جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی: ۳۵ سالہ سفر پر ایک نظر

ابوالمیزان منظرنما

ممبئی میں صوبائی جمعیت اہل حدیث، دلی میں نذیریہ اور نیپال میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر لاک ڈاؤن کے پورے پیریڈ میں اپنے ملازمین کو مکمل تنخواہیں دیتے رہے۔ یہ عزیمت کی بات ممکن ہے اور اداروں میں بھی موجود رہی ہو جن کا علم ہمیں نہیں ہوسکا۔ البتہ عام معاملہ آدھی تنخواہیں دینے کا سامنے آیا اور مختلف اسباب کی بنا پر کچھ اداروں نے آدھی یا پوری تنخواہ تاخیر سے دی، کہیں چھٹی تک یا بشمول تعطیل دی اور نئے تعلیمی سال میں جو وقت پر شروع ہی نہیں ہوا نہ دے پانے کا اعلان کردیا اور کچھ اداروں نے مسلسل تقاضوں سے تنگ آکر ملازمین کو برخاست بھی کردیا۔
مذکورہ صورت حال میں زیادہ تر معاملات اعتذار کے ہی سامنے آئے البتہ کچھ استثناء کے ساتھ ظلم کے کیسز بھی سنے گئے۔ ظلم تو عام حالات میں بھی ہوتا ہے مگر یہاں لاک ڈاؤن کا بہانہ بھی مل گیا۔ پھر لاک ڈاؤن میں ماہ رمضان پڑنے کی وجہ سے کلیکشن کی روایت پر تو ضرب پڑی ہی مگر لین دین کے دوسرے ذرائع کا استعمال جاری رہا۔ اساتذہ کو تنخواہیں دینے کے نام پر وصولی اور پھر اس رقم کے اساتذہ تک نہ پہنچنے کی بات بھی معتبر علماء کے ذریعے سے پہنچی ہے۔ ایک بہت ہی قریبی معاملے میں میرے ایک شناسا کے پاس پورا رمضان دو لاکھ کی رقم پڑی رہی جو صاحب مدرسہ نے استعمال نہ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دینے والے نے یہ رقم واپس لے لی، کیونکہ رمضان میں اساتذہ کو دینے کے لیے یہ امداد ملی تھی مگر وقت پر اس مد میں یہ خرچ ہی نہ کی گئی بلکہ صاحب معاملہ نے اس رقم کو اپنی تحویل ہی میں نہ لیا۔
جس طرح کچھ اداروں نے لاک ڈاؤن کو بہانہ بنالیا اساتذہ کو تنخواہیں نہ دینے کا اسی طرح کچھ اصحاب خیر بھی اس مہاماری کے نام پر اپنا ہاتھ روکے رہے۔ جب کہ دینے والوں نے تلاش کرکے اپنا متعینہ سالانہ تعاون مستحقین تک پہنچایا۔ کرلا ممبئی کے ایک صاحب جو ہر سال ایک ادارے کو پچاس ہزار چندہ دیتے تھے، کرلا ہی کی ایک مسجد کے امام صاحب کے ذریعے متعلقہ مولانا کا نمبر نکلوایا تاکہ ان تک یہ رقم پہنچائی جاسکے۔
جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی کے قیام کو پینتیس(۳۵) برس بیت چکے ہیں، ممبئی میں چار سے چوراسی(۸۴) اہل حدیث مساجد کے سفر میں جامعہ رحمانیہ کاندیولی کا کردار اس طور بہت نرالا ہے کہ ممبئی کے مختلف علاقوں میں مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ رحمانیہ نے اس مہم کو سب سے زیادہ ائمہ سپلائی کیے۔ یہی ائمہ ان مساجد میں قائم مکاتب میں مدرسی بھی کرتے رہے۔
اس وقت ممبئی، مضافات اور پڑوسی صوبہ گجرات میں کل ملاکر دو درجن سے زائد جامعہ رحمانیہ کے فارغین علماء امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جیسے:
(۱) مولانا امتیاز رحمانی (دہیسر)
(۲) مولانا اعجاز احمد رحمانی (کاشی میرا)
(۳) مولانا فیصل رحمانی (کاشی میرا)
(۴) مولانا عبدالصبور رحمانی
(۵) مولانا نسیم احمد رحمانی (کلیان)
(۶) مولانا وصی الدین رحمانی (مرول)
(۷) مولانا سعود رحمانی (مرول)
