جہالت یا تاویل موانعِ تکفیر میں سے ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی کے پاس بدعتِ مکفّره ہو، بلکہ وہ اس بدعت شنیعہ کے دعاۃ میں سے ہو، اس کے تئیں کسی بھی طرح کی مداہنت یا نرم گوشہ اختیار کیا جائے، بلکہ ایسے شخص کو مبتدع، ضال، مضلّ، مفسد اور فاسق کہا جائے گا اور اس کی موت پر خوشی کا اظہار بھی کیا جائے گا، ہاں اس سے مقصد ذاتی انتقام نہیں ہونا چاہیے، بلکہ لوگوں کو اس کی بدعت اور ضلالت سے باخبر کرنا، اس کے فتنے سے بچانا اور دین کو بدعت وخرافات سے محفوظ رکھنا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ سلف سے بکثرت ایسے اقوال ملتے ہیں جن میں انھوں نے ائمہ ضلالت اور داعیانِ بدعت وخرافات کی مذمت کی ہے، ان کی بدعت سے امت کو آگاہ کیا ہے اور ان کی موت پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔
اسی طرح عذر بالتاویل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر تاویل کرنے والا علی الاطلاق معذور ہے، بلکہ اس کے لیے شرط ہے کہ وہ تاویل اصول ِدین میں نہ ہو اور نہ ہی متواتر اور واضح وصریح امور میں ہو، جن سے اسلام کی طرف نسبت رکھنے والا ہر خاص وعام واقف ہو، جیسے توحید، نبوت ورسالت، ارکان اسلام اور ایمان کی تکذیب کرنا، یا جھوٹ، سرقہ، زنا، شراب اور سود، محرمات سے نکاح جیسےواضح محرمات کو حلال کہنا وغیرہ۔
ابن الوزير – رحمہ الله -فرماتے ہیں:
وكذلك لا خلاف في كفر من جحد ذلك المعلوم بالضرورة للجميع ، وتستر باسم التأويل فيما لا يمكن تأويله ، كالملاحدة في تأويل جميع الأسماء الحسنى ، بل جميع القرآن والشرائع والمعاد الأخروي من البعث والقيامة والجنة والنار . انتهى من ” إيثار الحق على الخلق “ [ ص۳۷۷](اسی طرح جو تاویل کے نام پر، معلوم بالضرورہ امور کا انکار کرتا ہے جن کی تاویل ممکن نہیں ہے جیسے تمام اسماء حسنی، بلکہ تمام قرآن، شریعت، بعث بعد الموت، قیامت، جنت وجہنم کا انکار کرنے والے ملاحدہ ، تو ایسے لوگوں کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ہے)
أبو حامد الغزالي – رحمه الله- فرماتے ہیں:
ولا بد من التنبه لقاعدة أخرى وهي : أن المخالف قد يخالف نصّاً متواتراً ويزعم أنه مؤول ، ولكن ذكر تأويله لا انقداح له أصلا في اللسان ، لا على بُعد ولا على قرب ، فذلك كفر وصاحبه مكذِّب ولو زعم أنه مؤول ، فيصل التفرقة [ ص۶۶-۶۷](اس قاعدہ کو بھی دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ اگر کوئی نصِ تواتر کی ایسی تاویل کرے جس کی عربی زبان میں قریب وبعید کہیں سے بھی کوئی گنجائش نہ ہو، تو یہ کفر ہے اور ایسا کرنے والا شریعت کا انکاری ہےگرچہ وہ تاویل کی آڑ میں ایسا کرے)
غیر اللہ سے مانگنا، اس سے فریاد کرنا، یا مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے اور اس کے دلائل تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ونحن نعلم بالضرورة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يشرع لأمته أن يدعوا أحدا من الأحياء والأموات- لا الأنبياء ولا غيرهم-، لا بلفظ الاستغاثة ولا بلفظ الاستعانة ولا بغيرهما، كما أنه لم يشرع لهم السجود لميت ولا إلى ميت ونحو ذلك. بل نعلم أنه نهى عن ذلك كله، وأنه من الشرك الذي حرمه الله ورسوله، لكن لغلبة الجهل وقلة العلم بآثار الرسالة في كثير من المتأخرين، لم يمكن تكفيرهم بذلك حتى يبين لهم ما جاء به الرسول. انتهى. مجموعة الرسائل والمسائل النجدية (الجزء الرابع، القسم الثاني)[ص:۵۱۹]
