پروا نہیں ہے ہم کو خود اپنے وجود کی

رشید سمیع سلفی عقائد

مسلمان جو ایک غالب قوم تھی وہ مغلوب ہوچکی ہے،یہ ایک مؤثر قوم تھی اب متاثر ہوچکی ہے،مغرب کی تقلید کا رونا تو پوری امت رو رہی ہے،ویلنٹائن ڈے جیسی لعنت کے بھی اس قوم‌ میں طرفدار پیدا ہوچکے ہیں،دوسرے فتنوں کی بات ہی کیا؟اس سے گلوخلاصی کے لیے ذہن سازی پر ایک دور گذر چکا ہے تاہم حالت جوں کی توں ہے،دوسری طرف اس ملک میں مسلمان ہمسایہ قوموں پر اثرانداز ہونے کی بجائے، زعفرانی کلچر کے اسیر ہوتے جارہے ہیں، برادران وطن کی فکر،کلچر،رسم‌ و رواج،پیدائش و موت کی خرافات ہمارے شعبہائے زندگی پر مسلط ہیں،کہیں کہیں ناخواندگی کے سبب دوسروں کے رنگ میں رنگ چکے ہیں،کہیں دوسرے سماجی عوامل کارفرما ہیں،دیوالی کی چھٹی مناتے مناتے اب دیوالی بھی منانے لگے ہیں،مسلم محلوں میں پٹاخوں اور پھلجھڑیوں کا شور عام بات ہوگئی ہے،ہولی میں مسلم بچوں کے ہاتھوں میں پچکاری بھی بہت کچھ کہانی بیان کرتی ہے،فاصلے دن‌بہ دن مٹتےجارہے ہیں۔ہندو اگر متھرا،کاشی اور جمنا کا سفر کرتے ہیں تو مسلمان اجمیر،کچھوچھہ اور حضرت نظام الدین کا سفر کرتے ہیں،اگر ان کے یہاں پروہت اور پجاری ہیں تو یہاں پر سجادہ نشین اور مجاور ہیں،اگر ان کے یہاں پرساد ہے تو یہاں نیاز ہے،اگر ان کے یہاں سادھو،سنت ہیں تو یہاں پر ملنگ،درویش اور قلندر ہیں،اگر ان کے یہاں دیوالی ہے تو یہاں شب برات ہے،اگر ان کے یہاں مورتیاں ہیں تو یہاں سنگ مرمر سے بنائی گئی قبریں ہیں،اگر ان کے یہاں بھجنگ ہے تو یہاں قوالی ہے۔سچ کہا ہے شاعر نے

میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی

تفریق ہی محال ہے بود و نبود کی

پروا نہیں ہے ہم کو خود اپنے وجود کی

لیکن شکایتیں ہیں یہود و ہنود کی

(رئیس امروہوی)

