پورے کورونا کال میں آج پہلی بار ایسا ہوا ہے جیسے بغل میں بیٹھا ہوا کوئی شخص چپکے سے ہمیشہ کے لیے کسی ایسی جگہ چلا گیا کہ اب اس پر کبھی بھی نظر نہیں پڑے گی۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نظر ملتے ہی یوں مسکرائیں کہ سیدھے دل میں اتر جائیں۔ میرے اس جذبے کی انھیں کبھی خبر نہ لگی اور افسوس کہ اب اس کے اظہار کا کوئی خاصمطلب بھی نہیں۔ ہاں دل میں اٹھا جو درد آنکھوں کے رستے پانی بن بن کر نکل رہا ہے اس میں شاید کوئی کمی ہوجائے۔
وہ میرے ہم درس نہیں تھے، رفیق کار بھی نہیں تھے۔ میرے گاؤں کے بھی نہیں تھے، پہلے ممبئی میں مومن پورہ اور پھر گذشتہ کئی سالوں سے میرے گاؤں جیسے شہر ممبرا میں رہتے تھے۔ ساری ملاقاتیں اتفاقیہ ہوئیں، کبھی کرلا مل گئے کبھی ممبرا۔ قرآن بہت اچھا پڑھتے تھے، جو نہیں ملے ان تک بھی یہ آواز پہنچے گی اب۔ اور جو مل چکے ہیں وہ ان کی مسکراہٹ اور نظر نہیں بھول سکتے۔ اور کوئی کسی کو کیا دے دیتا ہے، عمدہ اخلاق سے پیش آجانا ہی اس دور کا سب سے بڑا احسان ہے اور ایک بہت بڑی جرأت بھی۔
تلاو پالی کے پاس لب سڑک جب انھوں نے ڈرائی فروٹ کی دکان کھولی تو ممبرا میں ایک ملاقات پر بہ اصرار لے گئے۔ پہلے دکان کا بورڈ اور پھر اندر دکان دیکھ کر رہا نہ گیا، میں نے کہا نام ہر چیز میں ہے، فرنیچر سے لے کر بیچی جانے والی ہر چیز میں، کرسی، کاؤنٹر، کھجور، چاکلیٹ وغیرہ سب میں۔ ایم ایم ویلی قبرستان کی طرف جاتے ہوئے آج بھی نظر پڑی شٹر ڈاؤن تھا مگر “Quality” کا بورڈ دور ہی سے نظر آگیا۔
صحت اور عمر ایسی تھی کہ بیماری کی خبر نہ مل پانے کی وجہ سے بہت دیر تک یہی کنفرم کرنے میں لگا رہا کہ یہ وہی تھے یا پھر کوئی اور۔ کئی دوستوں نے بھی یہی جاننے کے لیے رابطہ کیا۔
مولانا عنایت اللہ سنابلی مدنی صاحب سے پتہ چلا کہ گزشتہ ایک مہینے سے بیمار تھے۔ پھیپھڑے میں تکلیف تھی، دو دن پہلے ڈسچارج ملنے والا تھا مگر پھر طبیعت بگڑی اور وینٹیلیٹر پر چلے گئے۔ رات تیرہ نومبر دو ہزار بیس ساڑھے بارہ سے پونے ایک بجے کے دوران وفات ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
تعلق کیا تھا، یوں ہی سا۔ اور دکھ کیسا ہے، بھائی سا۔ تیرہ سال کے انترال کے بعد میرے جمعہ کے خطبے شروع ہوئے تو فون کرکے خصوصی طور پر خوشی کا اظہار کیا اور استقامت کی دعائیں دیں۔ ان کے مسکرا کر ملنے میں جو اپناپن تھا وہ بے مثال تھا، خلوص کی شدت اب محسوس ہوتی ہے جب وہ نہیں رہے۔ ان کے چلے جانے سے تعلق کا جو احساس اب ہے اس کا اندازہ بھی نہیں ہوا تھا پہلے کبھی۔
گزشتہ چھ مہینے میں بہت لوگ چلے گئے، کچھ قریبی بھی تھے ان میں۔ عیدالفطر کی صبح رحمانیہ میں میرے جونیئر ساتھی حافظ شاہ افضل کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ دوسرا بڑا صدمہ عیدالاضحیٰ کی رات میں مولانا محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ کے انتقال پر ہوا۔ اور اب یہ تیسری تکلیف جس کا احساس بہت شدید ہے۔
جنازے کی نماز مولانا عبدالسلام سلفی صاحب نے پڑھائی، ایم ایم ویلی قبرستان میں تدفین ہوئی۔ اللہ رب العالمین ان کے تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے، لغزشوں کو معاف کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔ آمین
انتقال کی خبر ملنے پر جو حالت تھی ویسی اب نہیں ہے، قبرستان پہنچنے سے پہلے ہی کچھ بہت قریبی ساتھی مل گئے، وہاں بھی کئی شناسا ملتے رہے، ابھی تک ساتھ ہیں۔ باتیں ہورہی ہیں موت کی، بیماری کی مگر وہ پہلے جیسا احساس اب نہیں ہے کہ حافظ دلشاد محمدی صاحب جیسے چلے گئے ایسے تو کوئی بھی جاسکتا ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے۔
محترم دلشاد محمدی صاحب رحم اللہ علیہ و غفرلہ سے میری ملاقات منصورہ سے ہے آپ مجھ سے پانچ سال سینئر تھے۔ آپ جہری صلاۃ کے امام تھے میٹھی اور شیرینی تلاوت فرماتے۔ آپ کی نغمگی دلوں اتر جاتی تھی۔ 2003 میں منصورہ کے بعد پھر کرلا میں 3 نومبر 2019 کو ملاقات ہوئی۔ دعاۃ و ائمہ کی تربیتی پروگرام جمعیت اہلحدیث ممبئی کی طرف سے جاری تھا، اسی پروگرام میں پہلی بار ملا، پھر نکاح کے بعد 30 دسمبر 2019 میں ممبرا ملاقات ہوئی دعائے خیر سے نوازا۔ پھر آپ نے اپنی دوکان بھی دکھائی۔ خیر! اللہ تعالی برادرم… Read more »