رہ رہ کے خیال آتا ہے

ارشاد الحق روشاد تذکرہ

جی ہاں! ہمیں مولانا ابوالمکرم عبدالجلیل رحمہ اللہ کی بہت یاد آتی ہے، جب آپ کا انتقال ہوا، میں کم سن تھا، وہی چھ سات برس کی عمر رہی ہوگی۔ انتقال کی صبح گھر پر لوگوں کی کافی بھیڑ اکٹھا ہوگئی، سبھی کے چہرے اداس،عیدالاضحیٰ کا دن تھا، کوئی مسرت و شادمانی نہیں، میں ورطہ حیرت میں تھا، ابّا پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے،ان کو روتا دیکھ کر میں مزید حیران و پریشان ہوگیا کہ آج عید کا دن ہے پھر بھی کیوں ہمارے ابّا رو رہے ہیں اور ہمیں عید کے لیے کوئی تیار نہیں کر رہا،اچھی طرح بتایا سمجھایا گیا کہ بیٹا جنھیں ہم مولانا بھیا کہا کرتے تھے وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، اللہ نے اُنھیں اپنے پاس بُلا لیا ہے۔میرے ہوش میں گھر خاندان میں یہ پہلی وفات تھی جس کو میں نے دیکھا اور یہ احساس ہوا کہ موت کسے کہتے ہیں،ہر ایک کے چہرے پر غم و الم کے آثار نمایاں تھے، عیدالاضحیٰ کی تمام تر خوشیاں کافور ہوچکی تھیں،آہوں اور سسکیوں سے پورا گھر گونج رہا تھا،وہ بندہ دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ابدی نیند سو رہا تھا،بعد نماز جمعہ جنازہ اٹھایا گیا اور انھی کے لگائے ہوئے چمنستان علم و فن میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا رحمہ اللہ کے والد محترم الحاج عبدالجلیل رحمہ اللہ نے صلاۃ جنازہ پڑھائی اور مدرسہ کے سامنے سانتھا قبرستان میں نم ناک آنکھوں سے سپرد خاک کردیا گیا۔میں نے بھی بسم اللہ کیا اور تین لپ مٹی ڈالی،پہلی بار کسی نماز جنازہ میں اتنی بھیڑ دیکھا مگر اس وقت کم سنی میں کیسے یہ احساس ہو کہ آج ہم بہت ہی عظیم شخصیت، ممتاز عالم دین، زبردست خطیب و مقرر، مترجم و مؤلف، خوش گفتار بذلہ سنج اور اعلی اخلاق کے حامل شخص سے محروم ہوگئے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کے کارہائے نمایاں اور عظیم خدمات اہل خانہ کی زبانی سنتا رہا، جب جماعت اولی یا ثانیہ میں پہنچا تو یہ احساس ہوا کہ ہمارے گھر خاندان میں کتنی عظیم شخصیت موجود تھی،کاش کہ مجھے بھی کوئی ملاقات یاد رہتی،مجھے بھی استفادے کا موقع ملا ہوتا، اے کاش میں بھی گفت و شنید کیا ہوتا، اللہ نے مزید حیات بخشی ہوتی۔
مولانا رحمہ اللہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ برصغیر سمیت عالم اسلام میں بھی کافی مشہور و مقبول رہے،آپ نے بتوفیق الٰہی کم وقت میں گراں قدر خدمات انجام دیں،اللہ شرف قبولیت سے نوازے۔
میں مولانا رحمہ اللہ کے تعلیمی مراحل،حالات زندگی اور عظیم خدمات کی بابت اکثر گھر میں استفسار کرتا رہتا،بالخصوص آپ کی والدہ سے جو ہماری بڑی دادی ہیں،جن کے ذریعے ان کے تعلق سے کافی اہم باتیں جانا، دادی ہی نے بتایا کہ ہمارے لخت جگر بچپن ہی سے شریف و ظریف رہے، کبھی بھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کیا اور نہ ہی شکوہ و شکایت لے کر گھر پہنچے،بالکل سیدھے سادھے انسان تھے، صبر و شکر کے خوگر اور والدین کے مطیع و فرمانبردار۔ ایک واقعہ یہ بھی بتایا کہ جامعہ سلفیہ بنارس میں زیر تعلیم تھے، تعطیل کے موقعے پر گھر آئے،چھٹی کے ایام گزارنے کے بعد دو یا تین سو روپے لے کر بنارس کے لیے نکلے،گورکھپور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے ہی تھے کہ کسی نے جیب کاٹ لی،وہ پھر بھی گھر واپس نہیں آئے، دوسرے مہینے جب تمھارے دادا پیسہ لگانے گئے تو خط موصول ہوا کہ ابا جو پیسے گھر سے لے کر آرہا تھا وہ راستے میں کسی نے چوری کر لیے تھے، اب ہمارے لخت جگر نے کیسے بنارس کا سفر طے کیااور وہاں پہنچ کر ایک مہینہ گزر بسر کیا ہوگا، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
میرے والد محترم مولانا رحمہ اللہ کے چچا زاد بھائی ہیں،انھوں نے بتایا کہ ہمارے مولانا بھیا وقت کے بڑے پابند تھے، زمانہ طالب علمی میں تعطیل پر گھر آتے مطالعہ کتب میں لگے رہتے، ایک بار چہل قدمی کرتے ہوئے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے، میں بھی ان کے پاس گیا اور وہاں باغ میں درخت سے گِرے پڑے کچھ آم تھے جسے اٹھا لیا اور کہا بھیا میں نے آم پایا، اب پوچھ پڑے کہ اٹھا تو لیا پر بسم اللہ کیا؟ نہیں! بھول گیا، کہا: جاؤ جس جگہ سے ملا ہے وہاں رکھو اور بسم اللہ کہہ کر دوبارہ اٹھاؤ۔
بچپن ہی سے شریف النفس عمدہ و نفیس طبیعت کے مالک تھے، اللہ نے بہت ساری خوبیوں سے نواز رکھا تھا، غیر بھی ان کا کافی احترام کرتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے،اگر گاؤں کے کچھ نوجوان اکٹھا ہو کر جوا کھیلتے یا یونہی بیٹھ کر سر عام گپ شپ کرتے تو وہ آپ کو دیکھتے ہی فورا چھپ جایا کرتے تھے، دار فانی سے رخصت ہوئے تقریبا۱۶ برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، پھر بھی لوگ بکثرت یاد کرتے اور ذکر خیر کرتے رہتے ہیں رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
سرزمین سانڈا و سانتھا میں جو تعلیمی ماحول ہے وہ آپ ہی کے مرہون منت ہے۔
جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد مولانا رحمہ اللہ نے جامعہ اسلامیہ سنابل اور مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں تدریسی ذمہ داری بھی بحسن و خوبی نبھائی،جب تدریس کے لیے سنابل پہنچے تو وہاں طلبہ آپ سے سوال کرنے لگے بھائی! آپ کا داخلہ کس کلاس میں ہوا ہے؟چونکہ آپ نے نو عمری ہی میں بفضلہ تعالی سند فراغت حاصل کر لیا تھااور نحیف دبلے پتلے پست قد و قامت کے تھے اسی سبب شاید طلبہ نے ان کو بھی داخلہ کا خواہشمند تصور کیا،سینکڑوں تشنگان علوم نبویہ کو اپنے فیض سے سیراب کیا،آپ کے دو چار شاگردوں سے الحمدلله خاکسار کی بھی ملاقات ہوئی، مشہور و معروف عالم دین شیخ صلاح الدین مقبول مدنی کے برادر صغیر شیخ عزیز الدین سنابلی سے چند ماہ قبل ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ مولانا ابوالمکرم رحمہ اللہ سے جامعہ سنابل دہلی میں ہم نے عربی ادب پڑھا ہے، بہت پیارے استاذ تھے، سیرت پر جب بھی تقریر کرتے کوئی روئے بغیر نہیں رہ پاتا، ہر ایک کی آنکھ میں آنسو آ جاتا،اللہ تعالی نے کم عمر عطا کی مگر کام بڑا لیا،ہمیں ان کی یاد بکثرت آتی ہے۔
مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں قیام کے دوران آپ کی امام حرم شیخ محمد بن عبداللہ السبیل رحمہ اللہ سے متعدد ملاقتیں رہی ہیں،مولانا ابوالمکرم رحمہ اللہ نے امام موصوف کے خطبات کا پہلا مطبوع مجموعہ ’من منبر المسجد الحرام‘کا اردو ترجمہ بھی ’خطبات حرم‘ کے نام سے کیا ہے جو تقریبا ۴۰۰ صفحات پر محیط ہے،کتاب ہذا کے ’’عرض مترجم‘‘ میں رقم طراز ہیں: اب سے عرصہ پہلے۱۴۰۸-۱۴۰۹ھ بمطابق۱۹۸۸-۱۹۸۹م کی بات ہے جبکہ میں مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا ایک دوست کی تحریک پر ان خطبات کا ترجمہ کیا تھا، اس کے چند ہی ماہ بعد شاہ سعود یونیورسٹی ریاض کے دورہ تدریب المعلمین (ٹیچر ٹریننگ کورس)کی تکمیل کے لیے سعودی عرب آنا ہوا اور چار ماہ کا مذکورہ دورہ مکمل کرنے کے ساتھ ہی اسی یونیورسٹی میں تربیہ کالج کے شعبہ اسلامیات میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا، فللہ الحمد والمنہ۔
یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں نے امام موصوف سے ان خطبات کی طباعت و اشاعت کے موضوع پر خط و کتابت کی،جبکہ دہلی میں متعدد ملاقاتیں کر چکا تھا اور بعض ملاقات میں ان خطبات کے ترجمے سے فارغ ہونے کا تذکرہ کر چکا تھا اور ان سے اس کام کی زبانی اجازت بھی لے چکا تھا، اس لیے ریاض پہنچ کر جب میں نے اس سلسلے میں امام صاحب کو خط لکھا تو آپ نے اس کام کی قدر کرتے ہوئے فوری جواب سے نوازا، امام صاحب کی اجازت اور انھی کے خرچ پر اس کی طباعت و اشاعت عمل میں آئی۔
شیخ محمد رضوان سلفی (مدیرخدیجۃ الکبری پورنیہ بہار) کا مشہور و معروف ویب پورٹل دی فری لانسر میں ایک تبصرہ نظر سے گزرا جس میں فرماتے ہیں کہ:
خاکسار جامعۃ الملک سعود ریاض کے ما تحت ادارہ ’معہد اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا‘ میں دو سال (۱۹۹۰-۱۹۹۱) شیخ مقیم فیضی رحمہ اللہ کا رفیق درس رہا،جامعہ میں قائم ’جمعیت اہل حدیث پاک و ہند‘ کے بینر تلے جامعہ سے متصل پارکوں میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ دونوں ممالک کے سلفی اخوان کے متحدہ دعوتی پروگرام ہوا کرتے تھے جن میں کلیدی خطاب زمیل مکرم شیخ مقیم فیضی رحمہ اللہ اور جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر معاصر شیخ ابوالمکرم سلفی رحمہ اللہ کے ہوا کرتے تھے۔
ذیل میں مولانا رحمہ اللہ کی دو تقاریر کی لنک موجود ہے،پہلی لنک میں آپ نے سرزمین امرڈوبھا سنت کبیر نگر میں منعقد کسی عظیم الشان اجلاس میں عبادت اور اس کے تقاضوں پر مکمل ایک گھنٹہ شاندار مدلل و مبرہن مفصل خطاب ارشاد فرمایا ہے، جبکہ دوسری لنک میں آپ نے حرم مکی میں حجاج کرام کو چند قیمیتی نصیحتیں کی ہیں،جسے سُن کو دل پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے:


مولانا ابوالمکرم رحمہ اللہ جمعیت و جماعت کے مایہ ناز سپوت تھے،۴۲ سالہ زندگی میں تراجم و تالیفات ملا کر کم و بیش۷۰ کتابیں لکھیں اور متعدد مضامین و مقالات تحریر فرمائے،آپ سے کافی امیدیں وابستہ تھیں مگر؎
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
اللہ مولانا رحمہ اللہ کی خدمات کو صدقہ جاریہ بنائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Nadeem Akhtar Salafi

مولانا کی زندگی کے بارے میں آج پہلی مرتبہ پڑھا الحمد للہ دل کو سکون ملا، اللہ انہیں غریق رحمت کرے، ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے.
آمین یا رب العالمین