مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی

عبدالمعید مدنی تذکرہ

۱۹۶۷ء یا ۱۹۶۸ء میں تلشی پور، ضلع گونڈہ (اب بلرام پور)میں صوبائی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ نہایت شاندار۔ اس وقت عمر ہی کیا تھی۔ دیہات سے قصبے کاسفر، ہر طرف اجالا ہی اجالا تھا اور بہار ہی بہار۔ بڑا اچھا لگا تھا۔ اِس وقت تمام سہولتیں میسر ہیں لیکن نہ تواضع ہے نہ علمی اخلاص وبصیرت۔ نہ باہمی تعاون کا بھرپور جذبہ۔ اسٹیج پر تقریروں کی مقابلہ آرائی، وقت کے لیے جھگڑا، گانے کے لیے فرمائش، کھانے کے لیے جھگڑا اور مطالبات، تقریریں بیچنے کی ہوڑبازی اور ان کا نرخ، دلالی، سواری کے لیے جھگڑا، حق امتیاز اور حیثیت کی چھوٹائی بڑائی کے لیے ناراضگیاں۔ سامعین کا شوق غنا اور سنانے والوں کی سطحیت، پستی اور علم کی توہین اور اسے ارزاں کرنے کی آمادگی۔ جلسوں کے لیے کیے گئے عوامی چندوں میں گھپلا اور خرد برد۔ جلسہ ہے کہ فتنوں کا مظاہرہ اور پھکڑوں سرپھروں کا پریڈ، علم ودولت کا ہراج (نیلام گاہ) جاہل بدکردار گویوں کی تعظیم کا دلدوز منظر۔
بہرحال یاد نہیں کانفرنس کا واقعہ ۶۷ کا ہے یا ۶۸ کا۔ اس میں بزرگوں کے ساتھ شریک ہوا۔ اپنا علاقہ، سارے رشتہ دار موجود، بس عید کا منظر تھا۔ ہر شے بڑی منظم اور مرتب۔ نظم وضبط ڈسپلن، وہیں پہلی بار مرکزی دارالعلوم (جامعہ سلفیہ) کی انجمن ندوۃ الطلبہ کا اسٹال اور المنار کا جلوہ دیکھا اور ابناء قدیم اور طلباء جامعہ کا خوش رنگ دیکھا۔ اس کے دو ایک سال بعد ۱۹۶۹ء کے اخیر میں جامعہ رحمانیہ میں عربی سوم میں داخلہ ملا۔
سارے جلوے دیکھے، باری آئی تقریروں کے سننے کی، سنجیدگی ذمہ داری اور دلچسپی اور وقار کا ماحول، خاموشی اور توجہ۔ بعض معزز علماء کی آن بان اور ان کی تقریر کی شان کا دھندلا عکس اب تک ذہن میں موجود ہے۔مولانا عبدالرحمن جموں ممبرپارلیمنٹ ،مولانا عبیداللہ رحمانی (کشمیر) کی پرزور اور پر شور تقریریں ،مولانا جھنڈانگری کاشاندار خطبۂ صدارت، مولانا محمد زماں رحمانی کا موثر وعظ، مولانا عبدالقیوم رحمانی کی تقریر، تاریخی تقریر جس کے بعد ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔ اس کے بعد ہی وہ سیاست کی خارزار وادی سے نکل کر ایک صالح بے نفس قادر الکلام ملک گیر داعی بن گئے۔ پہلی بار میں نے انھیں دیکھا خطابت کے اسٹیج پر تقریر کرتے ہوئے۔ مونچھیں بڑھی ہوئی۔ لب ولہجہ باوقار، آواز میں زور اور کھنک کیا موضوع تھا اس وقت اس سے ہمیں سرورکار کیا تھا؟ پھر جو وہاں سے شروع ہوئے اور دعوتی سفر جاری کیا تو اس وقت تھمے جب سانسوں کا قافلہ رک گیا۔
