ایک ہی نام کے ایسے مصنفین جن میں تفریق کرنا بسا اوقات بعض طلبہ کے لیے مشکل ہوتا ہے
بہت سارے ایسے مصنفین ہیں جن کے نام میں مشابہت کی وجہ سےبعض طلبۂ علم کو بسا اوقات التباس یا وہم ہو جاتا ہے، اور وہ مشہور مصنف کو ہی صاحب کتاب سمجھتے ہیں۔ یا دونوں مشہور ہوتے ہیں اور وہ دونوں کے مابین تفریق نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے غلطیوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔
چونکہ ان کی تعداد کافی زیادہ ہے، اس لیے یہاں بطور مثال دس ایسے ناموں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
(۱)حمیدی دو ہیں:
ایک امام بخاری کے استاد،جن کی کتاب ’المسند‘ ہے۔ جن کی وفات ۲۱۹ میں ہوئی ۔ اور دوسرے متأخر ہیں، ابن حزم کے شاگرد،جن کی وفات سنہ ۴۸۸ میں ہوئی۔ ان کی کتاب کا نام ہے ’الجمع بین الصحیحین‘۔
(۲)ابو حاتم الرازی:
اس کنیت ونسبت سے کون واقف نہ ہوگا؟لیکن امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی کے زمانے کے ہی ایک دوسرے مؤلف ہیں احمد بن حمدان، جن کی کنیت ہے ابو حاتم۔ یہ بھی ری کے رہنے والے تھے، اس لیے انھیں بھی ابو حاتم الرازی کہا جاتا تھا۔ یہ عقیدتًا شیعی تھے اور شیعیت کی طرف دعوت بھی دیتے تھے۔
کنیت ونسبت میں مشابہت کی وجہ سے بعض لوگوں نے امام ابو حاتم امام اہل السنہ وامام الجرح والتعدیل کو شیعہ سمجھ لیا، حالانکہ وہ اہل سنت کے بالاتفاق امام ہیں۔ اور حافظ ذہبی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے ان کے بہت سارے اقوال کو اہل سنت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ’عقیدۃ اہل السنہ‘اور ’الرد علی الجہمیہ‘ کے نام سے انھوں نے عقیدے کی مشہور کتابیں لکھی ہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے مذکورہ کنیت ونسبت کی مشابہت کی وجہ سے انھیں شیعیت سے متہم کیا ہے، حالانکہ وہ اس سے بری ہیں۔
یہاں تک کہ ابو حاتم احمد بن حمدان الشیعی الرازی کی بعض کتابوں کی بعض لوگوں نے ابو حاتم الرازی السنی کی طرف نسبت کر دی ہے جیسا کہ بعض مخطوطات میں ملتا ہے۔ حالانکہ وہ شیعی کی کتابیں ہیں سنی کی نہیں۔ اور اس کے بر عکس بھی ہوا ہے۔ یعنی سنی کی کتاب شیعی کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ دار الکتب المصریہ کی فہرست میں اس طرح کی بعض چیزیں موجود ہیں۔
(۳)دارمی دو ہیں:
ایک ہی زمانے میں دو بڑے محدث اس نام سے مشہور ہوئے جس وجہ سے اکثر وبیشتر طلبہ کو ان کے مابین تفریق کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
ایک ہیں ’سنن دارمی‘ کے مصنف، جن کی وفات امام بخاری کی وفات سے ایک سال پہلے یعنی۲۵۵ میں ہوئی ۔اور دوسرے ہیں: ابو سعید عثمان بن سعید الدارمی۔ یہ امام ابن معین کے مشہور شاگرد ہیں۔ اور ان کی ’تاریخ‘کے ایک مشہور راوی۔ ان کی دیگر تصنیفات میں ’الرد علی الجہمیہ‘اور ’النقض علی المریسی‘ بہت مشہور ہیں۔ ان کی وفات سنہ۲۸۰ میں ہوئی۔
(۴)ابو داود دو معروف ہیں:
ایک ابو داود الطیالسی، کتاب ’المسند‘ کے مصنف۔ ان کی وفات ۲۰۴ میں ہوئی۔ اور دوسرے کتاب ’السنن‘کے مصنف ابو داود السجستانی، ان کی وفات ۲۷۵ میں ہوئی۔
(۵)طبری دو معروف ہیں:
ایک ہیں’تاریخ طبری‘ اور’تفسیر طبری‘ کے مصنف، جن کا نام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ہے اور جن کی وفات۳۱۰ میں ہوئی ۔
دوسرے ہیں محب الدین الطبری۔ یہ متاخر ہیں۔ ان کی وفات۶۹۴میں ہوئی۔ یہ شافعیہ کے ایک بڑے امام گزرے ہیں۔’احادیث احکام‘کے موضوع پر ان کی کتاب ’غایۃ الإحکام فی أحادیث الأحکام‘ سب سے ضخیم کتاب مانی جاتی ہے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں کلیۃ الحدیث الشریف کے ایم فل اورپی ایچ ڈی کے طلبہ نے ابھی حال ہی میں اس کی تحقیق کی ہے۔