(۸) مولانا عبیداللہ رحمانی (مرول)
(۹) مولانا اختر رحمانی (دارالسلام کاندیولی)
(۱۰) مولانا حسین رحمانی (اصلاح المسلمین کاندیولی)
(۱۱) مولانا عزیز الرحمن رحمانی (اصلاح المسلمین کاندیولی)
(۱۲) مولانا انعام الدین رحمانی (گرانٹ روڈ)
(۱۳) مولانا عبدالعزیز رحمانی (باندرہ)
(۱۴) مولانا نسیم احمد رحمانی (باندرہ)
(۱۵) مولانا عبدالمجیب رحمانی (اندھیری)
(۱۶) مولانا انوار الاسلام رحمانی (مالونی)
(۱۷) مولانا افضل رحمانی (مالونی)
(۱۸) مولانا عبدالسلام رحمانی (جوگیشوری)
(۱۹) مولانا جمیل رحمانی (وکرولی)
(۲۰) مولانا عبدالصبور رحمانی (فیض عام ممبرا)
(۲۱) مولانا محمد اجمل رحمانی (رحمانیہ گوونڈی)
(۲۲) مولانا شمشاد عالم رحمانی
(۲۳) مولانا شاہ عالم رحمانی
(۲۴) مولانا عبدالحکیم رحمانی (بدھ نگر مالونی)
(۲۵) مولانا وسیم رحمانی (رحمانیہ ملاڈ)
(۲۶) مولانا عبدالواسع رحمانی(نالاسوپارا)
(۲۷) مولانا عبدالواحد رحمانی (دھولیہ)
(۲۸) مولانا ابو الکلام رحمانی (واپی)
تدریسی خدمات انجام دینے والے علماء ہیں:
(۱) مولانا شاہ عالم رحمانی (کرلا)
(۲) مولانا اقبال رحمانی (اصلاح العلوم کاندیولی)
(۳) مولانا اعجاز خان رحمانی (مالونی)
(۴) مولانا عبدالعزیز رحمانی (رحمانیہ الہاس نگر)
(۴) مولانا فیض الرحمن رحمانی (رحمانیہ، گوونڈی)
(۵) مولانا جرار احمد رحمانی (بھیونڈی)
(۶) مولانا شعیب رحمانی (کھیڈ)
(۷) مولانا سلمان رحمانی (واپی گجرات)
(۸) مولانا وسیم رحمانی (واپی گجرات)
(۹) مولانا عثمان احمد رحمانی (گجرات)
اپنے وطن میں درس و تدریس کا کام کرنے والے مولانا شمشاد رحمانی (پرتاپ گڑھ) اور مولانا عبدالجبار رحمانی (دیون ہلی کرناٹک) قابل ذکر ہیں۔ جامعہ رحمانیہ میں بھی کئی فارغین نے پڑھایا ہے، ان میں مولانا شاہ عالم رحمانی، مولانا عبدالسلام رحمانی اور مولانا پرویز رحمانی شامل ہیں۔ فی الوقت پانچ علماء جامعہ میں تدریس پر مامور ہیں:
(۱) مولانا عبد الرب رحمانی مدنی
(۲) مولانا جاوید رحمانی مدنی
(۳) مولانا عبداللطیف رحمانی
(۴) مولانا محمد اجمل رحمانی
(۵) مولانا عبداللہ رحمانی
جامعہ رحمانیہ سے فراغت کے بعد امامت و خطابت اور درس و تدریس سے جڑے علماء کی یہ فہرست مکمل نہیں ہے، کچھ ابھی بھی گنتی میں نہیں آسکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمیں مولانا عبداللہ رحمانی (پرتاپ گڑھ) نے فراہم کیے ہیں۔
کچھ فارغین ممبئی ہی میں دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی کام کررہے ہیں جیسے آئی آئی سی میں مولانا امتیاز رحمانی اور جامعہ رحمانیہ کے شعبہ تحفیظ القرآن سےحفظ اور ابتدائی تعلیم حاصل کرچکے حافظ خلیل الرحمن سنابلی بھی آئی آئی سی میں بحیثیت داعی ومبلغ سرگرم عمل ہیں۔
مستفیدین جامعہ کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے شعبہ نشر واشاعت کے ہیڈ مولانا عنایت اللہ سنابلی مدنی بھی جامعہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ معروف صاحب طرز قلم کار مولانا عبدالرشید محمد سمیع سلفی بھی ایک زمانے میں جامعہ کے طالب علم رہے ہیں۔
