بسا اوقات نام میں مشابہت کی وجہ سے بڑی پریشانیاں کھڑی ہو جاتی ہیں اور ایک ہی نام سے مشہور دو یا اس سے زیادہ لوگوں میں تفریق نہ کر پانے کی وجہ سے ایک کے کارنامے دوسرے کی طرف منسوب ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ تب زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ان میں سے ایک بد عقیدہ اور گمراہ ہو اور دوسرا سلفی العقیدہ۔
اسی طرح کا معاملہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے ساتھ ہوا ہے۔ ان کے نام، نسبت، کنیت حتی کہ بعض علما کے مطابق سن وفات میں بھی ایک دوسرے شیعی کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو دھوکہ ہو جاتا ہے اور انھیں شیعہ سمجھنے لگتے ہیں، یا شیعی کی بعض کتابیں جن میں خرافات کی بھرمار ہے ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ یا بعض ایسے مسائل جن میں شیعی نے حسب عادت اہل سنت کے موقف کے برعکس اختیار کیا ہے ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔
دونوں کے نام ونسب میں مشابہت ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا نام ونسب اس طرح ہے: ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری [میزان الاعتدال:۳/۴۹۸)
اور شیعی کا نام ونسب اس طرح ہے: ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبری [ میزان الاعتدال:۳/۴۹۹،سیر اعلام النبلاء:۱۴/۲۸۲)
دونوں کے نام ونسب میں مشابہت کے متعلق حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شَاركهُ فِي الإسم وَاسم الْأَب والكنية وَالنِّسْبَة، وَإِنَّمَا يفترقان فِي إسم الْجد فَقَط، فالرافضي إسم جده رستم، وَالْإِمَام الْمَشْهُور إسم جده يزِيد[ذيل ميزان الاعتدال:ص۱۷۹)
(یہ –یعنی رافضی– ان کے نام، باپ کے نام، کنیت اور نسبت میں ان کے شریک ہے۔ صرف دادا کے نام میں دونوں الگ ہیں۔ رافضی کے دادا کا نام رستم ہے اور مشہور امام کے دادا کا نام یزید ہے)
یہ فرق یاد رکھنے کے لیے بھی بہت معاون ہے، کیونکہ یزید نام سے رافضیوں کی عداوت واضح ہے۔ لہذا جب نسب میں یزید آئے تو جان لینا چاہیے کہ یہ طبری سنی ہیں، شیعی نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنما ضره الاشتراك في اسمه واسم أبيه ونسبه وكنيته ومعاصرته وكثرة تصانيفه [لسان الميزان:۵/۱۰۰]
(یہ نقصان امام طبری کو اپنے نام، باپ کے نام، نسب، نسبت، کنیت، معاصرت اور کثرت تصنیف میں اشتراک کی وجہ سے پہنچا ہے)
ان تمام امور میں مشابہت کے ساتھ ساتھ بعض علما نے کہا ہے کہ دونوں کی سن وفات بھی ایک ہے۔
شیخ عثمان بن محمد الخمیس فرماتے ہیں کہ دونوں کی وفات سن تین سو دس (۳۱۰) ہجری میں ہوئی ہے۔ [حقبۃ من التاریخ لعثمان الخمیس:ص۳۸]
حالانکہ دوسرے علما نے کہا ہے کہ شیعی کی سن وفات امام طبری کے بعد ہے۔ [ البلدان لابن الفقیہ کے محقق شیخ یوسف الہادی کا مقدمہ:ص۲۳]
نیز ”تاریخ التراث العربی“(۳/۲۹۱) میں بھی فؤاد سزگین کے کلام سے اسی کا اشارہ ملتا ہے۔
اس رافضی کے متعلق علما نے کافی سخت جرح کی ہے۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ ایک خبیث رافضی تھا“۔ [ذیل میزان الاعتدال:ص۱۷۸]
اور احمد بن علی السلیمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ رافضیوں کے لیے -حدیثیں- گھڑتا تھا“۔ [میزان الاعتدال:ص۳/۴۹۹]
