سید محمد ارتضی واحدی (۱۸۸۸۔۱۹۷۶)ملا رموز واحدی کے نام سے بہت مشہور صحافی گذرے ہیں۔ پورے برصغیر میں انھوں نے سب سے زیادہ صحافتی کام کیا ہے، ایک ساتھ درجن بھر روزنامہ، ہفت روزہ اورماہنامہ پرچے ان کے اہتما م میں شائع ہوتے تھے، وہ سب کی ادارت فرماتے تھے۔ ان کا تعلق ایک معزز تعلیم یافتہ سیدگھرانے سے تھا۔ خواجہ حسن نظامی ان کے مرشد مہربان شریک کار اوردوست تھے ۔ خواجہ صاحب کے زلف گرہ گیر کے وقت کے تمام علماء ، ادباء اور شعراء سیاسی اسیر تھے۔ انھی کے ذریعہ ان تک واحدی صاحب کی بھی رسائی تھی۔ ملا واحدی کا اسلوب تحریر قصہ گوئی کا تھا۔ ایک ماہر کہانی نگارکی طرح وہ ہرجزئیے کو دلچسپی سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے طرز تحریر کی مثال نہیں ہے۔ عام تحریروں میں بھی ان کا یہی اسلوب ہے ۔ ان کے قصصی اسلوب سے بڑی مماثلت قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں نظر آتی ہے لیکن یہاں وہ بات کہاں جو واحدی کے طرزِ تحریر اور تحریروں میں ہے۔ بلا کی سی سلاست، روانی، لطافت اور اثر آفرینی، جو قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں مفقودہے ان کی اکتا دینے والی بلا ضرورت طوالت اور یکسانیت سے قاری جلد تھک جاتاہے اورپڑھنے کی لذت سے محروم ہوجاتاہے۔
بات کہاں سے کہاں نکلی جارہی ہے۔ دراصل ان کا ذکر یوں چھڑگیا ہے کہ ان کی خودنوشت سوانح عمری ہے ’میرا افسانہ‘ نہایت معلوماتی اوردلچسپ، وہ اس کی تکمیل نہ کرپائے جو قابل افسوس ہے ۔ فالج کے حملے نے ان کے قلم پر بریک لگادیا۔ یہ کتاب پہلے ہندوستان اورپھر پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔
اس کتاب کا ذکریوں چھڑا کہ اس کا آخری باب ہے ’میونسپل کمیٹی کی ممبری‘ یہ باب ۱۴؍ صفحات پرپھیلا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ تقسیم سے قبل شہر میں مسلمان کس اثرورسوخ کے مالک تھے اوراس کے سیاسی امور میں کس قدر دخیل تھے اور دلی کے مسلم روساء عمائد اور شرفاء کس طرح رہتے تھے اورپھر تقسیم ہند میں دلی کیسے اجڑی اورکیسے اس کی تہذیب کے تانے بانے بکھرگئے ۔ اس باب میں دلی کی میونسپل سیاست کی کہانی ہے۔
آج کی دلی کارپوریشن تقسیم ہند سے قبل میونسپل کمیٹی ہوا کرتی تھی، اس کے چالیس ممبر ہوا کرتے تھے۔ شہر دہلی چودہ علاقوں میں تقسیم تھا۔ چودہ علاقوں سے چودہ مسلمان اور چودہ ہندوممبر منتخب ہوکر آتے تھے۔ میونسپل کمیٹی میں ۲۸عوامی نمائندے ہوا کرتے تھے ، باقی بارہ میں ایک سکھ ایک شیعہ ایک اچھوت تین گورنمنٹ کے نامزد ممبران ایک سول سرجن اور باقی دو صحت اورتعلیم کے محکموں کی نمائندگی کرتے تھے۔ سات ملوں اور تجارتی اداروں کی طرف سے آتے تھے جن میں صرف ایک پنجابی سوداگروں کا نمائندہ ہوا کرتا تھا۔ یوں میونسپل کمیٹی کے چالیس ممبروں میں چوبیس غیر مسلم ممبران ہوا کرتے تھے اورسولہ مسلم ممبران۔
