اخوانیت: فساد یا اصلاح؟

ساجد ولی المدنی عقائد

حالیہ ایام میں الاخوان المسلمون اور ان کے نہج پر سرگرم عمل تحریکات کا مسئلہ ہر طرف زیر بحث ہے۔ یوں تو بہت سارے اہل علم شروع ہی سے اس جماعت کےمتعلق کچھ نہ کچھ توضیحات وتنبیہات پیش کرتے رہے ہیں، البتہ عرب فسادیہ کی تباہ کن سرگرمیوں میں اس جماعت کی غیر مخفی بھرپور حصہ داری کے بعد سے اس جماعت کے اہداف ومقاصد اور منہج وطریقہ کار نیز ولاء وبراء کے متعلق ہر طرف تجزیے پیش کیے جانے لگے اور بہت سارے ایسے مسلم ممالک کے کان بھی کھڑے ہوگئے جو ان تباہ کن حادثات سے بہت قریب تھے اور کبھی جنھوں نے انھیں اپنے یہاں پناہ دے کر عزت بخشی تھی۔ یوں تو اس جماعت اور اس سے متاثرہ تحریکات کے بظاہر اسلامی جذبات کو دیکھ کر اکثر مسلم معاشروں اور سماجوں میں انھیں پذیرائی ملی، حتی کہ لوگوں نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا، تعلیمی اداروں میں انھیں قیادت عطا کی، ان کے لٹریچر کی خوب نشر وشاعت کی۔ البتہ جب چند سالوں قبل اس بے مہار جذباتیت نے اپنا باغیانہ رنگ دکھایا اور ایک نئے قسم کے تعصب کی نہایت ناقابل برداشت مثال پیش کی جس میں ولاء وبراء، نقد وتنقید اور اصلاح وتربیت کے مراحل کی ترتیب ہی الٹ دی گئی، معیار حق کو بدل ڈالا گیا، اسلام کو سیاسی رنگ دے دیا گیا اور اہل سنت کے بہت سارے مسلم عقائد پر ضرب لگائی گئی، تواہل علم نے پھر نئے سرے سے اس جماعت کے بنیادی نظریات، طریقہ کار، اولویات اور ولاء وبراء پر پھر نظر ثانی کی،تو انھیں لگا کہ اس جماعت کےمتعلق وہ ایک بہت بڑی غلط فہمی کےشکار تھے۔ جن میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ تھی کہ اس جماعت سے متاثر کوئی بھی فرد عام طور سے کسی بھی ایسے مسلم ملک کا وفادار نہیں ہوسکتا جس میں ان کی پشت پناہی نہیں کی جاتی ہو۔ بلکہ ایسے ممالک جو انھیں اسٹیج عطا نہیں کرتے وہ سب طاغوتی سماج ہیں۔ اگر کہیں بھی کوئی شاہی نظام قائم ہے تو اس کی ماتحتی سب سے بڑا منکر ہے، بلکہ اسے زائل کر قیام خلافت کے لیے فضا ہموار کرنا سب سے بڑا فرض ہے۔ یوں تو ہمیں معلوم ہے کہ اس دنیا میں خلافت راشدہ کےخاتمے کےبعد ابھی تک کوئی خلافت قائم نہ ہوسکی اور اسلامی تاریخ میں خلافت کے بعد ہمارے اسلاف نے جس طرز حکومت کو قبول کیا ہے اور جس کے تحت علاقوں کے علاقے فتح ہوئے، دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوا وہ شاہی نظام حکومت ہی تھا۔ یہ الگ ایک مسئلہ ہے جس پر یہاں گفتگو کرنا مراد نہیں ہے، یہاں پر مقصود ان بہت ساری غلط فہمیوں پر کلام کرنا ہے جو کچھ سادہ لوح طالبان علم یا عوام سے گفتگؤوں کے دوران ہمیں سننے کو ملتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
کیا جماعت الاخوان المسلمون محض سیاسی و فکری جماعت ہے؟ کیا عقدی مسائل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں؟
اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس جماعت کے مؤسس ومرشد اول حسن البنا تھے، انھوں نے اپنے ’مذکرات الداعی والداعیۃ‘ میں لکھا ہے کہ ’جوہرۃ التوحید‘ نامی کتاب ان کی حفظ شدہ کتابوں میں ایک ہے اور یہ متن معتزلی ان متاخرین غالی اشاعرہ کے یہاں معتمد علیہ ہے جنھوں نے معتزلی مسلک اختیار کیا۔ اور یہ بات معروف ہے کہ اشعری عقدی مذہب ایک گمراہ بدعتی فرقہ ہے جو بہت سارے عقدی مسائل میں اہل سنت والجماعت سے اختلاف رکھتا ہے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ شریعت اخذ کرنے کے مصادر والامسئلہ ہے۔ چنانچہ اہل سنت عقائد کے باب میں اخذ واستنباط کا مصدر ومرجع صرف قرآن وسنت کی منقولہ نصوص کو مانتے ہیں، جبکہ اشاعرہ عقل کوبھی عقائد کے باب میں مصدر وماخذ مانتے ہیں اور نصوص کا معارض بھی ۔ اس لیے ان کا منہج ہی عقل ونقل کے درمیان ایک غلط تعارض قائم کرنے پر قائم ہے، جیسا کہ ’القانون الکلی‘ نامی کتاب میں اس کا ثبوت موجود ہے، جسے ان کے لیے امام رازی نے ( اساس التقدیس ۱۷۲-۱۷۳ ط ۱۳۵۴ الحلبی) میں وضع کیا تھا۔ نیز اسی بات کو اس نے ’ الاربعون فی اصول الدین ‘(ص۱۱۵) کے اندر مقدمات کی شکل میں بیان کیا ہے اور اسی قاعدہ کلیہ پر اس کے بعد آنے والے اشاعرہ نے اپنے مذہب کی بنا رکھی۔ جیسا کہ ایجی نے ’المواقف‘ میں اور اس کے بعد کے متاخرین اشاعرہ نے بھی اسی روش کو اختیار کیا، جیسا کہ سنوسی نے ’الکبری‘ کے اندر،’جوہرۃ التوحید‘ کے مصنف اور اس کے شارحین نے اپنی تصنیفا ت میں۔
