آج کل انوسمنٹ اور میوچول فنڈکا دور دورہ ہے، ہر انسان اپنی بچت کا کچھ حصہ بینک میں رکھنے یا اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے محفوظ کرنے کی فکر میں ہوتا ہے، لوگ دانستہ اور نادانستہ طور پر سودی نظام کا سہارا لینے لگتے ہیں، بعض لوگ دنیاوی مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوتے ہیں تاہم سودی قرض تلے بعض افراد کا تو دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اب مکمل بینک و انشورنس سے مرتبط ہوچکا ہے، حلال و حرام کی تمیز اور کمزور طبقے کو مہلت دینے، بطور تعاون وتکافل بلا سود قرض دینے کا یہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ بینکنگ سسٹم میں چند خوبیاں بھی ہیں اور دسیوں خامیاں بھی،یہ سسٹم دنیاوی مقاصد کے حصول و محصول کا ایک ناقابل تفرع جزء ہے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں ایک ایسے نظام استثمار سے بھی متعارف کرایا ہے جس کے فائدے دنیا و آخرت دونوں پر محیط ہیں ۔ جی ہاں ! اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس کے نظام وقف میں صرف معاشی و اقتصادی بحران کا حل نہیں بلکہ فلاح دارین کا نظریہ مضمر ہے، مسلمانوں کے۹۰ فی صد ادارے چندے اور زکات پر منحصر ہوتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم چندہ بار بار کرتے ہیں تاہم ایک بار میں ختم ہوجاتا ہے،موجودہ ناگفتہ بہ حالات اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ وقف کے اسلامی اصول کا ایک بار پھر اعادہ وتعارف ہو، جس میں انوسٹمنٹ کے لیے ایک بار محنت لگتی ہے تاہم اس سے حاصل ہونے والے منافع کو بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے، اسی ضرورت کے پیش مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وقف اسلامی کے فضائل پر مختصر روشنی ڈالی جائے۔
اسلام نے جہاں تجارت و اقتصاد پر ابھارا ہے وہیں مال دار طبقےکو اس بات کا احساس بھی دلایا ہے کہ غریبوں پر خرچ نہ کرنے پر کتنی وعیدیں وارد ہیں ۔ قرآن میں یہاں تک کہا گیا کہ’ مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں دونوں کو ان کا حق ادا کرو (الذارایات:۱۹) نیز’ جو لوگ تجارتی ہیرے جواہرات میں اللہ کا حق نہیں ادا کرتے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔( توبہ:۳۴)’خبر دار! ان کا جمع کیا ہوا سارا مال دہکتی ہوئی آگ میں پگھلا دیا جائے گا۔ ( سورہ ہمزہ:۴)
تاہم غریب کی مدد کا ایک غلط مفہوم بھی امت میں گردش کررہا ہے جس کے تحت صرف مسکین کو راشن یا صدقہ دینا ہی انفاق فی سبیل اللہ سمجھا جاتا ہے جبکہ لفظ انفاق اپنے اندر اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ اس میں اسلام کے کئی ارکان و معاملات کے بہت سے پہلو بہ خوبی سما سکتے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ زکات کی مقرر کردہ ۸ مدوں کی تطبیق، نظام میراث اور نظام وقف جیسا ٹھوس اقتصادی خاکہ ہے۔
یقین مانیے کہ اگر تین نظاموں کو اسی طرز وفکر کے ساتھ سمجھا گیا جسے صحابہ کرام نے سمجھا تھا تو سماج کی اقتصادی کمزوریاں ویسے ہی دور ہوجائیں گی جیسے خلافت راشدہ و قرون اولی میں ہوئی تھیں،ان تین نظاموں کی تطبیق ملکی سطح پر بھی ممکن ہے ،گاؤں شہر سے لے کر ایک خاندان وقبیلہ پر بھی اسے نافذ کرنا بہت آسان ہے ۔ کاش ان تین نظاموں سے متعلق مدارس اسلامیہ خصوصی توجہ دیں تاکہ علماء کرام فراغت کے بعد اپنی اپنی قوم کو اس کی اہمیت سے متعارف کراسکیں۔نظام وقف کی اصل روح کو امت ضعیفہ کے سامنے اجاگر کرسکیں، خاص طور پر مدارس و دینی اداروں کا تحفظ اب ناگزیر امر بن چکا ہے ۔
موضوع کی اہمیت کے پیش نظر نظام وقف کے چند فضائل مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)وقف کا ثواب فلاح دارین کا ضامن ہے
حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان کی وفات ہوجاتی ہے تو اعمال کا سلسلہ اس سے منقطع ہوجاتا ہے ، ہاں تین چیزیں ایسی ہیں جو اس کے مرنے کے بعد بھی اسے فائدہ پہنچا سکتی ہیں: (۱) یا تو اس نے اپنی زندگی میں صدقہ جاریہ کا کام کیا ہو، (۲) یا کوئی نفع بخش علم چھوڑ کر گیا ہو۔(۳) یا اس کی کوئی نیک و صالح اولاد ہو جو برابر اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہو۔ ( صحیح مسلم)
اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ’ مومن شخص کو اس کی موت کے بعد جو چیزیں فائدہ پہنچاتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں : ایسا علم جو اس نے رضاء الہی کی خاطر حاصل کیا پھر اس کی نشر و اشاعت میں کردار ادا کیا ، یا اولاد کو نیک و صالح بنا کر چھوڑا جو اس کے لیے دعا کرتی رہی، یا مصحف( قرآن کریم ) کا کسی کو وارث بنا دیا، یا مسجد کی تعمیر کی، یا مسافر خانہ بنا دیا، یا پینے کے لیے نہر جاری کردی، یا اپنی زندگی میں صحت وعافیت میں رہتے ہوئے کوئی ایسا صدقہ کا کام کردیا جس کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہے۔ (سنن ابن ماجہ )
(۲)وقف کرنے والے کا نام اعمال قیامت کے دن بھاری ہوگا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں خالص اس پر اور آخرت کے دن پرایمان لاتے ہوئے کوئی گھوڑا وقف کردے تو اس گھوڑے کا سیراب ہونا حتی کہ اس کے پیشاب وفضلات بھی مومن کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ (صحیح بخاری)
(۳)صدقات میں سب سے اہم وقف کا صدقہ ہے
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا: یا رسول اللہ،میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اب ان کی طرف سے کون سا صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے تو آپ نے فرمایا: پانی کا صدقہ کرو، چنانچہ حضرت سعد نے اپنی والدہ کی طرف سے کنواں کھدوایا اور اپنی ماں کی طرف سے وقف کردیا۔( سنن ابو داود)
(۴)وقف قیامت کے دن سایہ کا کام کرے گا
حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہر شخص روز قیامت اپنے صدقے کی آڑ میں سایہ فگن ہوگا، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلے سنائے جائیں گے ۔
(۵)وقف مجرد صدقہ نہیں بلکہ انوسٹمنٹ کا عظیم مظہر ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ خیبر کی فتح کے بعد میرے والد کے حصے میں ایک زمین آئی ، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر فرمانےلگے، یا رسول اللہ،میرے حصے میں جو زمین آئی ہے وہ نہایت ہی زرخیز اور کھیتی کے لائق ہے ، لہذا آپ کیا حکم فرماتے ہیں،اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو زمین کی اصل (Assets) اپنے پاس روک لو اور اس سے حاصل ہونے والا سارا نفع (Profit) اللہ کی راہ میں صدقہ کردو ، چنانچہ حضرت عمر نے ایسے ہی کیا کہ زمین اپنے نام پر رکھ کر یہ وصیت کی کہ اس زمین کو بیچنا جائز نہیں ، نہ ہی بطور ہدیہ کسی کو دی جاسکتی ہے۔ نہ اس کا کوئی وارث ہوگا بلکہ یہ پوری کی پوری وقف ہے جس سے فقراء ومساکین، اعزاء واقارب، مسافرین و مہمانان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ( بخاری شریف )
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک واقعہ مخیریق نامی یہودی شخص کے وقف کردہ باغ سے متعلق بھی ملتا ہے،چنانچہ عبد اللہ بن عوف بن مالک سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد خلافت میں ایک واقعہ نقل کیا کہ میں نے مدینہ میں مہاجرین و انصار کی ایک کثیر تعداد سے یہ بات سنی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے جو سات باغات وقف فرمائے تھے ان میں مخیریق کے مال کا بھی حصہ تھا، مخیریق نامی یہودی مسلمانوں کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے جنگ احد میں مارا گیا ، تاہم اپنے باغات مسلمانوں کے حوالے کرکے دنیا سے رخصت ہوا، یہ باغات اہل مدینہ کے لیے وقف تھے۔
اس قسم کے دسیوں واقعات سیرت کی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں، خاص طور پر خیبر کی مفتوحہ اراضی ، فدک وتیماء کی زمین سے حاصل ہونے والے منافع کے واقعات کے تناظر میں اگر ہم نظام وقف کو سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید آج ہماری متروک شدہ زمینیں انوسٹمنٹ کا عظیم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں، اوقاف کی زمینوں سے ناجائز ٹھیکے داروں کا انسداد کیا جاسکتا ہے اور جماعت المسلمین و عوام الناس کی فلاح وبہبودی کے لیے بڑی مضبوط بنیاد فراہم کی جاسکتی ہے،وقف کی زمینوں کا استعمال سینکڑوں مدارس کو خود کفیل بنا سکتا ہے،نظام وقف کے ذریعے مسلمانوں کے اجتماعی فنڈ کو تعلیمی و اقتصادی طور پر مستحکم بنایا جاسکتا ہے ، ضرورت ہے کہ وسیع پیمانے پر اس تعلق سے بیداری پیدا کی جائے اور قوم و ملت کی ڈوبتی کشتی کے لیے خیر خواہ ملاحوں کو تلاش کیا جائے۔
آپ کے تبصرے