علمی وادبی شخصیات ورجال کے آپسی تعلقات کا موضوع ایک وسیع میدان سخن ہے۔ اس پر تصنیفی کام نہ کے برابر ہوا ہے۔ اہل علم وقلم کو اس صنف سخن کی طرف توجہ دینی چاہیے اور تاریخ اسلام کے زریں اوراق سے متاع گم شدہ کی طرح مواد ومعلومات کو تلاش اورکھنگال کر کے نسل نو کو متاع زیست وعمل فراہم کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ بھی سیرت وسوانح کا ایک گوشہ ہے، جس کے بغیر سیرت وسوانح کا موضوع تشنہ تکمیل مانا جائے گا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں علمائے اسلام، فقہائے عظام، محدثین کرام اور شخصیات ذی احترام کی سیرت وسوانح مسلمانوں بلکہ اقوام عالم کے لیے مشعل راہ رہی ہے۔ خوب تر کے متلاشیان کبھی بھی اس سے بے نیازی کا اظہار نہیں کر سکتے۔
علامہ حافظ صلاح الدین یوسف؍ رحمہ اللہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ وبہار تھی کہ کسی بھی علمی شخصیت سے آپ کے تعلقات خراب نہ تھے، بلکہ جن سے بھی آپ کے علمی تعلقات رہے، وہ انتہائی پُر خلوص اور نہایت گہرے تھے۔ میں یہاں آپ کے اُن تمام تعلقات پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا، جو عالم اسلام کی متعدد بڑی بڑی شخصیات سے رہے، بلکہ صرف اُن تعلقات پر کچھ روشنی ڈالنا مقصود ہے، جو ہندوستان کی عظیم علمی شخصیت، مفکر جماعت اہل حدیث ہند، اردو وعربی زبان وادب کے مایہ ناز ادیب، درجنوں کتابوں کے مترجم، مصنف اور معرب، جماعت اہل حدیث ہند کے مرکزی دارالعلوم (جامعہ سلفیہ)، بنارس کے روح رواں (کبھی ریکٹر وترجمان اور کبھی رئیس جامعہ)، جامعہ کے عربی نقیب وترجمان ’’صوت الامۃ‘‘ کے مدیر علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری؍ رحمہ اللہ (متوفیٰ ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء) سے استوار رہے۔
ادیب عصر علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کی شخصیت علمی حلقوں اور عالم اسلام میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ کا تعلق علم وادب اور تہذیب وتمدن کے مشہور شہر مئوناتھ بھنجن، ضلع مئو (سابق ضلع اعظم گڑھ)، اترپردیش، انڈیا سے تھا۔ آپ ازہر یونیورسٹی، مصر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے فیض یافتگان میں سے تھے۔ آپ نے پوری زندگی بحث وتحقیق، تصنیف وتالیف، ترجمہ وتعریب، درس وتدریس، مضمون ومقالہ نگاری، دعوت وتبلیغ اور جمعیت وجماعت کی خدمت وآبیاری میں صرف کر دی۔ عربی ادب کی خدمت پر آپ کو ’’صدر جمہوریہ ہند ایوارڈ‘‘ملا۔ آپ کی قلمی کاوشوں میں ایک اہم وشاہکار کاوش غیر منقسم ہندوستان کی عظیم علمی ودعوتی شخصیت علامہ محمد اسماعیل سلفی گجرانوالہ؍ رحمہ اللہ کی مایہ ناز ومعرکۃ الآرا تصنیف’’تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تجدیدی مساعی‘‘ کا عربی ترجمہ بنام ’’حرکۃ الانطلاق الفکري وجہود الشاہ ولي اللہ الدھلوي للتجدید‘‘ ہے۔
اس عظیم انسان سے علامہ حافظ صلاح الدین یوسف؍ رحمہ اللہ کے ربع صدی تک بڑے اچھے اور گہرے تعلقات ومراسم رہے۔ آپ خود لکھتے ہیں کہ ’’مولانا ازہری ؍ رحمہ اللہ سے ایک موضوع پر تقریباً ربع صدی سے وقتاً فوقتاً خط وکتابت کے ذریعے سے ایک تعلق قائم تھا‘‘۔ [ماہنامہ محدث، پاکستان، اکتوبر ۲۰۱۰]