یہ صورت حال سامنے رہے اوربرٹش راج میں برطانوی افسروں اوراعلیٰ عہدے داروں کی ہیکڑی تومعروف ہی ہے۔ استعمار صرف استبداد کی زبان جانتا ہے اوراستبدادی رویہ اپناتاہے۔ اس ماحول میں رحمانیہ دارالحدیث دہلی کے گھرانے کا ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۷ء تک میونسپل کمیٹی دہلی پردبدبہ قائم تھا۔ اس گھرانے کے دوسپوت شیخ محمد عبداللہ اور شیخ حبیب الرحمن کا اس پرغلبہ تھا ۔ یہ پنجابی سوداگران دہلی کے نمائندہ ہوا کرتے تھے۔ شیخ حبیب الرحمن شیخ عطاء الرحمن رحمانیہ دارالحدیث کے بانی وناظم کے بیٹے تھے اور شیخ عبداللہ ان کے بھانجے تھے۔ برطانوی دوراستعمار میں دلی میونسپل بورڈ کا صدرڈپٹی کمشنر دلی ہوا کرتا تھا اوراس کے دونائب ہوا کرتے تھے سینئرنائب صدر اورجونیئرنائب صدر۔ یہ دونوں عہدے ہندوستانیوں کوملتے تھے۔ جونیئر نائب صدر اگرہندوہوتا تواسے رائے صاحب کا خطاب ملتا تھا اوراگر مسلمان ہوتا تواسے (خان بہادر) کا خطاب عطا ہوتا تھا ۔ درالحدیث رحمانیہ کے گھرانے کے ان دونوں معزز حضرات کو (خان بہادر) کا خطاب عطا ہوا تھا۔
۱۹۳۴ء میں شیخ حبیب الرحمن پنجابی سودا گران دہلی کے نمائندہ کے طورپر میونسپل کمیٹی دہلی کے ممبربنے۔ جس زمانے میں دہلی میونسپل کمیٹی کے ممبربنے اس وقت پارٹی سیاست کا چلن ہوچکا تھا اور کانگریس کے ٹکٹ پر کچھ ممبران جیت کر میونسپل کمیٹی میں پہنچے تھے لیکن عموما ڈپٹی کمشنرہی کمیٹی چلاتا تھا۔ یہ پارٹی لائن کا نہیں ہوتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اپنے بوتے پر الیکشن جیت کر میونسپل کمیٹی میں پہنچتے تھے، پارٹی کے نام پر کانگریس ہی کاعمل دخل تھا۔
۱۹۳۴ء میں الیکشن جیتنے کے بعد مسٹر آصف علی (بیرسٹر) نے یہ طے کیا کہ میونسپل کمیٹی کا صدر سرکاری ہونے کے بجائے منتخب ممبران میں سے غیر سرکاری ہونا چاہیے۔ اس کی خاطر انھوں نے میونسپل کمیٹی کے نوممبران دومسلمان سات ہندو کو لے کر پیپلز پارٹی بنائی اور اس کے لیے ہرسال ۱۹۴۵ء تک سول صدرمیونسپل کمیٹی کے لیے تحریک پیش کرتے رہے لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ شیخ حبیب الرحمن نے میونسپل کمیٹی میں داخل ہوتے ہی بڑی آسانی سے وہ سب کردکھایا جو دوسرے نہ کرسکتے تھے۔ وہ ملا واحدی کے میونسپل کمیٹی کے گیارہ افراد چھ مسلمان پانچ ہندو پر مشتمل بلاک کے ساتھ ہوگئے، اسے پروگریسیوپارٹی کا نام دیا جاتا تھا۔ ان کو اس پارٹی کا لیڈر تسلیم کرلیا گیا۔ پروگریسیو پارٹی میں شمولیت کے بعد وہ بیلنسنگ پارٹی نہ رہی مضبوط پارٹی بن گئی۔ ۱۹۳۷ء کے الیکشن کے بعد انھوں نے جونیئر وائس پریزیڈنٹ کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی اور حسب دستور انھیں (خان بہادر) کا خطاب ملا۔۱۹۴۰ء میں میونسپل کمیٹی کے وہ سینئر وائس پریزینڈنٹ منتخب ہوئے اور حسب دستورانھیں (او۔بی۔ای) کے خطاب سے نوازاگیا۔ ۱۹۴۶ء میں انھوں نے انگریزڈپٹی کمشنر سے صدرمیونسپل کمیٹی کا سرکاری عہدہ چھین لیا۔ انھیں انتخاب میں سوفیصد ووٹ مل گئے اوروہ میونسپل کمیٹی کے پہلے غیر سرکاری صدر بنے۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں تک وہ صدر میئر رہے۔۱۹۴۷ء میں ان کی حیثیت فرسٹ سٹیزن آف دہلی کی تھی۔