لیکن افسوس کہ سلیمانی کی اس سخت جرح کو بعض علما نے امام طبری پر جرح سمجھ لیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نام ونسبت میں اس طرح کی مشابہت سے کس طرح بڑے بڑے علما بھی التباس اور وہم کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کبار علما میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ بھی ہیں جنھوں نے یہ جرح امام طبری کے متعلق سمجھ لیا ہے اور ان کے ترجمہ میں سلیمانی کا یہ قول نقل کیا ہے اور کہا ہے:
أقْذَعَ أحمد بن علي السليماني الحافظ، فقال: كان يضع للروافض [ميزان الاعتدال:۳/۴۹۹]
(احمد بن علی السلیمانی الحافظ نے طعن وتشنیع سے پُر ہجو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ –یعنی امام طبری– رافضیوں کے لیے – حدیثیں – گھڑتے تھے)
پھر آگے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سلیمانی پر رد کیا ہے کہ ان کا یہ قول کذب پر مبنی بلا دلیل محض ایک تہمت ہے کیونکہ امام طبری اسلام کے معتمد کبار ائمہ میں سے ہیں۔ پھر آخر میں یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ شاید ان کا قول اس ابن جریر کے متعلق ہے جس کا ذکر ان کے بعد آرہا ہے۔ یعنی محمد بن جریر بن رستم الرافضی کے متعلق۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولو حلفت أن السليماني ما أراد إلا الآتي لبررت والسليماني حافظ متقن كان يدري ما يخرج من رأسه فلا اعتقد أنه يطعن في مثل هذا الإمام بهذا الباطل والله أعلم [لسان الميزان:۵/۱۰۰]
(اگر میں قسم کھاؤں کہ سلیمانی نے آگے آنے والے -ابن جریر- کے علاوہ کسی کو مراد نہیں لیا ہے تو اپنے قسم میں برحق ہوں گا۔ سلیمانی حافظ اور متقن ہیں، وہ کیا کچھ فرما رہے ہیں اچھی طرح جانتے سمجھتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ وہ اس طرح کے کسی امام پر باطل طعن وتشنیع کریں گے۔ اللہ اعلم)
اور قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ حافظ ذہبی کے مذکورہ قول پر نوٹ چڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
أنت الذي غَلَّظْتَ على السليماني، فإنه إنما أراد محمد بن جرير بن رستم أبو جعفر الطبري، فإنه رافضي مشهور، له تواليف منها كتاب «الرواية عن أهل البيت»، وأما التشيع فهو رجم بالظن أخذ من تصحيحه حديث غدير خُم، والله أعلم [الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة:۸/۲۱۸]
(آپ ہی نے سلیمانی پر سختی کی ہے، انھوں نے محمد بن جریر بن رستم ابو جعفر طبری کو مراد لیا تھا، جو کہ مشہور رافضی ہے، جس کی کئی تصنیفات ہیں، جن میں سے ”الروایۃ عن اہل البیت“والی کتاب ہے۔ جہاں تک امام طبری پر تشیع کا الزام تو یہ ان کے غدیر خم والی حدیث کی تصحیح کی وجہ سے بطور گمان صرف ایک تہمت ہے۔ اللہ اعلم)
حافظ ذہبی ہی کی طرح ابن حیان الاندلسی رحمہ اللہ کو بھی یہ التباس اور وہم ہوا ہے اور انھوں نے بھی سلیمانی کی مذکورہ جرح کو امام طبری پر جرح سمجھ لیا ہے۔ یہاں تک کہ امام طبری کو ”امام من أئمۃ الامامیہ“کے وصف سے بھی متصف کر دیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے لسان المیزان (۵/۱۰۰) میں کہا ہے۔
اسی التباس کی وجہ سے بعض لوگوں نے بعض ایسے مسائل جو طبری شیعی نے حسب عادت اہل سنت کے موقف کے برعکس اختیار کیا ہے امام طبری کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
ان میں سے ایک مسئلہ وضو میں دونوں پیروں کے دھلنے کا ہے۔ روافض کا موقف یہ ہے کہ وضو میں دونوں پیروں پر مسح کیا جائےگا، انھیں دھلا نہیں جائےگا۔ [المجموع للنووی:۱/۴۱۷]
اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے بہت سارے علما نے شیعی موقف کے ساتھ امام ابن جریر طبری کا بھی نام ذکر کیا ہے۔ [ شرح السنہ للبغوی:۱/۴۲۹، المجموع شرح المہذب للنووی:۱/۴۱۷، المغنی لابن قدامہ:۱/۹۱، التحریر والتنویر لابن عاشور:۶/۱۳۱، بداية المجتهد ودوره في تربية ملكة الاجتهاد لمحمد بولوز: ص۱۵۴]
غالب گمان یہی ہے کہ وہ ابن جریر طبری شیعی کا قول ہے، سنی کا نہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام ابن جریر طبری کے سوانح میں فرماتے ہیں:
بعضهم ينقل عنه أنه كان يجيز مسح الرجلين في الوضوء، ولم نر ذلك في كتبه [سير اعلام النبلاء:۱۴/۲۷۷]
(بعض لوگوں نے ان سے نقل کیا ہےکہ وہ وضو میں دونوں پیروں پر مسح کرنےکو جائز کہتے تھے، لیکن ہم نے ان کی کتب میں ایسا کچھ نہیں پایا)
اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن ابن جرير الطبري رجلان رافضي وسني، والثاني هو المشهور وكلاهما صاحب التفسير، فلعل القائل بالجمع هو الشيعي، وأخطأ الناقلون [العرف الشذي شرح سنن الترمذي لمحمد انور شاہ الکشمیری :۱/۸۱]
(ابن جریر طبری نام کے دو شخص ہیں، ایک رافضی اور ایک سنی۔ دوسرے مشہور ہیں۔ دونوں صاحب تفسیر ہیں۔ شاید کہ غسل اور مسح کے مابین جمع کا قائل شیعی ہے اور نقل کرنے والوں نے اس میں غلطی کر دی ہے)
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن جریر طبری شیعی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
لعل ما حكي عن محمد بن جرير الطبري من الاكتفاء في الوضوء بمسح الرجلين إنما هو هذا الرافضي فإنه مذهبهم [لسان الميزان:۵/۱۰۳]
(شاید کہ وضو میں دونوں پیروں پر مسح کرنے پر اکتفا کے متعلق محمد بن جریر طبری کا جو قول نقل کیا جاتا ہے وہ اسی رافضی کا قول ہے، کیونکہ یہ ان کا مذہب ہے۹
یہی بات حافظ عراقی رحمہ اللہ نے بھی ”ذیل میزان الاعتدال“(ص۱۷۹) میں کہی ہے۔ اور علامہ محمد عبد الحی لکھنوی نے ”السعايۃ في كشف ما في شرح الوقايۃ“(ص۱۵۶) میں اسی کی تائید کی ہے۔
اسی طرح مذکورہ التباس کی وجہ سے بعض لوگوں نے طبری شیعی کی بعض کتابیں امام طبری امام اہل سنت کی طرف منسوب کر دی ہیں جن میں بدعات وخرافات کی بھرمار ہے اور جن سے امام طبری بالکل بری ہیں۔ ان میں سے بعض کتابیں یہ ہیں:
(۱)بشارة المصطفى
یہ طبری شیعی کی کتاب ہے۔ فؤاد سزگین فرماتے ہیں کہ غلطی سے یہ کتاب طبری مؤرخ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ [تاریخ التراث العربی:۳/۲۹۱]
(۲)دَلَائِل الْإِمَامَةِ الْوَاضِحَةِ وَنُور الْمُعْجِزَاتْ
یہ بھی ابن جریر طبری شیعی کی کتاب ہے اور غلطی سے امام طبری کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ [حقبۃ من التاریخ:ص۳۸]
(۳)المُسْتَرْشِد في الإمامة
شیعہ عالم آغا بزرگ طہرانی کہتا ہے کہ یہ محمد بن جریر بن رستم بن جریر کی تصنیف ہے لیکن بعض نسخوں میں ”ابن یزید الطبری“لکھا ہوا ہے۔ شاید یہ عامی –اس کے بقول– مؤرخ کے ساتھ اشتباہ کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ ان کے اجداد میں ”یزید“ہے۔ [الذریعہ الی تصانیف الشیعہ لآقا بزرك الطہرانی:۲۱/۹]
آغا بزرگ طہرانی کے اس قول سے ان شیعوں کی بھی تردید ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ امام طبری ہی مشہور شیعہ تھے اور ابن رستم یہ کوئی الگ شخصیت نہیں تھی بلکہ یہ اہل سنت کے اختراع میں سے ہے، اہل سنت نے اپنی طرف سے یہ نام گھڑا ہے۔ پاکستان کے ’جماعت اہل قرآن‘ نے بھی اسے خوب اچھالا ہے تاکہ انکار سنت کا ایک اہم میدان مارا جا سکے۔ کیونکہ امام ابن جریر طبری کی کتاب ’تفسیر بالماثور‘ کا سب سے اہم مصدر ہے۔ بعد کی تمام سلفی تفاسیر کا دار ومدار ان کی تفسیر پر ہے۔ اگر کسی طرح ان کی تفسیر مشکوک کر دی جائے تو سنت سے قرآن کی تفسیر کا ایک اہم ستون منہدم ہو جائےگا۔ یہی ان منکرین سنت کی منشا ہے۔
