مقالات مولانا محمد رضوان اللہ سلفی

ابوالمیزان پس نوشت

ایسا کم‌ ہوتا ہے کہ کوئی جیتے جی مجہول ہو اور مرتے ہی معروف ہوجائے۔ ہاں ایسا بہت ہوا ہے کہ زندگی میں مشہور شخص موت کے بعد دھیرے دھیرے بھلادیا گیا۔ اس‌ فہرست میں مال داروں کی اکثریت ہوتی ہے۔
یہ کتاب جس کا نام ’مقالات مولانا رضوان اللہ سلفی‘ ہے، ۱۱۲صفحات پر مشتمل چار مقالات کا مجموعہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ چاروں مقالے چار ایسی شخصیات کی حیات اور خدمات کے تعارف پر مشتمل ہیں جن کے نام نامی سے تقریبا سبھی لوگ واقف ہوتے ہیں۔
الہجرہ چینل حیدرآباد کے لیے لکھے گئے یہ چاروں مقالے کتابی صورت میں شائع ہونے کی وجہ سے ایک ان‌ کہی تاریخ کے تذکرے کا بہانہ بھی بن گئے۔ مقالہ نگار کے علاوہ ایک اور شخصیت کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ اور وہ ہیں مقالہ نگار کے والد محترم جناب مولانا عبدالشکور صدری صاحب جن کی وفات ۱۹۶۶ میں ہوئی تھی۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ جس طرح والد نے درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ میں۳۶ سال (۱۹۳۰ تا ۱۹۶۶) گزار دیے خود مولانا رضوان اللہ سلفی صاحب (حفظہ اللہ) نے بھی۳۶ سال (۱۹۶۵ تا ۲۰۰۰) اس مبارک کام میں گزارے۔ بس ایک فرق یہ ہے کہ بیچ میں دو سال (۱۹۷۴-۱۹۷۵) ممبئی میں تجارت کی ایک کوشش بھی شامل ہے۔
عرض ناشر اور مقدمے کے بعد مولانا رضوان اللہ صاحب نے اپنے والد مولانا عبدالشکور صاحب کے سوانحی حالات (یادوں کے چراغ)لکھے ہیں، مرتب کتاب مولانا مطیع اللہ سلفی صاحب نے مقالہ نگار مولانا رضوان اللہ صاحب کا سوانحی خاکہ (حضرت مولانا رضوان اللہ سلفی سے ایک یادگار ملاقات)لکھا ہے۔ اس طرح بہت ساری دیگر ضروری تفصیلات کے علاوہ مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس کی مشہور شاخ اور استاد جامعہ مولانا مستقیم سلفی کے گاؤں میں واقع دارالسلام پھلوریا کے ۱۹۳۵ میں قیام کی داستان بھی حوالہ قرطاس ہوگئی۔ مولانا مستقیم صاحب بھی مولانا عبدالشکور صدری کے شاگردوں میں سے ہیں۔
ٹیرہ ٹکرہ بارہ بنکی، سراج العلوم جھنڈانگر اور امرڈوبھا میں پڑھانے کے بعد جب مولانا رضوان اللہ سلفی صاحب نے تجارت کی غرض سے ممبئی کا سفر کیا تھا تب دو سال کی کوششوں کے بعد بھی کامیابی نہ ملی تھی۔ (اب گزشتہ بیس سال سے حیدرآباد میں ہیں اور کامیاب تاجر ہیں) تو اپنے گاؤں واپس آکر مولانا نے درختوں کے سایے میں بچوں کو پڑھانا شروع کردیا تھا۔ اس درس گاہ میں پہلی بار میں بکیاں بکیاں چل کر حاضر ہوا تھا (میری دادی بتاتی ہیں) یہ حاضری ۱۹۹۵ میں مولانا سے عربی، فارسی اور سنسکرت پڑھنے تک جاری رہی۔ اردو، ہندی اور انگریزی تو مکتب میں پانچویں کلاس تک وہ پڑھا ہی چکے تھے۔ یہ تعلق صرف شاگردی کا نہیں تھا، میں اکثر ان کے گھر رہا کرتا تھا۔لے دے کے اپنی علمی دلچسپی کی یہی ایک نسبت ہے، صرف مولانا ہی نہیں پورے گھرانے کی محبتیں ابھی بھی یادوں میں بالکل تازہ ہیں۔درختوں کے سایے میں قائم کردہ یہ درس گاہ۱۹۷۶ میں ایک عمارت میں پہنچ گئی، اس مکتب کا نام مولانا موصوف نے ’مدرسہ نورالعلوم السلفیہ بڑھے پوروا‘رکھا۔
درس وتدریس کے بعد مولانا تجارت میں مصروف رہے۔ دوران طالب علمی اور اس کے بعد تعلیم وتعلم کی مصروفیات میں کبھی کچھ نہیں لکھا، خطبہ جمعہ بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ایک ساتھ کئی زبانوں پر عبور ہے اور اردو فارسی کے بہت سے اشعار ازبر ہیں، دوران گفتگو بھی بے ساختہ مصرعوں پر مصرعے حسب موقع سنا جاتے ہیں۔الہجرہ چینل کی درخواست پر مولانا نے پہلی بار کچھ لکھا۔ امام بخاری، امام مسلم، مولانا آزاد اور علامہ اقبال کی شخصیت اور کارناموں کو اختصار کے ساتھ چینل کے ذریعے پیش کیا۔