تیرہ سالوں تک استعماری دورمیں غیرمسلم اکثریت ممبران کے درمیان سول ممبران کے درمیان سب سے اونچے منصب پر جمے رہنا کچھ تواس دورکی دہلی کی ممتاز تہذیب کا اثر تھا اوربہت کچھ شیخ صاحب کی صاف ستھری اوربے داغ اجول شخصیت کا اثر تھا کہ سبھی ان کا احترام کرنے پر مجبورتھے۔ ان کی دانشمندی، بے لچک اصولی رویہ ، بے تعصبی، مفاد عام میں ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر فیصلہ لینے مشورہ دینے اورکام کرنے کا طریقہ سب کے لیے باعث کشش تھا۔ شیخ حبیب الرحمن نے میونسپلٹی کوکیسے چلایا، ان کا انداز کیسا تھا، ان کی شخصیت کیسی تھی اس بارے میں ملارموز واحدی اپنی خودنوشت ’میرا افسانہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’چالیس کی جمعیت میونسپل کے ممبران میں سولہ مسلم تھے اورچوبیس غیر مسلم اس کے باوجود میں نے اپنے زمانے میں ۱۹۳۴سے ۱۹۴۷دلی تک میونسپل کمیٹی پر اول خان بہادر ایس ایم عبداللہ کا غلبہ پایا۔ اورپھر خان بہادر شیخ حبیب الرحمن اوبی ای کا۔ایس ایم عبداللہ شیخ حبیب الرحمن کے حقیقی پھوپھی زاد بھائی تھے۔ شیخ حبیب الرحمن نے انگریز ڈپٹی کمشنرپرحکومت کی۔ ایکزیکٹیو اینڈ فائننس سب کمیٹی میونسپلٹی کی اہم ترین سب کمیٹی تھی۔ چار ہندواور چار مسلمان اس سب کمیٹی کے ممبرتھے۔ ڈپٹی کمشنرکسی سب کمیٹی کی صدارت نہیں کیا کرتا تھا صرف جنرل میٹنگ کی صدارت کیا کرتاتھا مگرایکزیکیٹواینڈ فائنس سب کمیٹی کی صدارت کرنے ضرور آتاتھا۔ میں بھی پانچ برس اس سب کمیٹی کا ممبررہا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لالہ دیس راج چودھری سے نے مسٹر لابیلی جیسے غصیل ڈپٹی کمشنر کی رائے نہ مانی توبالآخر لابیلی نے خان بہادر حبیب الرحمن سے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں۔ خان بہادر صاحب نے جواب دیا ۔ لالہ دیس راج کی رائے ٹھیک ہے۔ مسٹرلابیلی اس طرح چپ ہوگئے جس طرح پانی بتاشے میں بیٹھ جاتاہے اوربولے دوسرا معاملہ شروع کیجیے۔ ڈپٹی کمشنر کی مجال نہیں تھی کہ خان بہادرشیخ حبیب الرحمن کی رائے سے اختلاف کرے اورخان بہادر شیخ حبیب الرحمن کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے۔ ایک مرتبہ مسٹر لابیلی ڈپٹی کمشنر وصدر میونسپل کمیٹی نے خان بہادر حبیب الرحمن نائب صدرمیونسپل کمیٹی سے مشورہ کیے بغیر خان بہادر مرزا ممتاز حسین قزلباش سکریٹری میونسپل کمیٹی،جواسکندر مرزا کے دورمیں وزیر مغربی پاکستان تھے کو حکم دیا کہ ممبران کمیٹی کی انفارمل میٹنگ کرنی ہے۔ اطلاع نامہ جاری کردو کہ فلاں وقت سب ممبر میری کوٹھی پر آجائیں۔ مرزا صاحب نے صدر کے حکم کی تعمیل کردی۔ لیکن صدر کا یہ حکم نائب صدر کے مشورے کے بغیر مطابق دستورنہیں تھا۔ خان بہادر شیخ حبیب الرحمن نے بھی تمام ممبروں کو اسی دن اوراسی وقت کا بلا وا بھیج دیا کہ میری کوٹھی پرتشریف لائیے تمام ممبرخان بہادر شیخ حبیب الرحمن کے ہاں پہنچ گئے (سوائے سول سرجن اورسپرنڈنٹ آف ایجوکیشن کے ، یہ دونوں انفارمل میٹنگوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے) مسٹرلابیلی کے ہاں کوئی ممبرنہیں گیا ۔سرکاری ممبربھی خان بہادر شیخ حبیب الرحمن کے ہاں گئے۔ چیف کمشنرکو حال معلوم ہوا تواس نے مسٹر لابیلی سے کہا کہ خان بہادر شیخ حبیب الرحمن سے معافی مانگواورمسٹر لابیلی نے معافی مانگی۔ خان بہادر حبیب الرحمن مسٹر لابیلی کی ہدایت پرنہیں چلتے تھے مسٹر لابیلی کو خان بہادر شیخ حبیب الرحمن کی ہدایت پر چلنا پڑتاتھا۔
خان بہادر شیخ حبیب الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے بے حد متوازن دماغ عطا فرمایاتھا۔ وہ مسلمان ممبران کمیٹی میں سب سے زیادہ دولت مند تھے۔ ہندوممبروں میں بھی ان کے ٹکر کا ایک آدھ ہی تھا لیکن ان میں دولت مندی کی کوئی برائی نہ تھی ان کی جوانی میرے سامنے گذری ہے۔ جوانی میں گورنمنٹ دہلی نے انھیں آنریری مجسٹریٹ کی کرسی پر بٹھادیا تھا اور طوائفوں کو جامع مسجد کی پشت کی آبادی سے نکالنے اورشہر کے باہر بسوانے کی ڈیوٹی سپرد کی تھی۔ یہ ڈیوٹی انھوں نے ایسی خوبی سے سرانجام دی کہ خلقت واہ واہ کرنے لگی۔ انگریزوں کی قوم صحیح معنوں میں جمہوریت نواز ہے ۔ انگریز حکام معمولی ممبران کمیٹی کی بھی عزت کرتے تھے کہ یہ پبلک کے نمائندے ہیں۔ پھر خان بہادر شیخ حبیب الرحمن تونمائندوں کے نمائندے تھے اس پر ان کا کردارسونے پرسہاگہ تھا انگریز بے خبر نہ رہتے تھے ۔ انھیں معلوم تھا کہ جملہ ممبران ان کی بات مانتے ہیں ۔ علاوہ ازیں خان بہادر شیخ حبیب الرحمن نے انگریزوں سے عدم تعاون نہیں کیا۔ انگریزوں کی معقول بات بے تامل مانی اور اپنی بات انگریزوں سے منوائی۔ میں خان بہادر شیخ حبیب الرحمن کی پارٹی میں تھا لیکن مجھے خان بہادر صاحب نے اجازت دے رکھی تھی کہ جس معاملے کو اپنے نزدیک مناسب نہ سمجھوں اس میں ان کے ساتھ ہاتھ نہ اٹھاؤں ۔ تاہم کئی کئی سال میں ایک ہی دوموقع اس نوع کے آتے تھے کہ میں ان کا ساتھ نہ دیتا تھا۔ دولت مند ممبرٹیکس لگاتے تھے تواپنا مفاد نہیں بھولتے تھے خان بہادر شیخ حبیب الرحمن نے پہلا ٹیکس سگرٹوں پر لگایا جس کے حاجی شیخ عطاء الرحمن صاحب (خان بہادر کے والد ماجد) ہندوستان میں سول ایجنٹ تھے۔ اوردوسرا جائداد کا بڑھایا جو حاجی شیخ عطاء الرحمن صاحب کے پاس مسلمانوں میں نمبراول کی تھی۔ یہ دوسرا ٹیکس اس خوش اسلوبی سے بڑھایا کہ عوام نے میٹنگ کے دوران خان بہادر شیخ حبیب الرحمن اوران کی پارٹی پر بے تحاشا پھول برسائے۔(میرا افسانہ: ص۱۳۹۔۱۴۱)
