ظاہر کی، انھوں نے مجھ سے کہا ابوعمار لیٹ ہو گئے ہیں، وقت گزرتا جا رہا ہے، ہمیں لازمی طور پر ان کا جواب چاہیے۔ میں نے کہا ابوعمار کے مطابق آپ سب کا باہم اتفاق ہوچکا ہے، کہنے لگے بالکل غلط بات ہے، میرے خیال میں کلنٹن کمرے میں موجود ہی تھے، انھوں نے ٹیلی فون لے کر مجھ سے کہا : ’’بندر غور سے سنو، میں ایک ایسی تجویز لے کر آیا ہوں مجھ سے پہلے کسی میں یہ طاقت نہیں تھی کہ فلسطینیوں کے حق میں اتنی بہترتجویز پیش کرسکے۔ باراک نے دودن پہلے مجھ سے رابطہ کر کہا کہ میں اس معاہدے کو لے کر نہیں چل سکتا کیونکہ اسرائیل میں اسے پذیرائی حاصل نہیں ہے، یہ سن کر میں نے انھیں یہ جواب دیا تھاکہ آپ کے ساتھ مل کر جس معاہدے تک ہم پہنچے ہیں یہ کبھی تبدیل ہونے والا نہیں ہے اور میں کبھی اس بات کو قبول نہیں کروں گا کہ یہ معاہدہ طے نہ پائے۔ اگر تم نے اس معاہدے کو مسترد کردیا تو میں علی الاعلان کھل کر یہ کہہ دوں گا کہ اسرائیل ہی کی وجہ سے یہ مجوزہ سلامتی معاہدہ ناکام ہوا ہے، جس پر اتفاق ہوچکا تھا۔ میں نے یہ باتیں ابوعمار یاسر عرفات سے کہی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کے ان پیراگرافس کو بدل ڈالیں جنھیں نہ تو ہم تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ہی انھیں تبدیل کریں گے۔ ابھی اس پر اسرائیل بھی متفق ہے، اگر میرے ساتھ یہاں آکر ابوعمار اس پر اتفاق کا اعلان کرتے ہیں تو باراک بھی یہاں آنے پر مجبور ہوں گے اور ہم تینوں یہاں سے ایک اتفاق پر دستخط کرکے نکلیں گے۔ میں نے کہا محترم صدر ابوعمار کاکہنا ہے کہ وہ تو اس معاہدے پر متفق ہیں، کہنے لگے جھوٹے ہیں، پھر کہا میں جارہا ہوں اور آدھا گھنٹہ کے بعد تمھارے پاس آتا ہوں، ہم دو گھنٹے سے اس کا انتظار کررہے ہیں۔
یہ سن کر میرا دل کیا کہ پھوٹ پھوٹ کر خوب رولوں۔ دل شکستہ ہوکر یہی سوچتا رہا کہ دوبارہ یہ موقع بھی ہاتھ سے کیسے نکل گیا جو کہ آخری مرتبہ بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے جب غور کیا تولگا کہ میں کوئی ایسی ویڈیو کلپ دیکھ رہا ہوں جس میں ایک موقع آتا ہے اور ضائع ہوجاتا ہے۔ پھر جب یہ موقع ضائع ہوجاتا ہے تو جسے مسترد کیا گیا تھا اسی پر دوبارہ راضی ہوجایا جاتا ہے۔ پہلے اتفاق کو ٹیبل پر رکھنے کی دوبارہ کوشش ہوتی ہے، آواز آتی ہے، اب ٹیبل سے وہ موقع غائب ہے۔
میں اپنے سعودی اور فلسطینی ناظرین سے کہنا چاہتا ہوں کہ تکرار انسان کو محتاط بنادیتی ہے، لیکن یہی ہوتا رہا جو میں آپ کوبتلا رہا ہوں، میں کمرے میں لوٹا اور ابوعمار سے یوں گویا ہوا :ابوعمار میں آپ سے آخری مرتبہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اور صدر کلنٹن اس معاہدے پر متفق تھے، کہنے لگے کہ بالکل۔ میں نے کہا مبارک ہو، وہ کھڑے ہوئےاور معانقہ کرنے لگے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اب چلوں؟ کہنے لگے کہاں جا رہے ہیں، جب تک اتفاق نہ ہوجائےآپ یہاں ہمارے ساتھ رہیں۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ تو معاہدے سے فارغ ہوچکے ہیں – یعنی صرف اعلان باقی ہے – کہنے لگے کہ نہیں آپ لازما ہمارے ساتھ رہیں،ہماری ایک پارٹی ہوگی۔ میں نے کہا ابو عمار سنیں یہاں پر سب سے بڑے عرب ملک مصر کے سفیر موجود ہیں اور یہ سمجھیں کہ وہ یہاں پر سارے عرب کے نمائندے ہیں۔ برادر فہمی میری طرف دیکھ کر کہنے لگے کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ میرا یہاں سے نکلنا بہت ضروری ہے کیونکہ میرے بچے اسی جگہ ہیں جہاں میں نے چھٹی کے وقت انھیں چھوڑا تھا۔ میں اپنی چھٹی پوری کرنے جارہا ہوں، میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، مزید ٹیلی ویزن پرآپ کے اعلان اتفاق کا لطف لوں گا اور آپ کی خوشی میں شرکت کروں گا، نیز مجھے سعودی ذمہ داران حکومت مثلا امیر عبد اللہ، امیر سعود الفیصل وغیرہ کوخبر دینے کا موقع بھی ملے گا کہ الحمد للہ فلسطین کو آزادی مل گئی۔ جیسا کہ ہر جگہ پر ابوعمار دہرایا کرتے تھے، انھوں نے مجھے روک لیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ میں نہیں جاؤں۔ آپس میں ہم ایک دوسرے کو کھیچنے لگے، میں نکلنا چاہ رہا تھا، وہ نکلنے نہیں دے رہے تھے۔میں انھیں کھینچ کر باہر تک آگیا، آخر میں جب انھوں نےمجھے چھوڑا ہی نہیں تو میں نے ان سے کہا کہ ابوعمار میرا سفر کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ اس معاہدے پر متفق ہیں تو آپ کو ہرگز ہماری ضرورت نہیں، میرے ساتھ جو سیکورٹی اہل کار تھے میں نے ان سے گاڑی کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا، انھوں نے دروازہ کھولا اور میں اس میں سوار ہوگیا۔ اور ڈرائیور سے کہا کہ ایئر پورٹ چلیے، ہم اب یہاں سے چلتے ہیں۔ اور میں نے امیر عبد اللہ سے بات کی، آپ نے گفتگو شروع کرتے ہی پوچھا: ہاں بندر سناؤ درندے کی طرح پورا شکار لے کر لوٹے یا پھربجو کی طرح بچاکھچا ہاتھ لگا؟ میں نے کہا: اللہ آپ کی عمردراز کرے، میرے خیال میں درندے کی طرح کا شکار تو نصیب ہی میں نہیں لگتا، بجو کی طرح بچا کھچا بھی ملا ہے یا نہیں اس کی بھی کچھ خبر نہیں۔
آپ نے پوچھا ٹھیک ہے بتلاؤ تو کیا ہوا ہے، میں نے بتلایا ابوعمار کے بقول وہ معاہدہ پر متفق ہوچکے ہیں اور کلنٹن نے ابھی ابھی مجھے بتلایا کہ ہم ابھی اتفاق سے دور ہیں، اگر ہم نے اس پر اتفاق نہیں کیا تو میں معاہدے ہی کو کالعدم قراردے دوں گا۔ میں کوئی چیز آنے والے صدر کے لیے نہیں چھوڑنا چاہتا، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی کام ہماری طرف ان کے لیے ادھورا چھوڑے رکھا جائے۔ آپ کی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات نکل پڑے (لا حول ولا قوۃ إلا باللہ العلی العظیم) یعنی وہ باہم کوئی اتفاق نہیں کرسکے؟ میں نے کہا یہی بات ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں۔ پھر آپ نے پوچھا اب آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کے پاس جارہا ہوں، اگر آپ کی اجازت ہو۔ آپ نے مجھے اجازت دیتے ہوئے کہا: توکل علی اللہ، اللہ پر توکل کریں اور نکل جائیں۔ یہ سب ہونے کے باوجود میرے پاس میری قیادت کی طر ف سے یہ حکم آیا کہ کلنٹن سے کہیں کہ فلسطینیوں کو اس معاہدے پر اتفاق کی ناکامی کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ ایک لمبی گفتگو اور کوشش کے بعد اور ملک عبد اللہ کی ڈائریکٹ کلنٹن سے بات چیت کے بعد یہ ہوا کہ کلنٹن نےبلا نام زد کیے کہ فلاں فلاں اس معاہدے کی ناکامی کے ذمے دار ہیں عمومی طور پر فریقین کسی اتفاق تک نہ پہنچ سکے جیسی باتیں کیں۔
جب جارج بش کرسی صدارت پر پہنچے تو ملک عبد اللہ نے ایک مرتبہ اور کوشش کی، اسی سلسلے میں آپ نے امریکہ کا دورہ کیا۔ صدر بش سے ان کے کھلیان میں ملاقات کی، بڑی کوششوں کے بعد ہم اہم ترین نکتوں پر متفق ہوسکے۔ ماہ اگست کے اخیر میں جارج بش نے اس بات پر موافقت ظاہر کی کہ وہ اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی اپنی پہلی اسپیچ میں مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک پیراگراف شامل کریں گے جس میں وہ اس بات پر اپنی موافقت کا اعلان کریں گے کہ وہ دونوں ملک فلسطین اور اسرائیل کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے دور حکومت میں وہ اسی رخ پر اپنی کوششیں مرکوز رکھیں گے۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کی منشا کے مطابق بعض دوسرے پیراگرافس کو بھی اپنی اسپیچ میں شامل کریں گے۔ پھر صدر جارج بش نے امریکی وزیرخارجہ کولن پاول، انٹیلی جینس چیف جارج ٹینٹ اور امریکن قومی سیکورٹی کی مشیرہ کار کونڈلیزارائیس کو اس بات کا مکلف کیا کہ وہ میرے ساتھ ایک میٹنگ کرمتفق علیہ صورت میں اس پیراگراف کو اسپیچ کے اندر شامل کریں۔ ایک لمبی محنت ومشقت اور ریاض وفلسطین کے اسفار کے بعد ہم تقریبا اس پیراگراف کی متفق علیہ شکل تک پہنچ گئے، یہ ماہ ستمبر کی ۷ تاریخ تھی۔ کولن پاول نے مجھے مطلع کیا کہ کل ان کا لیٹن امریکہ جانا ضروری ہے، کیونکہ وہاں جنوبی امریکی ممالک کا ایک اجتماع ہے۔ وہاں ایک ضروری اسپیچ دے کر وہ ۱۰ ستمبر کی رات کو لوٹیں گے، پھر ہم ۱۱ ستمبر کو ایک میٹنگ کراس ٹاپک کو آخری شکل دے کراسے صدر بش کے حوالے کردیں گے،تاکہ ان کی آخری رائے لےکر ہم نیویارک چلے جائیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں۔ اس موضوع سے متعلق دوسرے لوگوں سے بھی رابطہ کر یہ طے پایا کہ۱۱ ستمبر کو ہم ایک میٹنگ کریں گے تاکہ امریکی نو منتخب صدر کے دور حکومت کے پہلے سال ہی میں اس مسئلے کے حل کی خاطر عالمی برادری کو حرکت میں لایا جاسکے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے اس مسئلے کے حل کے لیےتوفیق ہی مقدر نہیں،۱۱ ستمبر کی تاریخ کو کیا ہوا اسے بتلانے کی مجھے کوئی خاص ضرورت نہیں لگتی، اس کے بعد ایک زمانے تک فلسطینی مسئلہ عالمی برادری کے لیے ثانوی ترین مسئلہ بنا رہا۔ حتی کہ بعد میں کچھ کوششیں ہوئیں، یہ تاریخ پوری دنیا کو ابھی بھی یاد ہے کہ اس دن کیا ہوا تھا۔
میں آپ کو یہ بتلانا چاہتا ہوں ان باتوں کومیں کیوں ذکر کر رہا ہوں، اس لیے تاکہ بالخصوص سعودی اور بالعموم خلیجی عوام اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ان کی قیادتیں اور ان کے ممالک نے اس مسئلے کی خدمت پوری امانت داری سے کی ہے اور جو ناشکری، بے وفائی ہمیں ویڈیوز اور آیڈیوز کی شکل میں فلسطینی قیادت کی طرف سے ابھی دکھ رہی ہے وہ اس مسئلے سے ہمارے رشتے کو ہرگز متزلزل نہیں کرسکتی۔ لیکن یہ بات بھی جا ن لینی چاہیے کہ ان لوگوں پر بھروسہ کرنا نہایت ہی مشکل امر ہےاور ان کی موجودگی میں فلسطینی عوام کی بہتری کے لیے کچھ کرپانا نہایت ہی پیچیدہ مہم ہے، اسی لیے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حالیہ دنوں دنیا میں پیش آمدہ حادثات کی روشنی میں ہم ایک ایسی حالت سے دوچا رہیں جس میں بجائے اس کے کہ ہم اسرائیلی چیلنجوں کا کیسے مقابلے کریں اور فلسطینی قضیہ کی کیسے خدمت کریں؟ جیسے اہم مسائل پر غور کرتےہمارے لیے خود اپنے سیکورٹی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ نئی مصلحتیں جنم لے چکی ہیں، ساتھ ساتھ اس ڈگر پر ایسے بھی راہ گیروں سے پالا پڑ گیا ہے جن کا دعوی ہے کہ وہ فلسطینی مسئلے کے خادم ہیں اور یہ کہ فلسطینی مسئلہ ان کے تئیں اولین ترین مسئلہ ہے۔ بیت المقدس کی بازیابی ان کا پہلا ہدف ہے، مثال کے طو رپر ایران، ترکی جس کی بنیاد پر فلسطینی قیادت بھی طہران اور انقرہ کو ریاض، کویت، ابوظبی، دبئی، منامہ، عمان، مسقط اور قاہرہ سے اہم سمجھنے لگی ہیں۔
