علامہ علی طنطاوی(۱۹۰۹-۱۹۹۹)

صہیب حسن مبارکپوری تاریخ و سیرت

تلخیص و ترجمہ از مقالۃ ”أديب العربية الشيخ علي الطنطاوي“ بقلم : الأستاذ محمد وثيق الندوي- ملاحظہ ہو”رجال من التاریخ“ لعلي الطنطاوي ص ۱-۱۴. ط: احسان بکڈپو لکھنؤ (۲۰۰۹م). وتاريخ العربية وآدابها لمحمد الفاروقي ومحمد إسماعيل المجددي ص ۱۸۹. والمسلمون فی الہند للشیخ ابی الحسن الندوی (مقدمہ از علی طنطاوی)
استاذ علی بن مصطفی بن محمد طنطاوی جون۱۹۰۹ءمیں دمشق میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ دینی و علمی اعتبار سے شہرت رکھتا تھا ۔ آپ کے والد اور دادا دونوں معروف عالم دین اور چچا ازہری عالم تھے۔ آپ کے ماموں علامہ سید محب الدین الخطیب(متوفی۱۳۸۹ھ)معروف و مشہور مؤرخ اور صحافی، لائق وفائق انشاءپرداز اور اسلام پسند ادیب تھے۔ آپ کا آبائی وطن مصر کا شہر ’’طنطا‘‘ہے ۔آپ کے دادا آپ کے چچا کے ساتھ دمشق آگئے تھے۔ آپ نے دمشق کے مدرسہ تجاریہ سے۱۹۱۸ءمیں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۱۹۲۳ء تک مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی اور اسی سال ’’مکتب عنبر‘‘ میں داخل ہوئے اور ۱۹۲۸ءمیں وہاں سے بی اے کیا ۔پھر آپ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے مصر کے دارالعلوم العلیا میں داخل ہوئے جہاں سید قطب آپ کے ہم درس تھے۔ آپ سال مکمل کرنے سے پہلے ہی دمشق آکر لاء کالج میں پڑھنے لگے اور ۱۹۳۳ءمیں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
دس سال کی عمر میں والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا ،بعد ازاں آپ تجارت میں لگ گئے لیکن جلد ہی اللہ نے آپ کو اس سے ہٹا کر لکھنے پڑھنے میں لگا دیا یہاں تک کہ اس کی توفیق سے آپ نے اپنی تعلیم مکمل کر لی۔
دادیہال اور نا نیہال کے خالص علمی ماحول نے آپ کی شخصیت کے بننے، سنورنے اور نکھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیں آپ علامہ محمد کرد علی، سلیم الجندی، محمد المبارک اور مصطفی برمدا جیسے افاضل علماء کی علمی مجالس سے بھی مستفید ہوتے تھے اور دمشق کی المجمع العلمی کے لیکچرز میں پابندی کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ مختلف بلاد وامصار کے اسفار نے آپ کی عقل کے دریچے کھول دیے تھے اور آپ کے علم و تجربے میں خوب اضافہ کر دیا تھا ۔آپ کا بیان ہے کہ ’’میں روزانہ سو صفحہ اور کسی دن تین سو صفحہ مطالعہ کر لیتا ہوں اور مسلسل۶۲ سالوں(۱۳۴۰ھ سے ۱۴۰۲ھ) تک میرا یہی معمول رہا ہے‘‘۔
استاد علی طنطاوی نے جملہ علوم و فنون کی کتابیں مطالعہ کیں ۔ادب وتاریخ، علوم دینیہ اور ثقافت عامہ وغیرہ سب کچھ پڑھا۔ دور جاہلی سے لے کر دور عباسی تک کے سیکڑوں قصیدے آپ کی نوک زبان تھے۔ آپ کی علمی جلالت شان اور ناقدانہ بصیرت آپ کی تصانیف سے ظاہر و باہر ہے۔