خود فری لانسر جامعہ رحمانیہ سے ایک فارغ خاکسار راقم الحروف(نصیر رحمانی –قلمی نام: ابوالمیزان) اور ایک مستفید ابن کلیم (عبدالرحمن کلیم اللہ فیضی) کا جاری کردہ ہے۔ صحافت کا یہ سفر جامعہ رحمانیہ میں دوران طالب علمی مختلف اردو اخباروں میں مراسلہ نگاری، مضمون نگاری اور پھر جامعہ کے حائطیہ ’الصفا‘ کی ادارت سے شروع ہوا تھا۔ فری لانسر کے ابتدائی قلم کاروں اور مجلس ادارت میں شامل مولانا منہاج الدین ابوبکر رحمانی (ثاقب بلرامپوری) بھی جامعہ رحمانیہ سے ۲۰۰۲ میں فارغ ہیں، جو اب ٹراویلس کے کاروبار میں ہیں۔ مولانا سرفراز فیضی بھی اپنے آئی آئی سی میں ملازمت کے زمانے ہی سے فری لانسر سے جڑے ہوئے ہیں، ابھی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی میں بحیثیت داعی کام کررہے ہیں، انھوں نے بھی جامعہ رحمانیہ سے استفادہ کیا ہے۔
مولانا منہاج رحمانی کے ایک کلاس میٹ (بیچ ۲۰۰۲)مولانا شمس الدین رحمانی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی میں کام کرچکے ہیں اور ابھی حائل سعودی عرب میں ہیں۔
قاری نجم الحسن فیضی حفظہ اللہ کی سربراہی میں ۲۰؍جولائی۱۹۸۵ء کو خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگریؒ کے ہاتھوں جامعہ رحمانیہ کی بنیاد چارکوپ کاندیولی (ویسٹ) ممبئی میں رکھی گئی تھی۔
اب ممبئی میں جامعہ رحمانیہ کی مختلف شاخیں ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(۱)مدرسہ اصلاح العلوم کاندیولی
(۲)مدرسہ دارالسلام کاندیولی
(۳)مدرسہ رحمانیہ نالاسوپارا
(۴)مدرسہ ابوبکرصدیق ممبرا
(۵)مدرسہ فرقانیہ گوونڈی
(۶)مدرسہ دارالسلام شیواجی نگر
(۷)مدرسہ محمدیہ وکرولی
(۸)مدرسہ محمدیہ چمڑا بازار دھاراوی
(۹)مدرسہ رحمانیہ بھائندر
(۱۰)مدرسہ رحمانیہ باندرہ
(۱۱)مدرسہ ضیاء العلوم مومن پورہ
(۱۲)مدرسہ اسلامیہ ایم آئی ڈی سی اندھیری
مدینہ سے مولانا پرویز رحمانی صاحب نے ایسے فارغین جامعہ رحمانیہ کی فہرست فراہم کی ہے جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل ہیں یا بروقت وہاں زیر تعلیم ہیں، ان کے اسماء سن فراغت کے ساتھ درج ذیل ہیں:
(۱)محمد جاوید عبدالعزیز رحمانی( نومبر۲۰۰۶)
(۲)پرویز عالم عطاء اللہ رحمانی( نومبر۲۰۰۶)
(۳)محمد معراج سمیع الحق رحمانی( مئی۲۰۰۷)
(۴)عزیز الرحمان جلال الدین رحمانی( مئی۲۰۰۷)
(۵)عبدالرب عبدالوہاب صدیقی رحمانی(اپریل۲۰۰۹)
(۶)ابوالکلام حساب الدین رحمانی(اپریل۲۰۰۹)
(۷)عبدالرحیم عبدالکریم رحمانی(اپریل۲۰۰۹)
(۸)شمس الاسلام نجم الاسلام رحمانی(مئی۲۰۱۰)
(۹)عبارت حسین عبدالباری رحمانی(مئی۲۰۱۰)
(۱۰)محمد اسلم محمد نسیم رحمانی(مئی۲۰۱۰)
(۱۱)اطیع اللہ کتاب اللہ رحمانی(اپریل۲۰۱۱)
(۱۲)عبدالوکیل رحمانی(اپریل۲۰۱۱)
(۱۳)صدیق نودی رحمانی(اپریل۲۰۱۲)
(۱۴)عبدالخالق عبدالمعید رحمانی(اپریل۲۰۱۲)
(۱۵)شاہ عالم عبدالواحد رحمانی(اپریل۲۰۱۲)
(۱۶)طہ انصاری رحمانی(اپریل۲۰۱۲)
(۱۷)عبدالاحد علاء الدین رحمانی(اپریل۲۰۱۲)
(۱۸)امتیاز احمد رحمانی(اپریل۲۰۱۲)
(۱۹)جنید احمد عبدالوکیل رحمانی(اپریل۲۰۱۳)
(۲۰)چودھری افتخار احمد سراج الحق رحمانی(مئی۲۰۱۴)
(۲۱)محمد رضوان صراط اللہ رحمانی(مئی۲۰۱۴)
(۲۲)سما ہاشم حسین رحمانی(مئی۲۰۱۴)
(۲۳)عبدالمالک محی الدین رحمانی(مئی۲۰۱۵)