اس خطرناک قانون کا ما حصل یہ ہے:’’ کہ قطعی طور پر عقلی قطعی دلائل کو نقلی دلائل – قرآن وسنت– پر مقدم قرار دینا اور نقلی دلائل کے متعلق یا تو یہ مانا جائے کہ وہ غیر صحیح ہیں یا پھر صحیح تو ہیں البتہ ان کی مراد ظاہرنہیں۔ پھر ہم اگر ان نصوص میں تاویل کو روا سمجھیں تو ان تاویلات کو بالتفصیل بیان کرنے میں مشغول ہوں گے اور اگر تاویل کو جائز نہیں سمجھتے تو گویا ہم نے ان نصوص کی مراد کو اللہ کے حوالے کردیا۔‘‘
یہ قانون عقل کو عقائد کے باب میں ماخذ ومصدر سمجھتا ہے اور نقل سے ٹکراؤ پیدا کرتا ہے، بعینہ اس کا اعتراف کرتے ہوئے حسن البنا نے اسے اپنی کتاب’العقائد‘ میں جگہ دی ہے اور اس سے صفات باری تعالی کی نصوص کے متعلق یہ استشہاد کیا ہے کہ اس مسئلے میں ہم پر دو امور میں ایک امر واجب ہے:
۱-یا تو نصوص کی تحریف یعنی تاویل
۲-یا پھر تفویض یعنی ان کے معانی کو اللہ کے حوالےکردینا، جیسا کہ صاحب جوہرۃالتوحید ابراہیم اللقانی – جسے حسن البنا نے حفظ کررکھا تھا – کہتا ہے:
وکل نص أوہم التشبیہاأولہ أو فوض ورم تنزیہا یعنی ہر وہ نص جس میں تشبیہ الخالق بالمخلوق یا اس کے برعکس کا اشتباہ ہو اس کی تاویل کرو یا اس کے معنی کو اللہ کے حوالےکرو اور اللہ کو اس تشبیہ سے پاک کرنےکا قصد رکھو۔
اشاعرۃ کے –جن میں حسن البنا بھی شامل ہیں –عقل کو عقائد کا ماخذ اور وحی کا معارض ماننے پر بڑے تباہ کن قواعد واصول مرتب ہوتے ہیں جن میں سے چند کو یہاں بیان کیا جاتا ہے:
۱-عقیدہ کے باب میں قرآن وسنت کی نصوص کی قدر وقیمت کو ساقط کردینا اور ان میں بیان کردہ تفصیلات کو کالعدم قرار دینا۔
۲-یہ نصوص یقین کا فائدہ نہیں دیتی بلکہ قرآن میں یہ ظنی الدلالۃ ہیں، جس کی وجہ سے انھیں قابل احتجاج نہیں مانا جا سکتا اور حدیثوں کے اندر خبرآحاد اس باب میں قابل قبول نہیں۔ اسی وجہ سے حسن البنا نے اللہ کی صفت علو اور صفت فوق کی نفی کی ہے اور اس معنی کی آیات کو رد کیا ہے، جیسا کہ اس کی کتاب ’ العقائد‘ میں اس بات کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے بلکہ قرآنی آیتوں کے ساتھ اس نے یہ کہہ کر بڑی بدسلوکی کی ہے ( اس سے اللہ کے لیے جہت کی نسبت بھی اخذ کی جاسکتی ہے) خلاصہ کلام یہ کہ اس جماعت کا بانی ومؤسس عقیدۃ اشعری تھا اور اسی عقیدہ پر اس کی جماعت قائم رہی۔
اور اگر اشاعرہ کی بات کریں تو وہ غالی قسم کے مرجئہ فرقے ہی سے نکلے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے۔ نیز بندوں کے افعال کے باب میں وہ جبریہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ بندے کی اپنی طاقت اس کے افعال میں غیر مؤثر ہے۔ نیز یہ اللہ کی اختیاری صفات جیسے استواء علی العرش، نزول الی السماء الدنیا، علو، فوقیت وغیر کا انکار کرتے ہیں۔ یہ عقائد کے باب میں خبر آحاد کو حجت نہیں مانتے۔
جماعت الاخوان المسلمین کا انٹرنیٹ پر نشرشدہ تاریخی انسائیکلوپیڈیا ( الاخوان والمنہج الأشعری) عنوان کے تحت لکھتا ہے:’’الاخوان المسلمون نے اپنے علماء، فقہاء، محدثین، بڑی شخصیتوں اور تجربہ کار افرادکے ساتھ عقدی منہج اور بنیادی مرجع کےطور پر اشعری مذہب کو قبول کر لیا، تاکہ اس کی روشنی میں نص کو سمجھاجائے۔ مقدس وغیر مقدس، ظنی وقطعی نیز عقل ونقل کے درمیان تفریق کی جاسکے۔ اخوانیوں کی اشعریت میں نہ کوئی جدال کی گنجائش ہے، نہ ہی اہل علم کے نزدیک ان کے اس مذہب کی مرجعیت کے مسئلے میں کوئی اختلاف ہی ہے۔‘‘