یہاں آغا بزرگ طہرانی کے کلام سے واضح ہے کہ وہ امام محمد بن جریر بن یزید طبری سے اس کتاب کی نفی کر رہا ہے اور ابن رستم سے ثابت کر رہا ہے، جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ دونوں الگ الگ شخصیتیں تھیں، ایک نہیں۔ اور نہ یہ اہل سنت کا کوئی اختراع ہے، بلکہ یہ حقیقت کی عکاسی ہے جس کی شہادت خود شیعوں کے گھر سے مل جاتی ہے۔
نیز کتاب کے مشمولات سے بھی اس کی خوب تردید ہو جاتی ہے۔ چنانچہ طبری شیعی کتاب کے مقدمہ (ص۱۱۱) میں ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے کہتا ہے:
احتج قوم من أهل الزيغ والعداوة لله جل ذكره ولرسوله صلى الله عليه وآله أن الخلافة لم تصلح بعد الرسول صلى الله عليه وآله وسلم إلا لأبي بكر بن أبي قحافة بدعواهم أنه كان أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وآله، وأنه كان قدمه للصلاة في علته، فدللناهم على موضع خطئهم…الخ
اس بدبو دار عبارت سے ہی واضح ہے کہ یہ امام طبری کا کلام نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یار غار صدیق اکبر کے متعلق ان کا وہی عقیدہ تھا جو اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ ( ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی خلافت پر طعن وتشنیع کرنے والوں کے متعلق ان کا دو ٹوک موقف آگے آ رہا ہے)
مذکورہ التباس کے ساتھ ساتھ اور بھی بعض اسباب وعوامل ہیں جن کی وجہ سے امام طبری پر بعض لوگوں نے شیعیت کا الزام لگایا ہے۔
ان الزام لگانے والوں میں سب سے پیش پیش ابو بکر محمد بن داود ظاہری ہیں جن کے ساتھ ان کے کافی تلخ بحث ومباحثے ہوئے ہیں۔ امام طبری نے ان کے والد کے رد میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ہے’الرد علی ذی الأسفار‘ جس کے جواب میں ان کے لڑکے ابو بکر محمد نے ’الانتصار من محمد بن جریر‘ نامی کتاب لکھی ہے اور انھیں بہت کچھ برا بھلا کہا ہے اور رافضیت کی تہمت سے متہم کیا ہے۔
اس کتاب کو متعصب حنابلہ کی جانب سے خوب پذیرائی ملی ہے اور انھوں نے امام طبری پر خوب ستم ڈھایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام طبری نے ’فقہا کے اختلاف‘ پرایک کتاب لکھی ہے جس میں امام احمد کا نام نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے یہ عذر پیش کیا کہ ان کا شمار محدثین میں ہوتا ہے فقہا میں نہیں۔ متعصبین حنابلہ کو یہ بات نہایت گراں گزری اور انھوں نے ان کے خلاف مورچہ کھول دیا اور ان پر طرح طرح کے بے جا الزامات لگانے لگے جن میں سرفہرست تشیع کا الزام تھا۔ [الکامل فی التاریخ لابن الاثیر الجزری:۸/۱۳۴]
یہ تمام الزامات چونکہ تعصب اور دشمنی پر مبنی تھے اس لیے محققین علما ئے متقدمین نے امام ابن جریر کا خوب خوب دفاع کیا۔
البتہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ ان میں تھوڑا بہت شیعیت کا اثر تھا۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
فيه تشيع يسير وموالاة لا تضر[میزان الاعتدال:۳/۴۹۹]
لیکن دوسرے علما نے اس کی بھی نفی کی ہے۔ اور یہی راجح بھی ہے۔ بلکہ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”سیر اعلام النبلاء“(۱۴/۲۷۷) میں کہا ہے:
