فری لانسر کے فیس بک قلم کاروں سے

ابوالمیزان منظرنما

فیس بک کی پیدائش اور انٹرنیٹ کی ارزانی سے بہت سی روایات و اقدار میں تبدیلی آئی ہے۔ ایک انسان کی طبیعت میں ڈھول تاشے بجوا کر ہر چھوٹے بڑے واقعے کی تشہیر کا جو داعیہ ہوتا ہے، جس کے چلتے ماضی میں چوراہے، ٹرین اور مسجد مندر کے پاس اعلان چپکے یا لٹکے ہوتے تھے اب ان ساری سرگرمیوں سے فیس بک نے بے نیاز کردیا ہے۔ اب انسان نیکی بھی کرے تو دریا میں ڈالنے کا خیال نہیں آتا، کسی کی ولادت سے لے کر وفات تک نہ صرف اعلانات بلکہ ہر طرح کی تہنیت، قصیدہ گوئی، مرثیہ خوانی، عیادت اور تعزیت سب کچھ ایک ہی جگہ ہوتا ہے۔ بنا خون پسینے کے بیشتر جنگیں بھی یہاں لڑ لی جاتی ہیں۔ اس کے استعمال میں اتنی کثرت ہے کہ اب وہ شعور بھی ناپید ہوگیا کہ کیا کہنا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے۔ جو سو سال پہلے خلافت سے دستبردار ہوا تھا وہ اب اس کے تصور سے بھی تھراتا ہے، لکشیہ تو رہا نہیں لکشن بھی نہیں رہے۔ آگے بڑھ کر جو فتوحات رقم کی جاسکتی ہیں پیچھے چل کر ان کے سپنے بھی نہیں دیکھتا۔ اور ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ سوسال پہلے دیکھا ہوا سپنا ساکار ہوچکا ہے۔ برہمن مسلمانوں سے زیادہ اقلیت میں ہیں اور قیادت اقلیت ہی کرتی ہے جب کہ متابعت عوام کی اکثریت کا کام‌ ہے، یہ بھی مسلمان اب بھول چکا ہے۔ بدر اور احد جیسی تاریخ رکھنے والا گڑت میں الجھ چکا ہے۔
وسائل اور اسباب تو بدلتے رہتے ہیں، ہاتھ اس سے زیادہ تیزی سے بدلتے ہیں، اللہ کی دنیا‌ میں بیشتر چیزوں کا سود و زیاں استعمال پر منحصر ہوتا ہے۔ علم و فکر کے تقاضے حسب صلاحیت ہر انسان سمجھتا ہے مگر برتنے میں اتنا تفاوت ہے کہ سال پر سال گزرتا جارہا ہے، وقت تاریخ بنتا جارہا ہے اور حال ایسا بد ہے کہ مستقبل بڑا دھندلا دھندلا سا نظر آرہا ہے۔ دین کے قیل وقال والے مرحلے میں ہم خیمہ ڈالے ایسے پڑے ہیں کہ کوچ کا خیال تک نہیں آرہا۔
فیس بک نے اخبار و رسائل کی معنویت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ جو پورٹل کی شکل دھار چکے ہیں انھیں بھی یوٹیوب اور گوگل نے کام پر لگا رکھا ہے۔ ڈیموکریسی یہاں بھی ہے، ووٹ کی طرح ویوز عوام دیتی ہے اور سارا خرد برد سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں ہے۔ ’ان الحکم الا للہ‘ کی عملی تعبیر کے لیے جو ایمان، ایقان اور عزیمت درکار ہے وہ بندوں میں ڈیولپ نہیں ہوپارہی ہے۔ اب بازار دنیا میں نہیں پوری دنیا ہی بازار میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہر کوئی یہاں اب خریدار ہے یا دکاندار، چیزیں ساری بکنے والی، ایمان‌ و احسان کے مظاہر بھی اب کرتب میں تبدیل ہوچکے ہیں، دکھانے والے تماشائیوں سے پائی پائی وصول لیتے ہیں۔
ایسے وقت میں اللہ کے لیے جینا جتنا مشکل ہے اتنا ہی ثواب و جزا کا باعث بھی۔ خیر و شر کی تمیز ناممکن سی ہوگئی ہے، معتبر معاملات میں دھوکہ ایسا بڑھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی والی صورت حال درپیش ہے ،کہا‌ جانے لگا ہے فلاں بستی میں ایک شخص امانت دار ہے۔