آپ کا یہ تعلق ان سے اور کچھ دوسرے علمائے ہند ونیپال سے ملاقات اور ان کی زیارت کا ہمیشہ شوق دلاتا رہا، مگر آمد ورفت کی پیچیدگیاں سد راہ بنی رہیں، جس کا انھیں شدید قلق تھا۔ لکھتے ہیں:’’مولانا مرحوم کی زیارت اور ملاقات کی شدید خواہش تھی، لیکن پاک وہند کی غیر انسانی حکومتوں اور اُن کی سیاسی آویزشوں نے آنے جانے کی راہ میں جو غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، قرب مکانی کے باوجود انھوں نے مشکلات کے ہمالیے کھڑے کر دیے ہیں، جنھیں عبور کرنا کارے دارد ہے۔
اس سے قبل محدث ہند مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری، مولانا عبدالوحید آف بنارس، مولانا محمد رئیس ندوی، خطیب الاسلام مولانا جھنڈانگری؍ رحمہم اللہ اجمعین اور دیگر بہت سے اہل علم کی زیارت کے شرف سے محرومی مسلسل قلق واضطراب کا باعث ہے۔ قدر اللہ ما شاء وما لم یشاء لم یکن!‘‘ [حوالہ مذکور]
دو انسانوں کے درمیان علم وفکر اور قلم وقرطاس کا تعلق اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ دیگر دنیاوی تمام رشتوں اور تعلقات پر کبھی کبھی بھاری اور فائق ہوتا ہے ، اس تعلق کو ملکی سرحدیں بھی روک نہیں سکتیں۔ اس لیے کہ علم وفن خوشبو ہے، جس پر کوئی پہرا نہیں چلتا؎
سرحدیں روک نہ پائیں گی کبھی رشتوں کو
خوشبوؤں پر نہ کبھی کوئی بھی پہرا نکلا
حافظ صلاح الدین یوسف اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری؍ رحمہما اللہ کے درمیان قائم تعلقات کا سب سے بڑا ذریعہ محترم حافظ صاحب کی معرکۃ الآرا کتاب ’’خلافت وملوکیت، تاریخی وشرعی حیثیت‘‘ بنی۔ دونوں کے مابین خط وکتابت کا سلسلہ کیسے شروع ہوا اور تعلقات بڑھتے گئے، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے محترم حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’(دونوں کے درمیان تعلق قائم تھا) اس کا علم ان کے قریبی رفقاء کو بھی غالباً ہوگا، وہ ایک علمی امانت بھی ہے اور اُن کی علمی تڑپ کا مظہر بھی، جس کو وہ پورا کرنے کی شدید خواہش اور کوشش کے باوجود اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ اس کی وضاحت اس لیے ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس کام کے کرنے کی واقعی ضرورت واہمیت ہے۔ مولانا ازہری کے ذریعے وہ کام اگر نہیں ہو سکا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب اس کی ضرورت یا افادیت ختم ہو گئی ہے۔ وہ کام ضرور ہونا چاہیے، اس کی افادیت وضرورت مسلمہ ہے اور وہ پاک وہند کے علماء اور مرکزی جماعتوں اور اصحاب وسائل اداروں کی ذمہ داری بھی ہے، بالخصوص فضلائے مدینہ یونیورسٹی کی، جن کی ایک معقول تعداد پاک وہند میں موجود ہے۔
وہ کام ہے راقم کی کتاب ’’خلافت وملوکیت، تاریخی وشرعی حیثیت‘‘ کو عربی کا جامہ پہنانے کا، جو مولانا مودودی کی کتاب ’’خلافت وملوکیت‘‘ کا مدلل اور علمی وتحقیقی جواب ہے۔ مولانا مرحوم (ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری) نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا تھا کہ ’’اس کتاب کو عربی میں منتقل کرنے کی شدید ضرورت ہے، میری مصروفیات مجھے اجازت نہیں دیتیں، ورنہ میں خود یہ کام کرتا، آپ اس کے لیے کوشش فرمائیں‘‘۔
راقم نے ان کو جواب میں تحریر کیا کہ ’’راقم کی بھی یہ شدید خواہش ہے، بالخصوص جب سے راقم کے علم میں یہ آیا ہے کہ مولانا مودودی کی کتاب کویت سے عربی میں ’’الخلافۃ والملک‘‘ کے نام سے شائع ہو گئی ہے، تو یہ خواہش شدید تر ہو گئی ہے، کیوں کہ اس کی ضرورت بھی فزوں تر ہو گئی ہے، لیکن پاکستان میں میں نے کئی فضلائے مدینہ کو بھی اس طرف متوجہ کیا، لیکن نتیجہ ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! کی صورت میں نکلا۔ اس لیے آپ ہندوستان میں فضلائے مدینہ سے یہ کام کروا سکتے ہیں تو اس کے لیے ضرور کوشش فرمائیں‘‘۔ [حوالہ مذکور]
اتنے ہی پر دونوں کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ رک نہیں گیا۔ بلکہ بعد میں بھی تعلقات استوار رہے اور خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا۔کتاب کی تعریب کے متعلق گفت وشنید اور تبادلہ خیالات ہوتے رہے۔ محترم حافظ صاحب خود لکھتے ہیں کہ ’’کچھ عرصے بعد مولانا مرحوم نے راقم کو لکھا کہ ’’میں نے چند اہل علم کو اس کام کے لیے تیار کر لیا ہے اور اس کے اجزاء میں نے اُن میں تقسیم کر دیے ہیں۔ وہ تھوڑا تھوڑا حصہ عربی میں منتقل کر دیں گے‘‘۔ [حوالہ مذکور]
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کی شدید خواہش اور کوشش رہی کہ کتاب کا عربی میں ترجمہ ہو جائے اور انھوں نے اس کے لیے کس نوع کی کوششیں کیں،یہ مذکورہ سطور سے واضح ہے۔ مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ محترم حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ جن حضرات کے سپرد یہ کام کیا گیا، انھوں نے کچھ کیا یا نہیں؟ اس کی تفصیل وہی جانتے تھے یا شاید مولانا صلاح الدین مقبول (کویت) کے علم میں ہو۔ راقم کو مزید تفصیلات کا علم نہیں، لیکن سالہا سال کی خاموشی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ازہری؍ رحمہ اللہ اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دو سال قبل (یعنی اُن کی وفات سے دو سال قبل) پھر اُن کا مکتوب گرامی آیا کہ ’’آپ اس کام کے لیے محترم عبدالمالک مجاہد صاحب کو آمادہ کریں‘‘۔ راقم نے ان کا وہ مکتوب محترم مجاہد صاحب کو جب وہ پاکستان تشریف لائے، دکھایا تو انھوں نے اس مکتوب پر ہی اپنے دست مبارک سے حسب ذیل عبارت تحریر کر کے مجھے واپس کر دیا کہ ’’یہ مولانا مقتدیٰ حسن کو بھیج دیں۔ یہ کام آپ ہندوستان میں اپنی زیر نگرانی کروا لیں، سارا خرچہ میں برداشت کر لوں گا‘‘۔
یہ مکتوب راقم نے مولانا ازہری کو ارسال کر دیا، لیکن پھر اُن کا جواب نہیں آیا۔ یہ گویا آخری مکتوب ثابت ہوا‘‘ [حوالہ مذکور]