دوسری با ت ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ حسن البنانے تصوف کو بطور سلوک قبول کیا اور اسی پر اخوانیوں کی پرورش وپرداخت ہوئی۔ چنانچہ یہ اپنے مذکرات ’مذکرات الداعی والداعیۃ‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ وہ حصافی اور شاذلی طریق کی طرف منسوب ہیں اور اس کے بدعتی غیر مسنون اذکار اور مجالس پر مداومت برتتے ہیں۔ نیز آپ حصافی شاذلی صوفیہ کے ساتھ جھومتے، تھرکتے اور رقص کرتے ہوئے ان اذکار کا ورد کیا کرتے تھے۔ اولیاء کی قبروں کی زیارت کے لیے سفرکیاکرتے، ان مسجدوں کی زیارت کیا کرتے تھے جن میں قبریں اور مزار ہوتے، جیسا کہ مسجد سیدہ زینب، مسجد رفاعی نیز عوام میں پایے جانے والے شرکیہ مظاہر پر کوئی نکیر نہیں کیا کرتے تھے۔ ان سے الاخوان المسلمین کے ہفتہ واری جریدہ [ صفر ۱۳۵۴ھ] میں یہ سوال کیا گیاکہ اس شخص کے متعلق کیا خیال ہے جویہ کہتا ہے: یا رسول اللہ أغثنی؟ تو آپ نے یہ جواب دیا: (اگر یہ نیک لوگوں کے اسماء سے تبرک حاصل کرنےکی قبیل سے ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں) اگر یہاں پر بات لمبی ہونے کا خوف نہیں ہوتا تو میں حسن البنا کے بعد کے اخوانی قائدین کی شرکیات کا مزید تذکرہ کرتا۔
کیا اس جماعت کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سلفی منہج کے پیروکار ہیں؟
پہلی بات تو یہ کہ اس جماعت کے طریقہ کار، اولویات، ولاء وبراء اور منہج ومسلک میں زمین وآسمان کافرق ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی سلفی، اہل حدیث بھی ہواور اخوانی بھی ہو۔ کیونکہ حقیقی سلفی یا اہل حدیث اس جماعت کی طرف اپنی نسبت گوارا کر ہی نہیں سکتا جس نے توحید میں ولاء وبراء اور عقیدہ اسلامیہ کی روح ہی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس جماعت نے اپنے اندر نصاری، رافضہ، صوفیہ، قبوری، معتزلہ، عقل پرست، اشاعرہ، ماتریہ، حتی کہ لبرل لوگوں کو بھی جگہ دی ہے، تو کیسے اس حق وباطل کے آمیزے میں کوئی حق پرست شامل ہونا مناسب سمجھے گا۔ بلکہ حسن البنا بذات خود غیر محارب یہود ونصاری سے محبت وموالاۃ کی رائے رکھتے ہیں اور اسی راہ کے راہی ان کے شاگرد یوسف القرضاوی بھی ہیں۔ پھر ان کے شاگرد سلمان العودۃ بھی اپنے ایک مقالے – جس کا عنوان ’’ الولاء والبراء الفطری‘‘ تھا،جسے انھوں نے اپنی ویب سائٹ پر ۲۰/۲/۱۴۲۸ھ میں نشر کیا –میں اسی موقف کے قائل ہیں۔ حسن البنا کا گمان تھا کہ یہود ونصاری کے ساتھ ہمار اکوئی دینی اختلاف نہیں ہے، جیسا کہ ان کے ایک شاگرد محمود عبد الحلیم مؤرخ جماعت اپنی کتاب ’ الاخوان المسلمون أحذاث صنعت التاریخ‘ میں لکھتا ہے بلکہ حسن البنا تو اباحیت اور الحاد کے خلاف تینوں ادیان یہودیت، نصرانیت اوراسلام کے درمیان تقریب کے بھی قائل تھے۔ جیسا کہ ان سے ان کے شاگرد سیسی نے ’قافلۃالاخوان المسلمین‘ نامی کتاب میں نقل کیا ہے اور اس سے بڑھ کر وہ لبرل ازم کےمداح بھی رہے ہیں۔ چنانچہ جماعت کی پانچویں کانفرنس کے اپنے پیغام میں وہ پارلیمنٹری آئینی نظام حکومت کی تعریف کرتے ہیں جو خالص لبرل او رسیکولر نظام حکومت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں:’’ حالیہ نظام حکومتوں میں سے پارلیمنٹری آئینی نظام حکومت اسلام کے قریب تر نظام ہے۔‘‘
نیز حسن البنا کا یہ بھی ماننا ہے کہ ڈیموکریسی اسلام کی روح اور اس کے اصل پیغام کےعین مطابق ہے، جیسا کہ اخوانیوں کے یومیہ جریدے کے شمارہ نمبر ۵۹۳ میں انھوں نے اس بات کو ذکر کیا اور اسی موقف کی تائید ان کے شاگرد یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب ’ من فقہ الدولۃ فی الإسلام‘ میں کی ہے، جس میں اس نے جمہوریت کو اسلام کی آواز کہتے ہوئے کہا:’’ الحریۃ مقدمۃ علی تطبیق الشریعۃ یعنی آزادی شریعت کی تطبیق پر مقدم ہے۔‘‘ اور ان کے شاگرد سلمان العودہ نے اسی موقف کو اپنی کتاب ’أسئلۃ الثورۃ‘ میں اختیارکرکہا کہ’’ڈیموکریسی ہی وہ نمائندہ نظام ہے جسے لازمی طور پر عالم اسلام کے ممالک میں نافذ ہونا چاہیے۔‘‘ جبکہ ہم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ڈیموکریسی عوام کی حکومت ہوتی ہے جس میں غیر اللہ کو شریعت سازی کا حق بھی دیا جاتا ہے اور یہ لبرلزم کا آلہ کار بھی ثابت ہوئی ہے۔