میں پہلے ان کا تماشائی تھا پھر شناسائی بنا۔ دور ونزدیک سے ہمارے گھرانے کی ان کے خاندان سے کئی رشتہ داریاں تھیں۔ اس لیے دوری بھی نہیں تھی لیکن میری طبعی کم آمیزی نے دوری بنائے رکھی۔ ہماری اُن کی شناسائی اس وقت ہوئی جب میں ۱۹۸۲ء میں جامعہ سلفیہ میں مدرس کی حیثیت سے کام کرنے گیا۔ ایک بار وہ بنارس جامعہ سلفیہ تشریف لائے اور مجلہ الجامعۃ السلفیہ کے میرے ایک عربی مضمون’’السیاسۃ العرجاء‘‘ کے حوالے سے پوچھتے آئے ’’عبدالمعید کون ہے میں اُسے سو روپیہ انعام دوں گا۔‘‘ جب انھیں میرے متعلق آگاہ کیا گیا تو فرمایا یہ تو میرا رشتہ دار ہے۔ پھر اس کے بعد بارہا ملاقات ہوئی اور بسا اوقات عربی میں گفتگو کرتے۔ تفسیری نکات بیان کرتے، مشورے دیتے، حکم دیتے، میں پاس ادب میں سراپا نیاز بنا ان کی باتیں سنتا رہتا۔
مولانا سے آخری ملاقات اپریل کے آخری ہفتے میں جھارکھنڈ مولانا عبدالستار سلفی کی حویلی میں ہوئی۔ مولانا مدھوپور اور جامتاڑا ضلعوں کی اہل حدیث بستیوں میں کئی دہے سے تشریف لے جاتے رہے۔ اس بار دو روزہ تعلیمی کانفرنس میں تشریف لے گئے تھے، مسجد میں سلام وکلام ہوا۔ اصغر صاحب (ناظم جمعیت) میرا تعارف کرانے لگے۔ مولانا نے فرمایا: یہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ دوسرے روز ’’الاستقامہ‘‘کے ایک مضمون کے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہا اس میں شیعہ شعراء کے اشعار آگئے ہیں۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔ فورا ’’الاستقامہ‘‘ کا وہ شمارہ منگایا اور دکھلایا اور سرزنش بھی کی کہ ایڈیٹر ہونے کے ناطے اس کی خوبی خرابی کے ذمہ دار آپ ہیں۔ یہ میری آخری ملاقات ہے۔ اس کے بعد سنا دو ایک جلسوں میں تشریف لے گئے اور پھر آخرت سدھار گئے۔
ان کی پہچان نہ خاندان سے ہے، نہ حسب ونسب سے ہے، اُن کی پہچان ان کی ذہانت، علم، قرآن سے شغف، دین کی اشاعت اور دعوتی وتبلیغی جدوجہد سے ہے ۔اس کا بھی اعتراف ہوا کہ انھوں نے جنگ آزادی میں عملی طور پر حصہ لیا اور اس کی خاطر جیل بھی گئے اور آزادی کے بعد مجاہد آزادی کی حیثیت سے انھیں خراج تحسین بھی ملا اور عوام وحکومت نے ان کی آزادی کی جدوجہد کو خوب سراہا اور قدردانی وہمت افزائی بھی ہوئی۔
جنگ آزادی کے آخری دنوں میں بلاتفریق مذہب وملت بہتوں نے حصہ لیا۔ جن کی تعداد حدشمار سے باہر ہے البتہ ان میں قائدانہ رول انھی لوگوں نے ادا کیا جو نظریاتی طور پر قیادت کرسکتے تھے۔ مولانا نے قائد کا درجہ حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مفسر قرآن کو جو استعداد عطا کی تھی اس کے سبب وہ جہاں رہے ممتاز اور نمایاں رہے۔ اُن کے اندر نہ زمینداری کا غرور تھا، نہ علم کی تعلّی، نہ سیاست کا مکروفریب، نہ تقریر کا پندار، فروتنی، تواضع، سادگی اور بے نفسی ان کی پہچان تھی۔ اورکبھی بھی وہ اپنے کسی بھی کام اور محنت کے صلے کے طلبگار بھی نہ بنے۔
