میں بھی گیا تھا انٹرویو دینے

ارشاد الحق روشاد سفریات

اللہ کا بے انتہا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ڈھیر ساری نعمتوں سے نوازا ہے،جن میں سے ایک عظیم نعمت موبائل فون بھی ہے،جو ہماری زندگی کا جزء لاینفک بن گیا ہے۔اس کے ذریعے ہم اہل خانہ، دوست احباب اور رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرتے ہیں،مریض کی مزاج پرسی کرتے ہیں، تسلی دیتے ہیں، کسی کے انتقال پر اس کے متعلقین کو تعزیت پیش کرتے ہیں،خبریں پاتے اور دیتے ہیں۔اس موبائل فون نے تمام بنی آدم کو ایک میز پر لا کھڑا کر دیا ہے، انٹرنیٹ کی مدد سے کسی بھی گوشے میں بیٹھ کر ایک شخص اپنے موبائل فون کے ذریعے دنیا کے احوال و کوائف کا پتہ بخوبی لگا سکتا ہے، واٹسپ، فیس بک، میسنجر،اِیمو،انسٹاگرام، ٹوئیٹر جیسی کافی سہولیات اس میں ہیں، جس سے انسان ایک دوسرے سے انفرادی و اجتماعی طور پر بھی جڑا رہتا ہے، الحمدللہ میں بھی کئی اسلامک و دیگر خاص گروپس سے منسلک ہوں، جس میں بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کے مواقع ملتے ہیں، نیز آئے دن نت نئی چیزوں کا علم بھی ہوتا رہتا ہے۔
ہمارے نہایت ہی معزز و مکرم استاد شیخ جاوید سنابلی حفظہ اللہ بھی ایک گروپ’’ضرورت سلفی امام+ دعوتی مشن‘‘ کے کریٹر( Creater)ہیں، جس میں تقریبا دو سو لوگ موجود ہیں، اس میں شیخ نے الحمدللہ مجھے بھی ایڈ کر رکھا ہے، اگر کسی جگہ امام و خطیب نیز مدرّس و معلّم کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس میں اعلانات آتے رہتے ہیں۔۱۴ستمبر۲۰۲۰ کو ایک بھائی نے یہ میسیج ارسال کیا کہ’جامع مسجد دھورا ٹانڈہ بریلی میں جگہ خالی ہے، درج ذیل نمبر پر رابطہ کریں۔‘
پس میں نے موجود نمبر پہ کال کیا، سلام و کلام اور تعارف کے بعد مقصد کی وضاحت کی، انھوں نے اپنا نام حاجی مُنّے بتایا اور کہا، ٹھیک ہے! جب آپ یوپی ہی کے ہیں تو جمعرات کو آ جائیں، آرام کریں، پھر صبح صلاۃ فجر پڑھائیں، درس دیں، خطبہ جمعہ دیں، اگر جماعت کے لوگ آپ کو پسند کرلیں گے تو رہ جائیے گا ورنہ بصورت دیگر ہم آپ کو سفر کا پورا خرچ دے دیں گے،اسی عہد و پیمان پر میں وہاں جانے کے لیے تیار ہوگیا، گاؤں سے بذریعہ بس روانہ ہوا اور۱۲گھنٹے کا طویل سفر پورا کرکے ۱۷ستمبر۲۰۲۰ کی شام قبل عشاء جامع مسجد دھورا ٹانڈہ بریلی پہنچ گیا، کھانا کھایا، عشاء پڑھااور بستر آرام گاہ پہ لیٹا ہی تھا کہ حاجی مُنے صاحب نے بذریعہ فون یہ تاکید کی کہ تیاری کر لیں کوئی بہتر ٹاپک لیجیے گا اور تقریر اچھی کریئے گا، جماعت کے لوگوں کو پسند آنا چاہیے، خدا خدا کرکے اضطراب و بے چینی کے عالم میں رات کٹی، صبح بیدار ہوا صلاۃ فجر کی امامت کرائی، لمبا سفر تھا، جسم میں تکان تھی اور گلے میں خراش، حتی المقدور عمدہ آواز ہی میں قرأت کی، بعد فجر دس پندرہ منٹ کا درس دیا اور رُوم کا قصد کیا، پہنچتے ہی حاجی مُنے صاحب آ ٹپکے اور کہا، مولانا خطبہ جاندار رہے، بڑھیا سے تیاری ہے ناں! میں حیران و پریشان کہ کس طرح خطبہ کہوں کہ ان کے موافق و مطابق ہو، جب کہ اس سے قبل میں ممبئی اور دیگر شہروں میں امامت و خطابت کر چکا ہوں،خطبہ جمعہ کا وقت قریب آیا پھر کال کی اور کہا کہ مولانا خطبہ بلند آواز سے کہیے گا، باہر صحن میں بھی لوگ بیٹھے رہتے ہیں، آواز آنی چاہیے، اگر وہ سُن نہیں سکیں گے تو پھر فیصلہ کیسے کریں گے، ٹھیک ہے۔۔۔میں نے کہا، ان شاءاللہ کوشش کروں گا۔ بالآخر خطبہ جمعہ کا وقت ہوا، میں منبر پر چڑھا، اذان بھی مکمل نہ ہو پائی کہ مائک کی آواز ہی بند ۔۔۔۔،میں اب مزید پریشان کہ مسجد کافی وسیع و عریض باہر صحن میں آواز پہنچے تو کیسے؟ جب کہ میری آواز الحمدللہ بلند ہے، جن احباب نے تقریر یا خطبہ سنا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں،خطبہ مسنونہ کے بعد آیت کریمہ:
فَلَوْلا إِذْ جَاءهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ وَلَـكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
(الأنعام۴۳)کی تلاوت کی اور موجودہ حالات کی روشنی میں آدھا گھنٹہ خطبہ دیا، جس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
آج جو نا گفتہ بہ حالات ہیں، کورونا وائرس کا یہ جو قہر ہم پر ٹوٹ پڑا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں، لوگ ورطہ حیرت میں ہیں، دنیا نے اس سے بچنے کے لاکھ جتن کیے، بے شمار تدبیریں اپنائیں، مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی، لہذا پلٹو اللہ اور اس کے رسول کی طرف، انسان کو اللہ اس دنیا میں مال و متاع سے نواز دیتا ہے، وہ اکڑ کر چلتا ہے، لوگ ترقیاں کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی صلاحیت کے بل بوتے سب کچھ حاصل کیا ہے، اللہ کو بھول جاتے ہیں، اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے تو رب کائنات ایسے حالات انسانوں پر مسلط کر دیتا ہے، تاکہ انھیں اپنی کم مائیگی و بے بضاعتی کا احساس ہو، اور یہ انسان اُس رب کائنات کے سامنے خود کو بے بس و مجبور قرار دے، اس کی بارگاہ میں روئے مانگے گڑگڑائے آنسو بہائے تب اللہ اس کی فریاد سنے گا اور حالات کا رُخ بدلے گا۔۔۔۔
اسی طرح کی نصیحت آموز باتوں پر خطبہ جمعہ ختم کیا، بلند آواز سے کہنے اور چیخنے کی بنا پر آواز پست ہوگئی، قرأت میں قدرے دشواری ہوئی،یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ ذمہ داران کو راس نہ آئی ہوگی، پھر بھی حسن ظن رکھا، ذمہ داران نے کوئی جواب نہیں دیا، میں بھی یونہی خاموش رہا کہ شاید صلاۃ عصر بعد رزلٹ بتائیں، عصر بھی ختم، مغرب بھی ختم، کوئی جواب نہیں،بعد صلاۃ عشاء کچھ دیر اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہا، حاجی مُنے بغل ہی میں تھے:
’’حاجی صاحب کیا ہوا؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا؟‘‘
’’جواب کیا دینا، آپ نے تقریر تو ماشاءاللہ بہت اچھی کی مگر قرأت کی آواز آپ کی بڑی پست اور موٹی ہے، اس میں مٹھاس نہیں، لہذا آپ گھر چلے جائیں، ہم آپ کو پانچ سو روپیہ دے دیتے ہیں۔‘‘
’’ پانچ سو کیوں جب بات ہوئی تھی کہ مکمل سفرخرچ دیا جائے گا؟‘‘
حاجی صاحب کچھ جواب دیے بغیر چلے گئے، میں نے لوگوں سے معلوم کیا کہ ان کے علاوہ اور کون لوگ مسجد کے ذمہ داران ہیں؟
ایک مقتدی نے بتایا کہ وہ جو بزرگ نماز پڑھ رہے ہیں، اس مسجد کے متولی ہیں، ویسے بات کیا ہے امام صاحب؟
میں نے صورت حال بتائی ہے تو وہ کہنے لگے:
’’امام صاحب! اس مسجد کے ذمہ داران بہت فِتّین ہیں، آپ نے ماشاءاللہ کافی اچھا بیان دیا، سبھی نے تعریف کی، یہ لوگ ایسا کرتے ہی ہیں کہ اماموں کو بُلا کر بلا وجہ تنگ کرتے ہیں۔‘‘
میں ان بزرگ کے پاس گیا:
’’متولی صاحب! حاجی مُنّے سے فون پر بات ہوئی تھی تو کہا تھا کہ سفر خرچ دے دیں گے اور اب انکار کر رہے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے آپ غم نہ کریں، میں دے دوں گا۔‘‘
اگلے دن متولی صاحب کمرے میں آئے تو پوچھا:
’’ مولانا! کتنا خرچ ہوا ہے آپ کا؟‘‘
’’ دونوں طرف کا کرایہ ملا کر۱۷۰۰ روپے‘‘
’’ یہ لیجیے پندرہ سو روپے‘‘
کچھ کہے بغیر میں نےلے لیا اور گھر واپسی کے لیے نکل پڑا۔۔۔۔