ایسا نہیں ہے، میں نے آپ سے پہلے بھی کہااللہ تبارک وتعالی نے فرمایا: {ربنا اغفر لی ولوالدی}اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: ( الجنۃ تحت اقدام الامہات) یعنی جنت ماؤں کے قدموں تلے ہوتی ہے، ہم کسی چیز سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں، نہ ہم نے شریعت سے رخ موڑا ہے، ہم اس کے پابند ہیں۔ البتہ ابھی ہم ایک ایسے مرحلے میں ہیں جس میں ہماری قیادتوں اور ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی قومی سیکورٹی کی حفاظت کریں اور اپنی امنی، اقتصادی، سماجی اور خوشحالی جیسی مصلحتوں پر توجہ دیں۔ ہم ایک ایسے تلاطم خیز سمندر کے بیچ میں جی رہے ہیں، ایسی صورت حال میں ہم ان چند ممالک میں سے ایک ہیں جو اس موجزن سمندر کے بیچ میں کچھ جزیروں پر واقع ہیں، اس لیے ہماری عوام کے تئیں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے استقرار کو برقرار رکھیں اور اپنی حالت کو تبدیل ہونے سے روکیں۔ مصر عرب ممالک میں سب سے بڑا ملک ہے اور اس میں بسنے والی عظیم قوم رات دن اس کوشش میں لگی ہے کہ فلسطینی قوم کو ان کے سارے چیلنجوں اور غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی سے انھیں نجات دلا سکے جہاں سے دہشت گردی نکل کرسینا میں قتل وخون خرابہ مچاتی ہے اور جرائم کا ارتکاب کرتی ہے!
میرے بھائی ہم نے اللہ کو اپنی آنکھوں سے گرچہ نہیں دیکھا البتہ اپنی عقل سے اسے ضرور پہچان لیا، نہ ہی مصری عوام اور نہ ہی خلیجی عوام اور نہ ہی اکثر عرب عوام حالیہ منظر نامے سے خوش ہیں۔ ترکی لیبیا پر قبضہ کررہا ہے اور بیت المقدس کو آزاد کرنے کے لیے ابوظبئ سے اپنے سفیر کو واپس بلانا چاہتا ہے، ایران بیت المقدس کو آزاد کرانا چاہتا ہےلیکن یمن میں حوثی باغیوں کے ذریعے اور لبنان وشام کے اندر حزب اللہ کے ذریعے، معاملہ واضح ہے۔ اب میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اے بار الہ میں نے اس مسئلے کے متعلق ساری تفصیلا ت اسی طرح تیری مخلوق تک پہنچائی ہیں جیسا کہ میرے دل یا میرے ذہن میں زندہ تھیں۔ میں نے یہ ساری یاتیں میری ان سعودی عوام کے سامنے رکھی ہیں جنھیں خبردار کرنا میرے نزدیک زیادہ اہم ہے۔ جو بھی باتیں میں نے کی ہیں وہ محقق ہیں، قابل اعتماد ہیں اور میں سوشل میڈیا پر ایک اکاؤنٹ کھولنے جارہا ہوں اور وہاں پر ان ساری دستاویزات کو منظر عام پر لانے جارہاہوں جن کے متعلق میں نے اس ملاقات میں کچھ ذکر کیا ہے،جسے کچھ زیادہ تفصیلات چاہئیں وہ اس اکاونٹ پر چیک کرسکتا ہے۔ میں آپ سے اس موضوع پر دس گھنٹے لگاتار گفتگو کرسکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں اس وقت اللہ سے یہی امید کروں گا کہ میں نے جو بھی یہاں بیان کیا وہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا تاکہ ہم دھوکے باز، کذاب،بے رفاء، ناشکرے لوگوں کی طبیعت سے پردہ اٹھائیں جو دوسروں کا موازنہ اپنی عادتوں اور اخلاقیات سے کرتے ہیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے، ہماری اپنی تاریخ ہے۔ جس طرح ہمیں اپنی تاریخ سے واقفیت ہے اسی طرح سے ہم ان کی تاریخ سے بھی واقف ہیں۔ اپنے سعودی بھائی بہنوں کے سامنے اسی تاریخ کی کچھ پردہ کشائی میرا مقصود کلام تھی تاکہ میں انھیں یہ سمجھا سکوں کہ ہم جس مرحلے اور حالات سے گزر رہے ہیں، وہ کتنا حساس اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ پھر بھی توفیق تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، آپ نے میری باتیں سننے کے لیے وقت نکالا۔ میں آپ کا اس ذرہ نوازی پر شکر گزار ہوں، آپ کی صبح خیر وعافیت کا پیغام ہو۔

آپ کے تبصرے

3000