رافضیت واخوانیت کی باہمی ملی بھگت کی کیا حقیقت ہے؟
اس جماعت کے باطل منہج کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ اس نے شروع ہی سے روافض جیسے گمراہ قاتل فرقےکے ساتھ محبت وموالاۃ کا رشتہ قائم رکھا ہے۔ مندرجہ ذیل ثبوتوں کی روشنی میں اس تعلق کی گہرائی وگیرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
۱-حسن البنا اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ روافض کے ساتھ اہل سنت کا اختلاف فروعی نوعیت کا ہے، نہ کہ اصولی یعنی عقدی نوعیت کا۔ جیسا کہ ان کے شاگرد رشید اور جماعت الاخوان کے تیسرے مرشد نے ’ ذکریات لا مذکرات‘(ص۲۴۹-۲۵۰) میں نقل کیا ہے۔ اس وجہ سے یہ ان کےبھائی ہیں، جیسا کہ ان کے شاگرد یوسف القرضاوی نے اس کا کھلے طور پر اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ روافض ہمارے بھائی ہیں۔
۲-سنہ ۱۹۴۷ء کو مصر کے اندر حسن البنا نے بڑی گرم جوشی سے رافضی محمد تقی قمی کے ساتھ مل کر مذاہب کے درمیان تقریب کےایک پلیٹ فارم کی شروعات کرنے میں شرکت فرمائی۔ شیخ محب الدین الخطیب – رحمہ اللہ –بیان کرتے ہیں کہ اس تقی الدین قمی رافضی نے مصری قوم میں شیعیت پھیلانے کے لیے اس پلیٹ فارم کو ایک ذریعہ بنایا۔
۳-اخوانیوں نے ۱۹۷۹ء میں خمینی رافضی انقلاب کی خوب تائید کی اور اپنی جماعت کی عالمی تنظیم کا ایک وفد بھیجا تاکہ خمینی کو مبارک باد پیش کریں اور اس سے بیعت کریں اور اخوانیوں کے کویتی مجلہ المجتمع نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا۔
۴-اخوانیوں نے جن میں سعودی فرع کے عوض القرنی اور سلمان العودۃ بھی شامل تھے اسرائیل کے ساتھ ۱۴۲۷ موافق ۲۰۰۶ھ میں پیش آنے والی حزب اللہ + اسرائیل ڈرامائی جنگ کی تائید کی اور ان کے ساتھ اختلافات کو پس پشت ڈال کران کی مدد کو واجب قرار دیا۔ سلمان العودہ کہتے ہیں:’’ہمیں شیعوں کے ساتھ اپنے اختلافات بھلا دینے چاہئیں‘‘۔
۵-حماس جو کہ فلسطین کے اندر الاخوان المسلمون کی ایک شاخ ہے خمینی انقلاب کے قصیدے خوانی کرتی ہے۔
خالد المشعل کہتے ہیں:’’حماس امام خمینی کے انقلاب کی روحانی اولاد ہے‘‘۔
دکتور احمد یوسف جو کہ حماس کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے مشیرکار ہیں کہتے ہیں: ’’شیعہ اس زمانے کا فخر ہیں، آپ کے شیعی ہونے میں کیا عیب ہے؟!‘‘ اور یہی جناب اپنی کتاب ’الاخوان المسلمون والثورۃ الإیرانیۃ فی ایران‘ کے اندر لکھتے ہیں کہ خلافت اسلامیہ عنقریب ایران سے نمودار ہوگی۔ اللہ اکبر
عمرالتلسمانی مسلم میڈیا کے ساتھ کی گئی گفتگو میں جسے کینیڈا سے شائع ہونے والے’ کرسنٹ‘نامی مجلے نے ( ۱۶/۱۲/۱۹۸۴) کو نشر کیا، جس میں وہ بیک زبان ہوکر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے:’’ میں دنیا کے کسی بھی اخوانی کو نہیں جانتا جس نے کبھی ایران کے خلاف زبان کھولی ہو۔‘‘
فتحی یکن – جو لبنان کی اخوانی تحریک کے قائد تھے– اپنی کتاب ( ابجدیات التصور الحرکی للعمل الإسلامی) کے اندر اسلام کے خلاف عالمی طاقتوں اور استعماری ریشہ دوانیوں کا ایک متصورہ نقشہ کھینچنے کے بعد صفحہ ۱۴۸ پر لکھتا ہے:’’تاریخ قریب کے حادثات میں ہمارےدعوے کی دلیل موجود ہے، میری مراد ایران کے اندر اسلامی انقلاب سےہے جس کو ناکام کرنے اور جس سے جنگ کرنے کے لیےزمین کی ساری کافر طاقتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور لگاتار ابھی تک وہ اپنی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ وہ صرف اس لیے کہ یہ تحریک نہ مشرقی، نہ مغربی نوعیت کی تھی بلکہ خالص اسلامی تحریک تھی۔‘‘
اخوانی راشد الغنوشی نئے اسلامی رجحان کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس رجحان نے ترقی کی اور اس کی شکل امام بنا، مودودی، قطب اور خمینی کے ہاتھوں مزید نکھر کے سامنے آئی جو عصر حاضر کی اسلامی تحریک کے اہم ترین رجحانات کے نمائندے تھے۔‘‘ [ کتاب الحرکۃ الإسلامیۃ والتحدیث- راشد الغنوشی اور حسن الترابی ۱۶]