7
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
7 Comment authors
newest oldest most voted
محمد ارشد

عمدہ تحریر اور معاشرے کی سچی تصویر کشی۔ اس میدان کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ یہاں وہ لوگ آپ کے علم و تجربہ کو پرکھتے ہیں جنہیں اس میدان کی ابجد سے بھی نا واقفیت ہوتی ہے۔ میری رائے ہے کہ آیندہ اگر کوئی انٹرویو کیلئے بلائے تو پہلے انٹرویو لینے والے کی علمی لیاقت کے بارے میں پوچھا جائے۔ اگر کوئی با صلاحیت شخص انٹرویو کیلئے متعین نا کیا گیا ہو، تو انکار کر کے اس کی وجہ بھی وضاحت کے ساتھ بتا دی جائے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ روزی روٹی کی تلاش میں… Read more »

عبدالھادی عبدالوکیل

اچھی سوچ ہے. میں اس سے اتفاق کرتا ہوں

دنیادار

قال قائل : العوام كالأنعام ،

موجودہ دور میں امامت کیلئے اسلاف کا طریقہ کار کسی مشعل راہ سے کم نہیں ،

Abdul Wahid

عمدہ سے بہتر تحریر
اللّٰہ کوئی سبیل نکالے۔ آمین

محمد وسیم سنابلی

یقیناً قابل افسوس ہے دھونرہ ٹانڈہ جیسی مسلم اور سلفی آبادی اور مساجد کے ذمہ داران کی یہ بدتمیزی اعوذ باللہ

محمد ایوب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم آپ کا حال پڑھ کر رنج ہوا جاھلوں کی سرداری کو کچھ حد تک علماء بھی تسلیم کر چکے ہیں اس میں غلطی عوام کی نہیں بلکہ تملق باز علماء کی بھی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کو کچھ دن موقع دیتے اور طے کر تے کہ ہم آپ کو اپنے یہاں رکھیں گے ان شاءاللہ لیکن فیصلہ کچھ دن کے بعد کری‌ گے تنخواہ ملتی رہے گی چند دن بعد ساری سیٹنگ ہو جاتی لوگ جلد بازی میں غلط کام کر جاتے ہیں جب خرچہ کی بات تھی تو مکمل… Read more »

ارشادالحق روشاد

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ۔
جزاکم اللہ خیرا بھائی ۔۔۔
رابطہ نمبر: 7506048996