یہ ہے دلی کے ایک متمول شریف دیندار وضع دار شیخ عطاء الرحمن بانی رحمانیہ دارالحدیث کے گھرانے کی مختصر کہانی۔ اندازہ لگائیے اس اقتباس سے کہ اچھے شریف دیندار گھرانے کے دل بند کیسے ہوتے ہیں اور رب کریم ان کے اخلاق وکردار اور شخصیت کو کیسے سنوارتا ہے اور کس طرح وہ عادل انصاف پسند اورامانت دارہوتے ہیں۔ اورحکمرانی کرنا کس طرح جانتے ہیں کہ ان کے طرز حکمرانی پر عوام فدا ہونے کے لیے تیاررہتی ہے اوریہ اوصاف لمحاتی طور پرنہیں ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ ان کی پہچان ہوتے ہیں اوران کی ہرحرکت ونشاط اورسرگرمی میں نمایاں ہوتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ کا گھرانہ دلی کے مسلمانوں میں سب سے متمول گھرانہ تھا بلکہ پوری دلی میں دولت وثروت میں ایک غیرمسلم کے بعددوسرے نمبرپرتھا ۔ اس گھرانے کا ہرفرد متواضع صالح فیاض کشادہ دست غریبوں کا ہمدرد اورسب کا بہی خواہ تھا۔ ’رحمانیہ دارالحدیث‘ برصغیر کی تاریخ علم وثقافت میں ایک بے مثال اور ممتاز ادارہ تھا اوراپنے دورمیں ندوہ ودیوبند کے ٹکرکاتھا۔ ستائیس سال (۱۹۲۰ء۔ ۱۹۴۷ء) تک یہ ادارہ چلا اوراپنا فیض عام کیا اس کے فارغین ادارہ کے تعلق سے رحمانی نسبت کرتے تھے جس کے نام کے ساتھ رحمانی نسبت ہوتی وہ اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ فرد ثقہ اور عالم باعمل ہے اورمعتبرہے۔ اس کا کل خرچہ تعمیر مدرس تک یہی گھرانہ اٹھاتاتھا۔ مدرسہ کے سارے مصارف کا بار اس گھرانے کے جیب پر تھا اورنقد خرچ کیا جاتاتھا یہ تمام مدارس سے معیاری تھا ہرشے میں۔ تنخواہ طلباء کی خوراک رہائش آسائش ہرشے کومفت اوربسااوقات ان کے کپڑوں بستر اور جیب خرچ کا بھی انتظام۔ خدمت دین کی یہ شاہکار مثال غیر سرکاری طورپر ایک تاجر کے ذریعے سننے دیکھنے میں نہیں آئی۔ تقسیم ہند میں جہاں دلی اجڑی یہ مدرسہ بھی اجڑا پورا گھرانہ کراچی کوچ کرگیا اورمدرسہ اور اس کاسارا اثاثہ جامعہ ملیہ کو سونپ گیا۔ اب اس میں شفیق میموریل سکنڈری اسکول قائم ہے۔ سنا ہے مولانا آزاد اسے دہلی بچے کھچے اہل حدیث تجار کو واپس دلا دیتے تھے لیکن کسی نے ہمت نہ کی۔ کسی کے لیے ایک شاہکار کا بوجھ اٹھانا خود کو رسوا کرنے کے مترادف تھا۔ دولت وثروت کی نعمت اورکرم اللہ کا کہ دولت مندی کی کوئی برائی نہیں ۔اس میں گھرانہ بے مثال۔ خدمت دین کی توفیق، اس میں بھی گھرانہ بے مثال اور خدمت خلق اورحکمرانی کی توفیق اوراس میں بھی گھرانہ بے مثال۔ ایسے بے مثال گھرانے روز روز کہاں وجودمیں آتے ہیں۔