مودودی مجلہ الدعوۃ – القاہرہ – عدد ۲۹ اغسطی ۱۹۷۹ ء میں نشر شدہ ایک سوال کے جواب میں دیے گئے فتوی کے اندر کہتے ہیں:’’خمینی انقلاب اسلامی انقلاب تھا اور اس انقلاب کی پاسداری کرنے والے لوگ جماعت اسلامی کے لوگ اور ایسےنوجوان ہیں جنھوں نے اسلامی تحریکات کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے۔ سارے مسلمانوں پر عموما اور اسلامی تحریکات پر بالخصوص یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس انقلاب کی تائیدکریں اور سارے پلیٹ فارموں پر اس کا تعاون کریں۔‘‘
مصر کے اخوان کی سرپرستی میں نکلنے والا مجلہ الاعتصام اپنے (صفر ۱۴۰۱ جنوری ۱۹۸۱ء) کے شمارے کے فرنٹ پیج پر یہ ہیڈنگ جلی حروف میں لکھتا ہے’ وہ تحریک جس نے سارے حساب وکتاب چکا دیے اور قوت کاپیمانہ ہی بدل ڈالا‘۔ یہی مجلہ صفحہ ۳۹ پر سوال کھڑا کرتا ہے:’’ کیوں ایرانی انقلاب عصر حاضر کا سب سے بڑا انقلاب کہلاتا ہے؟‘‘ اور پھر اس مقالے کےاخیر میں جسے اس انقلاب کی دوسری یادگار کے طور پر لکھا گیا لکھتا ہے:’’ان سارے چلینجوں کے باوجود ہزاروں لوگوں کی شہادت کے بعد ایرانی انقلاب فتح یاب ہوتا ہے اور اس بنیاد پر یہ انقلاب جس نے اپنی کارکردگیوں، مثبت نتائج اور ان اثرات کی روشنی میں جنھوں نے سارے حساب وکتاب چکتے کردیےاور طاقت کا پیمانہ ہی بدل ڈالا جدید تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب تھا۔‘‘
مصر کا الامان نامی ایک مجلہ یوسف العظم کا ایک قصیدہ نشر کرتا ہے جس میں یہ شاعر خمینی سے بیعت ہونے کی دعوت دیتا ہے، اس کے چند اشعارملاحظہ ہوں:
ہذا صرح الظلم لا یخشی الحمام
بالخمینی زعیما وإمام
( یہ ظلم کے مقابلے کا محل ہے جو خمینی کی قیادت وامامت موت سے نہیں ڈرتا)
من دمانا ومضینا للأمام
قد منحناہ وشاحا ووسام
(ہم نےاپنے خون کی بازی لگاکر اسے اپنی وفاداری اور کامیابی کاذمہ تھما دیا)
لیعود الکون نورا وسلام
ندمر الشرک ونجتاح الظلام
(تاکہ یہ کائنات نورہدایت اور سلامتی سے بھر جائے، اور ہم شرک کے تومار کوچو رچورکرسکیں اور ظلمت پر ہلہ بول سکیں)
مجلہ الدعوۃ المہاجرۃ (جسے نمسا کے اخوان نکالا کرتے تھے )کے شمارہ نمبر ۷۲ ماہ رجب ۱۴۰۲ موافق مئی ۱۹۸۲ کے صفحہ ۲۰ پر درج ہے:’’پوری دنیا میں آج اسلامی بیداری دیکھنےکو مل رہی ہے جس کی برکات میں سے ایران کا وہ اسلامی انقلاب تھا جس نے کچھ خامیوں کے باوجود سب سے قدیم اور اسلام اور مسلمانوں کی شدید ترین دشمن سلطنت کے غرور کو مٹی میں ملاڈالا۔‘‘
کیا اخوانی جماعت کا اپنا کوئی عقیدہ نہیں اور عقیدے کے عنوان پر اس کی کوئی تالیف وتصنیف موجود نہیں؟
جیسا کہ پہلے اس بات کا ذکر ہوچکا کہ اس جماعت کا اپنا عقیدہ منہج اور طریقہ کار نیز ولاء وبراء ہے، جو اہل سنت یا سلفی عقیدہ کی بہت ساری اساسیات سے ٹکراتا ہے، اس کے اثبات کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ جماعت خمینی انقلاب کو اسلامی انقلاب اور ایران کو خلافت کے نمودار ہونے کی جگہ سمجھتے ہیں۔ یہاں پر میں اس واہمے کو دور کروں گا کہ کہ اس جماعت کے پاس عقائد کے باب میں اپنی کوئی تصنیفات نہیں۔
حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جس میں لوگوں کو مبتلا کیا جاتا ہے، جب کہ ادنی سا علم رکھنے والے لوگ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ خود بانی جماعت حسن البنا نے عقیدے کے باب میں’ العقائد‘ نام کی کتاب تصنیف کی تاکہ عقدی تربیت کے باب میں یہ جماعت الاخوان کا تدریسی منہج ہو اور یہ کتاب مکمل اشعریت کی عکاس ہے، جس میں اس نے مندرجہ ذیل قواعد کو ثابت کیا ہے:
۱-مذہب اشاعرہ کا قانون کلی، جو عقل پر مبنی ہے، نہ کہ نقل پر، جیسا کہ اس نے رازی سے اس قانون کومکمل رضامندی کے ساتھ نقل کیا ہے۔
۲-مکلف واجب مکلف پر غور وفکر کرنا ہے، نہ کہ شہادتین کا اقرار کرنا۔
۳-سات صفات باری تعالی کو چھوڑ کر سب کا یہ کہہ کر انکار کردینا کہ ان کے اثبات میں اللہ کے لیے جہت کا اثبات لازم آتا ہے۔