وكان ابن جرير من رجال الكمال، وشنع عليه بيسير تشيع، وما رأينا إلا الخير(ابن جریر باکمال شخص تھے، معمولی تشیع سے انھیں متہم کیا گیا ہے، لیکن ہم نے ان میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے)
علامہ ابن اثیر جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ادعوا عليه الرفض، ثمّ ادعوا عليه الإلحاد، وكان عليّ بن عيسى يقول: واللَّه لو سئل هؤلاء عن معنى الرفض والإلحاد ما عرفوه، ولا فهموه[الکامل فی التاریخ لابن الاثیر الجزری:۸/۱۳۴]
(لوگوں نے ان پر رافضیت اور الحاد کا دعوی کیا ہے۔ جس پر علی بن عیسی کہتے تھے کہ اللہ کی قسم اگر ان لوگوں کو رفض والحاد کا معنی پوچھا جائے تو نہ انھیں اس کی پہچان ہوگی نہ سمجھ)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
نَسَبُوهُ إِلَى الرَّفْضِ، وَمِنَ الْجَهَلَةِ مَنْ رَمَاهُ بِالْإِلْحَادِ، وَحَاشَاهُ مِنْ ذلك كله، بل كان أحد أئمة الإسلام علمًا وعملًا بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ، وَإِنَّمَا تَقَلَّدُوا ذَلِكَ عن أبى بكر محمد بن داود الفقيه الظاهري، حيث كان يتكلم فيه ويرميه بالعظائم والرفض [البدايہ والنہایہ:۱۱/۱۴۶]
(لوگوں نے انھیں رافضیت کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض جاہلوں نے الحاد کی طرف بھی، لیکن وہ ان تمام امور سے بری ہیں۔ بلکہ وہ کتاب وسنت کے علم وعمل کے پیکر ائمہ اسلام میں سے ایک امام ہیں۔ لوگوں نے ابو بکر محمد بن داود ظاہری فقیہ کی تقلید میں یہ سب کچھ کہا ہے جو ان پر کلام کرتے تھے اور بہت سنگین جرائم اور رافضیت سے متہم کرتے تھے)
علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما التشيع فهو رجم بالظن أخذ من تصحيحه حديث غدير خُم، والله أعلم [الثقات ممن لم يقع في الكتب الستۃ:۸/۲۱۸]
(جہاں تک امام طبری پر تشیع کا الزام تو یہ ان کے غدیر خم والی حدیث کی تصحیح کی وجہ سے بطور گمان صرف ایک تہمت ہے۔ اللہ اعلم)
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإنما نبز بالتشيع لأنه صحح حديث غدير خم [لسان الميزان:۵/۱۰۰]
(انھیں تشیع سے اس لیے متہم کیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے غدیر خم والی حدیث کو صحیح کہا ہے)
جہاں تک ان کا اس حدیث کو صحیح کہنے کی بات ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انھوں نے شیعیت کے اثر کی وجہ سے اس کی تصحیح کی ہے، بلکہ یہ ایک خالص علمی مسئلہ ہے جس میں انھوں نے اپنے علم واجتہاد کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ جس میں صواب وخطا کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ نیز اس حدیث کی تصحیح میں وہ منفرد بھی نہیں ہیں، دوسرے محدثین بھی ان کے ساتھ ہیں۔ بلکہ اس حدیث کی اصل صحیح مسلم (۴/۱۸۳۷، حدیث نمبر۲۴۰۸) میں موجود ہے۔ ہاں اس کے بعض طرق میں کچھ اضافے ہیں جن پر محدثین نے کلام کیا ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ امام طبری نے اس حدیث کی صرف تصحیح کی ہے اس سے کوئی ایسا نتیجہ اخذ نہیں کیا ہے جیسا روافض کرتے ہیں۔ بلکہ خلافت کے مسئلے میں ان کا موقف بالکل واضح ہے اور وہ اہل سنت والجماعت کے منہج کے عین مطابق ہے۔
انھیں تشیع کی تہمت سے متہم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر کتاب تصنیف کی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ کوئی عیب کی بات نہیں، بلکہ منقبت کی بات ہے، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کے فضائل مسلم ہیں اور وہ بالاتفاق خلیفہ راشد ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے۔