صحافت سے آپ کا تعلق نوعمری ہی سے ہو گیا تھا۔ ۱۹۲۶ءمیں جریدۃ ’’المقتبس‘‘ میں آپ کا پہلا مقالہ شائع ہوا ۔اس وقت آپ کی عمر صرف سترہ(۱۷) سال تھی۔ آپ کے مقالات آپ کے ماموں علامہ سید محب الدین الخطیب کے دومجلے ’الفتح‘ اور ’الزھراء‘ میں اور جریدہ ’فتی العرب، الف باء، الأیام، الناقد، الشعب، المسلمون، النصر‘، أحمد حسن الزيات کے مجلہ’الرسالۃ‘، مکہ مکرمہ کے مجلہ ’الحج‘ اور جریدہ ’المدینۃ‘میں شائع ہوتے تھے ۔ان مجلات میں آپ ’الأيام‘کے مدیر التحریر اور زیات کے بیمار ہونے پر ان کے مجلہ کے رئیس التحریر بھی رہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں’الشرق الأوسط‘ میں تقریبا پانچ سال ’ذکریاتی‘ (یادوں کے جھروکے سے) کے عنوان سے مسلسل مضامین لکھے۔
صحافت کی طرح تدریسی میدان میں بھی آپ نے اوائل عمری میں ہی قدم رکھ دیا تھا۔ ۱۳۴۵ھ سے کچھ پرائیویٹ مدرسوں میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۳۱ءمیں حکومت کے مدارس میں ابتدائی معلم ہوگئے۔ فرانسیسی استعمار اور حکومت میں اس کے اعوان وانصار کے خلاف پوری جرأت اور بے باکی سے آواز اٹھانے کے جرم میں بکثرت ٹرانسفر کیا گیا۔ اس طرح آپ نے پورے سیریا کا ایک جانب سے دوسری جانب تک چکر لگایا۔ ۹۳۶ءمیں آپ عراق منتقل ہو گئے اور بغداد، اعظمیہ، کرکوک اور بصرہ کے ثانوی مدرسوں میں تدریسی خدمات انجام دیں پھر آپ دمشق واپس آئے اور وہاں کے سرکاری ثانویہ ’مکتب عنبر‘ میں اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔
استاذ طنطاوی ۱۹۴۱ء میں جج بنائے گئے پھر ۱۹۴۳ء سے ۱۹۵۳ء تک ممتاز وفائق جج کے مقام سے سرفراز رہے، مصر کے ساتھ اتحاد کے زمانے میں قاہرہ کی سپریم کورٹ کے مشیر رہے۔۱۹۴۷ءمیں پرسنل لاء تیار کرنے اور۱۹۶۰ءمیں اوقاف کے قانون اور ثانوی مدارس کے نصاب کی تبدیلی میں شریک و سہیم رہے۔
۱۹۶۳ءمیں فوجی انقلاب اور ایمرجنسی کے اعلان کے بعد آپ سیریا سے سعودیہ عربیہ آ گئے اور ۱۹۹۹ءمیں اپنی وفات تک ۳۵ سال کا طویل عرصہ سعودیہ ہی میں گزارا۔ اس طویل مدت میں آپ نے ریاض کے کلیۃ الشریعۃ اور کلیۃ اللغۃ العربیۃ کو اپنی خدمات پیش کیں پھر مکہ مکرمہ کے کلیۃ التربیۃ میں مدرس رہے۔ التوعیۃ الإسلامیۃ کے پروگراموں کے لیے پرجوش رہتے۔ طلبہ کے افادہ کے لیے وہاں کے مدارس و جامعات میں اپنے دروس ولکچرز کا اہتمام کرتے۔ عام لوگوں کی رہنمائی اور ان کے سوالات کے جواب کے لیے حرم مکی اور اپنے گھر میں بیٹھتے۔ پھر آپ نے ریڈیو پہ ’’مسائل ومشکلات‘‘ کے عنوان سے اور ٹیلی ویژن پہ ’نور وہدایۃ، رجال من التاریخ اور ’علی مائدۃ الإفطار‘کے عناوین کے تحت اپنا پروگرام شروع کیا اور یہ سلسلہ چوتھائی صدی تک چلتا رہا، اسی طرح اردن، بغداد اور دمشق کے ریڈیائی پروگراموں میں بھی آپ کی شرکت رہی۔
استاذ طنطاوی کو عالم اسلامی وعربی اور یورپین ممالک کی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بکثرت دعوت نامے موصول ہوتے اور آپ ان میں شرکت بھی کرتے۔ ۱۹۹۰ء میں آپ اپنی متنوع خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے۔
استاذ طنطاوی نے دینی، سیاسی، سماجی، تعلیمی، تربیتی، دعوتی اور فقہی ہر میدان میں اصلاح کی کوششیں کیں۔ بدعات وخرافات اور خلاف شرع رسوم عادات کی پرزور مخالفت کی۔ قرآن کریم کی زبان -عربی زبان- کی اہمیت و فضیلت اور اس کی عظمت و بلندی کا نعرہ لگایا اور اس کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر رہے۔ مصر میں جمال عبد الناصر کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عالم اسلام سے جو آوازیں اٹھیں ان میں ایک آواز آپ کی بھی تھی۔ سوریا میں فرانسیسی استعمار کے خلاف اپنی سحربیانیوں اور شعلہ بار تقریروں نیز قومی و اشتراکی نظریات سے تعرض کے نتیجے میں حوالہ زنداں کیے گئے۔