۴-صفات باری تعالی کے معنی کو ثابت نہ مان کر اسے اللہ کے حوالے کردینا – کہ ان کا معنی اللہ ہی جانتا ہے– اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اس عقیدہ کے رد میں لکھا ہے کہ صفات پر مشتمل نصوص قرآن وسنت کے متعلق اہل تفویض کا قول اہل بدعت اور اہل الحاد کے اقوال میں سب سے بدترین قول ہے۔ [درء تعارض العقل والنقل ۱/۲۰۱-۲۰۵]
حسن البنا نے عقائد کے باب میں الاصول العشرین لکھی جو ان کے ’التعالیم‘ عنوان کے رسالے کے ضمن میں شامل ہے، جس میں انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا، اموات سے مانگنا اور غائب لوگوں کو مدد کے لیے پکارنا اسلام سے خارج کردینے والا شرک اکبر نہیں بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں اور یہ کہ صفات باری تعالی کی نصوص ایسی متشابہات ہیں جن کا معنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور یہی اہل تفویض کا مذہب ہے۔
جماعت الاخوان المسلمین کے یہاں عقیدہ کی نصابی کتابوں میں سے شیخ حسن ایوب –جو کہ حسن البنا کے شاگرد بھی ہیں اور اس جماعت کے اولین فدائین میں سے ہیں–کی تالیف’تبسیط العقائد الإسلامیۃ‘ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ کتاب عصر حاضر کے غالی اشاعرۃ کی کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، اس کتاب کے اندر شیخ حسن ایوب نے چند مندرجہ ذیل مسائل کو ثابت کیا ہے:
۱-شریعت وعقیدہ اخذ کرنے کے مصادر عقلی دلائل، پھر کتاب اللہ، پھر رسول اللہ کی متواتر روایتیں ہیں یعنی خیرآحاد کو یہاں خارج کردیا گیا۔
۲-ایمان صرف دلی تصدیق کو کہتے ہیں، جو بھی دل سےارکان ایمان کی تصدیق کرتا ہو گرچہ وہ شہادتین کو زبان سے ادا نہ کرے، آخرت میں کامیابی کا مستحق ہے اور یہی مرجئہ کا عقیدہ ہے۔ شیخ عبد الرزاق عفیفی نے سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کو اس کتاب کے متعلق ایک رپورٹ لکھ بھیجی اور اس میں پائی جانے والی فحش غلطیوں کی طرف اشارہ کیا، تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے حسن ایوب کو نصیحت لکھ بھیجی کہ آپ اس کتاب میں پائی جانے والی غلطیوں سے رجوع کرلیں، وگرنہ اس کتاب کو لوگوں کی پہنچ سے روک دیا جائے گا، یہ واقعہ ۱۴۰۴ ھ کا ہے۔
جماعت الاخوان المسلمین کے یہاں عقیدہ کی معتبر کتابوں میں سے محمد الغزالی کی ’عقیدۃ المسلم‘، سید سابق کی’العقائد الإسلامیۃ‘, قرضاوی کی ’فصول فی العقیدۃ بین السلف والخلف‘بھی ہیں، جو ساری کی ساری اشعری مذہب کی عکاس ہیں۔
کیا جماعت الاخوان المسلمین صرف ایک سیاسی اصلاحی جماعت ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی اور سری مقصد نہیں؟
ایسا کہا جاتا ہے، البتہ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ حسن البنا نے اس جماعت کو حکومت کے حصول کے مقصد سے قائم کیا، انھوں نے جماعت کی پانچویں کانفرنس میں اپنے پیغام کے اندر اس بات کا ذکر کیا، اس مقصد کی بر آوری ان کے نزدیک تین مرحلوں پر محیط تھی:
پہلا مرحلہ:
العریف: یعنی اخوانی دعوت کو عام کرنا اور مرشد اعلی کی بیعت نیزمطلق سمع وطاعت پر قسم کھانا۔
دوسرا مرحلہ:
تکوین:یعنی جماعت کی فکر، منہج اور عقیدہ پر لوگوں کی تربیت کے بعد طاقت کے بل پر ہمدردوں کی ایک فوج تیار کرنا، جیسا کہ حسن البنا لکھتے ہیں:’’ ہم جہاں پر طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی اورچارہ کار نہیں ہوگا وہاں طاقت کا بھی استعمال کریں گے‘‘ جس طاقت کی تعبیر وہ اپنے پانچویں کانفرنس کے پیغام میں ’قوت دست وبازو‘ سے کرتے ہیں۔
حکومت تک پہنچنے کے مقصد کے لیے انھوں نے مندرجہ ذیل اسالیب اختیار کیے:
۱-کڈنیپنگ اور ٹارگیٹ کلنگ
۲-مظاہرے
۳- دھرنے
۴-ہڑتالیں
۵- سول نافرمانیاں
ان سارے اسالیب کا ذکر محمود الصباغ کی کتاب ’التنظیم الخاص ودورہ فی دعوۃ الاخوان المسلمین‘ میں موجود ہے۔
