الاخوان المسلمون: سعودی عرب کے حالیہ فتوے کی روشنی میں ایک مطالعہ

ساجد ولی المدنی عقائد

الاخوان المسلمون ایک عالمی شہرت یافتہ تنظیم ہے، حالیہ دنوں سعودی عرب کی طرف سے جاری ایک فتوے نے اس کی سرگرمیوں اور طریقہ کار پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ جس تحریک کے کارندے پوری دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی کےمطابق کام کرنے میں لگے ہیں، اس پر اچانک اتنا سخت موقف آخر کس وجہ سے اختیار کیا گیا؟ کیا اس مخالف رخ میں کوئی سیاسی اختلاف کارفرما ہےیا پھر کوئی دینی وشرعی وجہ اس کے پیچھے ہے؟ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ سوالات تشنہ گرچہ نہیں ہیں البتہ بہت سارے ایسے لوگ جو اس تنظیم کے لٹریچر سے متاثر ہیں یا پھر اس کے متعلق کچھ سطحی معلومات رکھتے ہیں ان کے تنقیدی جراثیم تو اس موقف پر بڑی بلبلاہٹ اور بوکھلاہٹ کے شکار ہیں۔ جس کی ایک ادنی سی جھلک آپ کو اگر دیکھنی ہو توسوشل میڈیا پر ان کے اسلامی اخلاق کا مشاہدہ کرسکتے ہیں اور انقلابی وابداعی گالی گلوچ سے لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔
یوں تو ہمارے لیے اس طرح کی بوکھلاہٹ کوئی نئی نہیں ہے، ہمیشہ جب بھی عرب ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کا کوئی عالمی موقف سامنے آتا ہے تب تب ہم اس طرح کی بالیدگی کا مشاہدہ ضرور کرتے ہیں۔ اور دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی بوتلوں میں بند سلیمانی پریت باہر نکل کرزبانی شب خون ماررہے ہیں اور کبھی اس کو طاغوت کہتے نظر آتے ہیں، کبھی اس کو آل یہود کہتے ہوئے دکھتے ہیں، کبھی اسے دشمن اسلام گھوشت کرتے دکھتے ہیں، کبھی اسے صنادید کفر کا پٹھو کہتے ہوئے دکھتے ہیں۔ ان باتوں کو سن کر ایسا لگتا ہے، ان نشتران زبان دراز سے حق وباطل کی خیالی معرکہ آرائی میں مشغول مجاہدان باصفا کو سوائے طاغوت طاغوت کی تسبیح پڑھنے کے کوئی اور وظیفہ ہی نہیں آتا،جس کا یہ بیچارے ضرورت کے وقت ورد کرسکیں اور اپنی روحانی پیاس بجھاسکیں۔
میں یہاں پر اس سلسلہ کلام کو شروع نہیں کرنا چاہتا جس کا تسلسل لامتناہی شکل اختیار کرلے گا اور مسائل سے مسائل جنم لیتے چلے جائیں گے پھر بات ایک ایسی تفصیلی صورت اختیار کرلے گی جو اس مختصر مقالے کی طبیعت کے خلاف ہوگی۔ میں یہاں پر صرف چند ان وجوہات کو بیان کروں گا جن کی بنیاد پر علماءکونسل آف سعودی عرب نے اس تنظیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کی ہے اوراسے دہشت گرد جماعت قرار دیا ہے۔
ان وجوہات کی تفصیل سے قبل یہاں پر اخوانیوں کے قیام خلافت یا حکومت الہیہ کے قیام کے جاذب نظر دعوےکو ذہن میں رکھتے ہوئے اس جماعت کے بعض معروف چہروں کی ایک فکری جھلک دیکھ لیجیے جس پر ہم غور کرکےیہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ساری مسلم حکومتوں کو غیر منزل من اللہ وضعی قوانین کے نفاذ کی بنیاد پر طاغوت کہنے کا آخر راز کیا ہے؟
۱-حسن البناجو اس جماعت کے مرشد اول اور فاونڈر ہیں، کہتے ہیں:
’’ہماری یہ تحریک کسی خاص عقیدے، خاص دین یا پھر کسی خاص گروہ کے خلاف نہیں۔‘‘ [قافلۃ الاخوان ۱/۲۱۱] مزید کہتے ہیں: ’’ہمارا یہود سے جو اختلاف ہے وہ دینی نوعیت کا نہیں ہے، کیونکہ قرآن نے ہمیں ان سے دوستی اور ان سے میل جول پر ابھارا ہے۔‘‘ [الاخوان المسلمون احداث صنعت التاریخ:۱/۴۰۹]
۲-عمر التلسمانی –جو اس جماعت کے تیسرے مرشد عام تھے – کہتے ہیں:
’’یہ بات کہ اخوان کی تشکیل کسی ایسی دینی بنیاد پر ہوئی ہے جس سے افتراق وانتشار جنم لیتا ہو، صورت حال کے بالکل خلاف بات ہے، جسے بہت سارے دلائل وبراہین جھوٹا ثابت کرتے ہیں…اخوان کی تشکیل کیسے امت کے افراد کے درمیان تفریق کا سبب ہوسکتی ہے جب کہ وہ کسی مسیحی کو اس بات سے منع نہیں کرتے کہ وہ کوئی کنیسہ بنالے یا کوئی نوکری حاصل کرلے، نیز بے خوف ہوکر اپنے دینی شعائر کو اداکرے اور اگر عیسائی کسی عیسائی پارٹی کا مطالبہ کریں تو اس میں خوف کھانے کی کون سی بات ہے؟۔‘‘ [مجلۃ الدعوۃ شمارہ نمبر ۱۴ شعبان ۱۳۹۷ ص ۲-۳]
قرضاوی فرماتے ہیں: ’’آزادی شریعت کی تطبیق پر مقدم ہے۔‘‘ [قرضاوی ویب سائٹ کا فرنٹ پیج ۶مارچ ۲۰۱۱]
مزید کہتے ہیں:’’ اسلامی فکر، اسلامی تحریک، اسلامی بیداری کے پھول نہیں کھل سکتے، اس کے بیج نہیں اگ سکتے، اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوسکتیں،اس کی شاخیں برگ وبار نہیں لا سکتیں الا یہ کہ انھیں آزاد فضا اور ڈیموکریسی کا ماحول ملے۔ اس لیے میرے خیال میں اسلامی تحریک کا موقف ہمیشہ آزادی اور سیاسی ڈیموکریسی کی طرف رہے گا۔‘‘ [أولویات الحرکۃ الإسلامیۃ ص ۱۵۶]
ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’میں دینی حکومت کے یکسر خلاف ہوں، ہم کوئی شیخوں اور ملاؤں کی حکومت تونہیں۔‘‘ [جریدۃ الناس شمارہ نمبر ۵۳۶ بتاریخ ۲۵/۳/۱۴۳۲]جب نتن یاہو اسرائیلی انتخابات میں کامیاب ہوئے اور عرب کا گمان تھا کہ وہ ننیانوے پوائنٹ ننیانوے کی نسبت سے کامیاب ہوں گے تو اس تناسب کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’اگر –نعوذ باللہ – اللہ تعالی بھی اپنے آپ کو لوگوں کے لیے پیش کرے تو اتنا تناسب حاصل نہ کر پائے۔‘‘ نعوذ باللہ مرۃ أخری [مجلۃ اللثام عن مخالۃ القرضاوی لشریعۃ الإسلام ص ۹۹]
۴-راشد الغنوشی – تونس کے اند ر اخوانی سربراہ – کہتے ہیں:’’لگاتار اسلامی تحریک شدت کے ساتھ اپنے آپ کو دوسرے سیاسی دھڑوں کے مانند سمجھنے دور رہی ہے، چاہے وہ کمیونسٹ ہوں یا ڈیموکریٹک یاسوشلٹ، البتہ اگر عوام ہماے منہج کے برخلاف کسی دوسرے منہج کو اپناتی ہے تو ہم پر ان کے ارادے کا احترام کرنا واجب ہے۔ ہم سماج پر اپنی مرضی مسلط کرنے والے نہیں، اگر کبھی ایسا وقت آجائے جس میں ہمارا سماج ملحد ہونایا کمیونسٹ ہونا اختیار کرلے تو ہم اس کے اس ارادے واختیار کے سامنے کیا کرسکتے ہیں۔‘‘ [مجلۃ المجتمع شمارہ نمبر ۵۳۲ بتایخ ۱۱/۸/۱۹۸۱]
۵-اخوانیوں کے چوتھے مرشد ابو النصر کہتے ہیں:’’ہم ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں سب کی حصہ داری ہو۔‘‘ [مجلۃ العالم ۲۱/۶/۱۹۸۶]
