مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس کے چار فارغین کا نام بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا رہا ہے، انھی میں سے ایک فاضل مؤلف مولانا رفیع احمد مدنی صاحب بھی ہیں۔ تالیف کے کریڈٹ میں مولانا کا نام رفیع احمد بن محمد عاقل (دارالسلام، سڈنی، آسٹریلیا) لکھا ہوا ہے۔
باقی تین فضلاء بنارس مشہور محقق مولانا محمد عزیر شمس صاحب، مفکر جماعت مولانا عبدالمعید مدنی صاحب (علی گڑھ) اور مدیر جمعیۃ التوحید الخیریۃ، کپل وستو نیپال ڈاکٹر بدرالزماں نیپالی صاحب ہیں۔
اس کتاب سے پہلے مؤلف موصوف کے چھ سات مضامین ہی میری نظر سے گزرے ہیں جو فری لانسر پورٹل پر موجود ہیں۔ اختلافی معاملات میں بھی مولانا جو شائستگی برتتے ہیں وہ ہم سب طلباء کے لیے نمونہ ہے۔ زبان حسب ضرورت و مضمون عام فہم ہوتی ہے، حالانکہ ان کے مخاطب بالخصوص علماء اور طلباء ہی ہوتے ہیں، کسی بھی مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا منطقیت و معروضیت سے نہیں ہٹتے۔ زیر نظر موضوع پر مولانا محفوظ الرحمن فیضی صاحب کی تالیف تو میں نے نہیں دیکھی ہے البتہ مولانا رفیع صاحب نے پچاس صفحات (ص۶۸ تا۱۲۲) پر رکوع کے بعد ارسال، وضع یا رفع الیدین کی جو تاریخ لکھی ہے وہ خالی الذہن ہوکر راجح مسئلہ جاننے والے کے لیے کافی و شافی ہے۔ علماء کے علاوہ جن لوگوں کی دلچسپی ایسے مسائل میں بنتی اور پھر بڑھتی جاتی ہے انھیں نظرثانی کرنا چاہیے اپنے دینی مزاج پر اور دین اسلام کے مزاج سے میچ کرکے دیکھنا چاہیے کہ منتازعہ مسئلے کی حیثیت اور اس سےجڑے تمام معاملات و تعلقات کی نوعیت کیا ہے، دین میں کہاں کتنا توسع ہے اور بین المسلمین تعلق کا تقاضا کیا ہے۔ دین ہٹ دھرمی کو بڑھاوا کبھی نہیں دیتا اور مختلف فیہ مسائل میں دلیل اہم ہوتی ہے، پسند اور ناپسند نہیں۔
ایک طرف خشوع وخضوع جیسی سپورٹنگ دلیلوں کی بنیاد پر بات بنائی جاتی ہے اور دوسری طرف وہی مزاج تعلقات میں روادار تک نہیں ہوتا، یہ تضاد ہے اور قابل غور وفکر بھی۔
جس طرح اس مسئلے میں سجدے میں جانے تک ہاتھ اٹھائے رکھنے(رفع الیدین) کی بات اٹھی اور ختم ہوگئی، رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کی بات بھی آئی گئی ہوسکتی تھی، مگر بہت سارے دیگر مسائل کی طرح اس کی تقدیر میں زندگی لکھی تھی اسی لیے مولانا عبدالوہاب ملتانی صدری دہلوی نے سب سے پہلے اس کا ذکر اپنی کتاب ’’ہدایت النبی المختار‘‘ (مطبوعہ۱۸۹۳) میں کیا۔(ص۷۸-۷۹) دوبارہ ’’اخبار اہل حدیث‘‘(امرتسر) میں یہ مسئلہ اٹھا۔ (ص۷۹) لیکن اس مسئلے نے زور تب پکڑا جب قاضی یوسف حسین خان پوری صاحب نے اس کی پرزور وکالت شروع کی (ص۸۴) سید بدیع الدین شاہ صاحب نے تو۱۹۴۵ میں جب اس پر عمل شروع کیا تو پھر اس کی تبلیغ میں اپنی ساری صلاحیت جھونک دی۔۱۴ کتابیں لکھیں، کئی فتاوے لکھے اور کچھ مناظرے بھی کیے۔ (ص۹۳-۹۴) شیخ ابن باز کی موافقت کے بعد تو سید بدیع الدین صاحب کی تحریک نے اور زور پکڑلیا۔ حالانکہ ان کے بھائی سید محب اللہ شاہ صاحب ارسال یعنی ہاتھ چھوڑنے کے قائل تھے اور اس پر انھوں نے محدثانہ طرز کی ایک کتاب ’التحقیق الجلیل‘ تالیف کی (ص۱۰۳) بھائی بدیع الدین نے صرف جواب نہیں لکھا اس کتاب کا، باقی اپنی وفات تک اسی کی ترویج واشاعت میں لگے رہے۔(ص۱۱۱) ایک قابل ذکر عالم دین مولانا اللہ بخش تونیہ صاحب جو پہلے ہاتھ باندھنے کے قائل تھے یہ کتاب پڑھ کر ہاتھ چھوڑنے لگے اور ارسال کی تبلیغ بھی شروع کردی۔ (ص۱۰۵)
