مجلہ ’سراج منیر‘ بونڈیہار

ابوالمیزان پس نوشت

صاحب تحفۃ الاحوذی شیخ الحدیث عبدالرحمن مبارکپوری -رحمہ اللہ-کے ہاتھوں ۱۹۰۷ میں قائم کیا جانے والا چھوٹا سا مدرسہ اب جامعہ سراج العلوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ضلع بلرام پور، یوپی کے ایک گاؤں کنڈؤ بونڈیہارمیں واقع یہ جامعہ ایک سو تیرہ سال سے کتاب وسنت کی تعلیم وتعلم کے مبارک سلسلے سے جڑا ہوا ہے۔ نہایت ہی مقتدر علمی شخصیات سے جامعہ کا ناطہ رہا ہے، صاحب تحفہ کے علاوہ شیخ محمد سلیمان مئوی، علامہ عبدالسلام مبارکپوری، صاحب مرعاۃ المفاتیح شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارکپوری اور شیخ محمد اقبال رحمانی علمی سرپرستی کرچکے ہیں۔
جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی میں مسلسل ۲۴ سالوں(۱۹۹۳ تا ۲۰۱۷) تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد استاد محترم جناب مولانا عبدالستار سراجی (حفظہ اللہ) یہاں وکیل الجامعہ (جامعہ سراج العلوم بونڈیہار)بنائے گئے ، ساتھ ہی افتاء اور تدریس کی ذمہ داریاں بھی تفویض کی گئیں۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا عمومی مزاج یہ ہوتا ہے کہ جو ذمہ داریاں ملیں انھیں بہ حسن وخوبی نبھالیں، یہی بہت ہے۔ جامعہ رحمانیہ میں ہمارے ایک استاد تو گذشتہ مہینے کی جب تک تنخواہ نہیں مل جاتی تھی، اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سےہی تدریس روک دیا کرتے تھے۔یہ ایک نادر مثال ہے مگر تنخواہ کے مقابل زیادہ معلوم ہونے والے مفوضہ کام میں ملازمین کی دلچسپی کم ہی ہوتی ہے۔ معلمین ومدرسین کا بھی یہی معاملہ ہے، حالانکہ ہمارے بیشتر اساتذہ کلاس کے علاوہ علمی رہنمائی چاہنے والے تمام طلباء سے شفقت سے پیش آتے تھے اور ہر ممکن مدد کرتے تھے۔حسب موقع ایسے معاملات کرتے تھے کہ وہی متعلقہ خوبی کی مضبوط بنیاد بن گئے۔مولانا حسین فیضی صاحب نے پہلی جماعت میں ہی جو حوصلہ افزائی کی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ وصف زندگی بھر کے لیے ایک امتیازی شناخت بن گیا۔ ششماہی امتحان میں ’رحمت عالم‘ کا پرچہ چیک کرچکے تھے،ایک لفظ کی غلطی پر چالیس میں سے ایک نمبر کاٹ لیا تھا مگر ہمت افزائی کرتے ہوئے کہا:پورے جامعہ میں شفیق (مولانا شفیق احمد رحمانی،بہرا پچنگوا) کے بعد خوش خطی میں تیرا ہی نمبر ہے۔ یہ تمغہ نظر نہیں آتا مگر اب تک ماتھے پر سجا ہوا ہے اور روشنی دیتا رہا ہے۔
مولانا عبدالستار صاحب کی تنخواہ پتہ نہیں ۱۹۹۳ میں کتنی تھی اور جب ۲۰۱۷ میں جامعہ رحمانیہ سے گئے تو کتنی ہوچکی تھی مگر ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۳ تک میں نے کبھی انھیں تنخواہ پر کام کو تولتے ہوئے نہیں پایا۔ تمام اساتذہ کرام کی تدریس، خطابت کے لیے انجمن النادی الاسلامی کی ہفتہ واری تین الگ الگ انجمنیں اورپھر سالانہ انجمن، صحافت کے لیے حائطیہ الصفاکی اشاعت اور سالنامہ مجلہ الصفا کی طباعت، ششماہی امتحان کے لیے ایک ہفتہ اور سالانہ امتحان کے لیے دو ہفتے دورے اوراعادے کی مہلت۔ طلباء کی مصروفیتیں بہت تھیں اور اساتذہ کی بھی، پھر بھی مولانا عبدا لستار صاحب سال بھر میں تقریباًدس سے بارہ تعلیمی وثقافتی پروگراموں کی گنجائش نکال لیتے تھے۔ کبھی کتاب التوحید یاد کی جارہی ہے کبھی دلائل توحید باری تعالیٰ، کبھی ہدایۃ النحو ازبر کی جارہی ہے تو کبھی کوئی کتاب، کبھی قرأت کا مقابلہ ہورہا ہے تو کبھی بیت بازی کا۔ بیت بازی کا مقابلہ تو بہت یادگار رہا، بیت بازی کے ٹورنامنٹ میں تو کتنے ایسے طلباءممتاز مانے گئے جن کا درسیات میں خاطر خواہ پرفارمنس نہیں تھا۔ آج بھی کبھی جب ساتھیوں کی مجلس جمتی ہے تو یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا کی داڑھی اور سر کے بال تب کالے تھے، اب زیاہ سفید ہیں۔ مگر پھرتی وہی ہے، ذرا نہیں بدلے ہیں۔ ثبوت کے لیے حاضر ہے ’سراج منیر‘۔ ٹھیک دو مہینے پہلے کرلا میں مولانا احسان اللہ خان صاحب کے آفس پر ملاقات ہوئی، شفقت وہی استادانہ اور لگاؤ پدرانہ، بہت اچھا لگا۔
خطابت میں استاد گرامی کا اپنا ایک طرز ہے، دوران طالب علمی تقریر اچھی لگتی تھی۔ بہت زمانے بعد سننے کا دوبارہ موقع ملا، مولانا الطاف حسین فیضی صاحب کے گاؤں بھولا پرسا کے یک شبی جلسے میں پہلی تقریر مولانا جرجیس سراجی صاحب کی تھی،ختم ہوئی تو اکثر لوگ اٹھ کر جانے لگے۔ تب تک استاد گرامی مائک پر آچکے تھے: ’مولانا جرجیس کو سننے آئے تھے تو جاؤ اور اگر قرآن وحدیث کی باتیں سننے کے ارادے سے یہاں آنا ہوا تھا تو سوچو یہ کہاں بھاگے جارہے ہو؟ ‘جو جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا اور پھر استاد کی تقریر سے ایک سماں بندھ گیا۔
صحافت میں بھی مولانا کا نام نامی بہت نمایاں تھا۔ جامعہ رحمانیہ کے ترجمان ماہ نامہ ’صوت الاسلام‘ میں ’معاشرہ برباد کیوں؟‘ کے عنوان سے مضامین سیریز بہت مقبول ہوئی تھی، بعد میں پھر یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی۔یہ سلسلہ وار تحریر ’ابوالفضل سدھارتھ نگری‘ کے نام سے شائع ہوا کرتی تھی۔مولانا کی دیگر تصنیفات میں الدلائل القطعیۃ، نماز کے احکام، نماز کی فضیلت واہمیت، فضائل ومسائل رمضان، صوفیت اسلامی عدالت میں، خواتین اسلام اور تربیت اولاد، خطابت کے اصول وآداب اور اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ لوگ بھی قابل ذکر ہیں۔
مولانا جامعہ سراج العلوم پہنچے تو وہاں بھی چین سے نہیں بیٹھے، حالانکہ وکیل الجامعہ، مفتی جامعہ اور مدرس جامعہ یہ تین ذمہ داریاں ہی بہت تھیں۔اب مولانا ’سراج منیر‘ کے مدیر بھی ہیں۔ اللہ رب العالمین ہمیں استاد گرامی کے علم وقلم سے استفادے کی توفیق دیتا رہے۔
’سراج منیر‘ ماہ نامہ نہیں دو ماہی ہے، اس اعتبار سے بالترتیب لاک ڈاؤن سے پہلے کی آخری تین اشاعتیں مجھے مولانا نے عنایت کی تھیں، جلد ۲کاشمارہ۷(ستمبراکتوبر۲۰۱۹)،شمارہ۸ (نومبردسمبر۲۰۱۹) اور شمارہ ۹(جنوری فروری۲۰۲۰)۔ میرے سامنے ’سراج منیر‘ کے یہی تین شمارے ہیں۔ ’ابوالفضل سدھارتھ نگری‘تینوں شمارے میں موجود ہیں۔عقلمند کون ہے؟، نماز فجر کی پابندی اور تین مقبول دعائیں۔ یہ تینوں مضامین ہلکے پھلکے اور مفید ہیں۔ ایک شمارہ ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے اور دو شمارے ۴۸-۴۸ صفحات پر، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’سراج منیر‘ ۴۸ صفحات کا ہی چھپتا ہے۔ مگر جس شمارے میں ۶۴ صفحات ہیں اس میں مدیر مسئول مولانا ثناء اللہ سلفی کا ایک مفصل مضمون ہے جو ۳۱ (ص۲۶ تا ۵۶)صفحات پر پھیلا ہوا ہے، شاید اسی وجہ سے اس شمارے کا حجم بڑھانا پڑا ہوگا۔ اس مضمون میں سابق ناظم جامعہ حاجی عبدالنعیم اور ان کی اولاد کے تفصیلی حالات درج ہیں۔ حاجی عبدالنعیم کے بیٹے موجودہ ناظم مولانا احسان اللہ خان پر مضمون میں جو گوشہ ہے وہ بالخصوص نظمائے جامعہ کے لیے انتہائی سبق آموز ہے۔ مضمون کے آخر میں ایک نوٹ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام معلومات مولانا احسان اللہ صاحب کی فراہم کردہ ہیں۔
درس قرآن اور درس حدیث کے علاوہ ایک کالم جس کا اہتمام تینوں شماروں میں کیا گیا ہے وہ فقہ وفتاوی کا کالم ہے، مفتی جامعہ ہونے کے ناطے بھی تمام جوابات استاد گرامی کے ہی لکھے ہوئے ہیں۔ دینی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کالم سے قارئین کا حلقہ بھی وسیع ہوگا۔ مراسلات کا بھی ایک کالم ہونا چاہیے، شمارہ ۹ میں استاد گرامی کے مقالے ’اساتذہ مکاتب کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں‘ پر ’’ادارہ‘‘ کی طرف سے جو نوٹ لگایا گیا ہے اس کے دوسرے (اور آخری)پیراگراف میں جو امید جتائی گئی ہے اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اگر مراسلے یا مکتوبات رسالے میں جگہ نہ پائیں تو اس ’امید‘ پر بہت کم لوگ کھرے اتریں گے۔ اس مقالے کو اداریے کی جگہ پر شامل کیا گیا ہے، جامعہ میں ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ کو جو ’دورہ تدریبیہ برائے اساتذہ مکاتب‘ ہوا تھا اسی میں مولانا نے پیش کیا تھا۔ اس پیش کش پر ادارے کو امید یہ ہے کہ’’آپ لوگ اس سے مستفید ہوں گے اور اس مقالے کے سلسلے میں بے لاگ اپنا تبصرہ پیش کریں گے جسے شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے ان شاء اللہ‘‘۔ تبصرے عموما مراسلوں میں ہوا کرتے ہیں لیکن تب جب انھیں بھی شامل اشاعت کیا جائے۔ بصورت دیگر بہت کم اہل علم و قارئین تبصرے اور تاثرات لکھ کر بھیجنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اور اب تو تبصرہ یا تاثرات لکھ کر بھیجنا اور وصول کرنا بہت آسان بھی ہوگیا ہے، جو رسالے چھپتے ہیں انھیں مراسلات کا ایک کالم ضرور رکھنا چاہیے۔ یہ رسالے کے حق میں سراسر مفید ہے۔
سرورق کا ڈیزائن تینوں شماروں کا ایک ہی طرح ہے، بس فرق یہ ہے کہ شمارہ ۷ کے سرورق پر ’شعبہ حفظ‘ کی عمارت، شمارہ ۸ پر ’آسیہ لائبریری‘ کا کمرہ اور’ شعبہ حفظ‘ کی عمارت اور شمارہ ۹ پر ’جامعہ کی جامع مسجد ‘ کی تصویریں ہیں۔ شمارہ ۷ اور ۹ کے سرورق پر ’سراج منیر‘ بامبے بلیک ٹائپ فونٹ میں ہے جو شمارہ ۸ کے مقابلے میں نمایاں تو لگتا ہے مگر اتنا خوبصورت نہیں لگتا جتنا شمارہ ۸ کا فونٹ۔ دو شمارے (۷-۹)پر’دو ماہی مجلہ‘ اور ایک (۸) پر صرف ’مجلہ‘ لکھا ہوا ہے۔