۶-عصام العریان جو عصر حاضر کے اخوانی قائد ہیں کہتے ہیں:’’ہم کیوں اس بات کو بڑے زور وشور اور اصرار کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلامی مزاج والے ڈیموکریسی کے دشمن ہیں؟یہ بہت بڑا بہتان ہے، ہم جمہوریت کی طرف بلانے والے ہراول دستہ میں شامل لوگ ہیں اور موت تک اس کی وکالت کرنے والے اور اس کا دفاع کرنے والے ہیں۔‘‘ [مجلۃ لواء الإسلام شمارہ نمبر ۸ ۲۰/۱۰/۱۹۹۰]
۷-حماس کے قائد احمد یاسین ایک مرتبہ دریافت کیا گیا ( فلسطینی قوم جمہوری حکومت چاہتی ہے، آپ اس سے کیوں نفرت کرتے ہیں) تو آپ کا یہ جواب تھا:’’میں بھی متعدد پارٹیوں والی جمہوریت چاہتا ہوں جس میں انتخاب جیتنے والی پارٹی حکومت کرے۔‘‘ تو سائل نے دریافت کیا:’’ اگر اس انتخاب میں کمیونسٹ پارٹی جیت جائےتو آپ کا موقف کیا ہوگا؟‘‘ تو جواب دیا:’’اگر کمیونسٹ پارٹی جیت جاتی ہے تو میں فلسطینی قوم کی رغبت کا احترام کروں گا۔‘‘ [احمد یاسین المعجزۃ وأسطورۃ التحدی ۱۱۶-۱۱۸]
۸-حماس کی قانون ساز کمیٹی کے صدر عزیز الدویک کہتے ہیں:’’حماس قیادت کے زیر قیادت فلسطینی نئی قیادت فلسطینیوں کو اسلامی شرعی بنیادوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے پر مجبور نہیں کرے گی اور نہ ہی سینمائی نمائشوں اور شراب پیش کرنے والے ہوٹلوں کو بند کرنے کا کام کرے گی۔‘‘ [ووٹرز خبر رساں ایجنسی کو دیا گیا ایک بیان بتاریخ ۲۳/۲/۲۰۰۶]
۹-محمد الغزالی کہتے ہیں:’’ہمیں اپنے ہاتھ اور کان ہر اس آواز کےلیے وارکھنے ضروری ہیں جو موجودہ ادیان وملل کے درمیان اخوت قائم کرنے کا کام کرے اور ان کے درمیان قربت پیدا کرے اور اس کے متبعین کے دلوں سے نفرت وعداوت کے اسباب کو نکال دے۔‘‘ [من ہنا نعلم ص ۱۵۰۲]
۱۰-محمد مہدی عاکف جو الاخوان المسلمون کے مرشد رہ چکے ہیں کہتے ہیں:’’عقیدہ کے باب میں جعفری شیعہ ہمارے ساتھ متفق ہیں اور ہم بھی انھیں اپنا دینی بھائی سمجھتے ہیں۔‘‘ [مجلۃ المختار الإسلامی شمارہ نمبر ۲۸۸ ص ۳۰]
۱۱-عبد المجید الزندانی خمینی – علیہ من اللہ ما یستحق – سے بیعت تھے۔ [جیسا کہ احمد بن منصور العدینی نے ابو الحسن المصری الماربی اور انھوں نے عبد المجید الریمی کے واسطے سے بیان کیا]
۱۲-خالد مشعل کہتے ہیں:’’ تحریک حماس خمینی انقلاب کی روحانی اولاد ہے۔‘‘[وکالۃ مہر للأنباء بتاریخ ۲۲/۲/۲۰۰۶]
۱۳-عمر التلمسانی جو کہ اخوانیوں کے تیسرے مرشد ہیں کہتے ہیں:’’ میں ایک پیشہ ور وکیل کی طرح کام کیا کرتا تھا اور جمعہ کے دن کچھ سنیمائی فلمیں دیکھنے جاتا تھا، میں انٹرول کے انتظار میں رہتا تھا تاکہ جس سنیما گھر میں میں ہوتا اس میں ظہر وعصر کی نماز کو جمع کرکے پڑھ سکوں۔‘‘ [ذکریات لا مذکرات ص۱۳]
۱۴-سوڈان کے اندر الاخوان المسلمین کے قائد حسن الترابی کہتے ہیں:’’ اللہ کی عبادت کے لیے آرٹ کا بنانا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے جہاں بہت سارے لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو وہیں بہت سارے لوگ ہدایت بھی پاتے ہیں، جس نے اس میں کوتاہی کی اس نے اللہ کی یاد سے غافل کرنے والے اور اس کی معصیت کی طرف دعوت دینے والے فتنے کا راستہ چھو ڑ دیا اور جس نے مناسب صورت میں اسے اختیار کیا اس نے حسن وجمال کی مقناطیسیت کے چلتے دعوت الی اللہ اور بہترین طریقے سے عبادت کے ایک وسیع راستے کو کھول دیا۔‘‘ [الدین والفن ص ۱۱۰]
۱۵-محمد قحطان – جو یمن میں اخوانیوں کے سیاسی حلقے کے صدر ہیں – نے ساری سیاسی جماعتوں کو اس بات کی طرف دعوت دی کہ وہ ملک کی صدارت کے لیے ایک عورت کے انتخاب پر متفق ہوجائیں۔ [جریدۃ الصحوۃ الاخوانیۃ شمارہ نمبر ۶۹۴ بتاریخ ۳ رمضان ۱۴۲۶]
۱۶-اخوانی (جمعیۃ الإصلاح ) نے یمن کے اندر العمران نامی ضلع میں بہت سارے یہودیوں کو کپڑے تقسیم کیے۔یہ واقعہ کسی عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر پیش نہیں آیا بلکہ یہود کی دینی عید عید فصح کے موقع پر پیش آیا۔یہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر انھوں نے ماشا النہاری الیہودی تنظیم کے بہت سارے یتیموں کی کفالت کا ذمہ بھی لیا۔ [ جریدۃ الناس شمارہ نمبر ۴۴۲ بتاریخ ۱۷/۴/۱۴۳۰ الموافق ۱۳/۴/۲۰۰۹]
یہ اس ممنوعہ تنظیم کے بڑے قائدوں کے بیانات ہیں جنھیں غور سے پڑھ کر ان کے منہج، عقیدہ، طریقہ عمل، دعوی اور ولا ء وبراء کا کی جانکاری حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر اس جماعت کے اندر وہ کون سی ایسی خصوصیت ہےجو اسے قیام خلافت اسلامیہ کا اہل بناتی ہے یا پھر تطبیق شریعت اور دینی غیرت کی بات کرنے والی کون سی ایسی صفت امتیاز ان میں پائی جاتی ہے جو انھیں- بقول ان کے- عصر حاضر کے طاغوتوں سے ممتاز کرتی ہے اور پھر کون سی وہ دعوتی اولویات ان کے پاس ہیں جنھیں دیکھ کر انھیں انبیائی طریقہ دعوت سے ملادیتی ہیں۔ جتنے بھی دعوے کیے جاتے ہیں وہ کھوکھلے تو ہیں ہی، ساتھ ہی ساتھ ان کی بنیاد پر جو نوجوانوں کا جذباتی رخ بنا ہے اور ان کا تربیتی پہلو متاثر ہوا ہے اس پر جتنا ماتم کیا جائے اتنا کم ہے۔ اس جذباتی جادوگری سے امت کا جتنا خون بہا ہے اس کا تو خیر اللہ ہی حساب کتاب لے گا البتہ یہاں ایک بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اتنا قتل وخون خرابہ ہونے کے باوجود بھی اس تنظیم کو اپنے طریقہ کار اور ولاء وبراء پر کسی بھی طرح کے مراجعے کی توفیق نہیں۔
بات چونکہ سعودی عرب کی علماء کونسل کےفتوے سے شروع ہوئی تھی اس لیے اسی کے دائرے میں رہنا بہتر ہے۔ شرعی طور پر تو یہ بات واضح ہے کہ اس جماعت کی دعوت، طریقہ تربیت اور نقد وتبصروں میں کہیں بھی توحید وعقیدہ کو مقدم نہیں رکھا جاتا بلکہ اس طرز پر امت کے اتحاد کی بات کرنے والےداعیان حق کو یہ جماعت حالات سے غافل امت کو بانٹنے والےفتنہ پروروں سے جوڑتی ہے بلکہ ان کی کج فکری نے انھیں اتنا جرات مندبنادیا ہے کہ سلف اور سلفیت کی بات کرنے والے حضرات کو یہ جماعت بڑی ترچھی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
مشکل وقت میں کام آنے کے باوجودسعودی عرب اس تنظیم کےنزدیک اتنا مبغوض کیوں؟
تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ سعودی عرب نے اس جماعت کے مظلوم نوجوانوں کو دینی اخوت وہمدردی کے ناطے اپنے یہاں پناہ دی اور عزت وتکریم سے انھیں اپنے یہاں بسایا۔ امید تو یہ تھی کہ یہ چونکہ بظاہرایک دین پسند تنظیم ہے، اس لیے کھلے دل سے مملکت توحید کی بدعات وخرافات اور شرک وشرکیات کے خلاف انبیائی مشن دعوت کوتقویت پہنچائیں گے اور اس ملک میں نفاذ شریعت کی ممتاز خصوصیت دیکھتے ہوئے یہ اسے قوت فراہم کریں گے۔اسلام کے نام پر اٹھنے والی ایک تنظیم سے یہی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ تنظیم جو مقصد ظاہر کرتی تھی اس کو قرآنی فلسفہ دعوت کے عین مطابق مملکت سعودی عرب پہلے سے منطبق کرچکا تھا، تو انھیں نئے مشن یا نئی طرز تربیت یا نئے فکرے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، بلکہ انھیں اتنا کرنا تھا کہ یہ لوگ اس مشن میں جڑ جاتے جسے کبھی شیخ الإسلام نے اور ان کے بعد نجد کے اندر محمد بن عبد الوہاب نے شروع کیا تھا۔ البتہ اگر ہم اس کی نشو ونما کے زمانہ افتراق وانتشار کو دیکھیں تو یہ نیا انتشار کا بیج بونا سمجھ سے پرے لگے گا۔ پھر ذرا آگے بڑھ کر اس جماعت کے لٹریچر پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ شاید اس جماعت کا مقصدکچھ اور تھا اور طریقہ کار بھی مختلف، جس میں توحید کو اولیت حاصل نہیں تھی بلکہ پورا زور باطل ارادے سے لا حکم إلا للہ اور إن الحکم إلا للہ جیسے کلمات حق پر تھا،گرچہ یہ جماعت عصر حاضر کی ان عجیب وغریب جماعتوں میں سے ایک ہے جس پر نہ نصیحتوں کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی نقد وتنقید کو برداشت کرنے کی مثبت صفت ان کے اندر پائی جاتی ہے۔ بلکہ اس با ب میں تو ان کے اندر ایک عجیب تضاد خلقی دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اس طرح کہ اگر ان کے افکار ونظریات پر کلام کیا جائےیا ان سے وابستہ لوگوں کی فکر ومنہج پرتنقید کی جائے تو پوری قوت کے ساتھ عذر پے عذر بیان کیے جاتے ہیں اوراصحاب رسول یا پھر تاریخ اسلاف کی خامیوں کی بات آئے تو کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوتا بلکہ ان کے خلاف بد کلامی کو حق گوئی وبے باکی سمجھا جاتا ہے۔ آپ اپنے چاروں طرف ذرا سی اگر نظر ڈالیں تو اس طرح کے کتنے بے باکوں کوبےباکی کے ساتھ ایسے ایسے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے پائیں گے جن میں لب کشائی کرنے سے بڑے بڑے اساطین علم وفضل کو پسینے آنے لگتے ہیں۔ اب چلیے دیکھتے ہیں کہ اس جماعت کے اندروہ کون سی منہجی غلطیاں ہیں جن کی بنیاد پر سعودی عرب کی علماء کونسل نے انھیں دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
وہ اسباب جن کی بنیاد پر مملکت سعودی عرب نے اس دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے:
۱-اسلامی ممالک کے حالیہ حکمرانوں کو طاغوت کہہ کر ملک میں باغیانہ فضا ہموار کرنا:پہلی بات تو یہ کہ یہ جماعت کسی بھی ملک کی وفادار نہیں ہوسکتی، نہ کسی بھی شرعی بیع کی پاسداری کرتی ہے، نہ عہدووفا کا پاس، دنیا میں موجود کسی بھی روایتی نظام حکومت کو طاغوتی اور غیر اسلامی نظام مانتی ہے جس کا خاتمہ کرنایا اس مقصد کے لیے کوشش کرنا، اس کے خلاف ایک فضا ہموار کرنا امت پر ان کی نظر میں اولین فرض ہے۔
یہاں یہ بحث تو نہیں چھیڑی جائے گی کہ لفظ طاغوت کیا لفظ کافر کے مترادف ہے؟ یا پھر کیا کوئی مسلم بھی طاغوت ہو سکتا ہے کہ نہیں ؟ پھر طواغیت کی حکومتوں کو قبول کرنے والے کفر کو قبول کرنے والے مانیں جائیں یا پھر کچھ اور؟ کیا ساری دنیا میں سارے مسلم سماج جب طاغوتوں کے ماتحت زندگی بسر کررہے ہیں،تو پھر یہ کون سمجھائے گا کہ یہ تحریکات طواغیت الارض نہیں جو اپنے منہج، طریقہ کار، تنظیم وتنسیق سے ہر ملک میں اپنا الگ ایک ملک چلاتے ہیں؟ ہر بیعت کو شرعا غیر معتبر مان کر ایک الگ ہی بیعت کا دھندا چلاتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔یہاں پر بات اس تنظیم کے اس بےوفا اور احسان فراموش کردار کی ہوگی جس نے بڑی تباہی پھیلائی ہے اور بہت سارے ملکوں کو بد امنی وانارکی آگ میں جھونک دیا ہے۔
یوں تو اس جماعت کا پورا لٹریچر اس مزاج ومنہج پر شاہد عدل ہے۔ پھر بھی اس فاسد مزاجی کو باریکی سے سمجھنے کے لیے ہم سعودی عرب کی ان پر کی گئی مہربانیوں کا ذکر کرتے ہیں اور پھر ان کی اس فکری ومنہجی احسان فراموشی کا بھی تذکرہ کیے دیتے ہیں۔
میں اس بات کا ذکر سعودی عرب کے معروف وہر دل عزیز امیر امیر نائف کے ایک انٹرویو میں دیے گئے جواب سے شروع کرتا ہوں، وہ کہتے ہیں:’’ہم کسی کے خلاف حقیقی معنوں میں مورچہ بندی جیسی حالت سے تو دوچار نہیں ہوئے، البتہ ایک پختہ عزم والی حالت سے ضرور گزرے ہیں یعنی ہم اس میں کچھ خطرات کے ابھرنے سے قبل ہی اس کا خاتمہ کردیا کرتےتھے۔یقینا میری نظر میں سب سے تکلیف دہ حادثہ جو میرے دوران امارت پیش آیا وہ حرم پر حملے والا حادثہ تھا جسے ہم نے دوہفتوں میں کنٹرول کرلیا۔ اس حملے کی کچھ بنیادیں بھی تھیں، البتہ وہ اس حد تک پختہ نہیں تھیں کہ حرم شریف پر حملہ ممکن ہوتا۔ افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ان حملہ آوروں کے مراجع ومصادر – جن سے انھوں نے نظریاتی استفادہ کیا تھا – کویت کا دار الطلیعہ نامی مکتبہ تھا جو ان کی کتابوں کی اشاعت کا ٹھیکہ دار تھا، ان کے ساتھ او ردوسری تنظیمیں بھی سرگرم عمل تھیں۔ ان میں کچھ لوگ الاخوان المسلمون اور کچھ جماعت التبلیغ کے تھے، لیکن میں بلاترد د وشک یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہماری ساری مشکلات اور ناگہانی حادثات کی اصل جڑ الاخوان المسلمون تھے۔
میں اپنے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے یہ بھی کہتا ہوں کہ الاخوان المسلمون پر جب دنیا تنگ کر دی گئی، ان کے ملکوں میں ان کے لیے پھانسی کے پھندے تیار کرلیے گئے تو انھوں نے سعودی عرب کا رخ کیا، اس عزیزملک نے انھیں برداشت کیا، ان کی حفاظت کی اور اللہ کے بعد ان کی جان بچائی، ان کی عزت وآبرو کو محفوظ کیا، انھیں امن عطا کیا، دوسرےعرب ممالک میں ہمارے بھائیوں نے بھی اس حالت کوقبول کیا اور کہا کہ یہ سعودی عرب سےکہیں او رجاکر پناہ لیں، کوئی ضروری نہیں، ہم نے انھیں اپنا مہمان بنایا اور یہ ہمارا فرض تھا اور ایک نیکی تھی۔ ہمارے درمیان ایک زمانے تک رہنے کے بعد ہم نے انھیں نوکری کا مطالبہ کرتے ہوئے پایا تو ہم نے اس کے لیے بھی راستے نکالے، ان میں بہت سارے ٹیچر تھے، کچھ ڈینز آف کالجز تھے،ہم نے ان کے لیے اپنے کالجوں کے دروازے کھول دیے، یونیورسٹیاں کھولیں۔ لیکن افسوس کہ وہ اپنے سابقہ تعلقات وروابط کو نہیں بھلاسکے جس کی بنیاد پر وہ لوگوں کی ذہن سازی کرنے لگے، مختلف قسم کی تنظیمیں بنانے لگے اور خود مملکت سعودی عرب کے خلاف ہوگئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: {ھل جزاء الإحسان إلا الإحسان} ہم نے تو یہی جانا اور سمجھا ہے،البتہ ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ کم از کم ان پر یہ فرض بنتا تھا کہ وہ مملکت سعودی عرب کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔ اگر وہ اپنے دل کی کوئی بات کہنا بھی چاہتے تھے تو باہر کہتے، اس ملک کے متعلق تو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا جس نے انھیں عزت بخشی۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک بڑے عالم شیخ محمد الغزالی – رحمہ اللہ –نے ہمارے یہاں تعلیمی خدمت انجام دی، پھروہ وفات پاگئے اور مدینہ میں دفن بھی ہوئے۔ انھوں نے بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انھوں نے ملک عبد العزیز – رحمہ اللہ – پر کچھ کلام کیا تھا، جب وہ یہاں آئے اور مکہ میں واقع جامعہ ام القری کے اندر جب انھوں نے کلیۃ الشریعہ کے اندر کام کیا تو میں نے ان سے ملاقات کی اور کہا: فضیلۃالشیخ آپ نے سعودی عرب اور اس ملک کو متحد کرنے والے مؤسس پر کلام کیا ہے، میں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے جو بھی لکھا ہے وہ صحیح ہے؟ تو کہنے لگے: اللہ کی قسم ہرگز نہیں، البتہ میں مملکت سعودی عرب میں ہوتے ہوئے اسے بدل نہیں سکتا، جب میں یہاں سے جاؤں گا تو لکھوں گا….
مجھے یاد ہے کہ اس جماعت کے مشہور شخص نے یہاں کی شہریت بھی حاصل کرلی اور یہاں پر انھیں چالیس سال بھی رہتے ہوئے ہوگئے، جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے آئیڈیل کون ہیں؟ تو کہنے لگے حسن البنا!!! میں اس انتظار میں تھا کہ وہ یہ کہیں کہ میرے آئیڈیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا ابوبکر عمر عثمان علی یا کوئی صحابی ہیں، لیکن ان کے حسن البنا کو اختیار کرنے کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ شخص ابھی تک الاخوان المسلمون کے افکار سے چمٹا ہوا ہے جس نے عالم عرب کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
میں واضح طور پر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ تنظیم الاخوان المسلمون نے سعودی عرب کے ساتھ بڑا براکیا ہے اور اس کے لیے بڑی مشکلات پیدا کی ہیں۔ آپ حسن الترابی کی مثال لیں جو سعودی عرب میں ایک زمانہ تک رہے اور جامعۃ الملک عبد العزیز میں تعلیم بھی حاصل کی۔ میں شخصی طور پر انھیں اپنا دوست سمجھتا ہوں، ہمیشہ وہ میرے پاس آیا کرتے تھے، خاص طور پر ان کے امارات میں نوکری کرنے کے دوران، وہ جب بھی آتے مجھ سے ضرور ملتے اور پھر وہ جیسے ہی حکومت تک پہنچے فورا مملکت سعودی عرب کے خلاف کمر بستہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ سعودی عرب نے ان کے حکومت حاصل کرنے کے بعد سوڈان میں ایک ایئر پورٹ بنایا، سعودی وفد اسے ان کے سپرد کرنےپہنچا تو انھوں نے مملکت سعودی عرب کا شکریہ تک ادا نہیں، میں آپ کو کیا کیا سناوں؟
۲-رافضیت سے موالاۃ ومواخاۃ:یوں تو اس جماعت اور اس منہج سے قریب ترین عالمی تحریکات کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو سنیوں کے مقابلے شیعوں سے زیادہ قریب رکھا ہے۔ بلکہ ایرانی انقلاب سے ان کے بڑے گہرے رشتے قائم رہے ہیں۔ آپسی محبت والفت پر مبنی استفادے وافادےہوتے رہے ہیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہے ہیں۔ شروع میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ شاید یہ قربت یا تو غلط فہمی کی بنیاد پر ہےیا پھر دعوتی نقطہ نظر سے ان کو حق کی طرف لانے کی غرض سے ہےیا پھر ایک معاملاتی واخلاقی پہلو سے ایک زمینی حقیقت بن چکی رافضیت سے سطحی معاملہ بازی ہے۔ لیکن ایک زمانہ گزر جانے اور ساری پردہ دری واہوجانے نیز اہل علم کی طرف سے اس مذہب کی حقیقت واشگاف کیے جانے کے بعد بھی اس رسم وراہ کا قائم رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کوئی معاملاتی نوعیت کا رشتہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک منہجی وفکری قسم کا رشتہ ہے۔ کیا اس طرح کی خفیہ باز، مجرم دوست تحریک کسی ایسے ملک کی مصلحت میں کبھی کام کرسکتی ہے جو صحابہ کو گالیاں دینے والے روافض سےدینی وفکری عقدی اعتبار سے شدید اختلاف رکھتا ہو، ہرگز نہیں۔ آپ ان متلون مزاج تحریک کے بعض نمایاں چہروں کے یہ اقوال پڑھیں اور سوچیں کہ اس رشتے کو کیا نام دیا جائے۔
سالم البہنساوی – جوکہ الاخوان المسلمون کے مفکر مانے جاتے ہیں –اپنی کتاب ( السنۃ المفتری علیہا ) کے صفحہ ۵۷ پر لکھتے ہیں:’’ جب سے اسلامی مذاہب کے درمیان قربت قائم کرنے والی جماعت قائم ہوئی ہے، جس میں امام بنا اور امام القمی نے بڑا کردار ادا کیا ہے اور لگاتار شیعوں اور الاخوان المسلمون کے درمیان یہ باہمی تعاون موجود ہے، اسی کے نتیجے میں امام نواب الصفوی نے سنہ ۱۹۴۵ء میں قاہرہ کی زیارت کی۔‘‘اسی صفحہ پر وہ آگے لکھتے ہیں:’’اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کے مناہج اس تعاون پر ابھارتے ہیں۔‘‘
عمر التلمسانی اپنی کتاب ( الملہم الموہوب – حسن البنا) کے صفحہ ۷۸ پر ذکر کرتے ہیں کہ حسن البنا ایک زمانے تک شیخ محمد القمی – جو شیعوں کے بڑے عالم او ررہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں – کی شیعہ سنی اتفاق کے لیے بلاتے رہے اور اسی مقصد سے انھوں نے شیعی مرجع آیۃ اللہ الکاشانی سے دوران حج ۱۹۴۸ء میں ملاقات بھی کی اور ان کے درمیان اس مسئلے میں باہمی ایک سمجھوتہ بھی ہوا جس کی کچھ تفصیلات عبد المتعال الجبری نے اپنی کتاب ( لماذا اغتیل حسن البنا، طباعت بار اول – الاعتصام- صفحہ ۳۲]میں ذکر کی ہیں اور بہت ساری سری تفصیلات کو ترک کردیا ہے۔