(۶)ابن الأثیر الجزری تین ہیں:
ایک ’النهاية في غريب الحديث والأثر‘ اور ’جامع الأصول‘ وغیرہ کے مصنف جن کی وفات۶۰۶ میں ہوئی۔ ان کی کنیت ابو السعادات ہے۔
دوسرے ’أسد الغابة‘ اور ’الكامل في التاريخ‘ وغیرہ کے مصنف جن کی وفات۶۳۰ میں ہوئی۔ ان کی کنیت ابو الحسن ہے۔
اور تیسرے ہیں ’الجامع الكبير في صناعة المنظوم من الكلام والمنثور‘ اور ’المثل السائر في أدب الكاتب والشاعر‘ وغیرہ کے مصنف جن کی وفات۶۳۷ میں ہوئی۔ یہ ابن الأثیر الکاتب سے بھی معروف ہیں۔ ان کی کنیت ہے ابو الفتح اور لقب ہے ضیاء الدین۔ یہ تینوں بھائی تھے۔
(۷)بغوی دو مشہور ہیں:
ایک ابو القاسم البغوی ’معجم الصحابہ‘ والے، جوکہ متقدم ہیں،۳۱۷ھ میں جن کی وفات ہوئی ۔ اور دوسرے ہیں ابو محمد البغوی، ’تفسیر بغوی‘، ’مصابیح السنہ‘ اور ’شرح السنہ‘ والے۔ یہ متأخر ہیں اور ان کی وفات ۵۱۶ھ میں ہوئی ۔
(۸)ابو یعلی نام سے کئی مصنفین مشہور ہیں:
الف- ابو یعلی الموصلی: یہ سب سے متقدم ہیں اور سب سے مشہور بھی۔ ان کی مشہور کتاب ہے: ’مسند ابی یعلی الموصلی‘۔ ان کی وفات سنہ۳۰۷ میں ہوئی ۔
ب- ابو یعلی الخلیلی: یہ بھی مشہور محدث ہیں۔ سنہ۴۶۶ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ طلبہ حدیث کے نزدیک ان کی کتاب ’الارشاد الی معرفۃ علماء الحدیث‘معروف ومشہور ہے۔
ج- قاضی ابو یعلی ابن الفراء الحنبلی: یہ حنابلہ کے مشہور علما میں سے ہیں، البتہ ان کے والد احناف کے مشہور علما میں سے تھے۔ یہ بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام (۱۰/۱۰۵) اور سیر اعلام النبلاء (۱۸/۹۱) میں ان کی بہت ساری تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے۔ مثلا: الاحکام السلطانیہ، العدہ فی اصول الفقہ، الکفایہ فی اصول الفقہ، ابطال التاویلات، التوکل وغیرہ۔ سنہ۴۵۸ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔
ان کے ایک فرزند ہیں جوابن ابی یعلی کے نام سے مشہور ہیں۔ ابو الحسین محمد بن محمد الحنبلی۔ یہ بھی حنابلہ کے مشہور علما میں سے ہیں۔ ’طبقات الحنابلہ‘ اور ’کتاب الاعتقاد‘ وغیرہ ان کی مشہور تصنیفات میں سے ہیں۔ باپ اور بیٹے میں اکثر مشابہت ہو جاتی ہے اور بعض طلبہ دونوں کے مابین تفریق نہیں کر پاتے۔
د- ابو یعلی التنوخی: یہ ابو العَلا المَعَرِّی (متوفی۴۴۹) کے مشہور شاگرد ہیں۔ ادب وبلاغت میں ان کی کتاب ’القوافی‘ مشہور ہے۔
(۹)قرطبی دو مشہور ہیں:
ایک شرح مسلم (المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم) والے جن کی وفات۶۵۶ میں ہوئی۔ ’تفسیر قرطبی‘ (الجامع لأحکام القرآن) ان کی تصنیف نہیں ہے جیسا کہ بعض طلبہ سمجھتے ہیں، وہ دوسرے ہیں، ان کی وفات۶۷۱ میں ہوئی۔
(۱۰)ابن حجر دو ہیں:
دونوں کا نام احمد ہے، دونوں مذہب شافعی کے کبار فقہا میں سے ہیں اور دونوں مصری ہیں۔ ایک ابن حجر العسقلانی صاحب فتح الباری، جو کہ متقدم ہیں،۸۵۲ میں ان کی وفات ہوئی ۔ اور دوسرے ہیں ابن حجر الہیتمی، جن کی وفات ۹۷۴ میں ہوئی۔ یہ بھی بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔
اس طرح ایک لمبی لسٹ ہے ایسے مصنفین کی جن کے نام سے بعض طلبہ کو وہم اور التباس ہوجاتا ہے۔
شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ فرماتے ہیں:’’احمد العلاونہ نے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں ایک نام یا شہرت سے معروف کئی علما کا تذکرہ کیا ہے‘‘۔ [عربی مخطوطات کی تحقیق وتدوین کے اصول وقواعد: ص۱۶۸]
اس لیے جب ایسے کسی مصنف کا نام آئے تو طلبۂ علم کو حد درجہ چوکنا اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ بعض سابقین کو جو وہم ہوا ہے انھیں نہ ہو جائے۔
ماشاء الله، تقبل الله جهودكم أخي الفاضل!!
رسالة جامعة مختصرة مفيدة علمية!!!
ماشاءاللہ
بارک اللہ فیکم