دیگر زبانوں سے منتقل ہو کر عربی زبان میں داخل ہونے والے کلمات کے متعلق استاذ طنطاوی کا نظریہ یہ تھا کہ ان کی تعریب یا بدیل ڈھونڈنے کے بعد ہی ان کا استعمال کیا جانا چاہیے جیسے لفظ ’ٹیلیفون‘کا بدیل لفظ ’الرائی‘اور لفظ ’ریڈیو‘کا بدیل لفظ ’الراد‘اختیار کیا گیا اور لفظ ’کیلو‘ کی تعریب لفظ ’کیل‘ کے ذریعہ کی گئی۔ شیخ نے ہمیشہ فصیح زبان، بلند پایہ ادب اور موزوں وفصیح وبلیغ شاعری کا دفاع کیا اور سوقیانہ ادب کے خلاف رہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ استاذ طنطاوی پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے نبیﷺکی سیرت کی روشنی میں’ابو جہل‘کے عنوان سے ایک اسلامی ڈرامہ تحریر کیا۔ توفیق الحکیم کا ڈرامہ ’محمد ﷺ‘ آپ کے ڈرامے کے بعد لکھا گیا ہے۔ گویا آپ نےرسول اللہ ﷺ کے متعلق ڈرامہ نگاری کا ایک قابل اتباع نمونہ فراہم کیا۔ اس ایک ڈرامہ کے بعد آپ نے کوئی ڈرامہ نہیں لکھا ۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ نے توفیق الحکیم کو سیرت کے واقعات پیش کرنے میں مُلْہَم اور اپنا ترجمان پایا۔ لہٰذا آپ نے اپنی توجہ قصہ وکہانی کی طرف مبذول کرلی ۔ قصہ نگاری اور أحداث وواقعات کا سراپا پیش کرنے میں انسانی زندگی کے مراحل اور ان کی نفسیات کا پورا پورا خیال رکھا۔
اسلوب تحریر:
شیخ کا اسلوب تحریر مفید، دلچسپ اور آسان ہوتا ہے۔ قوت ترکیب، ہم آہنگی اور الفاظ کی شیرینی اس کا خاص وصف ہے ۔جس وقت آپ ان کی تحریر پڑھیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ وہ آپ سے مخاطب ہیں اور آپ ان کی طرف ہمہ تن گوش ہیں ۔یہ شیخ کا خاص اسلوب ہے جس کے ذریعے وہ پہچانے جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ وہ اسلوب پہچانا جاتا ہے۔ چٹکلے، لطیفے اور طنز و مزاح کی وجہ سے بھی آپ کی تحریر بہت پسند کی جاتی ہے ۔اسی طرح منظر نگاری اور وصف بیانی میں بھی آپ کو امتیاز حاصل ہے۔ چنانچہ آپ نے دمشق، غوطہ دمشق اور بردی کی نہر کا اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ کیا ہے۔
استاذ طنطاوى رومانوی ادب کے سخت مخالف تھے۔ اس کی قباحتوں اور اس کے منفی پہلوؤں کو طشت ازبام کرتے ہوئے آپ نے شعراء وادباء کو اس بات پر ابھارا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اچھائیاں عام کرنے میں لگائیں۔ وہ برائیوں سے صرف نظر کرکے صرف اچھائیاں اخذ کریں اور انھی کی نشرواشاعت کی کوشش کریں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
”الدنيا ليل ونهار، وشتاء وربيع، وموت و ولادۃ إنها كالقمر، له جانب مظلم وجانب مضيء، فمن ملأ قلبه ظلام اليأس لم ير إلا الجانب المظلم مع أنه خفي لا يرى…
لا تعش لنفسك وحدها، بل عش لها ولأمتك، فكر بعقلها، اشعر بشعورها، وأدِّ ما يجب عليك لها…“.