فری لانسر کا‌ مزاج اب بھی وہی ہے، اللہ اور اس کے رسول کے حدود میں مکالمے کی روایت کو زندہ رکھنا۔ مکروریا،فریب و دغا، کذب وافترا، بدعت وضلالت اورشرک و کفر کی تیز وتند آندھیوں اور اندھیروں میں اللہ کی جنت کی طرف جانے والے سیدھے رستے پر کتاب وسنت کا چراغ جلائے رکھنا۔ بے مہار طبیعتوں کی چودھراہٹ اور بے راہ رو نفوس کی تلملاہٹ دونوں رنگ میں بھنگ ڈالتے ہیں، قابو میں رکھنے کے لیے اللہ نے حق و باطل کی تفریق کے ساتھ اجتماعیت کی تعلیم بھی دی ہے۔ گھر سے لے کر مسجد تک ہر جگہ ایک نظام بنایا ہے جس کے لحاظ‌ میں ایک کامن سینس بھی ڈیولپ ہوتا ہے۔ انسان تنہائی میں جو گناہ کرتا ہے اس کے انتہائی گھناؤنے پن کو اسی لیے بیان کیا ہے کہ ایک شریف آدمی کو بھی چوری کے خیال سے بچنے کے لیے سماج‌ کا لحاظ ضروری ہے۔ شیطان ہر انسان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔
فری لانسر فیس بک نہیں ہے، اہل علم اور طلبہ کے درمیان زبان و بیان‌ کا ایک معیار ڈیولپ کرنے کے لیے بنایا گیا‌ ایک ایسا‌ پلیٹ فارم ہے جس کے ذمہ داران کو اللہ کے دین، مسلمانوں کے سماج اور کامن سینس کی رعایت عزیز ہے۔ اس کے بغیر فری لانسر کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔ محض نشر و اشاعت ہی مقصود ہو تو فیس بک کیا برا ہے۔
یوٹیوب کی طرح فیس بک بھی کسی بلینیر کی ملکیت ہے، یہاں جو مفت میں اپنا پرچار کرتے ہیں وہ دراصل اس بلینیر کے لیے کام کرتے ہیں۔ فری لانسر کسی ملینیر کی بھی کمپنی نہیں ہے، نہ یہ کمائی کا ذریعہ ہے۔ تنقید سے ماورا ہے اور نہ ہی کسی خودرائی کا شکار، اہل علم سے سیکھنے اور طلبہ کے ساتھ لکھنے پڑھنے کی ایک مجلس سجائے رکھنے کے ذوق و مزاج کا اظہار ہے بس۔
اس پورٹل سے نہ ہم خود کچھ کماتے ہیں اور نہ اپنے لکھنے والوں کو کچھ دے پاتے ہیں۔ ہمارے احباب اور علم دوست حضرات حسب موقع و ضرورت اپنے علمی و تحقیقی مضامین و مقالات نیز شعری تخلیقات سے ہماری اس علمی مجلس میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ رب العالمین ان سب کے علم و عمل میں برکت دے اور جزاء خیر عطا فرمائے۔آمین
ہمارے کچھ بھائی ایسے ہیں جو لکھتے ہی فیس بک پر اپنا مضمون نشر کرسکتے ہیں مگر ایسا نہیں کرتے، پورٹل پر آنے کے دو تین دن بعد ہی کہیں اور شیئر کرتے ہیں۔ یہ پورٹل کے شرائط میں سے ہے اور اس میں لاجک بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں کچھ احباب ایسے بھی نظر آئے جو پورٹل پر اپلوڈ ہونے کے فوراً بعد اپنا مکمل مضمون فیس بک پر بھی نشر کردیتے ہیں، ایسا تو نہیں کہ فری لانسر ہندوستان اور فیس بک پاکستان ہے، پہلا ایڈیشن یہاں چھپ گیا تو دوسرا وہاں چھاپ دیا جائے کہ اس طرح دونوں ملکوں کے قارئین تک رسائی آسان ہوجائے گی۔ ایسے لوگوں سے باادب التماس ہے کہ معاملے کی نزاکت کو سمجھیں، پورٹل پر نشر کرنے کے لیے تحریر بھیجی ہے تو اپلوڈ ہونے کے بعد دو تین دن تک صبر کریں پھر جہاں چاہیں شیئر کریں۔ اور اگر اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو اللہ کے لیے ہمیں معاف کردیں اور اپنی فیس بک دنیا میں ہی مست رہیں، ہمیں اپنی تحریر نہ بھیجیں۔ دنیا چھوٹی ہے نہ پورٹل ایک ہے اور نہ ہی اشاعت کے وسائل محدود ہیں۔
اللہ رب العالمین ہم‌ سب کو دین کی سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الرحمن صدیقی

زبردست مضمون ۔ایک اور بات کا اضافہ کریں کہ اس پورٹل کو بیکار کی بحث کا میدان جنگ نہ بنائیں ۔اوریجنل لکھیں ۔تنقید برائے اصلاح ہو ۔براے تنقیص نہ ہو ۔