کیا الاخوان المسلمون کی ولاء وبراء کتاب وسنت پر قائم ہے یا پھر جماعت کے بانی کی فکر ومنہج پر؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان تحریکات میں انا الحقی طبیعت کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہے،اسی لیے یہ ہر تحریکی کو حقیقی مسلم اور غیر تحریکی کو مغفل، حالات سے بے خبر،نادان اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ نیز ان کی قابل تعریف خصلتوں میں سے ایک حسین خصلت یہ بھی ہے کہ غلطی کتنی بھی بڑ ی کیوں نہ ہو، کبھی رجوع نہیں فرماتے اور نہ ہی اپنے مواقف پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات تو یہ تک دیکھا جاتا ہے, کہ شادی کی شروط میں سے ایک اعتباری شرط ان کے یہاں یہ بھی ہوتی ہےکہ لڑکی یا لڑکا تحریکی ہو، بہ صورت دیگر رشتہ نامنظور ہے۔یہاں پر ان کی ساری خصلتوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ ہماری مراد ہے۔ البتہ گزشتہ سوال کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اس جماعت کے اراکین کے اندر ولاء وبراء جماعتی منہج وفکر کی بنیاد پر قائم ہے، نہ کہ کتاب وسنت کی بنیاد پر۔ اسی لیے بنائی منہج پر لوگوں کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر حق وناحق کا فیصلہ بھی کیا جاتا ہے۔ بانی جماعت کہتے ہیں:’’ہم کسی بھی جماعت کو اپنی دعوت وفکر کے میزان میں رکھ کر تولتے ہیں، جو ہمارے منہج ودعوت سے موافقت جماعت نظر آتی ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور جو ہماری دعوت کے خلاف ہوتی ہے ہم اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ [مجموعۃ رسائل البنا:ص ۱۷] مزید اناالحقی مغرور طبیعت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مذکرات میں لکھتے ہیں’’تمھاری یہ دعوت اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ لوگ اس کی اقتدا کریں، نہ یہ کہ یہ کسی کی اقتدا کرے۔ بلکہ اسے دوسری کسی بھی دعوت سے بے نیاز ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ہر بھلائی کا نچوڑ ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ جتنی بھی تحریکات اوردعوتیں ہیں نقص اورکوتاہیوں سے خالی نہیں۔‘‘ یعنی دنیا میں یہی وہ جماعت ابھی موجود ہے جس میں نقص نہیں وگرنہ ساری جماعتوں میں نقص موجود ہے۔
کیا معتبر علماء میں سے کسی عالم نے اس جماعت کے منہج پر اعتراض جتلایا ہے؟
اس جماعت کے ہدف، منہج اور کج فکری پر ابتدائی ایام ہی سے مطلع ہونے والے مشائخ کرام میں سے ایک بہت بڑا نام احمد محمد شاکر کا آتا ہے۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ’شؤون القضاء:ص۴۸‘ میں اس جماعت کے متعلق اظہار خیال فرماتے ہیں:’’شیخ حسن البنا اور ان کے الاخوان المسلمین نے اسلامی دعوت کو اجرامی اور نہایت مہلک دعوت میں تبدیل کردیا ہے۔ ہم یقینی طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ اس کی نشر واشاعت میں کمیونسٹ اور یہود خوب پیسہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘
شیخ محمد حامد الفقی – رحمہ اللہ–نے حسن البنا کے منحرف موقف کے رد میں–جب انھوں نے اپنی جماعت میں نصاری کو بھی شامل کیا –ایک مقالہ لکھاجسے جماعت انصار السنۃ کے مجلۃ ’الہدی النبوی‘ نے نشر کیا۔
اسی طرح سے شیخ عبد الرحمن الوکیل – رحمہ اللہ – نے بھی حسن البنا کے تصوف میں غرق ہونےاوران کے ابوحامد الغزالی اور ابن الفارض جیسے صوفی آقاؤں کی تمجید پر ردکیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے اس کے اولیاءاورصالحین کے ذریعے توسل کےجواز پر بھی رد کیا ہے اور دونوں مقالے ’الہدی النبوی ‘ کے شماروں میں ابھی تک موجود ہیں۔
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی ’مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ‘ کی آٹھویں جلد میں اس جماعت پر نقد کرتے ہوئے فرمایا:’’اخوانی جماعت نہ تو توحید کی طرف دعوت پر توجہ ہی دیتی ہے اور نہ اس کا بہت زیادہ پاس رکھتی ہے۔‘‘ نیز آپ کی وفات سے دو سال قبل سنہ ۱۴۱۸ ھ میں جب آپ سے جماعت الاخوان المسلمین اور جماعت تبلیغ کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ بہتر فرقوں میں شامل ہیں تو آپ نے فرمایا:’’ جی ہاں وہ ان بہتر فرقوں میں شامل ہیں۔‘‘