اللہ کے رسولﷺ کی حدیثوں کی بات ہو تو سب سے پہلے یہی دو نام امام بخاری اور امام مسلم ذہن میں آتے ہیں۔ برصغیر میں مسلم قیادت کی بات ہو، تفسیر قرآن کی بات ہو، اردو نثر کی بات ہو تو مولانا آزاد کے سوا کوئی نام دماغ میں نہیں آتا۔ اور اردو شاعری میں توصرف ایک ہی نام ہمارے یہاں اب تک متفقہ طور پرمعتبر ٹھہرا ہے۔ صرف اردو زبان میں ہی علامہ اقبال کی زندگی، فکر اور شاعری پر تقریبا ایک ہزار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ اس اعتبار سے مقالے کے لیے ان چاروں شخصیات کا انتخاب قابل داد ہے اور کتابی شکل میں اس کی اشاعت بھی بہتر ہے۔ یہ چاروں مقالے صرف ۴۲ صفحات(ص۶۱ تا ۱۱۲) پر مشتمل ہیں، طلبہ کے ساتھ عوام کے لیے بھی بہت مفید ہیں۔زبان اگرچہ زیربحث شخصیت اور ان کے اختصاصی موضوعات کی وجہ سے علمی ہے، مگر مولانا موصوف نے بڑے عام فہم انداز میں معلومات کو ڈھال دیا ہے۔ اور ہر مقالے کے آخر میں مراجع ومصادر کا ذکر بھی کردیا ہے۔ مولانا عبدالرحیم امینی صاحب نے جہاں جہاں تشنگی محسوس کی ہے اپنے مفصل مقدمے(ص ۷ تا ۳۵) میں انھیں بالترتیب حیطہ تحریر میں لانے کی کامیاب کوشش ہے۔ چاروں شخصیات کی زندگی کے امتیازی پہلووں کو بڑی چابک دستی سے اجال دیا ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی زندگی میں بھی مشہور ومعروف تھیں اور اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی دن بہ دن ان کی شہرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ اللہ رب العالمین ہمیں بھی اس علمی کارواں کا حصہ بنائے۔
اس موقعے سے مولانا نے اپنے والد صاحب کا جو تذکرہ کیا ہے اس میں الیدہ پور اسٹیٹ کی ایک مختصر تاریخی جھلک بھی آگئی ہے۔ مولانا کی عمر اس وقت ۷۳ سال ہے، مرتب کتاب نے ان کی زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی ہر مقالے کی ابتدا میں ایک نوٹ بھی لگایا ہے۔ مرتب مولانا مطیع اللہ سلفی صاحب بھی میرے استاد ہیں، دارالعلوم ششہنیاں میں ’ہماری زبان‘ پڑھائی ہے۔حفظہ اللہ ورعاہ
سرورق دیدہ زیب ہے، کتاب کا نام ہی جب ’مقالات‘ ہے تو ڈیزائن میں الگ سے مقالات لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ۲۰۱۹ میں پہلا ایڈیشن۱۱۰۰کی تعداد میں شائع ہوا تھا، دوسرا ایڈیشن جلد ہی مئو سے طبع ہوگا۔ فرتی(پھرتی)، دھاڑی(داڑھی) اور محتلفہ(مختلفہ) جیسی دو درجن پروف کی غلطیاں اگر اگلے ایڈیشن میں سدھار لی جائیں تو اچھا ہوگا۔
حیدرآباد والے ۹/۵۴۴-۴-۸ نٹراج نگر، اے جی کالونی، ایراگڈا، حیدرآباد-۵۰۰۰۱۸سے یہ کتاب حاصل کرسکتے ہیں، ناشر کا نام ہے: عزیر شکیل جاوید۔ تمام خواہش مند حضرات ناشر سے اس نمبر(8247421484)پر رابطہ کریں۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

احسنتم بارک اللہ فیکم۔۔

مولانا رضوان اللہ سلفی کی مکمل سوانح “کاروان سلف” میں پڑھی ہے۔ جب یہ پتہ چلا کہ آپ نے ہمارے ہاں مدرسہ محمدیہ میں تدریسی فرائض انجام دیا ہے تو کافی خوشی ہوئی، شیخ کی یہاں بہت خدمات رہی ہیں، اللہ شرف قبولیت سے نوازے،

محمد عامر

الحمدللہ، یہ کتاب مولانا نے میرے مکتبے سے پرنٹ کروائی ہے، پرنٹنگ سے پہلے میں نے کئی لفظی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مگر تصحیح نہ ہوسکی

Abdul Rehman Abdul Ahad

فاضل مبصر نے عقیدت میں ڈوب کر تبصرہ لکھا ہے ۔اس سے مصنف سے انکے قلبی لگاو کا پتہ چلتا ہے ۔
کچھ تفصیلی روشنی مقالات کے مندرجات پر بھی ہو جاتی تو قاری کو اس کتاب کی اہمیت کا پتہ چل جاتا ۔