اس سبب کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ انھوں نے جہاں علی رضی اللہ عنہ کے فضائل پر کتاب لکھی ہے وہیں ’کتاب الفضائل‘ بھی لکھی ہے جس میں سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی ہے، پھر عمر رضی اللہ عنہ کی، پھر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اور آخر میں علی رضی اللہ عنہ کی۔ [تاریخ دمشق لابن عساکر:۵۲/۱۹۷]
خلفائے راشدین کی یہ ترتیب اہل سنت والجماعت کی متفقہ ترتیب کے عین مطابق ہے۔ اور کسی شیعی سے اس بات کی قطعا امید نہیں کی جاتی کہ وہ خلفائے راشدین کی یہ ترتیب بیان کرے۔
بلکہ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ان کے متعلق ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس سے اس کی مزید تردید ہو جاتی ہے: ابو جعفر طبری کی ایک مجلس میں علی رضی اللہ عنہ کا ذکر چھڑ گیا، جس پر امام طبری نے کہا:
من قال: إن أبا بكر وعمر ليسا بإمامَي هدى أيش هو؟ قال: مبتدع، فقال له الطبري إنكارًا عليه: مبتدع مبتدع، هذا يقتل، من قال: إن أبا بكر وعمر ليس إمامَي هدى يقتل يقتل [تاريخ دمشق لابن عساكر:۵۲/۲۰۱،لسان الميزان:۵/۱۰۱]
(جو کہے ابو بکر وعمر دونوں ائمہ ہدی نہیں ہیں تو وہ کون ہے؟ ابن اعلم نے جواب دیا –جیسا کہ اس کے سیاق سے پتہ چلتا ہے– وہ متبدع ہے۔ جس پر طبری نے انکار کرتے ہوئے کہا: وہ صرف مبتدع ہے! صرف مبتدع ہے! وہ تو قتل کیے جانے لائق ہے۔ جو کہے ابو بکر وعمر ائمہ ہدی نہیں ہیں اسے قتل کیا جائے، اسے قتل کیا جائے)
کیا اس صراحت کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ انھوں نے تشیع کے اثر کی وجہ سے فضائل علی پر کتاب لکھی ہے؟ یا حدیث غدیر خم کی تصحیح کی ہے؟ قطعا نہیں۔
انھیں تشیع سے متہم کرنے کی ایک تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے اپنی ’تاریخ‘ میں صحابہ کرام کے متعلق ابو مخنف، سدی، کلبی جیسے کذاب راویوں کی روایتیں بیان کی ہیں۔ لیکن یہ بھی بہت ہی کمزور دلیل ہے۔ خود انھوں نے اس کے مقدمے میں اس بات کی صراحت کر دی ہے کہ ان منکر مرویات کے ذمہ دار وہ روات ہیں جنھوں نے انھیں روایت کیا ہے، کیونکہ انھوں نے مع اسناد انھیں بیان کر دیا ہے، یا بیان کرنے والے کا نام ذکر دیا ہے۔ [ تاریخ طبری:۱/۸]
اور یہ صرف ان کا نہیں بلکہ اس دور کے اکثر وبیشتر مؤرخین کا منہج رہا ہے، جسے میں نے اپنے ایک عربی مضمون ’منهج المحدثين والمؤرخين في نقد مرويات السيرة النبوية‘ میں بیان کیا ہے جو فری لانسر کے عربی پورٹل پر موجود ہے۔
لہذا ان بے بنیاد دلیلوں کی بنا پر انھیں شیعیت سے جوڑنا قطعا جائز نہیں۔ وہ بالاتفاق اہل سنت والجماعت کے امام ہیں۔ انھوں نے اپنی ’صریح السنہ‘نامی کتاب میں اپنے عقائد کو خوب واضح کرکے بیان کر دیا ہے، جو اہل سنت والجماعت کے ہی عقائد ہیں۔ بلکہ امام لالکائی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم رحمہم اللہ جیسے سلفیت کے اساطین واعلام نے ان کے اقوال کو اہل سنت والجماعت کی حجت کے طور پر پیش کیا ہے۔ [شرح اصول اعتقاد اہل السنہ والجماعہ:۱/۲۰۶، ۳/۵۲۱،مجموع الفتاوی:۶/۱۸۷،اجتماع الجیوش الاسلامیہ:۱/۲۹۴]
اللہ تعالی ان کے علم سے ہمیں کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، ان پر رحم فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور نبیین صدیقین شہدا وصالحین کے ساتھ ان کا اور ہمارا حشر کرے۔ آمین
جزاک اللّٰه خیرا
بہت عمدہ اور تحقیقی تحریر ،اللہ پاک علم میں برکت دے ،مزید موضوعات پر لکھیے