یہی مصنف اپنی کتاب ’ذکریات لا مذکرات‘ کے صفحہ ۲۴۹-۲۵۰ پر اسی امام القمی کی ایک اور زیارت کاذکر کرتا ہے اور شیعہ سنی اختلاف کے متعلق حسن البنا سے کیے گئے ایک سوال کا جواب نقل کرتا ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ تو یہ کہہ کربات ٹال دی کہ مسلمانوں کو ان مسائل میں نہیں الجھنا چاہیے، پھر جب ان سے پوچھا گیا کہ اس مسئلے میں مسلمانوں کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتاہے اور ہمارے پاس اس اختلاف کی تفصیلات پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے، آپ من باب العلم ہمیں کچھ رہنمائی فرمائیں۔ توانھوں نے کہا:’’یہ یقین رکھو کہ اہل سنت اور اہل تشیع مسلمان ہیں، ان کے درمیان کلمہ شہادت ( لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ ) قدر مشترک ہے اور یہی عقیدہ اسلامیہ کی بنیاد ہے۔ شیعہ اور اہل سنت اس میں برابر اور باہم ملے ہوئے ہیں۔ جو اختلاف ہے ان میں باہم ایک دوسرے سے قریب ہونا ممکن ہے۔‘‘گویا یہ اس جماعت کا منہج ہے کہ تکفیر صحابہ، تحریف قرآن اور تکفیر امہات المؤمنین جیسے عقیدے رکھنے والے مسلم اور مؤمن ہیں، ان سے قربت وموالاۃ اسلامی عقیدہ میں کلمہ توحید کا تقاضہ ہے، اس لیے اس اختلاف میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ فرعی نوعیت کا اختلاف ہے۔
یہاں پر میں یہ بات ذکر کرتا چلوں کہ خمینی انقلاب سے اس جماعت کا تعلق جگ ظاہر ہے، اس کا نہ کوئی انکار کرسکتا ہے اور نہ ہی کرتا۔ اتنے سنیوں کے خون خرابے کے باوجود بھی آج تک یہ تنظیم مسلم ممالک کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہے اور وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ حقیقت میں یہ شیعہ سنی اتحاد کی کوششیں کوئی صحیح نیت پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ایک فاسد اورتباہ کن مقصد کے تحت انجام دی گئیں تھیں۔ انھیں اگر واقعات وتاریخ قریب کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ سنیوں کو شیعیت کے قریب کرنے کی کوششیں تھیں، نہ کہ رافضیت کو سنیت سے قریب کرنے کی تگ ودو۔ اسی لیے کتنے سنی ممالک میں صحابہ کرام کو رضی اللہ عنہم کہنے والے مسلم نوجوان اب لعن اللہ علیہم کا ورد کرتے دکھائی پڑتے ہیں۔[اختصار کی غرض سے اسی پر بس کیا جاتا ہے]
۳-یہ جماعت اہل سنت والجماعت کے منہج سے مکمل ہٹی ہوئی ہے: تو کیا ایسے ملک میں جہاں منہج سلف کی رکھوالی کی جاتی ہو ایسے ناسور کو جگہ دینی چاہیے جو کل چل کر اس کی قرآن وسنت کی دعوت اور اس کی طرف سےبدعات وخرافات کے خلاف چھیڑ ی گئی جنگ ہی کو کمزور کردے۔ خیر جواب آپ کے بس میں ہے جو چاہے منتخب کریں۔ یہاں میں اس بات کو ثابت کرنے سے قبل عصر حاضر کے بعض ایسے سنی علماء کے اقوال ذکر کرتا ہوں جو اس زمانے میں حق وباطل کی شناخت کا معیار تھے۔
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا الاخوان المسلمون ان بہتر فرقوں میں شامل ہیں جو نبوی اور منہج صحابہ سے ہٹے ہوئے ہیں، تو آپ نے فرمایا: جی یہ ان بہتر فرقوں میں شامل ہیں۔ جو بھی اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے خلاف جائے گا وہ ان بہتر فرقوں میں شامل ہوگا۔ پھر ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا تھا:’’ تحریک اخوان پر خاص علماء تنقید کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ان کی دعوتی سرگرمیوں میں دعوت توحید، انکار شرک، انکار بدعت شامل نہیں۔ ان کے یہاں کچھ خاص قسم کے اسالیب دعوت ہیں جن میں صحیح عقیدے کی طرف توجہ کا فقدان پایا جاتا ہے۔‘‘
محدث عصر العلامۃ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں:’’ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ الاخوان المسلمون کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ اہل سنت میں شامل ہیں، کیونکہ وہ سنت کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:’’الاخوان المسلمون اس قاعدے سے اپنے تحریکی سفر کی شروعات کرتے ہیں کہ جن باتوں میں ہم متفق ہیں ان میں مل کر کام کریں اور جن میں مختلف ہیں ان میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں جسے ان کے پہلے صدر نے وضع کیا تھا۔‘‘….یہی عبارت ستر سال تک عملی طور پر اس جماعت کے قائم رہنے اور فکری طور پر اسلام کی صحیح سمجھ سے دوری کی وجہ ہے۔ اور نتیجے کے طور پر عملا اسلام کی تطبیق سے بعد کا بھی سبب ہے کیونکہ خالی ہاتھ کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔‘‘
علامہ صالح بن فوزان الفوزان نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:’’ یہی خارج ملک سے پدھاری ہوئی جماعتوں کو ہمیں قبول نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمیں منحرف کرنا چاہتی ہیں اور ہم میں افتراق وانتشار کا بیج بونا چاہتی ہیں، یہ اسے تبلیغی، اسے اخوانی بنادینا چاہتی ہیں…اور یہی ہوا ہے…یہ اختلاف وافتراق کیوں؟ یہ اللہ کی نعمت کا انکار ہے، ہم ایک جماعت ہیں، کیوں ہم بودے منہج سے ایک اچھے بھلے منہج کو بدلیں؟…یہ ہرگز جائز نہیں ہوسکتا۔
شیخ صالح اللحیدان فرماتے ہیں:’’الاخوان المسلمون اور جماعت تبلیغ کا منہج صحیح منہج نہیں ہے کیونکہ ان جماعتوں اور ناموں کا سلف کے یہاں کوئی وجود نہیں ملتا۔‘‘
شیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ فرماتے ہیں:’’جہاں تک جماعت الاخوان کا تعلق ہے تو ان کی دعوت کے مظاہر رازداری، پوشیدگی، تلون مزاجی، نفع بخش لوگوں کا تقرب، حقیقت حال کو چھپانا جیسے امو ر ہیں یعنی وہ اپنی نوعیت کی ایک باطنی تحریک ہے۔‘‘
یہ اس جماعت کے متعلق چند معتبر علماء کے اقوال ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں حق پرستی کی دعوے دار یہ جماعت کتنے پانی میں ہے۔ اسلامی فرقوں میں دعوی تو سب قرآن وسنت کی اتباع کا کرتے ہیں لیکن سلف صالحین کی فہم کے مطابق کم ہی ایسی جماعتیں ہیں جو انبیائی طریقہ دعوت کو اپنا کر اس زمانے میں اصلاح کا کام کرتی ہیں۔ یہ جماعت بھی اپنے دستور ومنشور میں کتاب وسنت کی پاسداری کی بات کرتی ہےالبتہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے، اس کے برعکس یہ جماعت شخصیت پرستی سے دور رہ کر صحابہ کی فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع کی طرف دعوت دینے والے گروہ سے شدید بغض رکھتی ہے اور امت میں عقائد کی اصلاح کو افتراق وانتشار کے خاتمے اورعزت وسربلندی کا زینہ ماننے والے افراد کو بڑی ٹیڑھی نظر سے دیکھتی ہے۔