”… ودعونا من أدب لامارتين وموسية“.
” دنیا میں رات کے ساتھ دن بھی ہے، ٹھنڈک کے ساتھ موسم بہار اور موت کے ساتھ پیدائش بھی ہے، دنیا چاند کی مانند ہے، اس کا ایک پہلو تیرۂ وتاریک اور دوسرا پہلو روشن وتابناک ہے، جس نے اپنا دل ناامیدی سے بھرا اسے صرف تاریک پہلو ہی نظر آئے گا حالانکہ وہ مخفی و پوشیدہ ہوتا ہے نظر نہیں آتا“۔
” اپنے لیے صرف نہ جیو بلکہ اپنے ساتھ اپنی قوم کے لیے بھی جیو، قوم کے بارے میں فکرمند رہو، ان کی فکر کو اپنی فکر بناؤ، قوم کے تئیں اپنے واجبات کو ادا کرو“۔
” لامارٹین اور موسیہ کے ادب سے ہمیں دور رکھو“۔
شیخ علی طنطاوی۱۳۸۱ھ سے قبل ہندوستان تشریف لائے تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے آپ کے گہرے روابط تھے۔ مولانا کی کتاب ’المسلمون فی الہند‘ کے لیے آپ نے اپنے خاص اسلوب میں مقدمہ لکھا ہے۔ مقدمہ میں مختصر روداد سفر، موسم برسات کے لہلہاتے مناظر، ندوہ میں اپنے پرجوش استقبال واعلی ضیافت، ندوۃ کے محل وقوع اور وہاں کے عظیم الشان مکتبہ وغیرہ کے ذکر کے ساتھ مولانا علی میاں کی خوش طبعی، حسن اخلاق، علمی جلالت شان اور ان سے اپنی گہری الفت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے ندوۃ کے پرسکون علمی ماحول میں زندگی گزارنے کی تمنا کی ہے۔
طنطاوی اور ادب اسلامی:
استاذ طنطاوی کے نزدیک ادب اسلامی وہ ادب ہے جو ادب کی شرطوں اور اس کے عناصر کا جامع ہو۔یعنی اس کا تعلق اصناف ادب میں قصیدہ، قصہ، ڈراما اور ناول میں سے کسی بھی صنف سے ہو، شرط یہ ہے کہ ادبی میزان پر اس کا پلڑا بھاری ہو اور وہ پڑھنے والے کے دل میں اسلام کی رغبت پیدا کرنے والا اور اس سے قریب تر کرنے والا ہو۔ وہ فقہی اور تاریخی بحث نہ ہو اور نہ ہی کسی حدیث کی شرح یا کسی آیت کی تفسیر ہو کہ یہ ساری چیزیں ادب کے قبیل سے نہیں ہیں اگرچہ ادب سے زیادہ بیش بہا قیمتی اور اعلی وافضل ہیں۔
علماء کے اعترافات:
استاذ علی طنطاوى کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف عالم اسلام کی بہت سی نامور شخصیات نے کیا ہے اور انھیں بہ نظر استحسان دیکھا ہے، ان میں سے احمد حسن زیات، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور استاذ زہیر الشاویش قابل ذکر ہیں۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی طنطاوی رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’استاذ علی طنطاوى عصرحاضر کے عظیم ادیب وانشا پرداز ہیں۔ ان کی تحریر حسن لطافت، لفظی قوت اور قدیم و جدید کے محاسن کی جامع ہے۔ عربی زبان پر قدرت اور فصیح و بلیغ تعبیر کی مہارت ان کا طرۂ امتیاز ہے ۔وہ صف اول کے صاحب طرز ادباء میں شمار کیے جاتے ہیں“۔