بیسویں صدی کے آغاز تک تو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا یہ مسئلہ دہلی سے گونڈہ تک ہی پہنچا تھا، شیخ ابن باز اور شیخ محمد بن صالح العثیمین کی تائید اور تالیف کے بعد عالمی سطح کا معاملہ بن گیا جس کے رد میں علامہ البانی کو بھی کتاب لکھنا پڑا۔ محدث عبداللہ روپڑی اور حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے بھی اس کے رد میں لکھا۔
مولانا رفیع صاحب کی یہ کتاب ۳۴۴ صفحات پر مشتمل ہے، ۴۶ صفحات پر ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی کا وقیع مقدمہ ہے، تقریظ استاد ابوالقاسم فاروقی صاحب نے لکھی ہے جو۶ صفحات پر محیط ہے، سید محب اللہ شاہ راشدی اور سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہما اللہ کے پوتے سید انور شاہ راشدی کے تاثرات بھی ۳ صفحات میں شامل کتاب ہیں۔ تقریباً نو صفحات پر مؤلف کتاب نے حرف اول لکھا ہے جس میں اس کتاب کی وجہ تالیف بھی لکھی ہے۔
تیسرا موقف جو رفع الیدین کا تھا اس کے پرچارک ایک ہی قابل ذکر صاحب علی گڑھ کے تھے، ان کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ختم ہوگیا تھا جس کا ذکر اس کتاب میں صرف تین صفحات میں سمٹ گیا ہے۔
ہاتھ باندھنے کے دلائل کا تحقیقی جائزہ ص۱۲۸ سے ۲۷۸ تک یعنی کل۱۵۱ صفحات پر محیط ہے۔ فاضل مؤلف رکوع کے بعد ہاتھ کھولنے کے ہی قائل ہیں اس کے باوجود انھوں نے جوابی کتاب لکھنے کے بجائے علمی جائزہ کا طریقہ چنا اور اس باب میں موجود تمام طرح کے دلائل اور طرز استدلال کے ساتھ پوری تاریخ ذکر کرکے عالمانہ انداز میں نہ صرف یہ کہ اس کا بہترین علمی تجزیہ کیا ہے بلکہ حق کے ہر متلاشی کے لیے زیربحث مسئلے کو سمجھنا بہت آسان کردیا ہے۔ جس موقف پر اجماع نقل کیا گیا ہے اسے اختیار کرنے کے بجائے خشوع و خضوع کے نقطہ نظر سے دور ازکار دلیلیں پیش کرنا اور غیر منطقی تاویلیں کرنا اہل سنت و جماعت کا طریقہ نہیں ہونا چاہیے، مؤلف نے اس رویے پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور اپنے حرف اول میں فیجی کے جن ناگفتہ بہ حالات کا تذکرہ کیا ہے وہ شذوذپسندی کی ایک نمایاں مثال ہے۔
کچھ طبیعتیں ایسی ایجاد پسند ہوتی ہیں کہ اپنے نقطہ نظر کے اثبات میں سود و زیاں کی مصلحتوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیتی ہیں۔ ایسے مسئلے کا پیدا ہونا اور پھر ایک صدی سے بھی زیادہ مدت تک زندہ رہنا، وقتاً فوقتاً موضوع بحث بنتے رہنا اور علماء اہل حدیث کے درمیان مناقشہ کا محور بننا یہ سب ایسے معاملات ہیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ اردو زبان جاننے والوں کے لیے مؤلف کی طرف سے یہ بہت ہی خوبصورت تحفہ ہے جس میں ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے، اس مسئلے کو مولانا رفیع صاحب نے ایک بہت ہی بہترین موڑ دیا ہے، اس پر علماء انھیں مبارک باد دیں، ہم طلباءشکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ اللہ رب العالمین اس عظیم علمی کاوش پر انھیں بہترین اجر دے اور پڑھنے والوں کو زیربحث مسئلے کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
مؤلف کا اپروچ اس قدر منطقی ہے کہ کم سے کم انگریزی اور عربی زبان میں اس کتاب کا ترجمہ ضرور ہونا چاہیے۔ سعودی عرب جاکر اہل علم کی دیکھا دیکھی عموما پڑھے لکھے طبقے نے ہی اس پر عمل شروع کیا ہے۔ جو مزید تحقیق کرسکتے تھے انھوں نے دستیاب مواد کا مطالعہ کرکے اسے سنت سمجھ کر ہی اپنایا ہے۔ ایسے تمام لوگوں تک یہ مفصل تحقیقی جائزہ ضرور پہنچنا چاہیے۔
