منہج سلف یعنی صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے طریقے پر عقیدہ و عمل کو ماننے والے اہل حدیث کہلاتے ہیں۔اور منہج سلف یہ ہے کہ اسلام اور مصادر دین کو اسی طریقے سے جاننا سمجھنا اور اسی صحیح شعور و ادراک کے مطابق عمل کرنا جس طرح رسول گرامی ﷺ نے دین کو بتایا اور عمل کیا اور جس طرح آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تابعین عظام اور تبع تابعین قرون مشہود لہا بالخیر نے دین کو سمجھا اور اس پر عمل کیا۔
سوال یہ ہے کہ دین کے ساتھ منہج کی ضرورت کیوں اور کہاں سے آن پڑی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہج کی ضرورت اس لیے آن پڑی تاکہ دین خالص اور بے آمیز رہے۔ اس میں کسی آمیزش کی گنجائش نہ رہے۔ اور اس کی فعالیت اور اثر آفرینی پر کوئی فرق نہ پڑے۔ تخلیق انسانی کے بعد جب انسان کو دین و شریعت دی گئی تو ایک ہی الفیہ کے بعد انسان نے اپنے افکار اور ہوا ہوس کو دین میں شامل کر دیا۔ اور امت واحدۃ میں تفرق و اختلاف در آیا۔ یہ انسانی طبائع مزاج اور اس کی امنگوں ولولوں مطامع اور ہوا ہوس کا خاصہ ہے کہ جادۂ اعتدال سے ہٹتا ہے اور بسا اوقات اپنی ساری لغزشوں کو دین کا جز بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ دین کو بے آمیز نہیں رہنے دیتا۔ انسانوں کی لغزشیں ایک تو ہوتی نہیں ہیں۔ انسان کی ذاتی لغزشیں بے شمار ہوتی ہیں۔ کبر و غرور کی لغزشیں، منصب کی بے جا طلب کی لغزشیں، مال و دولت کے حصول کی غیر اصولی کوششیں، تعقل پرستی، وہم پرستی، اخلاقی بگاڑ، جنسی بگاڑ، دین کے نام پر تجارت، دین کے نام پر ڈھونگ۔ یہ بگاڑ ایک فرد کا نہیں بے شمار افراد کا ہوسکتا ہے۔ ان تمام کو ہوس کا فساد کہا جا سکتا ہے اور انھیں اصول آئیڈیالوجی افکار اور نظریے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔اور یہ بگاڑ بے شمار انسانی افراد کے ہوتے ہیں۔ یہ بگاڑ سماجی، سیاسی، اعتقادی اور اقتصادی بھی بن سکتے ہیں اور ہر قسم کے اتھل پتھل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ یہ سب جتھا بندی، حزبیت اور فرقوں کا روپ دھار سکتے ہیں اور ان سے حزبی تعصبات بھی رونما ہوسکتے ہیں اور یہ ساری شکلیں دین اور مصادر دین پر حملہ آور بھی ہوسکتی ہیں اور انھیں لوگ اپنی پسند کے مطابق بدلنے کی بھرپور کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ اس سے انتحال تاویل اور تحریف کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
یہ ساری خطائیں اور لغزشیں سرزد ہوتی ہیں اور تاریخ میں ریکارڈ ہوجاتی ہیں۔ انفرادی و اجتماعی بگاڑ کے ان سارے انواع و اقسام کی شکلوں کو دین کا نام بھی ملا۔ فرق بھی رونما ہوئے، تاویل و تحریف اور انتحال کے دروازے بھی کھلے۔ ان کے لیے حزبیت اور تعصبات کی رنگیں بھی ظاہر ہوئیں اور فرق کے درمیان باہم جدال و قتال بھی ہوئے۔
ان تمام اباطیل سے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے منہج کی ضرورت پڑی۔ قرآن اور سنت کے اصول و ضوابط اور قرون مشہود لہا بالخیر کے فہم و عمل اور تعامل کو منہج قرار د یا گیا۔ اسی منہج کے ذریعہ خارجیت، رافضیت، جہمیت، قدریت، ارجاء، اعتزال، تقلید، تصوف اور موجودہ دور کے دینی استشراقی اسلامی جمہوریت، مادی اباحیت پسندانہ اتحاد سب کی قلعی کھلتی ہے اور صراط مستقیم سے ان کے بھٹکنے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اسی سے اشعریت اور ماتریدیت کے سارے جھوٹے دعاوی اور اصولی اور کلی گمراہیاں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ اور تصوف و تقلید کے نام پر اہل سنت اور دین کے عنوان سے جاری سارے شرک الحاد فسق و فجور قبر پرستی، مشائخ پرستی، پیر پرستی، وحدۃ الوجود، تصور شیخ، تصرفات اولیاء کے تھوک در تھوک شرکیات اور ضلالات کا بھی پتہ چلتاہے۔
