شیخ الحدیث مولانا عزیز الحق عمری

وصی اللہ عبد الحکیم مدنی وفیات

جماعت کے ممتاز و معروف عالم دین اور جامعہ اثریہ دارالحدیث مئو کے سابق شیخ الحدیث مولانا عزیز الحق عمری مئوی ایک طویل علالت کے بعد مورخہ ١/١٢/٢٠٢٠ بوقت دو بجے شام داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، إنا لله وإنا إليه راجعون۔
مولانا موصوف مورخہ ٢٣/ستمبر ١٩٣٩ءمیں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم قاعدہ پھر قرآن کریم گھر میں اپنی والدہ ماجدہ فاطمہ خاتون سے پڑھا، ان کے والد گرامی عالم دین نہیں تھے لیکن انھیں اپنے فرزندوں کو عالم دین بنانے کا شوق غالب رہا اور اللہ کے فضل وکرم سے مولانا موصوف اور ان کے بھائی شمس الحق فراغت تک تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
١٩٦٣ء میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کے اساتذہ وشیوخ سے فیض پاکر سند فراغت حاصل کی، مدرسہ فیض العلوم سیونی، جامعہ عالیہ عربیہ اور جامعہ اثریہ دارالحدیث میں دعوتی اور تدریسی فرائض انجام دیے، علمی حلقوں میں آپ محتاج تعارف نہیں کیوں کہ آپ کی علمی شخصیت ہمہ جہت تھی، کہنہ مشق مدرس اور معروف داعی ومبلغ ہونے کے علاوہ ایک سنجیدہ خطیب اور جامعہ اثریہ دارالحدیث مئو کے سابق شیخ الحدیث تھے۔
قلم وقرطاس سے آپ کا رشتہ گہرا تھا، آپ کا شمار جماعت کے معروف قلمکاروں میں ہوتا تھا، آپ اپنے گہر بار قلم سے کئی مفید کتابیں تصنیف کرکے اہل علم سے خراج تحسین حاصل کرچکے تھے۔
ماہنامہ نوائے اسلام دہلی میں نوائے قرآن اور نوائے حدیث مستقل طور پر آپ ہی لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اخبار مسلمان، جریدہ ترجمان، محدث بنارس، آثار جدید وغیرہ میں بھی آپ کے اصلاحی ودعوتی مضامین شائع ہوتے تھے، آپ کو عربی، اردو اور ہندی تینوں زبانوں میں عبور حاصل تھا، غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی خاطر سنسکرت پڑھی اور کئی سال تک ہندوازم کی کتابوں کا بنظر عمیق مطالعہ کیا، کچھ رسائل اور پمفلٹ بھی لکھے جن کا غیر مسلموں پر اچھا اثر ہوا جیسے ستیہ دھرم، ایک یا نیک، ستیہ دھرم کی کھوج، مانو دھرم اور انتم مہا ایشدوت مارگ درشن وغیرہ۔
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی مشہور کتاب “تفسیر احسن البیان” کے ہندی ترجمہ میں ان کی شرکت رہی اور اس کے دس پاروں کا ترجمہ اور ترجمہ پر نظر ثانی بھی ان کے مقدر میں رہی ہے۔
میری آپ سے ذاتی ملاقات نہیں ہے البتہ ان کی گراں قدر تحریروں سے استفادہ کیا ہے، آپ کے بیشتر نمایاں اوصاف وفضائل میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ علم دوست اور علماء نواز تھے، طلبہ کی تقریروں اور تحریروں پر حوصلہ افزا کلمات کہتے تھے، اپنے دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیتے تھے۔
ہمارے ایک عزیز شاگرد شیخ ابوعبدالبر عبدالحئی مدنی، نیپالی ہیں جو نوجوان وسنجیدہ، خلیق وملنسار اور باصلاحیت ہونے کے علاوہ بہترین قلمکار ہیں، لکھنے کا اچھا ذوق وشوق رکھتے ہیں، ان کی بعض کتابوں پر آپ نے نظر ثانی کی ہے اور اپنے مشط قلم سے وقیع تقریظ قلمبند فرمائی ہے۔
آپ نے بعض کتابوں کا عمدہ ترجمہ کیا ہے، آپ کی ایک مترجم کتاب ڈاکٹر عبداللہ بن صالح بن محمد العبید کی تصنیف “كتاب الأربعين في فضائل الصحابة” کا اصل مسودہ میرے سامنے ہے۔ غالباً ٢٠١٩ء میں یہ کتاب ماہنامہ نوائے اسلام کے ذمہ داروں نے ہمارے شیخ عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ کے پاس مراجعہ ونظرثانی کی خاطر بھیجی تھی۔ کتاب کی تصحیح، زبان وبیان اور نوک پلک سنوارنے میں آپ نے بڑی محنت کی تھی، بسااوقات مجھ سے بھی علمی تعاون لیا کرتے تھے، وارد آیات واحادیث کی تخریج کرنے کا حکم دیتے تھے، تغمده الله بواسع رحمته۔
اردو زبان میں اس کتا ب کا نام آپ نے فضائل صحابہ سے متعلق چہل حدیث تجویز کیا تھا، کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے۔
اللہ آپ کے تمام حسنات، دینی ودعوتی اور جماعتی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور تمام لواحقین وپسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی دیتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000