معروف شاعر وادیب عباس محمود العقاد کہتے ہیں:
” جو شخص بھی اس وہبی ملکہ رکھنے والے مقرر کی تقریریں سنے گا وہ یہ جان لے گا کہ لفظی وحسی اعتبار سے طریقۂ بیان وطرز تکلم ان ہی پر ختم ہے جیسا کہ برجستگی اور عمدگی بھی انھی پر تمام ہے“۔
استاذ طنطاوی نے دنیا کو بہت کچھ عطا کیا۔ مختلف دینی وسیاسی، سماجی وثقافتی، دعوتی وفکری اور تاریخی موضوعات پر آپ کے خطبے، مقالات، لکچرز، دروس وفتاوے اور آپ کی تالیفات آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت ہوں گی اور آپ کو زندۂ و جاوید رکھیں گی (ان شاء اللہ)
تالیفات :
(۱)رسائل الإصلاح،۱۳۴۸ھ
(۲)بشار بن برد، ۱۳۴۸ھ
(۳)رسائل سيف الإسلام،۱۳۴۹ھ
(۴)الهيثميات،۱۳۴۹ھ
(۵)في التحليل الأدبي،۱۳۵۲ھ
(۶)عمر بن الخطاب،۱۳۵۵ھ
(۷)كتاب المحفوظات،۱۳۵۵ھ
(۸)في بلاد العرب،۱۳۳۹ھ
(۹)من التاريخ الإسلامي،۱۳۳۹ھ
(۱۰)أبوبكر الصديق،۱۹۸۶م
(۱۱)قصص من التاريخ،۱۹۸۶م
(۱۲)رجال من التاريخ،۱۹۸۳م
(۱۳)صوروخواطر،۱۹۸۲م
(۱۴)قصص من الحياۃ،۱۹۸۰م
(۱۵)في سبيل الإصلاح،۱۹۵۹م
(۱۶)دمشق،۱۹۵۹م
(۱۷)أخبارعمر،۱۹۸۳م
(۱۸)مقالات في كلمات،۱۹۵۹م
(۱۹)من نفحات الحرم،۱۹۸۰م
(۲۰)هتاف المجد،۱۹۶۰م
(۲۱)من حديث النفس،۱۹۸۱م
(۲۲)الجامع الأموي،۱۹۶۰م
(۲۳)في إندونيسيا،۱۹۶۰م
(۲۴)فصول إسلامية،۱۹۶۰م
(۲۵)صيد الخاطر لابن الجوزي،۱۹۸۷م (تحقيق وتعليق)
(۲۶)فكرومباحث،۱۹۶۰م
(۲۷)مع الناس،۱۹۶۰م
(۲۸)بغداد،۱۹۶۰م
(۲۹)سلسلۃ حكايات من التاريخ،۱۹۶۰م (وزارة بعنقود عنب- التاجر والخراساني- ابن الوزير- التاجر والقائد- قصة الأخوين- المجرم ومديرالشرطة- جابر عثرات الكرام)
(۳۰)سلسلة أعلام التاريخ،۱۹۷۹م (عبد الرحمن بن عوف- عبد الله بن المبارك- القاضي شريك- الإمام النووي- أحمد بن عرفان الشهيد)
(۳۱)فتاوى علي الطنطاوي،۱۸۸۶م
(۳۲)تعريف عام بدين الإسلام،۱۹۷۴م
(۳۳)ذكريات علي الطنطاوي (۸جلدیں)
(۳۴)قصة حياة عمر،۱۹۹۳م
(۳۵)فصول اجتماعية،۲۰۰۲م
(۳۶)سيد رجال التاريخ، ۲۰۰۳م

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul qadir nadwi

ماشاءاللہ ،اچھا لکھا ہے، لائق تحسین ہے
میرے سب سے پسندیدہ ادیب ہیں، ان سے اور ان کی تحریروں سے بے حد لگاؤ ہے، بلند نگاہ، سخن دلنواز جاں پرسوز
مجھے بے حد محبت ہے، یہ میرے روحانی شیخ ہیں
آپ کی تحریر پڑھ کر فائدہ ہوا، معلومات میں اضافہ بھی ہوا، کچھ نئ کتابوں کا علم ہوا جو اب تک نہیں پڑھی ہیں
شکریہ جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء
اللہ تعالیٰ شیخ محترم مربی کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین