اداکاری کی نہیں پیغمبرانہ انداز خطاب اختیار کرنے کی ضرورت

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تعمیر کے فرائض انجام دینا انبیاو رسل کے مشن کی تعمیل و تکمیل ہے۔ انبیاکے وارث ہونے کی بنا پر علماکی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دعوتی مشن کو آگے بڑھائیں اورحالات وظروف کے مطابق اس کے لیےحتی المقدور نفع بخش و موثر وسائل و ذرائع اختیار کریں ۔ اشاعتِ حق اور ردِ باطل کے عام طور پر دو بنیادی ذرائع ہیں، صحافت اور خطابت ۔ صحافت کی اثر انگیزی صرف خواندہ طبقہ تک ہی محدود رہتی ہے جبکہ خطابت کے اثرات خواندہ و نا خواندہ دونوں طبقوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کےاس ترقی یافتہ دور میں صحافت کی طرح خطابت کے فوائد و منافع کو بھی دائمی اور انمٹ بنائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
انبیاءکرام نے انذار و تبلیغ کے انفرادی و اجتماعی دونوں طریقے اختیار کیے۔چنانچہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انبیاکے بارے میں یہ ذکر ملتا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کو یا قوم ! کہہ کر مخاطَب کیا۔ظاہرہے یہ انداز خطاب مخاطَبین کی اجتماعیت کو ثابت کرتا ہے ۔ خود ہمارے آخری نبی ﷺ کو جب یہ حکم ہوا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو انذار و تبلیغ کریں تو آپ ﷺ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر یاصباحاہ! کی آواز لگائی اور اس آواز پر لوگ اکٹھے ہوئے اورآپ ﷺ نے ان سب تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔
دینی اجتماعات، کانفرنسز اور جلسے یقیناً دعوتی و اصلاحی کاز کی انجام دہی اوراسلامی تعلیمات و آداب کی نشر و اشاعت کے موثرترین ذرائع میں سے ہیں، ان کی افادیت کو زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر عام کرنے اور ان کے اغراض و مقاصد کو زیادہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے کے لیےدردمندان ملت اور دانشوران قوم کو ٹھوس اقدام کرنا چاہیے۔ اور ان تمام اسباب ومحرکات سے گریزکرنا چاہیےجو ان جلسوں کی افادیت و مقصدیت کوکم کرنے یا بالکل ختم کرنے میں منفی رول ادا کررہے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ارباب فہم وفراست کی بے توجہی کی وجہ سے دور حاضر کے دینی جلسے و اجتماعات نہایت ہی نا گفتہ بہ حالات کے شکار ہیں۔یہ جلسے اپنے بنیادی اہداف و مقاصد کے حصول میں بالکل ناکام ہیں۔جلسوں کی کثرت اور اصلاح کی قلت اظہر من الشمس ہے۔ یہ کوئی خیالی اور ہوائی باتیں نہیں بلکہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کا انکار کوئی نہیں کرسکتا ۔ مشاہدات شاہد ہیں کہ لوگ پوری پوری رات بیدار رہ کے خوش الحان مقرروں کی تقریریں سنتے ہیں اور ان کے مترنمانہ انداز خطاب کو ڈھیر سارے تحسین و آفریں کے کلمات سے نواز کر دامن جھٹک لیتے ہیں۔ جہاں تک عملی دنیا کی بات ہے تو اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بالخصوص اگر ہم بنگال اور بہار کے سیمانچل علاقے کے جلسوں کی بات کریں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف لوگ بڑے انہماک کے ساتھ شب بیداری کرکے جلسے سنتے ہیں اور دوسری طرف فجر کی نماز چھوڑ کے پورے دن گھوڑے بیچ کے سوتے ہیں ،الا ماشاء اللہ۔
مقام ِ غور یہ ہے کہ اصلاح و تعمیر کے نام پر منعقد کیےجانے والے ان جلسوں کے اس قدر نا گفتہ بہ اور تکلیف دہ نتائج و اثرات سماج پر مرتب کیوں ہو رہے ہیں، کہیں مقصدیت کی تعیین میں گڑبڑی تو نہیں؟ یقیناً مقصدیت کے فقدان کی وجہ سے اس طرح کے بعض جلسوں اور سرکس کے درمیان کوئی فرق ہی نظر نہیں آتا ہے۔ سرکس میں لوگ انسانوں و حیوانوں کے مختلف جسمانی کرتب و طرب فزا عجائب و غرائب کا مشاہدہ کرکے شادماں ہوتے ہیں۔یہاں پر بھی وہ قد و قامت، خد و خال، مترنمانہ طرز تکلم، قوالیانہ انداز خطاب ، عجیب وغریب حرکات واشارات،گمراہ کن لفاظی ، بےمعنی سخن سازی اور عیاری و مکاری کے متنوع موجبِ تضحیک و طرب انگیز طرائف و لطائف کو آویزۂ گوش بنا کر قلوب و اذہان کے لیےسامانِ تفریح فراہم کرتے ہیں۔
خطابت میں تکلف اور تقلید ونقالی کی وبا اس قدر عام ہوتی جارہی ہے کہ فن خطابت کی معنویت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔بہت سارے لوگ بزعم خویش کامیاب خطیب بننے کے لیے اپنی پسندکےمقررین کے چبائے ہوئے لفظوں کی جگالی اور ان کے لب ولہجےکی نقالی کو ایک طرح سے ناگزیر سمجھتے ہیں۔جبکہ یہ طریقہ اسلوب علم وتحقیق کے منافی ہے،اس سے خودنقال کی شخصیت متاثر ہوتی ہے،اس کا وقار مجروح ہوتا ہے، عوام الناس میں اس کی کوئی مستقل پہچان اور منفردشناخت نہیں بن پاتی ، بلکہ وہ اپنے ممدوح کے دبستان سے وابستہ ہوکے رہ جاتا ہےاور ہمیشہ اسے اپنےمنقول و مقلَد کی طرف منسوب کرکے یاد کیا جاتا ہے۔شرعی نقطۂ نظر سے بھی یہ ممنوع چیز ہے۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’نُهِيْنَا عَنِ التَّكَلُّفِ‘‘ ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔(بخاری:۷۲۹۳)
خطابت کا بنیادی مقصد لوگوں کی تذکیر واصلاح ہے۔اس کے ذریعے گم گشتۂ راہ کو راہ راست پر لایا جاتا ہے،شرک وبدعات میں مبتلا لوگوں کو توحید ورسالت کے صحیح مفہوم سے روشناس کیا جاتا ہے،کج اخلاق کی کج اخلاقی درست کرکے اسےحسن اخلاق کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے،درشت مزاج کی درشت مزاجی کو ختم کرکے اسے نرم خوئی کی تربیت دی جاتی ہے،نفرت انگیز کی نفرت انگیزی کاقلع قمع کرکے اسے محبت والفت کا درس دیا جاتا ہےاورنسل نو کو ایمان واخلاق کے غارت گر سیلاب سے،بےحیائی کے طوفان شیطان سےاور الحاد وزندقہ کے ابلیسی جھکڑ سے بچانے کی سعی کی جاتی ہے۔اوریہ سب اس وقت ممکن ہے جب خطیبِ اسلام اداکاری،بے مقصد جملے بازی،بے معنی سخن سازی اور نفرت انگیز بیان بازی سے گریزاں ہوکر خطابت کا نبوی اسلوب اختیار کرے۔دھمکی آمیز لب ولہجہ اورجارحانہ انداز بیان سے سماج کی اصلاح تو نہیں ہوتی ہے،بلکہ مزید اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور دوریاں بڑھتی ہیں۔اللہ تعالی ہدایت دے ان نام نہاد مقررین اور واعظین کو جو بلا ضرورت اور محض شہرت طلبی کی غرض سےجہاں تہاں مسلکی اختلافات کو نہایت ہی غیر موزوں انداز میں پیش کرتے اورایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیاں کرتے رہتے ہیں۔جس سے آپسی خلیج پٹنے کی بجاے مزید وسعت پذیر ہوتی جارہی ہے۔پیار محبت کے دیے جلانے کی بجاےنفرت وعداوت کےمینار تعمیر کرنے والے ایسے ہی واعظینِ بےمقصد کا شکوہ کرتے ہوئے حالی رحمہ اللہ نے بڑے ہی درد بھرے انداز میں کہا تھا؎

بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی

جگر جس سے شق ہو وہ تحریر کرنی

گناہگار بندوں کی تحقیر کرنی

مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی


یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ

یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ

دعوت وتبلیغ کے لیے نرم خوئی ،نرم گفتاری اور پرحکمت لب و لہجہ اختیار کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔فرعون جیسے ظالم وجابر اورمتمرد وسرکش کی طرف جب اللہ تعالی نے موسی وہارون علیھما السلام کو دعوت الی اللہ کے لیے بھیجا تو حکم دیا:
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى
[طہ:۴۴ ]کہ اس کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرنا شايد وه سمجھ لے یا ڈر جائے۔
ہمارے آخری نبی محمد ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
[آل عمران:۱۵۹]اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے،سو آپ ان سے در گزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں،پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کریں،بے شک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
سلیقہ مندی کے زیور سے آراستہ ہونا اورنرمی کی صفت کے ساتھ متصف ہونا داعیانِ حق کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔کیوں کہ سختی سے لوگ بدکتے اور دور بھاگتے ہیں جبکہ ہدایت قبول کرنے والے لوگ نرمی سے قریب آتے اور متاثر ہوتے ہیں۔نبی ﷺ نے نرمی کو کسی چیز کی خوبصورتی کا باعث اور سختی کو اس کی بد صورتی کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
«إنَّ الرِّفْقَ لا يَكونُ في شيءٍ إلَّا زانَهُ، ولا يُنْزَعُ مِن شيءٍ إلَّا شانَهُ»
[صحيح مسلم:۲۵۹۴] نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے حسین وخوبصورت کردیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال لی جاتی ہے اسے بدنما وعیب دار بنادیتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ فن خطابت کو پر اثر بنانے کے لیے جہاں بےجا ایکٹنگ ، گمراہ کن لفاظی ،بے معنی سخن سازی، تکلف ونقالی،دشنام طرازی اور سوقیانہ الفاظ اورجملوں کے استعمال سے گریز کرنا ضروری ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ خطیب حالات وظروف کی رعایت کیے بغیر صرف اپنے حفظ کردہ پسندیدہ عناوین کی جگالی نہ کرتا پھرے بلکہ زمان ومکان اور مقتضاے حال کے مطابق عناوین کا انتخاب کرے، بھرپور محنت کرکے تیاری کے ساتھ لوگوں کے سامنے آئے اوراخلاص و للہیت،منہجیت و جامعیت اور پیغمبرانہ اسلوب وانداز اختیار کرےکہ اسی میں دعوتی تاثیر کا راز پنہاں ہے۔

آپ کے تبصرے

3000