پس ورق کی ۶ تصویریں تینوں شماروں پر یکساں ہیں۔ بالترتیب کلیۃالشریعۃ للبنین، جامعہ کی جامع مسجد، کلیۃ الشریعۃ للبنات، درس گاہ کلیۃ الشریعۃ للبنات، آسیہ لائبریری اور شعبہ مکتب۔ ایک بات جو بہت دور سے کھٹکتی ہے وہ پس ورق پر SIRAJ-E-MUNIR کی سیدھ میں اوپر لکھا ہوا ’دوماہی مجلہ‘ کا انگریزی ترجمہ ہے: Two Monthly Majallah ۔ بعینہ ایسا ہی ’’استدراک‘‘ پر بھی لکھا رہتا ہے۔ Two Monthly کے بجائے انگریزی میں ’دوماہی‘ کے لیے Bimonthly استعمال ہوتا ہے، اگلے شمارے میں اس کی تصحیح کرلینی چاہیے۔
پروف کی غلطیاں کم ہیں مگر کچھ الفاظ میں املا کی رعایت نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے ’چاہیے‘ ہر جگہ ’چاہیئے‘ لکھا ہوا ہے اور ’لیے‘ ہر جگہ ’لئے‘۔ ایسے تمام الفاظ کے لیے املا کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر پہلے والے حرف پر زیر ہے تو’ لیے، کیے، دیے‘ یعنی یاء کے ساتھ لکھا جائے گا اور اگر زبر ہے تو ’گئے، گئی، کئی‘یعنی ہمزہ کے ساتھ لکھا جائےگا۔ شمارہ۸ میں ص۱۹پر پہلا ہی پیراگراف اس جملے سے شروع ہوتا ہے کہ ’’یہ مضمون جس مقصد کے تحت لکھا ہوں‘‘۔ زبان کی ایسی غلطی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے، مضمون کسی کا بھی ہو کم ازکم ایک بار دقت نظری کے ساتھ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔
سرورق اور پس ورق کے اندرونی صفحات پر نظمیں اور غزلیں ہوتی ہیں۔ آخری صفحے پر ’’جامعہ ایک نظر میں‘‘ تینوں شماروں میں موجود ہے، غالباً مستقل ہی شائع ہوتا ہو۔ اس سے پہلے ایک مستقل کالم ’’اخبار جامعہ‘‘ کا ہے۔شمارہ ۷ میں مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب کا جیسا تحقیقی وتنقیدی مضمون ہے اس طرح کے کم ازکم دو مضامین ہر شمارے میں ہونے چاہئیں۔
دو ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والے ’سراج منیر‘ کا دم بڑا غنیمت ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے مضامین ہوں گے تو یہ تعداد اور بڑھ سکتی ہے۔ اللہ رب العالمین استاد محترم کی اس صحافتی کاوش کو قبول خاص وعام عطا کرے، علماء اور طلباء کے ساتھ عوام الناس بھی اس سے مستفید ہوں۔ کم ازکم ایک مضمون جامعہ کے کسی ایک طالب علم کا بھی شامل کرنے کی روایت شروع ہو تو بہت ممکن ہے کہ طلباء کے مابین صحافت میں مسابقت کا ماحول بنے اور اس طرح مشق ومطالعے کی فضا پیدا ہو۔ کل کو انھی میں سے کچھ طالب علم اچھے قلم کاراور صحافی بن سکتے ہیں۔
ایک شمارے کی قیمت ہے ۲۵ روپے اور سالانہ زر تعاون ۱۵۰ روپے۔ مراسلت کے پتے کی جگہ ای میل آئی ڈی اور واٹس اپ نمبر ہونا چاہیے۔ رابطہ نمبر جامعہ کا ہے، 9838848151 اور 7565050022۔ سبسکرپشن اور پیمنٹ کی تفصیلات کال کرکے معلوم کی جاسکتی ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abu Ukkasha

جزاک اللہ خیرا
مجلہ کے متعلق کم ، شخصیت کے متعلق کافی جانکاری میسر ہوئی اللہ مزید توفیق دے اور جدوجہد میں ترقی عطا فرمائے امت کیلئے نفع بخش بنائے