نیز شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں:’’الاخوان المسلمون اہل سنت میں سے نہیں ہیں اور میں نےجو بات کی تھی کہ وہ اہل سنت میں شامل ہیں اس بات سے برأت کا اظہار کرلیاہے۔ لیکن وہ اپنے خلاف کسی بھی موقف کو کبھی ذکر نہیں کرتے ہیں۔‘‘
کیا مرسی کی حکومت اسلامی خلافت تھی اور اس کا سقوط اسلامی حکومت کے سقوط کے مترادف تھا؟
یوں تو اپنی سیاہ تاریخ میں الاخوان المسلمون نے صرف حکومتیں گرانے، سیاسی پینترےبازیاں،نیز بیعت شکنی اور باغیانہ ریشہ دوانیوں میں مشغول رہنے اور خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد کے سارے شاہی اور جمہوری نظام ہائے حکومت کو طاغوتی نظام بتلاکر مسلم ممالک کی نیو کو کمزور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ان ساری تفصیلات سے یہاں بحث نہیں کی جاسکتی، جو بات یہاں قابل غور ہے وہ یہ کہ کیا مرسی کا طرز انتخاب اسلامی تھا؟ اور کیا اس کا فوج کے ذریعہ تختہ پلٹ دیا جانا شرعا جرم عظیم تھا؟
پہلی بات تو یہ کہ اس جماعت کے لٹریچر میں خلافت قسم کی طرز حکومت کے علاوہ ہر طرز حکومت اور طرز انتخاب حکمراں طاغوتی طریقہ ہے۔ اگر مسلم ممالک کی ساری حکومتیں غیر اسلامی اور طاغوتی نوعیت کی ہیں تو مرسی کی حکومت میں کون سی وہ بات تھی جو اسے شرعی اور اسلامی بنادیتی ہے۔ اگر وہ اخوانی وتحریکی تھیوری کے مطابق غیر شرعی تھا تو کتنے جمہوری ملکوں میں ہر پانچ سال یا اس سے قبل ہی حکومتیں گرتیں اور بنتی ہیں، تو پھر یہاں اتنا واویلا اور ہنگامہ کیوں؟ کیا اس لیے کہ یہاں اس ڈیموکریسی میں منتخب ہونے والا حکمراں اس تھیوری سے تعلق رکھتا تھا یا پھر اس لیے کہ ڈیموکریسی اگر اخوانیوں یا اخوانیت زدہ لوگوں کے اقتدار تک پہنچنے کا سبب بنے تو وہ اسلامی طرز انتخاب ہے، وگرنہ نہیں۔ بہر کیف اس مسئلے کے سمجھنے میں تضادفکری اور حزبیت کے علاوہ کچھ نہیں سمجھ میں آئے گا۔ پھر بھی ہم مرسی حکومت کو حق وباطل کا معیار بناکر اس کی حکومت اور اس کی موت پر ہنگامہ بپا کرنے والےبازیگروں کی توجہ ذرا مرسی کے ان بیانات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں:
=کہتے ہیں:’’اسلامی او رعیسائی عقیدہ دونوں ایک ہی ہیں، فرق صرف ڈینامیکی نوعیت کا ہے۔‘‘
= کہتے ہیں:’’مصری قبطی کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔‘‘ یہ اس کی طرف سے قبطیوں کی اس لیے چاپلوسی کی گئی تھی تاکہ وہ اسے حکومت کے لیے منتخب کرلیں، اس کے باوجود اللہ نے انھیں ذلیل کیا۔ کیونکہ قبطیوں کا پوپ اس کے معزولی کے لیٹر پر سب سے پہلے دستخط کرنے والے شخص تھا۔
=جب مرسی سے پوچھا گیا کہ کیا چو رکا ہاتھ کاٹا جائےگا، تو کہتے ہیں’’ دی احکام فقہ مش تطبیق شریعۃ یعنی یہ فقہی مسائل ہیں، تطبیق شریعت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
=اس نے وضعی کفریہ قانون کے مطابق حکومت سنبھالی اور اسی کے مطابق ملک کو چلانے کی قسم کھائی، جس کی ابتدا میں یہ درج ہے کہ ’’ مصدر السلطات الأمۃ یعنی ساری اتھارٹی قوم کے ہاتھ میں ہے‘‘ جس کے ایک مواد میں یہ درج ہے کہ’’حریۃ التعبیر اور حریۃ الرائی ہرشخص کا ابداعی اور فکری حق ہے‘‘۔ یہی وہ لبرل ازم ہے جس کے خلاف آواز اٹھاتے اٹھاتے ان اخوانیوں نےہمارے کان بہرے کردیے تھے کہ ’الإسلام ھو الحل‘ اور ’ الحاکمیۃ للہ‘ یعنی الہی حکومت کا قیام،حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے وغیرہ۔
اور تعجب کی بات ہے کہ آج کل وہی لوگ اس نظام کے تحت ووٹنگ اور انتخابات کی وکالت کرتے ہیں جو کل اسے طاغوتی نظام کہہ کر امت کی ذہن سازی کرتے تھے اور اس طرح کے نظاموں کو قبول کرنے کو شرک فی التشریع یا شرک فی الحاکمیت کہتے تھے۔ آج جب مرسی، اردگان، یا غنوشی حکومت کا معاملہ آیا تو یہی شرک توحید میں تبدیل ہوگیا، یہ کیسا دجل وفریب دہی، یادجالی وفریب خوری ہے، اللہ کی پناہ۔
[یہ تحریر ایمن بن سعود العنقری – استاذ قسم العقیدۃ بجامعۃ الامام محمد بن سعود الإسلامیہ – کے اس مقالے سے مستفاد ہے جو آپ نے ۱۳/۹/۱۴۳۴ کو عبد العزیز الطریفی کے بعض اشکالات کے رد میں لکھا تھا]

آپ کے تبصرے

3000