عمر فروخ نے بیروت کے ایک متوسط الحال اور پڑھے لکھے گھرانے میں۱۹۰۴ء میں آنکھیں کھولیں۔اس کے دادا نجار اور ناخواندہ تھے۔ مگراس کے والد پڑھے لکھے انسان تھے۔ انھیں عربی ، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انگریزی اور جرمن کی بھی انھیں شد بد تھی۔ گھر میں ان کی ایک ذاتی لائبریری بھی تھی جو اس دور کے ماحول میں بیروت میں ایک قابل ذکر شے تھی۔ انھوں نے انیسویں صدی کے اخیر میں یورپ کا بھی سفر کیا تھا۔ایک علمی، متوسط الحال اور پاکیزہ دینی ماحول میں ان کے بیٹے عمر نے تربیت پائی۔ مشرق ومغرب کے بحر علم وادب میں غوطہ زنی کرکے لازوال موتیوں سے اس نے اپنی زنبیل علم وادب کومعمور کیا۔ مشرق ومغرب کے چشمۂ صافی سے جرعات نوش کرکے اپنی علمی وادبی تشنگی فرو کی۔ بیروت کے مختلف مدارس وجامعات میں تعلیم حاصل کرنے اور تقریبا سات سال تک مختلف مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعداس نے جرمنی کا سفر کیا اورمشہور مستشرق یوسف ہل کی نگرانی میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
جرمنی سے واپس آنے کے بعد بھی ڈاکٹر عمر فروخ نے بحیثیت استاذ کا م کرنا شروع کیا۔جمعیۃ المقاصد الخیریہ کے مختلف مدرسوں میں پرائمری کے درجہ چہارم سے لے کربی اے تک کی کلاسوں میں عربی زبان وادبیات، انگریزی، فرانسیسی، تفسیر، فقہ، خط نویسی، حساب، تاریخ، مصوری، فلسفہ، تاریخ العلوم وغیرہ مضامین کی تدریس کا فریضہ انجام دیا۔اپنے استاد گرامی نجیب نصار کی زیر تربیت زمانۂ طالب علمی میں صحافت سے انھوں نے جو رابطہ استوار کیا تھا وہ بدستور جاری رہا۔بعض ساتھیوں کے ساتھ انھوں نے الامالی کے نام سے ایک ہفت روزہ علمی وادبی جریدہ بھی جاری کیا۔دار المعلمین العالمیہ بغداداور دمشق یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر رہے۔المجمع العلمی العربی دمشق کے علاوہ مختلف علمی وادبی اکیڈمیوں کے ممبر رہے۔مختلف علمی وادبی موضوعات پر سو سے زائد کتابیں لکھیں اور کئی علمی وادبی اعزازات وانعامات سے نوازے گئے۔مسلسل چوہتر سال تک علمی وادبی، سماجی اور ثقافتی مشاہدات وتجربات کی بھٹیوں میں جل کر کندن بننے کے بعد ۱۹۸۰ء میں انھوں نے اپنی زندگی کی بکھری ہوئی یادوں کو سجاناشروع کیا جوبیروت کے جریدہ السفیرمیں۴/ اگست ۱۹۸۰ء سے لے کر مارچ ۱۹۸۲ء تک بروز سنیچر مسلسل قسط وارشائع ہونے کے بعددار الاندلس بیروت سے ۱۹۸۵ء میں ’’غبار السنین‘‘ کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں جس کا اردو ترجمہ ناچیز نے ’’غبار حیات‘‘ کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس لال کنواں دہلی سے حال ہی میں شائع کیا ہے۔
عربی میں۲۷۰ صفحات پر مشتمل عمر فروخ کی یہ خود نوشت سوانح دیگر خود نوشتوں سے یوں مختلف ہے کہ اس میں نہ تو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے واقعات کا تسلسل ہے نہ ہی قصۂ حیات کو ڈرامے یا کہانی کے اسلوب میں قلمبند کیاگیا ہے۔ بلکہ عمر فروخ نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات وحوادث کو مختلف عناوین کے تحت اس طرح بیان کیا ہے کہ ہر حصہ ایک مضمون کے مشابہ ہوگیا ہے۔ عمر فروخ کہتے ہیں کہ یہ کتاب میری زندگی کی تاریخ بیان نہیں کرتی لیکن میری زندگی میں پیش آنے والے واقعات وحوادث کے ایک بڑے حصے کو روشن ضرورکرتی ہے۔ لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں عمر فروخ کی زبان قلم سے ان کی زندگی کی ایسی تصویر کشی ہوئی ہے جو نہ تو ناقص ہے نہ ہی نامکمل بلکہ ان کی کتاب حیات کے تمام ابواب اس میں یکساں طور سے درخشاں ہیں اور ان میں اتنے لعل وجواہر پوشیدہ ہیں کہ قاری مالا مال ہوجاتا ہے۔ اس کی فکر روشن ہوجاتی ہے۔عمر فروخ کے ادیب، مورخ، محقق اورایک دیانت دار عالم قلم نے اپنی زندگی کو اس طرح اجالا ہے کہ قاری غور وفکر کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوجاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب خود نوشت ہی نہیں فکر وفن کا خوب صورت آئینہ بھی ہے۔
ڈاکٹر عمر فروخ نے ’’غبارحیات ‘‘میں اپنے بچپن سے لے کر عمر رواں کے ستر سال تک کی تقریبا ہر بات پوری امانت اور دیانت کے ساتھ بے کم وکاست بیان کی ہے۔زندگی کا ہر لمحہ اور ہر زاویہ ستر سال کی عمر میں پہنچنے کے بعد بھی ان کے حافظے میں مقید ہے اور ہر زاویے پر انھوں نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ ان کے کسی دوست نے ان سے اپنی زندگی کے کسی راز پر قلم اٹھانے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا کہ میری زندگی کھلی کتاب ہے۔ اس میں ایسی کوئی بات ہی نہیں جو راز ہو۔ ہاں انھوں نے یہ بات چھپانے کی بالکل کوشش نہیں کی کہ انھوں نے دس سال کی عمر میں گرمیوں کی چھٹیوں میں پھیری لگاکر گھر گھر اخبار تقسیم کیا(ص ۸۱)باتھ روم صاف کیا (ص ۸۳) ۱۹۱۹ء میں جب وہ تیرہ سال کے تھے تو انھوں نے ایک فرانسیسی اخبار کے دفتر میں باتھ روم کی صفائی کا کام کیا۔ وہ لفافے تیار کیے جن میں رکھ کر خریداروں تک اخبار بھیجاجاتا تھا(ص ۸۴)یہ سب انھوں نے اس لیے کیا کہ وہ اپنے والدین پربوجھ نہ بنیں ، اپنی تعلیم کا خرچ خود برداشت کرسکیں۔ یہاں تک کہ اعلی تعلیم کے لیے اپنی ذاتی کمائی کے پیسے سے انھوں نے یورپ کا سفر کیا۔
پہلا مدرسہ
بچے کا گھر، گھر کا ماحول اور ماں باپ بچے کی تربیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وہ پہلی دانش گاہ ہوتی ہے جہاں اسے وہ ساری باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں جو اسے عمر بھر یادرہتی ہیں اور زندگی کے سردوگرم تھپیڑوں میں حوصلے سے جینے کا ہنر بھی دیتی ہیں۔عمر فروخ لکھتے ہیں کہ میں اس معنی میں بہت خوش نصیب تھا کہ میں نے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔میرے گھر میں بیک وقت عربی ، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھنے والے لوگ موجود تھے ۔کچھ لوگ ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور جرمنی زبانیں بھی بول لیتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میرے دادا نے مجھے نمازاور قرآن پڑھنا ، تیرنا اور بازار سے سامان خریدنا سکھایا۔میرے والد نے مجھے شاہراہ حیات پر سیدھا چلنا سکھایاتو میری ماں نے ہمیں گھریلو کام کرنا سکھایا۔ آٹا گودھنا، کھانا پکانا، کپڑا دھونا اور صفائی ستھرائی کے فن سے واقف کرایا۔ جس کا سیدھا اثر میری اولاد پر بھی پڑا۔ انھوں نے مصر، انگلینڈ اور امریکہ تک میں تعلیم حاصل کی لیکن گھریلو کام کاج کی معرفت کی وجہ سے انھیں کبھی بھی گھریلو معاملات میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا( ص۱۰۳-۱۰۵)
