گر مصور ہے تو معشوق کوئی سنگ تراش
گل و لالہ کی طرح یار کا ہر انگ تراش
فلسفہ رنگ کا مخلوق نے سمجھا ہی نہیں
اے خدا اب سبھی انسان کو یک رنگ تراش
شرمگیں آنکھ سے محبوب کی حامی کو بنا
ہوبہو آنکھ، وہی عارضِ گل رنگ تراش
محفلِ عشق میں آنا ہے تو سب سے پہلے
بات کرنے کا سلیقہ ذرا کچھ ڈھنگ تراش
لہر خاموش، ہوا سرد، میں کھویا کھویا
لب ساحل پہ کوئی رینگتا خرچنگ تراش
اب نہ پھر بے کس و مظلوم کی تصویر بنا
ظلم کی بیڑیاں توڑے جو وہی جنگ تراش
گردن کفر پہ توحید کی یوں ضرب لگا
پھر وہی تیغ اٹھا اس پہ جما زنگ تراش
میرا فنکارئِ اسعؔد پہ یقیں اور بڑھے
آئینہ دوست ہو اک ایسا کوئی سنگ، تراش
آپ کے تبصرے