(۲۴)سعود احمد محمد رحمانی(مئی۲۰۱۵)
(۲۵)شکیل احمد عبدالعلی رحمانی(مئی۲۰۱۷)
(۲۶)جبران احمد ضمیر احمد رحمانی(مئی۲۰۱۷)
جامعہ رحمانیہ سے فارغین طلبہ جو جامعہ اسلامیہ میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ابھی مقبول ہوئے ہیں:
(۱)عبیداللہ صدیق احمد رحمانی(اپریل۲۰۱۳)
(۲)حسین محمد اقبال رحمانی(مئی۲۰۱۶)
(۳)ضمیر مہدی حسن رحمانی(مئی۲۰۱۶)
(۴)عبدالمجیب عبدالجبار رحمانی(مئی۲۰۱۷)
(۵)محمد ندیم رحمانی(اپریل۲۰۱۸)
جامعہ رحمانیہ سے فارغ ایک بھائی جامعة الملك سعود میں بھی زیر تعلیم ہیں:قمر الدین بدر الدین رحمانی (سن فراغت: مئی۲۰۱۷)
نمائندہ رحمانی مولانا شاہ عالم صاحب:
جامعہ رحمانیہ کے فارغین میں سب سے نمایاں اور نمائندہ نام مولانا شاہ عالم رحمانی صاحب کا ہےجن کا داخلہ جامعہ میں ۱۹۸۶ میں ہوا تھا۔ ۱۹۹۳کے اخیر میں فراغت ہوئی،جامعہ رحمانیہ سے فارغ ہونے والا یہ دوسرا بیچ تھا جس میں مولانا کے ساتھ جمیل احمد رحمانی اور مولانا محمد عالم رحمانی تھے۔ جمیل رحمانی سعودی عرب میں ہیں اور عالم رحمانی ساکی ناکہ ممبئی میں تجارت کرتے ہیں۔ پہلے بیچ میں مولانا عبدالقیوم رحمانی، مولانا ہدایت اللہ رحمانی اور مولانا شمشاد رحمانی کو ملاکر کل ۶ لوگ تھے۔ اس سال آخری پروگرام (درس حدیث)۶دسمبر ۱۹۹۲ کو ہوا تھا، بابری مسجد کے انہدام کی خبر مل چکی تھی اور مولانا الطاف حسین فیضی صاحب نے درس بخاری بڑے صدمے میں دیا تھا۔
فراغت کے بعد ہی سے مولانا شاہ عالم درس وتدریس اور پھر امامت وخطابت سے جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے مولانا نے دو سال (۱۹۹۴-۱۹۹۵)جامعہ رحمانیہ میں ہی پڑھایا۔ پہلے سال تنخواہ ۹۰۰ روپئے تھی اور دوسرے سال ۱۱۰۰۔ امامت کی خواہش تھی اس لیے پھر سونا پور بھانڈوپ کی اہل حدیث مسجد ومدرسہ تعلیم الاسلام سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی دو سال (۱۹۹۶-۱۹۹۷) امام وخطیب رہے۔یہاں پہلے سال ۱۲۰۰ اور دوسرے سال ۱۵۰۰ روپئے تنخواہ تھی۔ ۱۹۹۸ میں بھانڈوپ سے استعفیٰ دینے کے بعد جامعۃ الرشاد کرلا میں۳۵۰۰ ماہوار پر بحیثیت امام وخطیب مامور ہوئے تو مسلسل ۱۳ سالوں تک مسند امامت وخطابت سنبھالا۔پورے کرلا میں یہ اس وقت کی مسجد کے اماموں کو ملنے والی سب سے زیادہ تنخواہ تھی، کٹیر منڈل کی مسجد میں امام وخطیب مولانا عبد النور راغب سلفی صاحب کی تنخواہ۳۰۰۰ روپئے تھی۔ جامعۃ الرشاد میں امامت کے دوران ہی ۲۰۰۴ میں مولانا شاہ عالم صاحب عمرے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اس وقت حافظ ابوذر مدنی صاحب جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے، انھیں ساتھ لے کر مولانا جامعہ کے آفس گئے اور داخلے کی کوشش کی مگر عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے کامیابی نہیں ملی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اس کے بعد بھی ہمت ہاری نہ امید چھوڑی۔ ۲۰۰۸ میں جب حج پر گئے تو مولانا خالد جمیل مکی صاحب کے ایک رشتے دار جناب اقبال صاحب کی مدد سے رابطہ عالم اسلامی کے معہد اعداد الائمہ والدعاۃ مکہ میں ایک سالہ کورس کے لیے اپلائی کردیا۔ اس بار انھیں داخلہ بھی ملا اور ۲۰۰۹ میں مکہ پہنچ کر انھوں نے ۶ مہینے ٹریننگ بھی لی۔ جامعۃ الرشاد میں ۱۳ سال مکمل کرکے جب مولانا مکہ کے لیے نکلے تھے اس وقت ان کی تنخواہ ۶۰۰۰ روپئے تھی۔ یعنی ہر سال مولانا کی تنخواہ۱۹۲روپئے کے حساب سے بڑھتی رہی جبکہ مہنگائی ۸۰۴ روپئے کے حساب سے بڑھی تھی۔ تنخواہ بڑھنے کی اوسط شرح تھی ساڑھے پانچ فیصد اور مہنگائی بڑھنے کی شرح تقریباًً بیس (19.9)فیصد۔ ۱۹۹۸ میں انڈیا میں ۱۰گرام ۲۴کیرٹ سونے کی قیمت تھی ۴۰۴۵ روپئے جبکہ ۲۰۰۹ میں ۱۴۵۰۰روپئے۔ اس حیرت انگیز سسٹم کی حالت اور گراوٹ پر تبصرے کی یہ جگہ نہیں ہے البتہ اتنی تفصیل یہاں ضمنی طور پر آگئی ہے۔
مولانا کی میڈیکل رپورٹ’فٹ‘نہیں آئی اس لیے کورس کی تکمیل سے پہلے انڈیا واپس آنا پڑا۔ مولانا سعید احمد بستوی کے حکم سے مسجد اہل حدیث اینٹ بھٹی گورے گاؤں میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دینے لگے اور پھر دوبارہ ۲۰۱۳ سے جامعۃ الرشاد کرلا ہی کے بیت المال سے منسلک ہوگئے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے تک مولانا کا معمول یہ تھا کہ ہر دن کہیں نہ کہیں درس متعین ہے، مستقل خطبہ جمعہ بھی دیتے ہیں اور ہفتے میں ایک دن اتوار خالی رکھتے ہیں جو دیگر دینی پروگراموں اور جلسوں کے انعقاد کا دن ہے۔ کہیں پروگرام ہوا تو جاتے ہیں ورنہ چھٹی مناتے ہیں۔اور مسجد اہل حدیث کپاڈیہ نگر کے ایک حصے میں حفظ قرآن کےلیے بیت المال جامعۃ الرشاد کا قائم کردہ مدرسہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مولانا شاہ عالم رحمانی کے زیر نگرانی ہی چلتا ہے۔
مولانا شاہ عالم صاحب نے کچھ تالیفی وتصنیفی کام بھی کیے ہیں۔ ان کا تالیف کردہ کتابچہ ’’تعفن زدہ ماحول اور مسلم نوجوانوں کی ذمہ داریاں‘‘۲۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ کہیں کوئی تاریخ درج نہیں ہے کہ سن اشاعت کا پتہ چل سکے۔ ’عرض مرتب‘ کے بعد دوسرے ہی صفحہ پر پیش لفظ بعنوان ’اگر جواں ہوں۔۔۔‘اس وقت کے ناظم صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی مولانا سعید احمد بستوی صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ ص۷ پر ’عرض ناشر‘ مولانا عبدالعلی عبدالحکیم فیضی صاحب نے لکھا ہے۔ عرض مرتب، پیش لفظ اور عرض ناشر کہیں بھی کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ اصل کتابچہ ص۹ سے شروع ہوتا ہے ۔ یعنی ۱۶ صفحات کے ایک مقالے کو (جس میں کئی ذیلی سرخیاں بھی ہیں ایک کتابچے کی شکل میں چھاپ دیا گیا ہے۔
مولانا کا دوسرا ترتیب کردہ کتابچہ ’’رمضان کے مختصر احکام ومسائل‘‘۴۸صفحات پر مشتمل ہے۔ جولائی۲۰۱۴ میں ناشر’بیت المال جامعۃ الرشاد سوسائٹی، کرلا‘نے ۳۰۰۰ کی تعداد میں شائع کیا تھا۔ آیات واحادیث کی روشنی میں مولانا نے رمضان سے متعلق تقریبا تمام مسائل کو جمع کردیا ہے۔ عیدالفطر کے احکام وآداب نیز منکرات کے ذکر پر اس کتابچے کو ختم کیا ہے۔ اور اخیر میں بیت المال جامعۃ الرشاد کا پانچ صفحات پر مشتمل تعارف بھی ہے۔ مولانا کی دو اور کتابیں ابھی زیر طبع ہیں۔
