مسجد نبوی کے مشرق میں واقع اہل مدینہ کا قبرستان بقیع الغرقد کے نام سے معروف ومشہور ہے جسے ہمارے بر صغیر کے زائرین ”جنت البقیع“ کہتے ہیں۔
یہ نام کہاں سے آیا؟ کب اس کی ایجاد ہوئی؟ اس کی تاریخ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عجمی نام ہے جو بہت بعد میں عجمیوں کے یہاں رواج پایا ہے۔ کتبِ حدیث، شروحِ حدیث، تاریخ، سیرت، بُلْدَان اور لغت وغیرہ میں مجھے یہ نام کہیں نہیں ملا۔ صرف بعض ایسے متاخر علما کی کتابوں میں یہ نام ملتا ہے جن کا تعلق برصغیر سے ہے۔ اگر آج کوئی عربی بھی یہ نام لیتا ہے تو عجمیوں کی سنی سنائی لیتا ہے، ورنہ عربوں کے یہاں یہ نام پہلے کبھی رائج نہ رہا۔
کتبِ حدیث، سیرت، تاریخ، بُلدَان اور لغت وغیرہ میں بے شمار جگہوں پر اس کا نام یا تو ”بقیع الغرقد“ ملتا ہے یا اختصار کے ساتھ ”البقیع“۔ بطور مثال درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں:
صحیحین کے اندر علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے، فرماتے ہیں:
كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ [صحيح بخاری، حدیث نمبر: ٤٩٤٨، صحیح مسلم، حدیث نمبر: ٢٦٤٧]
اسی طرح ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر بقیع جاتے اور کہتے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ» [صحيح مسلم: ٢/٦٦٩، حدیث نمبر: ٩٧٤]
ان دونوں متفق علیہ حدیثوں میں اس قبرستان کا نام صراحت کے ساتھ ”بقیع الغرقد“ آیا ہے۔ جب کہ بہت ساری احادیث میں اختصار کے ساتھ ”البقیع“ بھی وارد ہے۔ مثلا صحیح مسلم (حدیث نمبر: ٩٧٤) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک لمبی حدیث ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ، فَأَطَال القيام، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ۔
اسی حدیث میں آگے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، فَنَادَانِي، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ، فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُم۔
اس حدیث میں جبریل امین علیہ السلام کے کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نام اللہ رب العالمین نے انھیں بتایا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس قبرستان کا نام ”بقیع الغرقد“ یا ”بقیع“ اللہ تعالی، جبریل امین، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ثابت ہے۔
”بقیع“ یہ ایک عربی لفظ ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے وسیع وعریض میدان، جس میں مختلف طرح کے درخت یا ان کے جڑ یا تنے موجود ہوں۔ اور ”غَرقَد“ یہ ایک درخت کا نام ہے جو کانٹے دار ہوتا ہے۔ یہ درخت وہاں پایا جاتا تھا۔ بعد میں یہ درخت تو وہاں سے ختم ہوگیا لیکن اس کا نام اس جگہ کے نام کے ساتھ لازم وملزوم بن کر ہمیشہ جڑا رہا۔
متقدمین علمائے لغت کی ایک بڑی جماعت نے یہ چیز بیان کی ہے، ذیل میں بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:
خلیل بن احمد الفراہیدی ”کتاب العین“ (١/١٨٤) میں فرماتے ہیں:
البَقيعُ: موضعٌ من الأرض فيه أرُومُ شَجَرٍ من ضُرُوبٍ شتى، وبه سُمِّيَ بَقيعُ الغَرْقَدِ بالمدينة والغَرْقُدُ: شَجَرٌ كان ينبت. هُناك، فبَقِيَ الاسمُ مُلازِماً للمَوْضِع وذَهَبَ الشجر۔
”معجم دیوان الادب“ (١/٤١٢) میں فارابی فرماتے ہیں:
بَقيعُ الغَرْقَد: مقبرةٌ بالمدينة. والبَقيعُ، من الأَرض: صحراءُ واسعةٌ”.
عربی ڈکشنریوں میں سب سے مشہور ومعتمد ڈکشنریوں میں سے ایک ”الصحاح تاج اللغہ“ (٣/١١٨٧) کے مصنف علامہ جوہری فرماتے ہیں:
البَقيعُ: موضعٌ فيه أَرومُ الشجَرِ من ضروب شتى، وبه سمى بقيع الغرقد، وهى مقبرة بالمدينة.
علامہ ابن فارس ”مجمل اللغہ“ (ص١٣٢) میں فرماتے ہیں:
البقيع: المكان المتسع، قال قوم: لا يكون بقيعًا إلا وفيه شجر، وبقيعُ الغرقد قد كان ذا شجر ثم ذهب الشجر فبقي الاسم.
علامہ ابن سِیدَہ ”المحکم والمحیط الاعظم“ (١/٢٥١) میں فرماتے ہیں:
البقيع: موضع فيه أروم شجر من ضروب شتى، وبه سمي بقيع الغرقد بالمدينة، والغرقد: شجر له شوك، كان ينبت هناك، فذهب، وبقي الاسم لازمًا للموضع.
علامہ ابن الاثیر جزری ”النہایہ فی غریب الحدیث والاثر“ (١/١٤٦) میں فرماتے ہیں:
بقيع الغرقد: البقيع من الأرض المكان المتسع، ولا يسمى بقيعًا إلا وفيه شجر أو أصولها، وبقيع الغرقد: موضع بظاهر المدينة فيه قبور أهلها، كان به شجر الغرقد، فذهب وبقي اسمه.
اور علامہ ابن منظور افریقی ”لسان العرب“ (٨/١٨) میں فرماتے ہیں:
والبَقيعُ: مَوْضِعٌ فِيهِ أَرُوم شَجَرٍ مِنْ ضُروب شَتَّى، وَبِهِ سُمِّيَ بَقِيع الغَرْقد، وَقَدْ وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ، وَهِيَ مَقْبَرَةٌ بِالْمَدِينَةِ، والغَرْقَدُ: شَجَرٌ لَهُ شَوْكٌ كَانَ يَنْبُتُ هُنَاكَ فَذَهَبَ وَبَقِيَ الِاسْمُ لَازِمًا لِلْمَوْضِعِ. والبَقِيعُ مِنَ الأَرض الْمَكَانُ الْمُتَّسِعُ وَلَا يسمَّى بَقِيعاً إِلا وَفِيهِ شَجَرٌ.
ان تمام علمائے لغت کی تصریحات سے اس کی وجہ تسمیہ بھی بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ غرقد کے درختوں کی وجہ سے اس میدان کو ”بقیع الغرقد“ کہا جاتا تھا۔
جہاں تک ”جنت البقیع“ کی بات ہے تو جیسا کہ شروع میں کہا گیا یہ نہ کسی حدیث میں وارد ہے اور نہ تاریخ وسیرت، یا بُلْدَان ولغت کے علما نے ہی ذکر کیا ہے۔ صرف بر صغیر کے متاخرین علما کے یہاں یہ نام ملتا ہے۔ مثلا:
”نزہۃ الخواطر“ (٨/١٢٦٠) کے مصنف عبد الحی الحسنی الطالبی مولانا عبد الباقی لکھنوی کے سوانح میں فرماتے ہیں:
توفي إلى رحمة الله لأربع بقين من ربيع الثاني سنة أربع وستين وثلاثمائة وألف، ودفن في جنة البقيع۔
اور مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
ورفع اليدين عند الدعاء على القبر جائز كما في جزء رفع اليدين للبخاري وصحيح مسلم: «أنه دخل جنة البقيع ودعا رافعًا يديه»”.[العرف الشذي شرح سنن الترمذي: ٢/٣٤٢]
مولانا انور شاہ کشمیری نے حدیث کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے، جس سے بعض لوگوں کو دھوکہ ہو جاتا ہے اور وہ اسے بطور حجت پیش کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں یہ نام آیا ہے، حالانکہ ان سے اس حدیث کا لفظ نقل کرنے میں چوک ہوئی ہے، نہ امام بخاری کی جزء رفع الیدین میں ”جنت البقیع“ کا لفظ وارد ہے اور نہ صحیح مسلم میں۔ جزء رفع الیدین (ص٦٤، حدیث نمبر ٨٨) میں ”بقیع الغرقد“ اور ”البقیع“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب کہ صحیح مسلم (حدیث نمبر ٩٧٤) میں ”البقیع“ کا لفظ آیا ہے۔