انھوں نے لکھا ہے کہ باپ کو اپنے بچے کے لیے بہترین آئیڈیل ہونا چاہیے ۔ بچے کی موجودگی یا غیر حاضری دونوں صورتوں میں اسے درست نمونہ بن کر سامنے آنا چاہیے کیونکہ بچے کی غیر حاضری میں اگرباپ کوئی غلط کام کرے گا تو کسی نہ کسی دن وہ بچے کے سامنے آہی جائے گا (ص۱۰۶)وہ افسوس کرتے ہیں کہ بعض والدین بچے کی بیس سال کی عمر تک اسے نظر اٹھاکر نہیں دیکھتے ، اس کی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دیتے پھر اگرکسی دن بچے کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تووہ شکوہ کرنے لگتے ہیں۔(ص ۲۱۱)
استاذکا فریضہ
کہا جاتا ہے کہ اگر کسی انسان کو صحیح استاد مل جائے تو وہ اسے تراش کر نگینے میں تبدیل کردیتا ہے۔ ڈاکٹر عمر فروخ نے اپنی خود نوشت میں اساتذہ کے بارے میں بڑی پتے کی باتیں کہی ہیں۔ ان کی تعریف کی ہے۔ انھیں ان کے فرائض منصبی سے آگاہ بھی کیا ہے اور ان پر تیکھی تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے پہلے ،دوسرے، تیسرے اور چوتھے مدرسے میں کچھ نہیں سیکھا۔مزید لکھتے ہیں کہ مدرسہ شیخ یوسف حلوانی میں جو استاذ ہمیں فرانسیسی پڑھاتے تھے ہم اس وقت بھی ان سے زیادہ فرانسیسی زبان جانتے تھے۔ (ص ۳۳۳)
وہ کہتے ہیں کہ جن مدارس میں انھوں نے تعلیم حاصل کی وہاں کے سارے اساتذہ بڑے بڑے علماء نہیں تھے لیکن ان کے دل میں علم کا پیغام مخفی تھا۔وہ تعلیم کے لیے بڑے مخلص تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ استاد طلبہ سے زیادہ ذہین اور زیادہ علم والا ہو بلکہ ضروری یہ ہے کہ استاذ مخلص ہوتاکہ طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں۔(ص۳۳۴) استاد کاکام صرف اتنا ہی نہیں ہوکہ وہ کلاس میں لیکچر دے دے یا سبق پڑھادے بلکہ استاد کو شاگردوں کے لیے باپ کی طرح ہونا چاہیے۔ ان کی صلاحیتوں کی جانچ پرکھ کرکے انھیں مستقبل کی زندگی کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ (ص ۸۶)ان کا خیال ہے کہ تعلیم نہ تومدارس وجامعات کی بڑی بڑی عمارتوں میں حاضری کا نام ہے نہ ہی اساتذہ کے سامنے بیٹھنے کا۔ تعلیم یہ ہے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کا ویسے ہی خیال رکھیں جیسے کہ باپ اپنے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔ (ص ۹۷)
وہ ابن خلدون کے اس قول کی تائید کرتے ہیں کہ تعلیم کے لیے سفر کا مطلب ہوتا ہے مرحلۂ تعلیم میں کمال اور پختگی حاصل کرنا۔ عقلمند اس لیے تلاش علم کے لیے سفر کرتا ہے کہ وہ اساتذۂ وقت سے ملاقات کرے۔ ان کے ساتھ اٹھے بیٹھے۔ ان کے علم سے استفادہ کرے۔ ان کے طرز فکر تک رسائی حاصل کرے۔ ان کے اسلوب تحقیق کی معلومات حاصل کرے نہ کہ متنبی کے بارے میں کوئی ایسی دس حقیقتوں کی جانکاری حاصل کرنے کے لیے وہ سفر کرتا ہے جن میں سے پانچ کے بارے میں اس نے پہلے ہی اپنے ملک میں معلومات حاصل کرلی تھیں۔(ص ۱۱۷)