کہنے کوتو تقلیدشخصی یا اشخاص کی بنیاد پر تعصب وتنگ نظری کے خلاف یہ جماعت بھی بڑی گرم جوشی سے بات کرتی ہےلیکن حقیقت میں یہ جماعت خود عصر حاضر کے سب سے شنیع ترین تعصب اور شخصیت پرستی کے قبیح ترین مرض کی شکار ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جماعت کےافراد میں شخصی تعصب اس قدرپایا جاتاہے کہ یہ اپنے کسی بھی نمایاں چہرے پر گفتگو سننا گوارا نہیں کرتے۔ بلکہ بسا اوقات اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ یہ ایسے لوگوں کے خلاف مورچہ بندی میں ہنگامی طور پر لگ جاتے ہیں جو ان کے کسی بھی قائد یا رہنما کے خلاف کچھ لب کشائی کرے۔ وہیں پر ان کے ہم فکر اگر صحابہ تک پرکلام کرلیں توان کی رگ غیرت کبھی نہیں پھڑکتی۔ غور کیا جائے تو یہ جماعتی عصبیت، اشخاص پرستی اور گروہ بندی کی وہ ناقابل برداشت کیفیت ہے جوہمیشہ سے امت میں اختلاف وانتشار کو مضبوط کرتی چلی آئی ہے۔
سعید حوی کہتےہیں:’’ہمارا گمان ہے کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت حسن البنا کی فکر کو چھوڑ کر کامل نہیں ہوسکتی۔‘‘ [جولات فی الفہین الکبیر والأکبر]
محمود الحلیم اپنی کتاب ’ الاخوان المسلمون أحداث صنعت التاریخ‘ میں حسن البنا کے متعلق لکھتے ہیں: ’’میں نے جب تک حسن البنا اور ان کی بیوی کو نہیں دیکھا تھا اس وقت تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول ( کان خلقہ القرآن) کے تصور میں حیران تھا، جب میں نے انھیں دیکھا تو میرے خیالات روشن ہوتے چلے گئے۔‘‘ یعنی ان جناب کو حسن البنا کے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آیا جس میں قرآنی اخلاق کو پاسکیں، حتی کہ صحابہ جیسی بزرگوار ہستیاں بھی۔
ایک اور اخوانی حسن البنا کے متعلق لکھتے ہیں:
إن للاخوان صرحا کل مافیہ حسن
لا تسألن من بناہ إنہ البنا حسن
یعنی اخوانیوں کا ایک ایسا محل ہے جس میں کوئی نقص نہیں، حسن ہی حسن ہے، نہ پوچھو کہ اسے کس نے تعمیر کیا ہے، وہ معمار حسن البنا ہے۔
کیا شخصیت پرستی میں اس کا کوئی جواب ہوسکتا ہے۔
اس جماعت کی شخصیت پرستی ہی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے حلول، وحدۃ الوجود اور تکفیر عام جیسے کفریہ عقائد کے ماننے والے اور انھیں الفاظ اورجملوں کی خوبصورت لڑی میں امت کے سامنے پیش کرنے والےقطب کو امامت کے درجے پرسرفراز کردیا۔ یوں تو ان کا ہر مفکر ومدبر امام ہی ہوتا ہے اور ان کے نظریہ پر نقد کرنے والا بڑا سے بڑا محدث بھی درباری عالم قرار پاتا ہے۔ لیکن پھر بھی قطب کے لٹریچر کو پڑھ کر تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایسے لوگ بھی امامت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں جو وجود کائنات کو حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی پاتے ہوں۔[ فی ظلال القرآن تفسیر سورۃ الإخلاص]توحید الوہیت اور توحید ربوبیت میں تفریق نہ کرپاتے ہوں۔ [فی ظلال القرآن] صفات باری تعالی کی تاویل کرتے ہوں۔ [فی ظلال القرآن فی تفسیر الاستواء] جو انبیاء پر دشنام طرازی کرتے ہوں۔[ التصویر الفنی فی القرآن ۲۰۰]اسلامی سماجوں کو کافر اور جاہلی سماج مانتے ہوں۔ [فی ظلال القرآن]نماز جمعہ جماعت کے ساتھ اس لیے نہیں پڑھتے ہوں کیونکہ خلافت کا وجود نہیں۔[التاریخ السری لجماعۃ الإخوان المسلمین] جو حضرت عثمان جیسے جلیل القدر صحابی کو برابھلا کہتے ہوں۔ [ العدالۃ الاجتماعیۃ ] جو خبر آحاد کے متعلق معتزلی عقیدہ رکھتےہوں۔ [فی ظلال القرآن]
اخوانی منہج اپنی نوعیت کے اعتبار سے خارجی منہج ہے:
یوں تو اس دعوت کا مشہور نعرہ ہے کہ ( لا ازدواجیۃ فی الولاء) یعنی ولاء کے باب میں کوئی دوہرا رویہ نہیں۔ اسی طرح بیعت واطاعت اور مرجعیت کے باب میں ان کے یہاں کوئی دوہرا رویہ قابل قبول نہیں۔ یعنی غیر جماعت کے کسی مسلمان کسی حکمراں اور کسی عالم سے کوئی ولاء، کوئی بیعت اور کوئی مرجعیت نہیں۔ اس لیے اس کے افراد میں قبول کرنےکا جذبہ بالکل ناپید نظر آتا ہے اور یہی فکری تربیت ان کے ریفریشر کورسیز کےذریعےتیار شدہ جذباتی نوجوانوں کوخارجیت کی بھٹی میں دھکیل دیتی ہے۔ کیونکہ ان کی ذہن سازی کی شروعات ہی طاغوت طاغوت کی ہزار دانہ تسبیح سے ہوتی ہے جو مسلم سماجوں کی تحقیر، حکمرانوں کے خلاف ذہن سازی اور قتل وتفجیر پر برانگیختہ کرنے جیسے اعمال پر منتج ہوتی ہے، یہ موضوع بڑا دل چسپ ہے۔ بہت سارے لوگوں کو یقین نہیں ہوگا کہ اس تنظیم اور خارجیت کا بڑا قوی رشتہ ہے، چنانچہ اس مسئلے پر ذرا تفصیل سے گفتگو کرنی بہتر ہوگی۔
پہلی بات:
تو یہاں پر یہ جاننے کا ہےکہ حسن البنا اپنے متبعین سے اسلامی حکومت قائم کرنے کی بیعت لیتے تھے، اس لیے گویا ان کا یہ ماننا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلم حکومت موجود نہیں۔ زینب الغزالی نے حسن البنا سے ان الفاظ میں بیعت کی تھی:’’ اے اللہ میں تیرےسامنےاس بات کی بیعت کرتی ہوں کہ میں اسلامی مملکت کے قیام کی کوشش کروں گی، تو اس کے جواب میں حسن البنا نے کہا تھا:’’ میں نے اس بیعت کو قبول کیا۔‘‘[أیام من حیاتی ص۲۹]
اسی لیے زینب الغزالی کا یہ ماننا تھا کہ مسلم امت کا وجود ہے ہی نہیں، گرچہ کوئی بھی ملک قیام شریعت کا جھنڈا اٹھانے کا دعوی کرتا ہو۔ [المصدر السابق ص ۴۵]اسی لیے بوقت ضرورت یہ جس کو چاہتے کافر کہہ دیتے تھے، چنانچہ اس نے اپنی ہی جماعت کے اس شخص کو اسلام سے خارج قرار دے دیا تھاجو جیپ سے مصری کورٹ کو بلاسٹ کرنے جا رہا تھا لیکن گرفتار ہوگیا تھا، اسی لیے اس کے ایک شاگرد محمود عبدالحلیم ان سے نقل کرتےہیں:’’اللہ کی قسم یہ بدبخت مسلم بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ یہ اخوانی ہو…‘‘۔[الاخوان المسلمون أحداث صنعت التاریخ ۲/۷۵]اور یہ بیان کوئی منہجی بیان نہیں تھا بلکہ ان کی متلون مزاجی کا عکاس تھا۔ کیونکہ اس جماعت کی ایک بڑی ممتاز صفت روافض کے مانند تقیہ اور تلون مزاجی بھی ہے جس میں یہ بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہ خفیہ طور پر ملک فاروق کی تکفیر کرتے تھے اور اپنے دوستوں کے ساتھ ساتھ اسلامی مملکت کے قیا م کی بیعت بھی لیا کرتے تھے اور ظاہری طور پر اس کی تعریف وتمجید بھی کرتے تھے۔
دوسری بات:
یہ جاننے کی ہے کہ اخوانیوں کے دوسرے مرشد حسن الہضیبی مصری فوج کے افسران کی تکفیر کرتے تھے:
محمود عبد الحلیم حسن الہضیبی کے ان تکفیری منشورات کے متعلق لکھتے ہیں:’’پھر روز بروز ہمارے مرشد کی خفیہ پناہ گاہ سےصادر ہونے والے شعلہ انگیز پمفلیٹس اس آگ میں تیل کاکام کرتے تھے۔‘‘ [الاخوان المسلمون أحداث صنعت التاریخ ۳/۳۸۸]مزید کہتےہیں:’’ ہماری میٹنگ سے ایک گھنٹہ قبل ہمارے مرشد عام کی طرف سے ہمیں ایک پمفلیٹ موصول ہوا جو ان اخوانیوں کے لیے تقسیم کیا جاررہا ہے۔ اس میں وہ انقلابی نوجوانوں پر انھیں برانگیختہ کررہے تھے اور انھیں کفر سے متہم کررہے تھے۔‘‘ [الاخوان المسلمون أحداث صنعت التاریخ ۳/۴۱۸]یہ سارے حادثات ۱۹۵۴ء کے اخیرکے ہیں۔
تیسری بات:
یہ جاننے کی ہے کہ سید قطب پوری امت کی تکفیر کرتے تھے اور ان کے بعد کے تحریکی نوجوانوں کی ذہنی ساخت انھی کی کتابوں کی روشنی میں تشکیل پائی:
سید قطب نے اخوانی مرشد الہضیبی سے زینب الغزالی کے توسط سے اجازت مانگی تھی کہ ان کی کتاب ’معالم فی الطریق‘ طبع کی جائے جس میں تکفیری فکر کی بنیاد رکھی گئی ہے، تو ان کے مرشد نے اسے اس کی طباعت کی اجازت دے دی۔
زینب الغزالی کہتیں ہیں:’’ میرے خیال سے مرشد محترم اس کتاب کے مشمولات کو دیکھ کر شہید سید قطب کے لیے اس کی طباعت کی اجازت دے دی۔ جب میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے مجھ سے کہا: اللہ کی برکت کے ساتھ شروع کرو، میں اس وقت اس کتاب کی طباعت کی اجازت کے لیے انھی کے پاس تھی۔‘‘ [أیام من حیاتی ص ۴۳]
سابقہ ان تفصیلات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکفیری فکر اخوانی دعوت کی شروعات ہی سے اس جماعت میں موجود تھی، نہ کہ قناطر یا بدران نامی جیل میں قید کے بعد سے یہ مصیبت ان کے اندر در آئی تھی۔ کیونکہ ان قیدخانوں کے واقعات پانچویں دہائی کے نصف اور چھٹی دہائی کے ابتدائی ایام میں پیش آئے اور شمس بدران جیل میں قید وبند کی سزائیں سنہ ۱۹۶۵ ء میں اس وقت پیش آئیں جب اخوانی خفیہ تنظیم کا خاتمہ کردیا گیا تھا جس کی تاسیس نو دوبارہ سید قطب کے ہاتھوں عمل میں آئی۔
جو ان مذکورہ جیلوں میں قید تھے ان میں تکفیر کی بیماری سید قطب ہی کی کتابوں سے در آئی جیسا کہ بہت سارے اخوانی قلم کاروں اور مؤرخین نے اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ فرید عبد الخالق کہتے ہیں:’’ پہلے ہم اس بات کی طرف اشارہ کر آئے ہیں کہ پانچویں صدی کے اخیر اور چھٹی صدی کی ابتدا میں تکفیری فکر بعض اخوانی نوجوانوں کے اندر قناطر نامی جیل سے در آئی۔ یہ سید قطب کی فکر اور کتابوں سے متاثر اور ان سے انھوں نے یہ قناعت حاصل کی کہ حالیہ سارے سماج جاہلی سماج ہیں۔‘‘[۱]لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ سید قطب کے اس جماعت میں شامل ہونے سے پہلے ہی وہ ان افکار کے حامل تھے۔ بلکہ جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہی ان کے اندر تکفیری مزاج پیدا ہوا۔ اس وجہ سے ان کے افکار اخوانی منہج سے کوئی جدا نہیں تھے بلکہ اخوان کی دعوت میں یہ فکر بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی لیے عباس السیسی اپنی کتاب ’فی قافلۃ الاخوان‘ میں حسن الہضیبی کا یہ قول نقل کرتے ہیں:’’میرے علم کے مطابق استاذ سید قطب کی فکر اخوانی فکر سے کوئی الگ فکر نہیں۔‘‘[۲]اسی طرح سے یوسف القرضاوی بعض ازہر ی علماءپر ایسے الفاظ اورجملوں سے تنقید کرتے ہیں جن میں تفکیر کی بوآتی ہے۔
سید قطب کی تکفیری فکر اس زمانے کی سب سے شنیع فکر تھی جس سے نہ تو اخوانی رہنماؤں نے برأت کا اظہار کیا اور نہ ہی ان کتابوں سے وہ عبارتیں نکالیں بلکہ اسلامی ممالک میں جہاں بھی انھیں کچھ پذیرائی ملی وہیں پر ان کتابوں کو نوجوانوں کی فکر ی تربیت کا ایک حصہ مانا گیا اور انھیں بسا اوقات ادب وزبان کے نام پر درسیات میں بھی شامل کیاگیا۔ حتی کہ یمن کے اندر تو ان کی جمعیۃ الاحسان نامی فرع سید قطب کی کتابوں کا مساجد میں درس دیا کرتی تھی، جب کہ ان کی کتابوں میں تکفیری زہر کا اعتراف خود اس جماعت کے معروف چہروں نے بھی کیا ہے۔چنانچہ قرضاوی ان کے متعلق اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ اب آپ ان چند عبارتوں کوملاحظہ فرمائیں جن میں سید قطب ساری انسانیت ہی کو کافر قرار دیتے ہیں:’’ زمانہ اپنی اسی ہئیت پر لوٹ چکاہے جس پر دین اسلام کی شروعات کے وقت تھا۔ پوری انسانیت جاہلیت کی طرف عود کرآئی ہے، بنیادی طور پر اس کے لوگ اللہ کے دین کو مانتے ہی نہیں اور یہ قرآن بھی دوبارہ انسانیت سے اسی طرح برسرپیکا رہے جس طرح پہلی مرتبہ بوقت نزول برسر پیکار ہوا تھا۔ اب بھی اس کا وہی ہدف رہ گیا ہے جو پہلی مرتبہ تھا کہ عقدی اور فکری ناحیے سے ابتدائی طور پر لوگوں کو اسلام میں داخل کیا جائے اورپھر انھیں نظامی اور واقعی طور پر اللہ کے دین میں داخل کردیا جائے۔‘‘ [ فی ظلال القرآن ۲/۱۲۵۶]
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :’’ بشریت بندوں کی عبادت اور مبنی بر ظلم شریعتوں کی طرف لوٹ چکی ہے، لاالہ الا اللہ سے ہٹ چکی ہے، گرچہ ایک گروہ مناروں سے لا الہ الا اللہ کی صدا ہی کیوں نہ لگأ رہا ہو…‘‘۔ مزید کہتے ہیں:’’بشریت جاہلیت کی طرف لوٹ آئی ہے، لا الہ الا اللہ سے مرتد ہوچکی ہے، ان بندوں کو الوہیت کے خصائص عطا کرچکی ہے، اللہ کو ایک نہیں مانتی اور نہ ہی اس سے ولاء کے باب میں مخلص رہی ہے۔‘‘[فی ظلال القرآن ۲/۱۰۵۷]
ایک اور جگہ کہتے ہیں :’’ یہ سماج جس میں ہم سانس لے رہے ہیں مسلم سماج نہیں ہے،اس وجہ سے اس میں اسلامی نظام کی تطبیق نہیں ہو سکتی۔‘‘ [فی ظلال القرآن ۲/۲۰۰۹]
اسی طرح اپنی کتاب ’ العدالۃ الاجتماعیۃ‘ میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:’ ہمیں معلوم ہے کہ اس نہج پر اسلامی زندگی پورے خطہ ارض میں ایک زمانے سے موقوف ہوچکی ہے اور نتیجے میں اسلام کا وجود بھی ناپید ہوگیا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ سارے مسلم سماجوں کے متعلق لکھتے ہیں:’’ ہم آج اسی طرح کی جاہلیت میں جی رہے ہیں جو اسلام کے نمودار ہونے کے زمانے میں تھی، یا یوں کہیے کہ اس سے بھی تاریک ترین جاہلیت میں ہم جی رہے ہیں…۔‘‘[ فی قافلۃ الاخوان ص ۷۰۱]مزید کہتے ہیں:’’ جاہلی سماج ہر وہ سماج ہے جو مسلم سماج نہ ہو۔‘‘ [معالم فی الطریق ص ۹۸]
