یادش بخیر! یہ غالبا ۱۹۹۶ء کے اواخر کی بات ہے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کو سرسوتی سمان ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔اسی سال میں دہلی یونیورسٹی کے عربی شعبے میں ایم اے سال اول میں داخل ہوا تھا۔اس وقت میں وقتا فوقتا طبع آزمائی کرتا تو تھا مگر میں نے ابھی اردو شعر وادب کا گہرا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ نہ ہی اردو کے معاصر منظر نامے سے میں واقف تھا۔ میرے پاس اس وقت دہلی کا سب سے بڑا اردو اخبار قومی آواز آتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ فاروقی صاحب کو مبارکباد دینے کا ایک غیر منقطع سلسلہ شروع تھا۔ اخبارات ہر روز اسی طرح کی تبریکات کی خبریں شائع کررہے تھے۔ میں اس وقت تک فاروقی صاحب سے ناواقف تھا۔ میں نے پوچھا آخر یہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کون ہیں؟ پتہ چلا اردو کے بہت بڑے ادیب ، نقاد اور شاعر ہیں۔غالبا کسی نے یہ بھی بتایا تھا کہ کسی اردو ادیب کو ملنے والا یہ ابھی تک کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب میں پہلی بار فاروقی صاحب سے متعارف ہوا۔
پھر کچھ دنوں بعد میں دوحہ قطر چلا گیا۔ وہاں میں نے باقاعدہ شاعری شروع کی۔ اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ۲۰۰۰ء میں باقاعدہ طور پر دوحہ قطر میں شاعری شروع کی۔ شاعری کے لیے ضروری ہے کہ شعراء کو پڑھا جائے۔ شعر وسخن کا مطالعہ وسیع کیا جائے۔ شعری منظر نامے سے واقفیت حاصل کی جائے۔ چنانچہ اب میں نے خود کو خاص طور سے ہندوستان میں شائع ہونے والے اردو رسائل وجرائد سے باضابطہ طور پر وابستہ کیا۔ ان کا مطالعہ شروع کیا اور وہیں سے مجھے اردو کے معاصر منظر نامے سے واقفیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ اسی دوران کسی نے فاروقی صاحب کی معرکۃ الآراء کتاب’شعر شور انگیز‘کے مطالعے کی طرف میری رہنمائی کی۔دوحہ قطر میں مجھے شعر شور انگیز کی دوسری اور تیسری جلدیں ہی دستیاب ہوسکیں۔میں نے انھیں بغور پڑھا تو فاروقی صاحب کی شعر فہمی، ان کی ادبیت، علمیت، شعری فقاہت اورطریقۂ تشریح اشعار کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ میں نے عربی شعراء کے دواوین اور ان کی شروحات پڑھی تھیں۔ انھیں بغور دیکھا بھی تھا مگریہ دیکھ کر میں حیران ہو گیا کہ مجھے کسی بھی عربی شاعر کے کسی ایسے دیوان کی ایسی شرح نہیں ملی جس میں اس طرح اشعار کی تشریح کی گئی ہو جس طرح فاروقی صاحب نے میرتقی میر کے اشعار کی تشریح میں اپنے قلم کی جولانی’شعر شور انگیز‘ میں دکھائی ہے۔مجھے محسوس ہوا کہ شعر شور انگیز کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے واجب ہے جو شعر وسخن کے شغل سے وابستہ ہو کہ اس سے نہ صرف خیال کے چراغ روشن ہوتے ہیں بلکہ شعر وسخن کی فنی باریکیوں کی بھی معلومات وواقفیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا۔ میر کے مشہور شعر ’’کہا میں نے گل سے ہے کتنا ثبات۔کلی نے یہ سن کر تبسم کیا‘‘جیسے سیدھے سادے شعر کی جس طرح تشریح فاروقی صاحب نے کی ہے وہ انھی کا حصہ ہوسکتا ہے۔
اس کے دو چار سال بعد جب میں ہندوستان واپس آگیا اوردرس و تدریس سے وابستہ ہوا تو میں نے’شعر شور انگیز‘ کی پہلی جلد بھی خریدی ۔ جس کا ابھی تک میں نے مطالعہ نہیں کیا تھا۔اسے میں نے بہت غور سے پڑھا۔کتاب پڑھتا رہا اورفاروقی صاحب کی عالمانہ شخصیت سے نہ صرف متاثر ہوتا رہا بلکہ انھیں داد بھی دیتا رہا۔کہیں ان کی علمی وادبی شخصیت کی گہرائی دیکھ کر تو کہیں ان کی شعری فقاہت دیکھ کر اورکہیں ان کے خوب صورت جملوں کو دیکھ کر۔ میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ فاروقی صاحب نے خدائے سخن کے حوالے سے جوبحث کی ہے او رجن مقاییس ومعیارات اور اصولوں کی بنیاد پر میر کو خدائے سخن قرار دیا ہے انھی اصولوں کی بنیاد پر عربی کے قدیم ناقدین نے ’بڑے شاعر‘ کی تحدید کی ہے۔ عربی کے ان مقاییس اور اصولوں تک فاروقی صاحب کیسے پہنچے یہ مجھے نہیں معلوم۔ البتہ مجھے بعد میں یہ پتہ چلا کہ انھیں عربی شعر وادب سے دلچسپی بھی تھی۔ کبھی کبھی نجی محفلوں میں ایک دو عربی شعراء کو Quote بھی کیا کرتے تھے۔میں اپنے قارئین کو بتاؤں کہ میں نے پہلی جلد کو دوبار سے زیادہ پڑھا ہے۔ باقی جلدوں کو بھی میں نے پہلے ہی دو بار پڑھا تھا لیکن گذشتہ دنوں جب میں’حماد انجم: شخص اور شاعر‘نامی کتاب لکھ رہا تھا تو حماد صاحب کے اشعار کی تشریح کے لیے میں نے بارہا فاروقی صاحب کے طریقۂ تشریح کو بغور پڑھا ، انھیں ہضم کیا اور انھی کے طرز میں حماد صاحب کے اشعار کی تشریح کی کوشش کی۔انھی دنوں جب میں’شعر شور انگیز‘پڑھ رہا تھا مجھے فاروقی صاحب کی’درس بلاغت‘ بھی ملی۔ اس سے بھی میں نے بھر پور استفادہ کیا۔ یہ کتاب بھی شعراء کو خاص طور سے مبتدی شعراء کو ضرور پڑھنی چاہیے۔
فاروقی صاحب ایک عظیم انسان تھے۔ عظیم انسان کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ا ن میں ایک تعریف یہ بھی ہے کہ عظیم وہ ہے جس کے اثرات اور نقوش معاشرے پر براہ یا بالواسطہ طور پر ثبت ہوں۔ اورہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ سب سے پہلے فاروقی صاحب نے ’شب خون‘کے ذریعے پوری دونسلوں کی تربیت کی۔شب خون نے ذہنوں کو جھنجھوڑا۔ عقل وفکر وشعورکو اپنی گرفت میں لیا۔ انھیں اپنا اسیر بناکر شعر وسخن کی وادیوں میں نہ صرف سیر کرنے پر ابھارا بلکہ ’شب خون‘سے وابستہ کتنے لوگو ں کوشاعری کی زلفوں کا اسیر بنا دیا۔اس کے ساتھ ساتھ فاروقی صاحب نے اپنی کتابوں کے ذریعے ہمیشہ پوری نسل کی تربیت کی۔شعر شور انگیز، درس بلاغت، شعر غیر شعر اور نثر،تعبیرکی تشریح، تفہیم غالب، صورت ومعنی سخن، غالب پر چار تحریریں، لفظ ومعنی ، عروض آہنگ اور بیان کے علاوہ ان کا مشہور زمانہ ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘جس طالب علم نے نہیں پڑھا اس سے بڑا بد نصیب کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
فاروقی صاحب سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن فاروقی صاحب سے میری دو نسبتیں رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بہت سارے لوگوں کی طرح وہ میرے بھی روحانی استاد ہیں کہ میں نے ان کی کتابوں سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے مجھے بھی اپنی محبتوں سے نوازاہے۔واقعہ یہ ہے کہ ۲۰۰۵ء میں جب میری کتاب ’جدید عربی ادب‘ شائع ہوئی تو میں نے اس کا ایک نسخہ فاروقی صاحب کو بھی بھیجا۔انھوں نے نہ صرف مجھے ا س کا جواب بھیجا بلکہ وہاں بھی وہ اپنی استادی کا فریضہ انجام دینے سے غافل نہ رہے۔ میں نے اپنی کتاب میں کالج، یونیورسٹی جیسے انگریزی الفا ظ کی جمع کالجز اور یونیورسٹیز استعمال کی تھی۔ فاروقی صاحب نے اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ایسے الفاظ کا جمع واو، نون غنہ لگاکر بنایا جاتا ہے یعنی کالجوں اوریونیوسٹیوں۔ چنانچہ میں نے جب اس کتاب کا جدید ایڈیشن شائع کیا تو اس میں میں نے ان کے مشورے کے مطابق تصحیح کرلی۔
پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ایک متنوع الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ شاعر، ادیب، نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار، صحافی ، ترجمہ نگار، لغت نگار، کیا نہیں تھے۔ وہ انگریزی کے طالب علم تھے۔ انگریزی سے انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن انھوں نے اردو شعر وسخن اور ادبیات کی ایسی خدمت کی جس کی مثال نہیں ملتی۔
وہ صحیح معنوں میں ایک عظیم عالم تھے۔ اسی لیے انھوں نے پچاسی برس کی عمر میں صدیو ں کا کام کیا۔وہ ادبیات میں ابن تیمیہ ، ابن قیم اور نواب صدیق حسن خان جیسے دینی عالموں کے قد کے عالم با وقار تھے۔ وہ ہندوستان میں شعر وسخن اور ادبیات کے امام اعظم تھے۔ہندوستان کے وہ عظیم سپوت تھے جن کی وجہ سے ہندوستان کا ادبی منظر نامہ بڑا وقیع اور بھرا بھرا سا لگتا تھا۔لگتا تھا کہ گلشن ہند کے ادبستان میں ایک ایسا چھتنار بھی ہے جس کے سایے سے سارا عالم مستفیض ومستفید ہورہا ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ مشفق تھے۔خورد نواز تھے۔ سب سے محبت سے پیش آتے تھے۔ وہ اخلاص سے بھرے ہوئے ایک ایسے عظیم عالم اور عظیم انسان تھے جن کے در سے کسی طالب علم کو پیاسا واپس نہیں ہونا پڑتا تھا۔ فاروقی صاحب کی ایک اور خو جو مجھے بہت پسند ہے وہ یہ تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا طالب علم بھی انھیں اپنی کتاب بھیجتا تھا تو وہ اس پر اپنے تاثرات قلمبند کرکے بھیجتے تھے ۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان طالب علموں کے ذریعے، ان کے ان معتقدین کی کتابوں کے ذریعے بھی فاروقی صاحب کا نام گلشن ادبیات عالم کے ہر گوشے میں گردش رہتا تھا۔ دعا ہے رب العزت انھیں آخرت میں بھی اپنے خصوصی فضل سے نوازے اور ان کے درجات کو بلند ہی رکھے۔ آمین
آپ کے تبصرے