اسی منہج سے دین کا صحیح اور کامل شعور ملتا ہے اور اس کو اپنا کر عقیدہ اور عمل درست ہو سکتا ہے۔ اسی سے راہ مستقیم طے ہوتی ہے۔ اسی سے طائفہ منصورہ کی تعیین ہوتی ہے۔ اسی کے ذریعے حسنات دنیا و آخرت کا حصول ممکن ہے اور اسی سے رضائے الہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی منہج سے صحیح عقیدے کی تعیین ہوتی ہے۔ راہ راست اتباع رسول ﷺ کی روشن شاہراہ بنتی ہے۔ عقیدہ و عمل میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ مصادر دین کی حیثیت طے ہوتی ہے اور نصوص کی معتبریت، استناد، ضرورت ،اہمیت اور دینی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ عقیدے کی اساسیت اور اس کے اساسی رول کی وضاحت ہوتی ہے۔ اسی منہج سے دین کی صحیح تشریح ہوتی ہے۔ مباح امور میں یہی منہج اجتہاد کا دروازہ اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلا رکھتاہے۔ یہی منہج تعقل پرستی، وہم پرستی، شخصیت پرستی، بے اعتدالی، غلو، افراط و تفریط سے لوگوں کو بچاتا ہے۔ اور کامل دین کو فرد اور معاشرے میں لاگو کرنے اور اسے صبغۃ اللہ میں رنگنے کا گن سکھاتا ہے۔ اسی منہج نے رد باطل کو ہمیشہ دینی فریضہ قرار دیا۔ دعوت کو ہر جگہ ہر وقت اور ہر فرد پر واجب بنایا اور جہاد کو تمام شروط کے ساتھ اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی طاقت اور کامیابی کا ذریعہ تسلیم کیا۔
اسی منہج سے اہل سنت اہل حدیث کی تعیین ہوئی۔ سلفی عقیدے طے ہوئے، حدیث اور علوم حدیث کے اصول و ضاطے بنے اور اہل سنت کو دین کا اصلی نمائندہ تسلیم کیا گیا۔ اسی نے سنت کو مقلدوں، تخریب پرستوں، روافض، معتزلہ، صوفیاء اور منکرین حدیث کے دست برد سے بچا یا۔ اور اس کی محکم حیثیت کو طے کیا۔ اور علم الاسناد جرح و تعدیل کے ضابطے طے ہوئے اور اسے خود غرضوں، جاہلوں اور متعصّبوں کے خرد برد سے تحفظ عطا کیا۔ اور ان کے اندر رائے، قیاس اور عقل کی طغیانی کی مداخلت ہونے نہیں دی۔
نصوص قرآن و سنت کو ہر طرح اسی منہج سے تحفظ ملا۔ باطنیوں، صوفیوں، تعقل پسندوں نے ان کے ساتھ جو کھیل کھیلنے کی کوشش کی اسے ہونے نہیں دیا۔ان کی تاویلات و تحریفات کا ابطال کیا۔ اور ان سے بچنے کے لیے تفسیر ماثور کے اصول و ضابطے بنے۔ فقہ القرآن و فقہ الحدیث کا طریقہ طے ہوا۔ استنباط مسائل میں نص کے ذریعے نص کی تشریح، نصوص کے ممکن لسانی معانی و مفاہیم، صحابہ کی تشریحات، مستند علماء، صلحاء، فقہاء اور محدثین کی تشریحات کو مستند معیار کے مطابق فقہ القرآن والسنہ کے نام سے معروف کیا گیا اور نص کے مقابلے میں کسی امام عالم اور فقیہ کی رائے کو ذرہ برابر وزن نہیں دیا گیا۔
منہج نے علوم کے ساتھ معاشرت، سیاست، معیشت ہر میدان میں دین کی اصالت اور اصلیت کو برقرار رکھا۔ اور ان تمام میدانوں میں اس کی اثر آفرینی اور فعالیت کو برقرار رکھا اور حتی الامکان اس کی فعالیت کو عملی شکل دیا۔اور کسی طرح حیلہ و تقیہ، مکرو فریب، دوسرے ادیان اور افکار سے تاثر پذیری کو دین کے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ اور فکر اور فنون میں بھی دین کی کار فرمائی کو مطلوب جانا۔
