یہ کتاب ’نقش بر آب‘ شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے، ایسی با کمال شخصیات کے خاکے مندرج ہیں جن کو پڑھ کر بہت حوصلہ ملتا ہے، کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور منظور عثمانی دہلوی صاحب نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا بھی ہے کہ اس کا مطالعہ نقش برآب نہیں بلکہ نقش بر سنگ ثابت ہوگا۔زیر نظر کتاب ہنساتی بھی ہے اور رُلاتی بھی، اس کے مطالعہ سے عمدہ نصیحتیں بھی ملتی ہیں اور علم و آگہی، عزم و حوصلہ بھی، ہر سطر نقش برقلب ثابت ہوتی ہے۔کتاب کا دیدار پہلی بار ۲۰۱۵ میں مکتبہ فہیم مئو میں ہوا، جب میں جامعہ عالیہ عربیہ میں عالمیت کا طالب تھا، اصول حدیث کی کتاب ’من اطیب المنح فی علم المصطلح‘ لینے کی غرض سے مکتبہ جانا ہوا۔(مکتبہ فہیم کی خصوصیات میں سے ہے کہ جو نئی کتابیں منظرعام پہ آتی ہیں، انھیں سامنے ہی ترتیب سے سجا دیتے ہیں، کیا پتہ کوئی کتابیں دیکھ کر للچا جائے اور خریدے بغیر نہ رہ سکے)سو میں نے بھی وہیں دیکھا، دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ لے لوں۔۔۔مگر پیسوں کی قلت۔۔ پھر سوچا کہ ہٹاؤ جب اپنے ہی علاقے کے مشہور و معروف صحافی سہیل انجم کے قلم سے منصہ شہود پر آئی ہے تو کبھی نہ کبھی حاصل ہو ہی جائے گی اور پڑھ لوں گا۔ تبھی سے اس کتاب کے کافی چرچے سُنتا رہا، بس یہی سوچ کر تسلی کرتا کہ ہٹاؤ کتاب تو دیکھی ہی ہے میں نے۔
آج الحمدللہ کتاب ہاتھ آئی اورمیں پڑھتا چلا گیا،کافی خوشی ہوئی کہ برسوں کا ارمان آج پورا ہوا، کتاب ۱۹۹ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں۱۲ عظیم شخصیات کے خاکے موجود ہیں، ان میں سے دو بارعب و باکمال شخصیات سے الحمدللہ خاکسار کی بھی ملاقات رہی ہے، اور ان سے ہُوں، ہاں کہنے کا موقع بھی ملا ہے، اللہ غریق رحمت فرمائے مرحومین کو۔ صاحب کتاب نےاپنے والد محترم مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم (شان کج کلاہی)کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے جنھیں ہم انجم دادا کہا کرتے تھے اسے پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں،اس مضمون میں علاقے کے تعلق سے بھی کافی معلومات حاصل ہوئیں،صاحب کتاب نے اپنے دادا نواب بخش پر کیا ہی خوب قلم دوڑایا ہے، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے تک کا شاندار ذکر کیا،یہاں تک کہ اپنی شرارتوں کا بھی تذکرہ کر ڈالا، دادا بھی کمال کے آدمی تھے،صبر و شکر اور ہمت و شجاعت کے پیکر، پوتوں کو بھی ابتدا ہی سے اسی کا خوگر بنایا جس کا اندازہ صحافی محترم کی آپ بیتی سے لگایا جا سکتا ہے، اس کتاب میں اس کا بھی ذکر موجود ہے، پر الم اورنصیحت آموز واقعات ہیں۔ کتاب میں ایڈوکیٹ حماد انجم پر بھی کیا ہی خوب عنوان باندھا ہے ’’اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے‘‘ یہ خاکہ کافی طویل مگر دل گداز ہے، وہ کسی مدرسے اور جامعہ کے پڑھے نہیں تھے پھر بھی اردو علم و ادب میں خوب نام کمایا،کمال کی شاعری کرتے تھے،مضمون پڑھ کر آپ ان کی شعری صلاحیت و لیاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان شخصیات کے بعد آپ اگر ہنسنا چاہتے ہیں اور خوب لطف پانا چاہتے ہیں تو ’’تھوڑی شرافت زیادہ شرارت‘‘ (محمد عمر پردھان) کو پڑھیں۔۔۔ ایسے واقعات و حادثات کا ذکر ہے جنھیں پڑھ کر آپ ہنسے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اسی طرح اردو علم و ادب کی مایہ ناز شخصیات محفوظ الرحمن، موہن چراغی، ظفر عدیم، محمد یوسف خان درانی، عادل اسیر دہلوی، مولانا محمود الحسن، پروفیسر شعیب اعظمی وغیرہم کا خاصا ذکر موجود ہے،کتاب کا مطالعہ فائدے سے خالی نہ ہوگا۔
جزاکم اللہ خیرا
ماشاءاللہ بہت عمدہ تبصرہ