عمر فروخ جب جرمنی گئے تو وہ سات سال تک بحیثیت استاد کام کرچکے تھے۔ کئی کتابیں بھی لکھ چکے تھے۔ان کا علم وادب بھی پختہ ہوگیا تھا۔ کئی مستشرقین سے ان کی مراسلت بھی تھی اور کئی سے انھوں نے بیروت میں ملاقات بھی کی تھی۔وہ جب وہاں پہنچے تو ان سے پوچھاگیا کہ تم یہاں کس سے علم سیکھنے آئے ہو۔ کہا سفر علم سیکھنے کے لیے نہیں کیا جاتا علم کو پختہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کئی بڑے بڑے مستشرق اساتذہ سے ملاقات کی۔ ان سے سماع کیا، ان کے علم اور تجربات کی زنبیل کو علم وادب کے موتیوں سے مالا مال کیا۔ولیم میرسے عمر فروخ کی ملاقات ہوئی تو انھیں وہی حیرت ہوئی جو شبلی کو ابوالکلام سے مل کر ہوئی تھی۔ ولیم نے عمر کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تم عمر فروخ ہو؟ عمر نے کہا جی ہاں۔ انھوں نے کہا میں تو تمھیں جبہ اور عمامے میں کوئی بہت بڑا بزرگ تصور کرتا تھا۔(ص ۱۴۱)
صحافت
ڈاکٹر عمر فروخ نے کم وبیش ۶۵ سال تک صحافت سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ بیروت وبیرون بیروت کے مختلف رسائل وجرائد اور مجلات میں مسلسل چھپتے رہے۔ در اصل قلم ہی وہ دولت ہے جو انسان کو امر کردیتی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ کس طرح وہ صحافت اور قلم کی زلف گرہ گیر کی مشاطگی کے اسیر ہوئے۔ کبھی کبھی کسی استاد یا صاحب نظر کی ایک نگہ التفات شاگرد کوشاہراہ حیات کی ایسی سمت کا مسافر بنادیتی ہے جس پر وہ عمر بھر سرپٹ دوڑتا رہتا ہے۔عمر فروخ نے کچھ اسی طرح صحافت سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے استادنجیب نصار (و۱۹۳۰ء) نے تمام طلبہ کو طیران (جہاز) پر ششماہی امتحان کے بعد مضمون لکھ کر لانے کے لیے کہا۔ یہ ۱۹۲۳ء کی بات ہے جب عمر فروخ محض سترہ سال کے تھے۔جب مدرسہ دوبارہ کھلا تو طلبہ نے مختلف انداز میں اس پر خامہ فرسائی کی تھی۔ کسی نے اختصار سے کام لیا تھا تو کسی نے بہت طولانیت سے اور کچھ نے قلت وقت کا بہانہ کرکے کچھ لکھا ہی نہیں تھا۔ نجیب نصار نے تمام طلبہ کے مضامین اصلاح کرکے واپس کردیے مگر عمر فروخ کا مضمون انھوں نے عمر کو واپس کرنے کے بجائے اسے روزنامہ ’’الاحوال‘‘میں بھیج دیا۔یہ اخبار اس وقت لبنان کے بڑے اخباروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ عمر فروخ کا وہ مضمون دو تین دن کے بعد دو قسطوں میں شائع ہوا بلکہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ اقتباس اخبار کے پہلے صفحے پر بھی شائع ہوئے تھے۔اس کے بعد پھر نصار صاحب نے ان سے مضمون لکھوایا اور ’’الاحوال‘‘میں شائع کروایا۔(ص۸۶)یہی وہ مرحلۂ انتقال تھا جس نے عمر فروخ کی قلم کے ساتھ دوستی کروادی۔اس کے بعد عمر فروخ عمر بھر مختلف اخبارات میں لکھتے رہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ عمر فروخ نے اخبار میں شائع ہونے والے کسی بھی مضمون کے لیے کبھی کوئی قیمت نہیں لی۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں اخبار کے دباؤ میں کبھی بھی اپنی بات کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوا۔ ۱۹۳۸ء میں جب وہ محض ۳۲ سال کی عمر کے تھے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر’’الامالی‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا۔جس نے دو سال کی مدت میں ایک معتبر اخبار کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔(ص۱۰۱) مگر مالی پریشانیوں کی وجہ سے انھوں نے اسے بند کرکے تالیف وتصنیف کی طرف توجہ مبذول کی اور چھوٹی بڑی سو کے قریب علمی وادبی کتابیں سپرد قلم کیں۔