ڈاکٹر ازہری صاحب لاکھ کوششوں کے باوجود اس کتاب کو عربی میں منتقل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، مگر اُن کی مخلصانہ کوششیں اہل علم وقلم کو یہ روشنی عطا کرتی ہیں کہ اہل علم کو چاہیے وہ دوسرے اہل علم کی بہر ممکن مدد کریں، اُن کے علم وفضل کا اعتراف کریں اور اُن کے علم وفہم سے پورے عالم کو متعارف کرائیں۔ یہی جذبہ محترم ازہری صاحب کے دل میں موجزن تھا کہ کتاب سے عرب دنیا بھی مستفید ہو اور اس جامع کتاب کا عرب دنیا میں بھی تعارف ہو۔محترم حافظ صاحب ازہری صاحب کے انتقال کے بعد ماہنامہ محدث (پاکستان، اکتوبر ۲۰۱۰ء) میں ’’مولانا مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ‘‘ عنوان کے تحت تحریر کردہ اپنے اس وقیع مقالے کے اخیر میں اہل علم سے ایک خواہش کا اظہار کر کے اُن سے عربی میں اس کتاب کو منتقل کرنے کی ایک طرح سے التجا کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس مختصر تفصیل سے اصل مقصود یہ ہے کہ محولہ کتاب کو عربی میں منتقل کرنے کی واقعی شدید ضرورت ہے، مولانا ازہری؍ رحمہ اللہ خواہش اور کوشش کے باوجود یہ کام نہیں کر سکے، تو دوسرے اہل علم کو جو عربی اور اردو دونوں زبانوں میں مہارت اور انشا وتحریر کا سلیقہ رکھتے ہیں، اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے یا جو بڑے ادارے ہیں، جیسے دارالسلام (الریاض)، یا جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی (الکویت) وغیرہ ، وہ اہل علم کے ذریعے سے یہ کام کروائیں اور عالم عرب میں اس کتاب کو متعارف کروائیں‘‘۔
محترم ازہری صاحب کے انتقال اور اس مضمون کے ماہنامہ محدث میں شائع ہونے کے بعد ایک طول طویل دس سالہ عرصہ گزر جانے کے بعد محترم حافظ صاحب کا انتقال ہوا۔ ابھی ماہ نومبر ۲۰۲۰ء میں واٹس ایپ اور فیس بک میں’’خلافت وملوکیت، تاریخی وشرعی حیثیت‘‘کے عربی ترجمہ کا ایک سرورق نشر ہوتا نظر آیا، تو خوشی ہوئی کہ بزرگوں کی خواہشوں کی تکمیل ہوئی۔ اس عظیم کام کو محترم ازہری صاحب کے ایک عظیم شاگرد ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار فریوائی (انڈیا) نے سر انجام دیا ہے۔
ادھر ایک مضمون ڈاکٹر فریوائی صاحب کا نظر سے گزرا، جس کا عنوان تھا: ’’مولانا حافظ صلاح الدین یوسف‘‘۔ اس میں انھوں نے اس کتاب کی تعریب کے متعلق دو باتیں ذکر کی ہیں، اول یہ کہ ’’استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری؍ رحمہ اللہ کی شدید خواہش تھی کہ یہ کتاب عربی میں آئے‘‘، اور دوم یہ کہ ’’آپ کی تالیف لطیف’خلافت وملوکیت ،تاریخی وشرعی حیثیت‘ میری اور میرے اساتذہ کی نظر میں ایسی کتاب بھی تھی ، جس کی تعریب ضروری سمجھی گئی۔ آج کی دنیا میں علمی کام کو انجام دینا اور کتابوں کی اشاعت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہ خدمت میں انجام دوں۔ اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدا فرمائی اور میں نے اس کی تعریب کرلی‘‘۔
اس تعریب کا علم محترم حافظ صاحب کو تھا۔ اسی مضمون میں آگے اس کی تفصیل موجود ہے۔ البتہ ان کی حیات وزندگی میں طبع ہو کر منظر عام پر نہ آ سکی۔
اللہ تعالیٰ محترم حافظ صاحب اور استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، دونوں کی خدمات واعمال کو شرف قبولیت بخشے اور دونوں کو جنت بریں میں داخل کرے۔ آمین
اہم اور معلوماتی مضمون۔۔
جزاکم اللہ خیرا