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عبد الله بن عبد الرحمن المشتهر بأبا بطين فرماتے ہیں:
فانظر إلى قوله: “لم يمكن تكفيرهم حتى يُبَيَّن لهم ما جاء به الرسول، ولم يقل حتى يَتَبَيَّن لهم، ونتحقق منهم المعاندة بعد المعرفة۔یعنی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ، جو لوگ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں، یا اس سے فریاد کرتے ہیں، یا کسی مردہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں، یا اس کی طرف سجدہ کرتے ہیں ایسے واضح اور جلی شرک کرنے والوں کی تکفیر سے پہلے ان کے سامنے دلائل کو بیان کر دینا کافی ہے، لیکن اس کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ وہ معاند ہیں یا نہیں۔
اسی طرح ایک جگہ آپ بیان فرماتے ہیں:
فكل من غلا في نبي، أو رجل صالح، وجعل فيه نوعا من الإلهية، مثل أن يدعوه من دون الله، نحو أن يقول: يا فلان أغثني، أو اغفر لي، أو ارحمني، أو انصرني، أو اجبرني، أو توكلت عليك، أو أنا في حسبك، أو أنت حسبي، ونحو هذه الأقوال، التي هي من خصائص الربوبية، التي لا تصلح إلا لله؛ فكل هذا شرك وضلال، يستتاب صاحبه، فإن تاب وإلا قتل[مجموع الفتاوى:۳/۳۹۵]یعنی جس نے بھی کسی نبی یا کسی نیک آدمی کی ذات میں غلو کیا،یہاں تک کہ رب کے خصائص میں سے کچھ اسے دے دیا، مثلا اللہ کو چھوڑ کر اس سے دعا کرنا اور یہ کہنا کہ اے فلان میری مدد فرما، یا مجھے معاف کردے،یا مجھ پر رحم فرما، یا میری مدد کر، یا مجھےاپنی پناہ میں لے، یا میں نے تم پر توکل کیا، یا میں تیری کفایت میں ہوں، یا آپ میرے لیے کافی ہیں یا اس جیسے دیگر اقوال جو کہ ربوبیت کے خصائص میں سے ہیں، اور جو صرف اللہ کے لیے سزاوا ر ہیں، تو یہ سب شرک وضلالت ہے، ایسے آدمی سے توبہ کرائی جائے، توبہ کرے تو ٹھیک ہے، ورنہ قتل کر دیا جائے گا۔
یعنی ایسے آدمی پر حدِ ارتداد کے نفاذ کے لیے عذر بالتاویل مانع نہیں ہے۔
شیخ ابن باز-رحمہ اللہ- سے کسی ایسے شخص کے بارے سوال کیا گیا جو غیر اللہ سے فریاد کرتا ہے، کیا ایسے شخص کو جہالت کی بنیاد پر معذور سمجھا جائے گا یا اس کی تکفیر کی جائے گی ، تو آپ نے فرمایا:
الصواب قول من قال: إن هذا لا يعذر؛ لأن هذه أمور عظيمة وهي من أصول الدين وهو أول شيء دعا النبي صلى الله عليه وسلم قبل الصلاة والصوم والزكاة وغير ذلك، فأصول الدين لا يعذر فيها بالجهل لمن هو بين المسلمين ويسمع القرآن ويسمع الأحاديث، الاستغاثة بأصحاب القبور والنذر لهم ودعاؤهم وطلبهم الشفاء والمدد، كل هذا من أعظم الشرك بالله عز وجل، والله سبحانه يقول سبحانه في كتابه العظيم: {وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ} [المؤمنون: 117]، فسماهم كفاراً بذلكَ[رابط المادة: http://iswy.co/e1049n]ایسے شخص کو معذور نہیں سمجھا جائے گا، کیونکہ اس کا تعلق عظیم امور اور اصول دین سے ہے، اور یہ پہلی چیز ہے جس کی دعوت نبی ﷺ نے نماز، روزہ، زکاۃ وغیرہ امور سے پہلے بھی دی ہے، چنانچہ اصولِ دین میں جہل کی بنیاد پر ایسے لوگوں کو معذور نہیں سمجھا جائے گا۔ جو مسلمانوں کے درمیان رہتا ہو، قرآن واحادیث کو سنتا ہو، قبر والوں سے استغاثہ کرنا، ان کے لیے نذر ونیاز چڑھانا، ان سے دعائیں کرنا، شفا اور مدد طلب کرنا یہ سب عظیم شرک ہیں، اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:’’اور جس نے اللہ کے ساتھ اور معبود کو پکارا، جس کی اس کے پاس کوئی سند نہیں، تو اس کا حساب اسی کے رب کے ہاں ہوگا، بے شک کافر نجات نہیں پائیں گے۔‘‘تو اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو کافر کہا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تکفیر کا باب انتہائی نازک ہے، اہل سنت والجماعت تکفیر کے باب میں احتیاط سے کام لیتے ہیں اور کسی قطعی امر میں، واضح دلیل وبرہان کے بغیر کسی کی تکفیر نہیں کرتے ہیں۔لیکن اس احتیاط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کفر وشرک کے کسی بھی حد کو پہنچ جائے اس کی تکفیر کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول نے جس کی تکفیر کی ہے اس کی تکفیر جائز ہے، لیکن تکفیر معین کے کچھ شروط وموانع ہیں جن کی کسی فرد پر تطبیق کی اہلیت اہل علم ہی رکھتے ہیں، عامۃ الناس کے لیے اس باب میں قدم رکھنا سخت خطرہ کا باعث ہے۔
اسی طرح اہل بدعت کے ساتھ تعامل کرنے میں، بدعت مکفِّرہ اور غیر مکفِّرہ کا فرق بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اگر کسی کے پاس بدعت غیر مکفِّرہ ہے تو اس کے لیے دعا اور استغفار کرنا جائز ہے، لیکن جس کے پاس بدعت مکفِّرہ ہے، بلکہ وہ شرک وبدعت کے کبار دعاۃ میں سے ہے، تو ایسے شخص کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور اس کی موت پر افسوس کرنا ، دین و ایمان کے لیے خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ اس پر اسلام کے ظاہری احکام مرتب ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے تئیں کسی بھی کی طرح مداہنت اورہمدردی جتلا کرشرک وبدعت کے ساتھ کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کا عندیہ دیا جائے، اسی طرح اس عمل کو منزلہ بین المنزلتین کا نام دینا بھی صحیح نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
أن عامة المخطئين من هؤلاء تجرى عليهم أحكام الإسلام التى تجرى على غيرهم، هذا مع العلم بأن كثيراً من المبتدعة منافقون النفاق الأكبر ۔ یعنی ان پر دیگر مسلمانوں کی طرح اسلامی احکام مرتب ہوں گے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہت سارے مبتدعہ ایسے منافق ہوتے ہیں جن کے اندر نفاق اکبر ہوتا ہے۔
گویا اسلامی احکام کے مرتب ہونے اور تکفیر معین نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جن کے بارے ہمیں علم ہو کہ ان کے اندر شرک اکبر یا زندقہ پایا جاتا ہے، ان کے لیے ہم دعاء مغفرت کریں اور نہ ہی اس فعل پر منزلہ بین المنزلتین والا قاعدہ منطبق ہوگا۔واللہ أعلم بالصواب
جزاك الله خيراً أخي الكريم..
ـــــــــــــــــــــــــ
وإياكم أخي الكريم!
وشكرا لكم