جرمنی میں عفت وپاکدامنی کے دوسال
عمر فروخ کو ان کی کتاب’’تاریخ الادب العربی‘‘ کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اسی کتاب نے انھیں عالم عرب سے باہر بھی متعارف کرایا۔ ہم نے بھی انھیں سب سے پہلے اسی کتاب سے جانا ۔ لیکن بہت سارے لوگوں کو اکثر وبیشتر ان کے نام سے شبہ ہوا کہ آیا وہ عیسائی تو نہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ سچے پکے سنی مسلمان تھے۔ پاکیزہ اور مومنانہ جذبات سے سرشار۔ وہ ان بے شمار مصری اور عربی ادیبوں کی طرح نہیں جنھوں نے یورپ جانے کے بعد اپنی تہذیب وثقافت اور اپنے دین وایمان پر تنقید کے تیر چلائے۔ بلکہ انھوں نے بہت سارے اسلام پسند ادباء کی طرح عربی ادب کی تاریخ نگاری میں بھی مستشرقین کی آراء سے مرعوبیت کا اظہار کیے بغیر خالص عربی اور اسلامی ماحول میں عربی ادبیات کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذاتی پیسے سے ۲۸ سال کی عمر میں جرمنی کا سفر کیا۔(ص ۱۲۸) اور وہاں سے مشہور مستشرق یوسف ہل کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ (ص۱۲۹)
یورپ کے اس مخلوط ماحول میں عمر فروخ نے ایک پاکیزہ زندگی جی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں جرمنی گیا تو اس وقت میں کوئی کھلنڈرا نوجوان نہیں تھا بلکہ میری عقل و شعور پختگی کو پہنچے ہوئے تھے۔(ص۱۲۸) دین وایمان پر ان کی جوگھریلو تربیت ہوئی تھی اسے ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔اپنے دین وایمان اور اخلاق وکردار کا کبھی سودا نہیں کیا۔ ایک دن وہ اپنے استا ذ اور ڈاکٹریٹ کے نگراں یوسف ہل کے سامنے اپنے مقالے کا کوئی حصہ پڑھ رہے تھے جس میں ’’محمد‘‘ کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ استاد نے کہا تم ڈاکٹریٹ کا علمی مقالہ تحریر کررہے ہو اور محمد کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ لکھتے ہو۔ یہ سن کر عمر فروخ نے اپنے اوراق اپنے ہاتھ میں سمیٹا اور کھڑے ہوگئے۔ استاد نے کہا کیا ہوا؟ عمر فروخ نے کہامیں بیروت واپس جانا چاہتا ہوں۔ پوچھا کیوں؟ کہا کہ میں ایسے استاد سے پڑھنا نہیں چاہتا جسے ’محمد رسول اللہ ‘سن کر پریشانی ہوتی ہو۔ استاد نے کہابیٹھو اور جیسا چاہتے ہو لکھو۔ (ص۱۳۱) کیا آج کے علماء میں اس طرح کی غیرت موجود ہے۔ ایسے حالات میں کسی نہ کسی تاویل کا شکار ہوکر اپنی غیر ت اور جرات ایمانی کا سودا کرنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی؟
عمر فروخ نے کئی ایسے واقعات لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر انسان حیرت واستعجاب کے سمندرمیں غرق ہوجاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ عمر میں واقعی ابن خطاب جیسا کوئی مومن چھپا تھا۔اپنی شخصیت، اپنی حیثیت، اپنے دین ، اپنے سماج اور اپنی تربیت کے سہارے وہ دیار غیر میں بے محابا گھومتے رہے۔کبھی انھیں دعوت گناہ دی گئی کبھی دعوت زواج مگر انھوں نے ایسی کسی بھی دعوت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔وہ لڑکیوں سے بات تک نہیں کرتے تھے۔یہاں تک کہ اپنے استاد کی بیٹی سے بھی نہیں۔ (ص۱۶۴) وہ کہتے ہیں کہ مجھے سلطان الشعراء احمد شوقی کا یہ شعر یاد آتا تھا۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ پہلے آنکھ ٹکراتی ہے، پھرمسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ پھرسلام ہوتا ہے۔ پھر کلام اورپھر اپوائنٹ منٹ اور پھرملاقات۔ اسی لیے وہ نہ کسی لڑکی کی طرف دیکھتے تھے۔ نہ اس سے بات کرتے تھے۔ (ص۱۵۵)