کسی فرد کا کردار تشکیل پاتا ہے بے نفسی، تواضع اور جان نثاری سے۔ اگر یہ عناصر موجود نہ ہوں تو کردار تشکیل نہیں پاتا۔ بے نفسی سے انسان دوسروں کی منت کشی سے نجات پاجاتا ہے۔ تواضع سے معرفت ذات اور معرفت الہی حاصل ہوتی ہے اور انسان فتنہ وفساد سے بچ جاتا ہے، جاں نثاری سے دین اور انسانیت کی خدمت کا جذبۂ فراواں پیدا ہوتا ہے۔ جس کردار میں جس قدر ان عناصر کی بھر پور شمولیت ہوتی ہے اسی کے بقدر انسان کامل اور اچھے کردار کا بنتا ہے۔ روز مرہ کے تصرفات، نشاطات اور سرگرمیوں کے مشاہدہ سے پتہ چلتا ہے کہ مفسر قرآن کو ان عناصر کی بے بہا دولت ملی ہوئی تھی۔ باکردار انسان محبوب خلائق بن جاتا ہے اور بہادر بھی ہوتا ہے۔ اس کا ضمیر ہلکا اور زندہ، اس کا دل غنی اور اس کا ذہن صاف ہوتا ہے۔ مولانا کو محبوبیت بھی حاصل تھی اور باہمت بھی تھے۔ کب کسی کے رعب میں آئے یا کسی سے دبے۔
اُن کی محبوبیت کا منظر میں نے دیکھا بھی ہے اور سنا بھی ہے۔ کسی بھی محفل میں جاتے مستفیدین ان کے ساتھ ہوتے۔ اور اُن کو سننے کے شائق رہتے۔ علماء کی محفلوں میں قرآنی نکات بتاتے۔ دوسال قبل اہل حدیث کمپلیکس میں منعقد سیمینار کی آخری نشست میں تقریر کی۔ تقریر میں علماء کے اوپر محویت طاری تھی۔ اختتام نشست کے بعد سبزہ زار پر ایک محفل جمی۔ سوالات اور گفتگو کا دور شروع ہوا۔ ایک گھنٹہ کی محفل میں ہر سوال کا جواب نکات قرآنی کی شکل میں دیا۔ وہ لطف آیا کہ قرآنی معارف الٰہیہ لوگوں کی نگاہوں میں پھرگئیں۔
محبوبیت کا منظر ڈابھاکیند جھارکھنڈ میں دیکھا۔ ایک خلقت امنڈ پڑی تھی انھیں دیکھنے کے لیے۔ ان کا وہاں کی عوام سے شاید تیس سال سے تعلق تھا۔ اس خطہ میں ۸۰ گاؤں میں اہل حدیث آبادی پھیلی ہوئی ہے۔ گاؤں گاؤں مولانا کا دیکھا بھالا تھا جب طاقت تھی پیدل اور سواریوں کے ذریعہ قریہ قریہ پہنچ کر مولانا نے لوگوں کو اپنے وعظ ونصیحت سے نوازا۔ دیکھا کہ بوڑھے جوان مولانا کی خدمت کررہے ہیں کوئی سر دبا رہا ہے کوئی پیر دبا رہا ہے کوئی جسم دبا رہا ہے۔ ایسا مولانا زکریا سہارنپوری کے متعلق سنا تھا۔ اور پھر ڈابھا کیند میں اس منظر کا مشاہدہ ہوا۔ رسول گرامی نے محبوبیت کا نسخہ بتلایا۔ لوگوں سے غرض نہ وابستہ رکھو، قناعت اور غناء نفس حاصل ہوگی۔ قناعت اور غناء نفس سے مفسر قرآن سرفراز تھے۔
کردار انسان کو عظمت ورفعت عطا کرتا ہے اور قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اگر انسان کردار سے خالی ہو اور پڑھا لکھا ہو تو قرآن کی اصطلاح میں اُسے گدھے کے مماثل قرار دیا گیا۔ آج سماج میں ایسے گدھوں کی کثرت ہے۔
رحمانی علماء اخلاق وکردار، دین داری اور علم میں گہرائی سے عموما متصف ہوتے ہیں۔
مفسر قرآن کی زندگی کے تین حصے ہیں:
(۱)۱۹۴۰ء تک تعلیم وتعلم(۲)۱۹۶۷ء تک سیاست (۳) ۱۹۶۷ء سے ۲۰۰۸ء تک دعوت۔
مفسر قرآن ۲۰؍جنوری ۱۹۲۰ء میں موضع دودھونیاں ضلع سدھارتھ نگر یوپی میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی۔ فارسی کی تعلیم جھنڈا نگر میں ہوئی۔ مدرسہ فیض عام مئو میں عربی کے ابتدائی درجات کو پورا کیا۔ پھر دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخلہ لیا اور ۱۹۴۰ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اہم اساتذہ میں مولانا احمد اللہ پرتاپگڈھی جن کا نام کثرت سے مفسر قرآن لیا کرتے تھے، مولانا عبیداللہ مبارکپوری، علامہ نذیر احمد املوی، مولانا سکندر علی ہزاروی اور مولانا عبدالغفور بسکوہری ہیں۔