دراصل جب حق کی روشنی قلوب واذہان میں پھیلتی ہے تولوگوں کی شخصیت اورصلاحیت نکھر جاتی ہے۔ جس وقت مسلک اہل حدیث پوری طرح کارفرما تھا اس سے وابستہ ہرطبقہ کے لوگوں کے اندر ہیرے پیدا ہوئے۔ دلی میں اس کے گھرانے کے علاوہ حاجی علی خان کا گھرانہ تھا اس گھرانے کا ذکربھی اس کتاب میں ہے۔ حافظ حمیداللہ کا گھرانہ تھا پنجابی سودا گران دہلی میں ایسی کئی مثالیں تھیں دلی لٹی توسب کچھ لٹ گیا۔ تہذیب لٹ گئی ، شرافت لٹ گئی وقار غائب ہوگیا۔ اب دلی پناہ گزینوں کا شہر ہے بے پہچان، بلا تہذیب لوگ کباڑی سے دولت مند بن گئے۔ دولت کمانے کی ساری برائی اوردولت مندی کی ساری برائی۔ تہذیب وشرافت کا منہ چڑانا ثروت اوردولت کا کام رہ گیاہے۔ والعیاذ باللہ۔ وہ وجاہت وہ ثروت، وہ خدمت دین اورخدمت خلق اورحکمرانی کے اوصاف کہاں مل سکتے ہیں ۔ اسی دلی میں اب مسلک کے سوداگروں کا دوردورہ ہے اورمال خیانت سے کچھ کھرچن پاکر سارے پاپیوں کو امام بنانے میں سبقت لے جانے کی کوشش ہوتی ہے ۔
شہر دلی کے کتنے عمائد ہیں جو تقسیم ہند کی خزاں کی نذر ہوگئے، اب تو چھٹ بھیے بھی صفحات تاریخ میں اپنا نام ثبت کرانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ اگر انھیں ان میں جگہ نہ ملے تو مجرمانہ حرکتیں کرتے ہیں تاکہ اخباروں میں نام آجائے۔ بہت سے بھگوا رنگ والوں کی چاکری کرکے نام کمانے کا سرمیں سودا پالے ہوئے ہیں۔ اگرمسلم رؤساء اور شرفاء نام کے نہیں اصلی اسلاف کا کردار آج کے خودساختہ قائدین ادا کرنے کی سکت پیدا کرلیں توموہن بھاگوت بھی ان کے پاؤں پکڑنے آجائے گا۔
آج شیخ عطاء الرحمن اوران کے گھرانے ،حاجی علی اور ان کے خاندان کو کون جانتا ہے جب کہ سارے شہر دلی میں ان کا طوطی بولتاتھا۔ان کی دین داری، خدمت خلق، فیاضی، خدمت دین کے لیے سرگرمیاں، ان کی سیاسی وسماجی خدمات ہرحلقے میں معروف تھیں۔
’تلک الأیام نداولھا بین الناس‘ کی یہی کہانی ہے۔ آج کسی کا زمانہ ہے، کل کسی اور کا زمانہ۔ آج کسی کو ترقی دولت و ثروت اور حکومت ملی ہوئی ہے۔ کل کسی اور کے ہاتھ میں یہ سب مستقل ہو جاتا ہے۔ ’ان الحکم الا للہ‘ کا عمل دنیا میں جاری رہتا ہے۔ جب کسی قوم یا جماعت کے اجتماعی گناہ اکٹھا ہوجاتے تو انھیں زوال، تنزل اور بربادی سے کوئی نہیں بچا پاتا۔ اس وقت اچھے افراد بھی پوری جماعت اور قوم کے انجام سے اس دنیا میں دو چار ہوئے ہیں۔ آخرت میں ان کا حشر صالحین کے ساتھ ہوتا ہے۔
مسلمانوں نے اس حیات دنیوی میں اسباب تمکن اور غلبہ کو کلی طور پر چھوڑ دیا ہے توحید، اتباع، وحدت، انصاف اور جدو جہد ایک مسلمان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کاثرہ نے ان سب سے ہاتھ دھو لیا ہے۔ افراد اور قلت قلیلہ کی ہدایت اور درستگی سے کثرت کاثرہ کو غلبہ و اقتدار اور شوکت و تمکن نہیں مل سکتا۔ صلیبی استعمار نے ہندوستان میں یہاں کے باشندوں پر حکومت کی اور ان سے اقتدار چھین لیا۔ سماج کے اچھے اور نیک مسلم افراد کی نیکی استعماریوں کو مسلمانوں پر حکومت کرنے سے نہ روک سکی۔
Ahh….we lost our roots