علی العشماوی کہتے ہیں کہ ایک دوست میرے پاس آکر کہنے لگے کہ وہ آج کے مسلمانوں کا ذبیحہ نہیں کھائیں گے، میں سید قطب کے پاس گیا اور اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ انھیں اسے کھانے دیجیے، اسے وہ اہل کتاب کا ذبیحہ سمجھیں، علی الأقل آج کے مسلمان اہل کتاب تو ہیں۔‘‘ [التاریخ السری لجماعۃ الاخوان المسلمین ص۸۰]اسی لیے آپ نماز جمعہ نہیں پڑھاکرتے تھے، علی العشماوی کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کا وقت آیا تو میں سید قطب سے کہنے لگا کہ چلیں ہم نماز پڑھ لیں تو میرے لیے یہ بڑے اچنبھے کی بات تھی کہ وہ نماز جمعہ نہیں پڑھتے، کیونکہ ان کے خیال میں بلا خلافت کے جمعہ ہی نہیں۔‘‘ [التاریخ السری لجماعۃ الاخوان المسلمین ۱۱۲]
اسی طرح ایمان کی تعریف کے باب میں آپ خوارج اور معتزلہ کی رائے رکھتے تھے کہ ایمان جزء لایتجزأ ہے، نہ کم ہوگا نہ زیادہ۔ اسی بنیاد پر اس خوارج نے مرتکب کبیرہ کی تکفیر کی ہے۔ کہتے ہیں: ’’ایمان ایسی اکائی ہے جو اجزاء میں تقسیم نہیں ہوسکتی۔‘‘[۱]
اسی طرح کوئی شخص اگر اسلام کے ایک بھی حکم میں خطاکار ہوجائے اسے بھی آپ کافر مانتے تھے، کہتے ہیں:’’ اسلام پوری زندگی کا منہج ہے، جو مکمل اس کی پیروی کرے گا مؤمن ہوگا او رجو دین اللہ کو ایک حکم میں بھی چھوڑے گا وہ ایمان کا منکر، الوہیت باری تعالی کا ظالم اور دین سے خارج شمار ہوگا، چاہے وہ کتنا ہی اس بات کا اعلان کیوں نہ کرے کہ وہ عقیدہ کا احترام کرتا ہے اور وہ مسلمان ہے۔‘‘[۲]
اب آپ غو رکریں کہ جن نوجوانوں کی فکری تربیت کے لیے سید قطب اور حسن البنا کی کتابیں پڑھائی جائیں بلکہ انھیں لازم قرار دیا جائے اور ان کے تفسیری اقوال کی تلاوت ان پر کی جائے تو کیا وہ تکفیری جادو سے متاثر ہوکر اول پھول نہیں بکیں گے اور علماء امت کی ناقدری نہیں کریں گے اور کبھی بھی کسی غیر تحریکی عالم کو معتبر مان سکیں گے، ہرگز نہیں۔
اسی لیے بعض ثقہ احباب نے بیان کیا کہ ان کی ملاقات ایک نومسلم سے ہوئی جو کچھ تحریکیوں کی کاوش سےآغوش اسلام میں داخل ہی ہوئے تھے، بقول ناقل کے انھیں اتنی باتیں اسلام کی اساسیات معلوم نہیں ہوں گی جتنی انھیں حکومت الہیہ اور مسلم ممالک پر دشنام طرازیاں معلوم تھیں۔ یہ تو ایک نو مسلم کا معاملہ ہے، ان نوجوانوں کا حال کیا ہوگا جو اسی فکر کی دانش گاہوں میں اپنی ذہنی پرورش کی شروعات کرتے ہیں۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عصرحاضر میں خارجیت وافساد فی الارض کے معروف چہرے- جنھیں نام زد کرنے کی یہاں چنداں ضرورت نہیں ہے –جیسے ایمن الظواھری وغیرہ کے بقول سید قطب کی کتابوں اور ا ن کی فکر نے نام نہاد حالیہ اسلامی سماجوں کے خلاف یا بالفاظ دیگر داخلی اور خارجی دشمنان اسلام کے خلاف ایک انقلاب کی شروعات کی ہے بلکہ ان کے بقول ان کی’معالم فی الطریق‘ نامی کتاب ڈائنامائٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے کتنے ایسے نوجوانوں کو یہ کتاب ان کی فکری تربیت کے لیے بطور مطالعہ پیش کی جاتی تھی جو ان جاہلی سماجوں سے ٹکراکر تبدیلی کا عزم رکھتے تھے۔ پھر ان جراثیم کے حامل یہ نوجوان حقیقت میں سماج ومعاشرے کے لیے ڈائنامائٹ کے مانند وسفوٹک ثابت ہوتے اور ہوئے اور کلمہ گوؤں کے قتل ہی کو دنیا کا سب سے عظیم جہاد سمجھ کر اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرتے۔ اگر اس غیر مفہوم جہاد کی مثال دیکھنی ہے تو عالم اسلام میں پیش آنے والے ان نظاروں کو دیکھیں جن میں بلا تمیز مسلم وغیر مسلم، بوڑھے ونوجوان، مرد وزن لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی دکھتی ہیں اور بڑی بڑی فلک بوس بلڈنگیں لمحوں میں زمیں بوس ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
دراصل اس جماعت کے منہج میں بالواسطہ یا بلا واسطہ تکفیری جراثیم موجود ہیں، اسی لیےحالیہ دنوں تبدیلی، حریت اور اسلامی بالادستی کے جھنڈے تلے جتنا خون خرابہ ہوا، اس کے پیچھے انھی جذباتی سرپھروں کا ہاتھ تھا۔
اب اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ کیا اس طرح کی تنظیم کسی بھی ملک کے لیے قابل برداشت ہو سکتی ہے جس کا پورا لٹریچر ہی موجودہ حکومتوں کے خلاف زہر افشانی پر مشتمل ہو، جس کی دعوت ہی یہ ہو کہ طاغوتوں کے خاتمے کے لیے ان کے خلاف ایک ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ یہ ذہن سازی گرچہ اسلام واصلاح کےنام پر کی جاتی ہے لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ سماج کے اندر راعی او ررعایا کے درمیان ایک دیوار قائم ہوجاتی ہے اور پھر دونوں میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے اور فتنہ فساد اور خانہ جنگی نیز دشمنان اسلام کا تسلط جیسے تباہ کن نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔
دنیا کاکوئی بھی ملک چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس طرح کی ملک مخالف آئیڈیالوجی کو سر آنکھوں پر نہیں بٹھا سکتا، اسے اصلاح ذاتی کی مہلت تو دی جا سکتی ہے البتہ کھلے طور پر فضا بگاڑنے کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ ویسے بھی حالیہ عالمی مشکل حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ جماعت شیعی روافض کی آلہ کار جماعت ہے، کہیں بھی اسے خالص سلف صالحین کے مسلک پر چلنے والے گروہ کے خلاف مورچہ بندی،انھیں ایذا رسانی اور ان کے خلاف تخریب کاری کا موقع مل جائے تو یہ اسے کبھی فروگزاشت نہیں کرسکتی اور نہ کرتی ہے۔ بلکہ ماضی قریب کے حالات دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے – جیسا پہلے بیان کیا گیا – کہ اس جماعت نے سنی ممالک میں شیعیت کو مضبوط کیا ہے اور نفسیاتی طورپر اہل سنت کے دلوں میں صحابہ کی تکفیر کرنے والے گروہ کی عزت وتکریم بڑھائی ہے اوراس عقدی غیرت پر کاری ضرب لگائی ہےجس کی بنیاد پر ایک انسان اپنے تشخص کو محفوظ رکھ پاتا ہے۔
اللہ تعالی مسلم ممالک کو داخلی وخارجی خطرات سے نمٹنے کی توفیق دےاور باطل سے لڑنے کے لیے ان کے بازووں میں قوت پیدا کرے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد حامد

اللہ ہم کو اپنے سچے دین پر قائم رکھے