قاری نجم الحسن فیضی صاحب کی سرپرستی اور مولانا الطاف حسین فیضی صاحب کی نگرانی میں جامعہ رحمانیہ کاندیولی چند کمروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے ادارے سے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا ممبئی شہر کا سب سے اہم سلفی تعلیمی ادارہ بن چکا ہے۔ یہاں سے ایک رسالہ ’صوت الاسلام‘بھی نکلتا ہے جس میں اساتذہ جامعہ کے علاوہ بسااوقات دیگر علماء اور طلبہ کے مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔
مولانا محمد عدیل سلفی، مولانا ضمیر احمد مدنی، مولانا عبد الستار سراجی، مولانا عبد الجبار سلفی(ایڈیٹر صوت الاسلام)، مولانا عبد الحکیم مدنی،مولانا حسین احمد فیضی اور ماسٹر مشتاق احمدحفظہم اللہ جیسے اساتذہ نے جامعہ میں اپنی زندگی کے بیشتر قیمتی اوقات گزار دیے،مولانا عبدالستار سراجی کے علاوہ یہ سارے اساتذہ ابھی بھی جامعہ میں ہی تدریس پر مامور ہیں۔ مولانا محمد مقیم فیضیؒ، مولانا عبد الغنی سراجیؒ، مولانا ضیاء الحق سلفی، مولانا محمد قاسم سلفی اور مولانا سمیع اختر ازہری بھی یہاں پڑھا چکے ہیں۔
جامعہ رحمانیہ کا فیضان ابھی جاری ہے، ہمارے زمانے میں اس کی ابتدائی تعلیم بہت مضبوط تھی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اس میں کچھ گراوٹ آئی ہے جس میں سدھار کی ضرورت ہے۔ صحافت وخطابت میں طلبہ کی تربیت کے لیے قائم کردہ انجمن النادی الاسلامی نے بہت سے صحافی اور خطیب پیدا کیے ہیں، جن میں سے کچھ ابھی سرگرم عمل ہیں اور کچھ زمانے کے سرد وگرم کا مقابلہ کرتے ہوئے کچھ دور چلے اور پھر دوسرے میدانوں کا رخ کرلیا۔ ان میں جو تجارت میں لگے وہ حسب استطاعت جامعہ رحمانیہ کا مالی تعاون بھی کرتے رہتے ہیں۔ مولانا نسیم رحمانی، مولانا رضوان اللہ چودھری رحمانی، مولانا محمود رحمانی،مولانا عبد السلام رحمانی(دہلی)،مولانا قمر رحمانی، مولانا شفیق احمد رحمانی، مولانا ارشد کمال رحمانی اور مولانا سہیل احمد رحمانی(سمرا)جیسے کئی فارغین اپنی امتیازی خصوصیات کے ساتھ اپنی اپنی فیلڈ میں مصروف عمل ہیں۔
لاک ڈاؤن اور اس کے بعد ان لاک کے اس جاری پیریڈ میں دیگر اداروں کی طرح جامعہ رحمانیہ بھی مشکل ادوار سے گزر رہا ہے، حکومت نے ابھی تک تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت نہیں دی ہے، مولانا الطاف حسین فیضی صاحب نے اپنے اساتذہ اور دیگر اسٹاف کو آدھی تنخواہ دینے کا اہتمام لاک ڈاؤن کی ابتدا سے ہی کررکھا ہے۔ اللہ رب العزت اس اہتمام پر انھیں باقی رکھے بلکہ مزید کی توفیق دے، اصحاب خیر ابناء جامعہ اور دیگر خیرخواہان جماعت کو چاہیے کہ اس مشکل گھڑی میں جامعہ رحمانیہ کا تعاون کرکے اجرعظیم کے مستحق بنیں۔
نوٹ: یہ مضمون جامعہ رحمانیہ کے قیام وارتقا پر ایک نظر ڈالنے کی بڑی ابتدائی سی کوشش ہے، بہت ساری ضروری تفصیلات ممکن ہے احاطے سے باہر رہ گئی ہوں۔ البتہ ان مندرجات کی روشنی میں جامعہ رحمانیہ کی تعلیمی خدمات کی ایک ہلکی سی جھلک ضرور مل جاتی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے بہت سارے قابل ذکر نام بھی چھوٹے ہوں گے، جو بھائی اس کی نشاندہی کرسکیں وہ ضرور کریں بڑی مہربانی ہوگی۔اپنے ملاحظات 9821555144 پر واٹس اپ کرسکتے ہیں۔