عمر فروخ کے تقوی وطہارت کو ان کے یورپی دوست اور اساتذہ بھی جانتے تھے۔ لڑکیوں کو جب اپنی کسی سہیلی تک سے ملاقات کے لیے گھر والے اجازت نہیں دیتے تھے تو وہ عمر سے ملنے کا جھوٹا بہانہ بناکر اپنی سہیلیوں سے ملنے جاتی تھیں۔ایک استاد نے انھیں دعوت طعام دیا تو بغیر استفسار کے ان سے یہ وضاحت کی کہ دستر خوان پر کوئی بھی ایسا پکوان یا مشروب نہیں ہوگا جو تمھارے مذہب میں حرام ہو۔ ایک اور استاد جب اسے جرمنی سے رخصت کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں اشکبا ر ہوجاتی ہیں۔ عمرفروخ پوچھتے ہیں۔ آپ کیوں رو رہے ہیں۔ میں تو آپ کا علم اور آپ کی یادیں لے کر جارہا ہوں۔ استاد نے کہا عمر! تمھارے جیسے کردار میں نے صرف کتابوں میں پڑھے تھے۔کبھی دیکھے نہیں تھے۔ (ص۱۶۹) میں سوچتا ہوں کیا کوئی ادیب اور وہ بھی دیار غیر میں ایسا بھی ہوسکتا ہے۔اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔
طرز معاشرت
عمر فروخ کی خود نوشت پڑھتے پڑھتے ایک جگہ مجھے مرزاغالب کی یاد آگئی۔ جس طرح مرزا صاحب آم بہت پسند کرتے تھے اسی طرح عمر فروخ کو سنترے بہت پسند تھے۔ یہاں تک کہ وہ صبح دوپہر شام ہر کھانے کے بعد سنترے کھایا کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (۲۰/۴/ ۱۹۳۶ء ) میں سنترے خریدنے کے لیے نکلا تو بازار میں مجھے کہیں بھی سنترہ نہیں ملا۔ معلوم ہوا کہ آج ہٹلر کی تاریخ پیدائش کی وجہ سے پورے جرمنی میں سلبریشن کے لیے حکومت سارے سنترے خرید لیتی ہے کیونکہ ایسے مواقع پر ہٹلر نہ تو شراب پیتا تھا نہ ہی کسی کو پلاتا تھا۔ (ص۱۴۶) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ جرمن اور غیر جرمن طلبہ وطالبات کی باہمی تعارف کی کسی پارٹی میں گئے جہاں شراب وکباب کا دور چل رہا تھا۔ عمر فروخ کہتے ہیں کہ میں تھوڑی تھوڑی دیر میں سنترے کا جوس پیتا رہا۔ (ص۱۳۸)اور اس کے بعد اس محفل سے باہر آگیا۔اور مضافات کا مشاہدہ کرنے لگا۔
عمر فروخ نے ہمیشہ لایعنی باتوں سے احتراز کیا۔فضولیات میں کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ایک جگہ انھیں پڑھ کر مجھے مولانا آزاد کی یاد آگئی۔انھوں نے اپنے خلاف لکھے گئے کسی مضمون کا کبھی جواب نہیں دیا۔لکھتے ہیں مجھ سے پوچھاگیا کہ تم سیاسی موضوعات پر کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے کہا دو لوگ سیاست کے بارے میں نہ زبان چلاسکتے ہیں نہ ہی قلم ۔ ایک وہ جو سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ دوسرا وہ جو سب کچھ جانتا ہے۔ (ص ۲۵۴)کئی مقامات پر علمی موشگافی بھی کرنے کی کوشش کی ہے۔ لکھا ہے کہ نازی نازیونال سے مشتق ہے۔ (ص۱۴۸)ستینات (چھٹی دہائی)کے بارے میں لکھا ہے کہ ستینات کے بجائے عشر الستین لکھنا چاہیے۔ خرائط نہیں خرط کہنا چاہیے۔
خلاصۂ کلام
’’غبا ر حیات‘‘ در اصل عمر فروخ کے علمی وادبی تجربات کے لازوال موتیوں کا بے مثال سمندر ہے۔ جس میں غواصی کرکے انسان اپنی پسند کے موتی تلاش کرسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں تجربات کے حصول کے لیے ضروری نہیں کہ انسان اپنے کاندھے پر تجربات کے غبار جمع ہونے دے بلکہ وہ دوسروں کے کاندھوں پر اکٹھا ہوئے غباروں سے بھی اپنی زندگی کے مشاہدات کی زنبیل کو مالا مال کرسکتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے خاندان، تعلیم وتدریس ، تصنیف وتالیف، صحافت، یورپی ممالک میں سیاحت کے تجربات ومشاہدات کے بارے میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن سے ایک طرف عمر فروخ کی شخصیت واشگاف ہوکر سامنے آتی ہے تو دوسری طرف یہ کتاب اس عہد کے علمی وادبی سناریو پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ بیروت لبنان میں اس عرصے میں کس طرح تعلیم دی جاتی تھی۔ کس طرح کے مدارس تھے۔ کیسے اساتذہ تھے۔ کیسا نصاب تعلیم تھا۔ استاد کو اپنے شاگردوں کو کس طرح پڑھانا چاہیے۔ ان کے ساتھ مختلف معاملات میں کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ آباء کو بچوں کی تربیت کس طرح کرنی چاہیے۔ اہل علم کو کس طرح کے مسائل سے الجھنا چاہیے ۔ کس طرح کے معاملات سے احتراز کرنا چاہیے۔یورپ میں انھوں نے کس طرح کی زندگی گزاری ۔ کن کن اساتذۂ کرام سے تعلیم حاصل کی۔ کن کن متشرقین سے ملاقات کی۔ کن کن شہروں میں سیاحت کرکے اپنے تجربات کو پختہ کیا۔انھوں نے ہٹلر کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ بسمرک کے بارے میں بڑی فکر انگیز باتیں قلمبند کی ہیں۔ چین کے بادشاہ کا ذکر خیر کیا ہے۔ یورپ کے ارتقائی سفر پر روشنی ڈالی ہے۔اپنے اہل وعیال اور اولاد سے متعلق کچھ ایسے واقعات ذکر کیے ہیں جن سے تربیت اولاد کے اسرار ورموز کی کھڑکیاں وا ہوتی ہیں۔
در اصل یہ کتاب بتاتی ہے کہ زندگی ہمیشہ مشقتوں سے عبارت ہوتی ہے۔ یہ کتاب قاری کو بڑا انسان بننے کا ہنر سکھاتی ہے۔ یہ کتاب انسان کی غیرت اور اس کے ضمیر کی تربیت سازی کرتی ہے۔یہ کتاب انسان کو سچے مواقف پر کھرے اترنے کے گر سکھاتی ہے۔ ضمیر ووجدان کو جھنجھوڑتی ہے۔بڑوں کی نصیحتوں پر کان دھرنے کی تاکید کرتی ہے۔سیلف میڈ شخصیت کی تشکیل کے اسرار کا انکشاف کرتی ہے۔ مشہور خود نوشت داں عبد اللہ ہدلق کہتے ہیں کہ علامہ عمر فروخ کی غبار السنین وہ کتاب ہے جسے پڑھنے کے بعد بڑوں کے تجربات سے استفادہ کرنے والے کی شخصیت بدل جاتی ہے۔(میراث الصمت ۷۹)
دراصل غبار حیات سے عمر فروخ کی شاہراہ حیات پر سفر کرنے سے قبل میں بھی انھیں ایک نصرانی اور عیسائی سمجھتا تھا لیکن اس کتاب کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ عمر فروخ در اصل مومنانہ صفات کے حامل ایسے مرد مومن تھے جن کی طرح مومن ادیب کم پیدا ہوا کرتے ہیں۔ جنھوں نے مستشرقین کا علم کھنگالا، ان کے بحر علم سے اپنی تشنگی فرو کی مگر ان سے مرعوبیت کا شکار نہیں ہوئے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ بھی میری طرح عمر فروخ سے محبت کرنے لگیں گے۔ اللہ ان کی روح کو اعلی علیین میں جگہ دے۔ آمین۔(نوٹ: مضمون میں وارد صفحات نمبر اصل کتاب کے نہیں بلکہ ترجمہ شدہ کتاب غبار حیات کے ہیں۔شمس)
آپ کے تبصرے