اس کتاب کی قیمت۳۰۰ تو صفحات (۳۴۴) کے مقابلے کم ہی ہے، مرشد پبلیکیشن کی طرف سے رعایت ملنے کا بھی پورا امکان ہے۔ سرورق سے اچھا تو پس ورق ہے، کتاب کی تھیم کو بڑے موافق کلر ٹون سے سنوارا گیا ہے۔ مرشد پبلیکیشن کی یہ آٹھویں اشاعت کاغذ اور طباعت کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔ اپنے موضوع پر مرجع کی حیثیت رکھنے والی اس کتاب کے ۱۲۷ مراجع ومصادر کتاب کے آخری ۱۱صفحات (ص۳۳۳ تا ۳۴۳) پر مذکور ہیں۔ ۵۳ صفحات(ص۲۷۹ سے۳۳۱ تک) میں تو ہاتھ چھوڑنے کے دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کا نام جاننے کے بعد صفحات کی تعداد دیکھو تو عجیب سا لگتا ہے۔ موضوع بظاہر چھوٹا ہے مگر سعودی عرب میں شیخ ابن باز اور شیخ محمد بن صالح العثیمین کے علاوہ شیخ الجبرین، شیخ سعید قحطانی، شیخ حمود بن عبداللہ التویجری، ڈاکٹر سعود الشریم، ڈاکٹر عبدا لرحمن السدیس، ڈاکٹر وصی اللہ عباس اور شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے عمل کی وجہ سے بڑا ہوگیا ہے۔ اس پس منظر میں ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی کے مقدمے کی اہمیت بھی مزید بڑھ جاتی ہے۔
علماء اور طلباء کے لیے تو ’’رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا-ایک علمی جائزہ‘‘انتہائی مفید کتاب ہے، مرشد پبلیکیشن دہلی (8010026912)کے علاوہ یہ کتاب مکتبہ ترجمان دہلی، عاقل انٹرنیشنل کانپور، دارالکتب الاسلامیہ دہلی اور مکتبہ الفہیم مئوناتھ بھنجن یوپی سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
شیخ تویجری سے پتہ نہیں آپ نے کون سے تویجری کو مراد لیا ہے(حمود بن عبد اللہ التویجری یا شیخ عبد العزیزبن صالح التویجری )
مگر شیخ ربیع بن ھادی المدخلی تو بہ شدتِ تمام رکوع کے بعد قبض کے قائل بھی تھے اور فاعل بھی
عبد السلام صاحب تبصرے کا بہت بہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیرا۔ تبصرے میں جن تویجری صاحب کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے البانی صاحب کی صفت صلات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا۔ وہ بہت معروف ہیں۔ ان کا نام محمود بن عبد اللہ التویجری الحنبلی ہے۔ شیخ ربیع کے بارے میں آپ کی افادات کا مصدر کیا ہے مجھے نہیں معلوم۔ اس لنک میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شیخ نے واضح طور سے ارسال کی تائید کی۔ http://m-noor.com/showthread.php?p=31516 واضح نہیں ہوسکا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ تبصرہ نگار نے ان دونوں شخصیات کی طرف قبض… Read more »
جی شیخ رفیع أحمد صاحب مدنی !
میرے خیال سے محمود بن عبد اللہ التویجری نہیں‘بلکہ حمود بن عبد اللہ التویجری ہیں(میری معلومات کی حد تک) آپ کی مشہورِ زمانہ کتاب (القول البلیغ فی التحذیر من جماعۃ التبلیغ)ہے
دوسری بات میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شیخ ربیع ہمیشہ علامہ البانی کے موقف پر قائم رہے‘اور تبصرہ میں (ہاتھ باندھنے کے قائل علمائے کرام کے ضمن میں شمار کیا گیا ہے)تبصرہ کا آخری پیرا گراف ملاحظہ کر لیجئے
آپ کا شکریہ شیخِ گرامی
بقیہ آپ اپنی کتاب کا پی ڈی ایف مجھے عنایت فرمادیں تو مشکور ہوں گا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
شیخ کتاب ابھی ابھی شائع ہوئی ہے، لہٰذا پی ڈی ایف کا مطالبہ کرنے کے بجائے کتاب خریدنے کے لیے ناشر سے رابطہ کریں۔
جزاک اللہ خیرا
کتاب کے بارے میں تو کتاب پڑھنے کے بعد ہی کہا جا سکتا ہے لیکن کتاب پر تبصرے میں آپ کا جھکاؤ ارسال ید کی طرف ہی ہے۔