اور یہ کام وقتی نہیں ہے۔ شروع سے اب تک دین کی حفاظت نصوص کی صحیح تشریح اور باطل افکار و دعوات کی پرکھ اس کے فرائض میں داخل رہی۔اور ہر دور میں اس نے مخلص دعاۃ، مجاہدین علماء ،فقہاء، ماہرین زبان و ادب، سیاسی زعماء، مجتہدین، محدثین اور مفسرین پیدا کیے۔ اور قیامت تک اسی کے سائے تلے طائفہ منصورہ دین حق کی پاسبانی کا کام ارشاد و تصحیح اور تمیز حق و باطل کے وصف، اصول ولاء و براء اور اجتہادی و جہادی قوت کے ساتھ کرتا رہے گا۔
اس کی قوت عمل اور کار کردگی دیکھیے، اس نے شروع میں خارجیت کو ختم کیا، اس کی پہچان متعین کی اور اس کی ترشید و تصحیح کی۔ روافض کی اصلیت کو امت کے سامنے پیش کیا۔ انجام کار اپنی تمام فریب کاریوں، امت کے ساتھ مسلسل غداریوں، اکاذیب و اراجیف اور منافقت کے باوجود وہ امت اسلامیہ میں مرفوض ہی رہے۔ پوری تاریخ امت میں دور حاضر کے ابلہ فریب خود کو اہل سنت سے جوڑنے والے تحریکیوں نے انھیں گلے لگایا اور اپنے دین و ایمان کو بیچ ڈالا۔ یہ ایک شاذ مثال ہے۔
اس منہج نے سارے باطنی فرق کی گمراہیوں کو کو نمایاں کیا اور امت کو ان سے بچایا۔ سارے فرق باطلہ جہمیہ قدریہ مرجیہ کے کفر و الحاد اور گمراہی کو اجاگر کیا۔ جب ان کے سارے افکار کو معتزلہ نے پی لیا۔ انھیں اس منہج اور اس کے ماننے والوں نے پہچانا اور امت کو ان کی گمراہی سے بچایا۔ ان کے عقیدۂ و عمل کی ساری گمراہیوں کو تفصیل کے ساتھ امت کے سامنے پیش کیا۔ معتزلہ کے وارث اشعری ماتریدی بنے اور اہل سنت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ان کی متنوع مہلک گمراہیوں سے امت کو آگاہ کیا اور ان کی بھیانک لغزشوں پر کتاب و سنت کے دلائل سے ڈھیر لگا دیا۔
ان سب سے زیادہ گمراہی تقلید اور تصوف کی راہ سے آئی۔ تقلید اور تصوف دونوں کا روگ ایک ساتھ چلتاہے۔ دونوں شخصیت پرستی کو پروان چڑھاتے ہیں، اس لیے دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ قریبا پانچ سو سال تک اہل سنت کے ٹائٹل کے تحت تقلید اور تصوف نے امت مسلمہ کو کھوکھلا کیا اور ان کی ساری توانائی اور ساری صلاحیت اور امت اسلامیہ ہونے کی ساری خوبیوں کو چاٹ لیا اور اسے ازحد کمزور کر دیا اورمعاشرے میں انھوں نے طرح طرح کی جنگیں بپا کیں، علمی اخلاقی اور ایمانی طور پر اسے اتنا انحطاط پذیر بنا دیا کہ امت اسلامیہ صلیبی استعماری قزاقوں کے زیر تسلط آگئی۔انھوں نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا۔ اور آج شیطانی نظام حیات علمانیت، سرمایہ داری اور جمہوریت کے ہاتھوں میں ہمارا لگام ہے۔ ابا حیت پسند معاشرہ، سود اور جوے میں ڈوبی ہوئی معیشت کا دور دورہ۔ اور ہماری اپنی غفلتیں ہیں۔ بے دینی جہالت فقر اور توہم پرستی ہے۔ تقلید و تصوف کا قبر پرستی اور پیر پرستی والا دین ہے۔
ان سب کو اگر دنیا ئے اسلام میں کسی نے جانا سمجھااور ان کی تصحیح و ترشید ابطال و تردید کی تو منہج سلف کے ذریعے سلفی علماء و محدثین نے کی۔ انھوں نے امت کو متحد کیا۔ استعماریوں سے ہر جگہ جہاد کیا۔ امت کو کتاب و سنت کی طرف لوٹنے کی دعوت دی اور امت کے کھوئے ہوئے وقار کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔اس کے ساتھ روافض صوفیاء و مقلدین استعماریوں اور مسلم دانشوروں کی دشمنیوں کا بھی سامنا کیا۔ اور اب تک جھیل رہے ہیں۔
آپ کے تبصرے