رحمانیہ میں آپ کی تعلیمی کارکردگی مثالی تھی۔ تقریر، حدیث، عربی بول چال میں امتیازی نمبرات سے سرفراز ہوتے اور امتحان میں بھی امتیازی مقام حاصل کرتے۔ اور ہر سال کئی انعام کے مستحق قرار پاتے۔ رحمانیہ میں امتیاز قائم کرنا معمولی بات نہ تھی۔ وہاں امتیاز قائم کرنا دینی علوم میں پورے ملک میں امتیازی حیثیت قائم کرنے کے مترادف تھا۔
مولانا نے پنجاب بورڈ سے مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ اور وقت کے دیگر مشاہیر سے بھی استفادہ کیا جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادی وغیرہ ۔
دہلی میں مولانا کا تعلیمی دورانیہ سیاسی سرگرمیوں کا تھا۔ آزادی کی آمد آمد تھی، استعمار درماندہ ہوچکا تھا اور اپنا آخری کروفر دکھلا رہا تھا۔ حالات سے مولانا بھی متاثر ہوئے اور سیاست کی وادیٔ پرخار میں قدم رکھ دیا، استعمار کی نگاہ میں آگئے اور بستی، نینی (الہ آباد) اور گورکھپور میں قید کی مشقتیں برداشت کیں۔ لکھنؤ میں دو ایک بار جیل میں قید کیے گئے۔ سیاست میں آپ کو صف اول کے قائدین کی رفاقت ملی۔سیاسی میدان میں آنے اور آزادی کی جنگ لڑنے کے سبب مفسر قرآن کا سیاسی وزن تھا یہ وزن دور دور تک محسوس کیا گیا اور اپنے علاقے کے اضلاع کو پرامن بنائے رکھنے میں یہ بہت کام آیا۔ ساتھ ہی بہت سے لوگوں کے حوائج پورے ہوئے اور مشکلات دور ہوئیں۔ اس سیاسی اثر ورسوخ کو انھوں نے اپنی ذاتی غرض کے لیے استعمال نہیں کیا۔ گاؤں کے متفق علیہ پردھان ضرور رہے، شاید لوگوں کے کہنے سننے سے دو ایک بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑے لیکن کامیابی نہیں ملی، طبیعت میں استغنا اورالیکشن دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ علاقے میں ان کے سیاسی ساتھیوں میں مشہور سیاسی وتعلیمی رہنما قاضی عدیل عباسی اور قاضی جلیل عباسی اور دیگر لوگ تھے۔
سیاست کی دنیا میں رہتے ہوئے انھوں نے چند عصری ودینی تعلیمی ادارے بھی قائم کیے۔۱۹۴۸ء میں انھوں نے بڑھنی بازار سدھارتھ نگر میں ایک ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو اب انٹر کالج بن چکا ہے۔ موضع مہدیا ضلع سدھارتھ نگر میں ’’مسلم ہائرسکنڈری اسکول‘‘قائم کیا وہ ایک تسلیم شدہ کامیاب ادارہ ہے۔
موضع اکرہرا (سدھارتھ نگر) میں ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ کی تاسیس کی جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے پچیس سال تک صدر رہے۔
مولانا کی سب سے کامیاب کوشش ان کی دعوت وتبلیغ ہے۔ ان کی دعوت وتبلیغ کی کئی خوبیاں تھیں:
٭ انھوں نے جلسہ جاتی فاؤل تقریروں کے درمیان قرآنی آہنگ کو پروان چڑھایا اور اُن کا یہ خاص رنگ اتناکامیاب ہوا کہ چالیس سال تک اس آہنگ میں فتور نہیں آیا۔ یکساں ڈیمانڈ قائم رہا۔
٭ قرآن کے معانی کو عوام تک پہنچانے اور آسان تر بنادینے کا ایک نمایاں کام کیا۔
٭ قرآنی تعلیمات اور معانی ومفاہیم کو اپنے عام فہم اسلوب میں عوام کے لیے نہایت پرکشش بنادیا۔ بہت سے مقدس علماء کرام ان کے طرز تفسیر وطرز بیان کو علمی معیار پر ناپ کر سوالیہ نشانات کھڑا کرتے تھے۔ جب کہ مفسر قرآن اس کے برعکس معانی قرآن کو عام فہم اسلوب میں عوام کے لیے آسان انداز میں پیش کرتے تھے۔ اور اُن کی کامیابی کا راز یہی تھا جس کو نافہم نہیں سمجھتے تھے۔
٭ ان کا قرآنی استحضار حیرت انگیز تھا۔ ان کا استحضار اتنا حیرت ناک تھا کہ اچھے اچھے حفاظ کرام ان کی مانند موقع بہ موقع آیتیں سنا نہیں سکتے۔ اپنی ایک تقریر میں کئی درجن آیتیں اور بسا اوقات سو سے زیادہ آیتیں حسب موضوع سنادیتے تھے اور اُن کی عام فہم تشریح کردیتے تھے۔
٭ ان کی تقریر کی جاذبیت کا سبب اُن کا اخلاص تھا۔ کبھی انھوں نے اپنی دعوت وتبلیغ کو کمائی کا ذریعہ نہ بنایا۔ نہ لوگوں کا دل لبھانے کے لیے غیر سنجیدہ وسطحی وسیلہ اپنایا۔ نہ آؤ بھاؤ دکھلایا۔ نہ کبھی پیری مریدی کا سرمہ لگایا نہ گانا گایا۔ جس نے پکارا پہنچے پیدل بھی پہنچے، سواری سے پہنچے۔ نہ کوئی شرط نہ اجرت کی طلب۔نہ کسی شے کی فرمائش۔ کتنے صبر وآزمائش کی بات تھی کہ ایک شخص چالیس سالوں تک شہرت اورطلب کی سواری پر سوار تھا اور طلب وشہرت میں کمی نہیں آئی۔ پھر بھی اپنی ذات کو پورے عمل سے باہر رکھا۔ بے نفسی کا وہی عالم جو پہلے تھا وہی آخر میں تھا۔ لوگوں کے ہاتھ میں کیا ہے اس کی طرف نگاہ نہ ڈالی اپنی دنیا کا بادشاہ الغنی غنی النفس۔ اگر کسی دوسرے کی اتنی مانگ ہوتی جو نفس ناطقہ کا شکار ہوتا تو پتہ نہیں کیا کیا فتنے جگاتا اور کتنا عوام کی جیب تراشی کرتا اورجنت کا ٹھیکیدار بنا رہتا۔
دعوت وتبلیغ میں اتنا انہماک کہ بسا اوقات ہر روز تقریر اورکئی تقریر۔ ہندوستان کے وہ تمام خطے جہاں اردو بولی جاتی ہے مفسر قرآن کی تقریروں کی آواز وہاں ضرور گونجی۔ لوگوں نے انھیں سنا اور سردھنا اور کمال یہ کہ اُن سے جب بھی مانگ ہوئی تقریر کے لیے تیار اور جتنا وقت دیا گیا منظور۔ کوئی رد وقدح نہیں۔ دین کا تابعدار سپاہی آگے لگادو خوش پیچھے لگادو تیار، بٹھادو اعتراض نہیں،حدیث میں اسے مرد مومن کی نشانی قرار دیا گیا۔
ان کی خطابت کی راہ اتنی مشکل تھی اور خود ان کی اپنی ایجاد کردہ کہ دوسرے اس پر چل نہ سکے۔ دراصل اس کے لیے قرآن کریم میں انہماک اول وآخر شرط ہے اور بصیرت وشجاعت ضروری ہے۔ اگریہ سب چیزیں نہ ہوں تو اس راہ پر نہیں چلا جاسکتا۔