ذرا اور آگے بڑھیں تو شادی بیاہ کے اسلامی اقدار کو ہندوانہ رسوم نے ہائی جیک کرلیا ہے،ہلدی اور مہندی کا چلن ہے،منگنی کی رسم طریقۂ نکاح کا حصہ بن چکی ہے،شرعی میراث سے اعراض ہے اور جہیز کا بازار گرم ہے،بارات نکاح کا جزو لاینفک ہے،لطف کو دوبالا کرنے اور یاد گار بنانے کے لیے پٹاخے اور میوزک بھی ہیں،مخلوط سٹیج کا رواج بڑھ رہا ہے،بے پردگی عیب نہیں رہ گئی،جی ہاں اسلام کے ماننے والے دھیرے دھیرے اس مقام پر نظر آنے لگے ہیں کہ غیر مسلموں کے تہوار کی مبارکبادی اور اسے سلبریٹ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں رہا ہے،ایک طبقہ تو پہلے سے ہماری صفوں میں ایسا موجود رہا ہے جو رواداری اور خیرسگالی میں غیرمسلموں کی خواہش سے بھی آگے نکل جانا چاہتا ہے، گنپتی اور شیو راتری میں غیروں کے رسومات کو نہ صرف انجوائے کرتا ہے بلکہ مورتیوں کے ساتھ تصاویر بھی اپنی ٹائم‌لائن پر پوسٹ کرتا ہے،ماتھے پر ٹیکہ سجاتا ہے،غیر مسلموں سے شادی کرتا ہے،یوگا کے نام پر پوجا بھی کرتے ہیں،یہ لوگ پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ خراب کررہے ہیں،میڈیا کے دور میں اس کے منفی اثرات عوام پر بھی مرتب ہو رہے ہیں،رواداری کا بھوت ایسا سوار ہے کہ بعض مقامات پر غیروں کے مذہبی جلوس کا مسجدوں کے باہر سے استقبال بھی کیا گیا ہے،جلوس میں شریک افراد کو پانی بھی پلایا جاتا ہے،مندر کی صفائی بھی کی گئی ہے، شرک نوازی کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا ہے بلکہ اعداد وشمار کے لیے ایک پورا دفتر درکار ہے، ہندوستان‌ کی ملت اسلامیہ کی اب یہی تصویر بن رہی ہے، عقیدہ، مذہب، غیرت بالائے طاق رکھ دی گئی ہے، کہیں ڈر کے ماحول کے زیر اثر تنازل اختیار کیا جارہا ہے، اکثریت کا دل جیتنے اور ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش ہے، تاکہ وہ جان‌ومال کے تحفظ کے ساتھ ان کے درمیان زندگی گذار سکیں، کہیں حرص و طمع محرک ہے، فرقہ پرست تنظیمیں ان کی غربت و افلاس کا فائدہ اٹھاکر انھیں ایک ہاتھ سے کچھ دیتی ہیں تو دوسرے ہاتھ سے ان کا دین، عقیدہ چھین لیتی ہیں، ان کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرتی ہیں اور بدلے میں ان پر اپنی مرضی تھوپ دیتی ہیں، احسان کے نیچے دبے ہیں تو انکار کی مجال نہیں ہے، گھر واپسی کے نام پر کتنے مسلمانوں کی شدھی کرلی گئی ہے، ویکی پیڈیا کے مطابق سوامی شردھانند نے 1923ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا ( Indian Hindu Purification Council )کی بنیاد ڈالی تھی، اس کا بنیادی ایجنڈا ان لوگوں کا جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا اپنے آبائی مذہب یعنی ہندوازم کی طرف واپس لانا تھا،اگر چہ بعد میں یہ تحریک سرد پڑ گئی، مگر اب ہندو احیا پرستی کے دور میں اس تحریک کی روحانی اولاد سرگرم‌ ہوگئی ہے، ہمارے ملک میں ارتداد کے واقعات میں تیزی بھی بہت سے مضمرات سے پردہ اٹھاتی ہے، سیکولر ملک میں ایک مذہب کے غلبے کے لیے ماحول سازی اور تیاری ہورہی ہے،اس قیامت خیز چال کو اب تک امت سمجھنے سے قاصر ہے،زیر زمین جو کچھ چل رہا ہے موجودہ منظر نامہ اس کا عملی ثبوت ہے،اب امت مسلمہ کے شعور و وجدان کی تہوں میں یہ بات مستحکم نہیں کہ دین و عقیدہ ہماری زندگی کی ترجیح ہے،اس کا ضیاع زندگی اور موت کا مسئلہ ہے،دین کو بہت زیادہ ہلکے میں لیا جارہا ہے،غیر محسوس طریقے سے ہمارا ذہنی و عملی وجود غیراسلامی قالب میں ڈھل رہا ہے،ہم خاموش انداز میں زعفرانی سازش کا شکار ہورہے ہیں،دوسری قوموں سے ہماری قربت نئے نئے گل کھلا رہی ہے،اپنے خورشید کے اجالوں سے نکل کر ہم کفر کے اندھیروں میں داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا تھا؛من تشبہ بقوم فھو منھم (جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں شمار کیا جائے گا)
عقیدہ و مذہب اور تہذیب و کلچر سے ہماری وابستگی آنے والی نسلوں کے تحفظ کا ضامن ہے،اگر فتنوں کے اس بادصرصر میں ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل تاریکی میں چلا جائے گا، آٹھ سو سال اندلس میں حکومت کرنے والے مسلمان اب وہاں قصہ پارینہ بن چکے ہیں، ان‌ کے اوپر جو قیامت گذری تھی وہ صدیوں کی غفلتوں اور گناہوں کا نتیجہ تھی،جب اللہ نے قوت، طاقت، استحکام‌‌ عطا کیا تھا،تب انھوں نے اپنے مستقبل کی فکر نہیں کی، آپسی اختلاف،عیاشی، دنیاپرستی، بزدلی ان‌پر مسلط تھی،جب طوفان سر پر آگیا تو ان کی آنکھ کھلی اور اپنے ملک، دین‌ اور تشخص کو بچانے کے لیے آخری بار جان توڑ کوشش کی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی،قدرت بھی ان کو سالہا سال کی مجرمانہ غفلت کی سزا دے رہی تھی،کتنے تھے جنھوں نے ہجرت کیا، کتنے تھے جنھوں بپتسمہ لے کر عیسائیت قبول کرلی اور کتنے اپنے دین و عقیدے پر قربان ہوگئے،تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے،اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں،وقت کے ساتھ طریقۂ واردات تبدیل ہوجایا کرتا ہے،اب قبضہ و تسلط کا عمل فکری جنگ سے کیا جارہا ہے،تسخیر کی تخریب اذہان و قلوب پر جاری ہے،ہماری تہذیب کا ایک ایک پرزہ اس کے جسم سے الگ کیا جارہا ہے،اب تیر و تفنگ کے بغیر جنگ چل رہی ہے،جی ہاں جنگ۔۔۔۔تہذیبوں کی جنگ۔۔۔۔۔اللہ امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000