8
آپ کے تبصرے

3000
7 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
7 Comment authors
newest oldest most voted
Shakeel Asari

سابق اساتذہ کے ذکر کی فہرست میں شیخ ضیاء الحق سلفی جیسے فرشتہ صفت استاد کو ہرگز فراموش نہ کیا جائے ۔

ابوالمیزان

اضافہ کردیا ہے
جزاکم اللہ خیرا

عبد الواحد رحمانی

ماشاءاللہ بہت عمدہ تعارف پیش کیا ہے آپ نے ۔
جزاک اللّٰہ خیرا و احسن الجزاء

عبد الواحد رحمانی

ماشاءاللہ بہت خوب

اعجاز احمد بن يار محمد رحماني

ماشاء الله جزاك الله خيرا واحسن الجزاء

Mohammed irfan Khan

ماشااللہ بہت ہی خوب مختصر ہی سہی لیکن بہت اچھا ہے ۔

Mohammah Khan

ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ اور یاداشت بڑھانے کے لائق تحریر ہے جو ہمیں بہت ساری چیزوں کو ذہن نشین ہو گئی۔
اللہ کو اور قوت قلم سے نوازے۔ آمین

صلاح الدین

ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر بھائی۔۔۔ پرانی یادیں پھر سے تازہ ہوگئیں۔۔۔ مزید اسی طرح لکھتے رہیں