مولانا نے جس دعوتی اور علمی ماحول میں اپنے دعوتی عمل کو جاری رکھا و ہ اخلاقی فساد، انتشار وافتراق خیانتوں اور بدعہدیوں کا ماحول تھا، مادہ پرستی، دولت کے لیے دین وایمان تیاگ دینے کا ماحول تھا۔ اس پر خطر ماحول میں وہ اپنے بادشاہ آپ، اپنے مشن سے کام۔ کسی خرخشے سے نہ الجھاؤ نہ زر ومال منصب کرسی کے لیے جھگڑا۔ نہ لوگوں کے جھمیلوں سے لینا دینا۔ بس قرآن کریم میں انہماک، آیات الٰہی کا ورد۔ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک سے لگاؤ کے سبب ان کو پاک نفسی عطا کی تھی۔ آیات الٰہی نے ان کی روح وقلب کی تطہیر کردی تھی۔ اس لیے مادی زندگی کی بھرپور چمک دمک کے بیچ رہتے ہوئے بھی کبھی ان کی آنکھ چکاچوند نہیں ہوئی۔
۲۰؍جنوری ۱۹۲۰ء میں جس کی سانسوں کا قافلہ شروع ہوا ۲۸؍مئی ۲۰۰۸ء کو ۱۱ بجے دن میں وہ قافلہ رک گیا۔نماز جنازہ گاؤں میں پڑھی گئی اور گاؤں کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ مفسر قرآن نے اپنے پیچھے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں صبر جمیل عطافرمائے اور اُن کی اولاد واحفاد میں ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین
اللہ کی رحمتیں صبح وشام نازل ہوں مفسر قرآن پر۔ اور ان کے درجات بلند ہوں اور ورثاء کو صبرکی توفیق ملے۔ آمین
تصنیف وتالیف کی دنیا میں انھوں نے قدم نہیں رکھا۔ چند ایک رسالے انھوں نے شائع کیے۔ ایک بار الاستقامہ کے لیے ایک عربی مضمون بھی لکھاتھا۔ اور چھپنے کے لیے مجھےدیا۔ لیکن پھر واپس لے لیا۔
مولانا نہایت ذہین فطین آدمی تھے، اگرعنان توجہ تصنیف وتالیف کی طرف مڑتا توایک باکمال قلم کار بن سکتے تھے لیکن ان کی دلچسپیوں کا میدان کچھ اورتھا جس میں وہ کامیاب تھے۔ اورکمال اس میں نہیں کہ آدمی کی چند کتابیں چھپ جائیں۔ آج کتنے رسائل کتابیں اورترجمے چھپتے ہیں جو ننگ علم ہیں۔اصل یہ ہے کہ تالیف کتب میں مقصدیت ہو۔ ان میں علمی نکات ہوں، ادبی لطافت ہو ،تحقیق وتوضیح ہو، ابتکار واجتہاد ہو توکتابیں تصنیف کی جائیں، ورنہ آلودگی پھیلانے سے کیا حاصل۔
ادھر مولانا کادوایک سفر سعودی عرب اور کویت کا بھی ہوا۔ وہاں کے اہل علم اورقدردانوں نے ان سے علمی پیاس بجھائی اوران سے سند عالی حاصل کی۔اہل علم کی علمی پذیرائی ہونی چاہیے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے اس وقت مزاج اس قدر بگڑگیاہے کہ اہل علم حاشیے پر ہوگئے ہیں اورنااہل دعوت دین کے نام اپنی نااہلی کاتماشا دکھلاتے پھر رہے ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Afroz Alam

ماشاءاللہ بارک اللہ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ کو اور مفسر قرآن شیخ عبدالقیوم رحمانی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے آمین تقبل یا رب العالمین مولانا مرحوم میرے نہایت ہی قریبی رشتے دار اور ہمارے پڑوسی بھی تھے اور میری بہن کے سسر بھی لگتے تھے اور بھی کئی خاندانی رشتے داریاں باہم ملتی جلتی ہیں ہم سب کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے مگر افسوس کی میں ان سے زیادہ استفادہ نہ کرسکا کیونکہ ان کے… Read more »