مسلمانوں کا اخلاقی زوال

اسدالرحمن تیمی سماجیات

یہ بات مسلم ہے کہ اسلام کے اہم مقاصد میں سے انسانی اعمال و اخلاق کی درستگی، دل و دماغ اور افکار و خیالات کی پاکیزگی نیز ایک خوشگوار اور بہترین انسانی سماج کا قیام ہے،اس لیے اسلامی تعلیمات و ہدایات کا سارا زور اخلاق کو بہتر بنانے پر ہے کیونکہ بغیر اعلیٰ اخلاق واقدار کے کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ آج سارا عالم اسلامی سیاسی، معاشی اور تعلیمی زوال کا شکار ہے، لیکن درحقیقت ان ساری پستیوں کے پیچھے مسلمانوں کا اخلاقی زوال کارفرماہے۔ ہم اگر کتاب وسنت کے بتائے ہوئے اقدار وکردار کے خطوط پر گامزن ہوجائیں، تو کوئی دورائے نہیں کہ پھر سے ہم دنیا کی زمام قیادت اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔ شاید اسی کو اقبال نے’’یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔
قرآن کریم میں مسلمانوں کو بار بار بہترین صفات سے آراستہ ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلا یہ بتایا گیا ہے کہ دشمن سے اچھا سلوک کرو وہ تمھارا دوست بن جائے گا۔ ( فصلت:۳۵ ) نبیﷺ سے خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے: اے نبی اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ سے کنارہ کش ہوجاتے۔ (آل عمران:۱۵۹)ایک جگہ فرمایا گیا کہ اے نبی بے شک آپ اخلاق حسنہ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ (القلم:۴)
کسی فرد یا قوم کی تعمیر میں سب سے بڑا رول اس کی قوت ایمانی اور اخلاق وکردار کا ہے۔ یہ شخصیت کو زندگی اور زندگی کو حسن وتوانائی عطا کرتاہے۔ اس کے بغیر دنیا میں نہ کوئی پنپ سکتا ہے اورنہ ترقی کرسکتا ہے، اعلیٰ اخلاق وکردار کو ہٹا کر کی جانے والی ہر کوشش فقط گھاٹے کا سودا ہے۔ قرآن کریم نے اسی حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا ہے: ’’قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان ایمان والوں کے جنھوں نے نیک اعمال کیے‘‘۔ (العصر)ایک حدیث میں بتایاگیا ہے ’’مسلمانوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘(ترمذی) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اخلاق حسنہ لازم ملزوم ہیں یعنی ایمان ہو اور اچھے اخلاق نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کبھی بھی طعنے دینے والا، لعنت ملامت کرنے والا اور بداخلاق نہیں ہوسکتا۔ ایک بار آپﷺ نے بہت زور دے کر فرمایا کہ یقینا وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں۔
ایک بار فرمایا: میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں(البخاری فی الادب المفرد) ابن خلدون کہتے ہیں کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔
نبیﷺ کی پوری حیات مبارکہ اخلاق حسنہ کا نمونہ اور پیکر جمیل ہے۔ صحابہ کرام آپ کے اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے۔اور پھر صحبت نبویﷺ کے فیض یافتہ صحابہ کرام دنیا کے جس گوشے میں گئے انھوں نے سامنے والوں کے ذہن ودماغ پر اچھے اور نیک انسان کی چھاپ چھوڑی، ایک ایسا انسان جو بات میں سچا ، وعدہ میں پکا، پاک باز اور نیک طینت ہو، برائیوں سے دور اوراچھائیوں کا داعی ہو، جس کی بنا پر بہت کم مدت میں اسلام کرۂ ارض کے بڑے حصہ پر پھیل گیا۔
لیکن مقام افسوس ہے کہ آج مسلمان اپنے گفتار وکردار میں کسی بھی اعتبار سے اسلام کے نقیب وترجمان نہیں بلکہ اس کے برعکس ان کے عادات واطوار اورعام رویوں نے اسلام کی نشر واشاعت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ جتنی بھی قسم کی اخلاقی خرابیاں ہوسکتی ہیں وہ مسلمانوں اورمسلم معاشرے میں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ بقول اقبال: ’’یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود‘‘۔ جھوٹ، خیانت، دغا، فریب اور اس جیسی اخلاقی پستیاں ہماری پہچان بن چکی ہیں۔سائنس وٹیکنا لوجی میں عروج حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے اتنا ضروری نہیں جتنا اسلامی اقدار اور بلندیِ کردار اہم ہے کیوں کہ دل ودماغ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی چیز انسان کا اخلاق وکردار ہی ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے؎

تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن

وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے

لہٰذا امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبوی اخلاق وکردار سے خود کو آراستہ کریں یا کم از کم کوئی ایسا کام نہ کریں جو اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بنے۔ اگر ہم خود کو بدل لیتے ہیں تو دنیا کو ہمیں بدلنے کی ضرورت نہیں ،وہ اپنے آپ بدل جائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے حالات نہ بدلیں۔
آج ہمیں شکایت ہے کہ ہمارے گرد وپیش کے حالات وظروف ہمارے خلاف ہیں۔ لوگ ہمیں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اپنے وجود اور اپنی شناخت کے دشمن ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000