بلکہ دیکھا جائے تو یہ کوئی عربی ترکیب ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ حدیثِ رسول میں وارد ہو۔ یہ ایک عجمی ترکیب ہے۔ اگر یہ عربی ترکیب ہوتی تو ”بقیع الجنہ“ ہوتا، ”جنۃ البقیع“ نہیں، جیسا کہ ”ریاض الجنۃ“ کی ترکیب ہے، کوئی اسے ”جنۃ الریاض“ نہیں کہتا۔
”جنت البقیع“ کا معنی ہوگا ”وسیع وعریض میدان کی جنت“ جو کہ ایک مہمل کلمہ ہوگا۔ اگر ”بقیع الجنہ“ کہا جائے تو ٹھیک ٹھاک معنی بیٹھے گا: ”جنت کا وسیع وعریض میدان“۔
لہذا یہ ترکیب بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ اس کا نام کسی صورت میں نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ عجمیوں کا گھڑا ہوا نام ہے۔
شیخ عبد المحسن عباد حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیہ سے پوچھا گیا:
من كان مستحقًا للعذاب في القبر لكنه دفن في جنة البقيع، فهل يسلم لبركة المكان؟
(جو شخص عذاب قبر کا مستحق ہو اگر جنت البقیع میں دفن کیا جائے تو کیا جگہ کی برکت کی وجہ سے عذاب سے بچ پائےگا؟)
آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
جاء عن أحد الصحابة أن البلاد لا تقدس أهلها، وإنما يقدس الإنسان عمله, ولو دفن في البقيع شخص كافر أو منافق فهل ينفعه كونه دفن في البقيع؟
الجواب: لا ينفعه ذلك، وإنما ينفع الإنسان إيمانه وعمله الصالح، والمهم في الأمر أن يقدم الإنسان لنفسه عملاً صالحاً يلقاه، وسواء دفن في البقيع أو في غير البقيع، وأما أن يبتعد عن الله ثم يقول إن البقيع يشفع له، فهذه أماني كاذبة، وهذا من تلاعب الشيطان بالإنسان.
وقول السائل: (جنة البقيع) هذه من تعبير بعض عوام العجم، فهم يقولون: هذه جنة البقيع.
(ایک صحابی سے مروی ہے جگہ اپنے باشندوں کو مقدس اور نیک نہیں بناتی، انسان کو اس کا عمل نیک بناتا ہے۔ اگر بقیع میں کوئی کافر یا منافق شخص مدفون ہو تو کیا بقیع میں دفن ہونے کی وجہ سے اسے کوئی فائدہ ہوگا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ انسان کو صرف اس کا ایمان اور نیک عمل ہی فائدہ پہنچائےگا۔ اس لیے اہم چیز یہ ہے کہ انسان اپنے لیے عمل صالح کرکے جائے، پھر چاہے وہ بقیع میں دفن ہو یا غیر بقیع میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر وہ اللہ سے دور رہے اور کہے کہ بقیع اس کے لیے شفاعت کر دے گی تو یہ جھوٹی تمنائیں ہیں۔ اور یہ انسان کے ساتھ شیطان کا کھیلنا ہے۔
اور سائل کا ”جنت البقیع“ کا لفظ کہنا تو یہ بعض عجمی عوام کی ترکیب ہے، وہی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جنت البقیع ہے۔) [شرح سنن أبي داود للعباد: ٣٠/٥٣٩، بترقيم الشاملة آليا]
یہاں سائل کے سوال پر غور فرمائیں!!
ظن غالب یہی ہے کہ بر صغیر کے لوگوں کا اسے جنت البقیع کہنے کے پیچھے دانستہ یا نا دانستہ طور پر یہی عقیدہ کار فرما ہے، یعنی جو بھی یہاں مدفون ہوگا وہ جنتی ہے۔ یہاں گزشتہ دس سال سے رہتے ہوئے اور بے شمار زائرین کے ساتھ دعوتی خدمات انجام دیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ بہت سارے زائرین یہاں دفن ہونے کو جنت کی ضمانت مانتے ہیں۔ حالانکہ شیخ عباد حفظہ اللہ نے فرمایا کہ ایمان وعمل نہ ہو تو صرف بقیع میں دفن ہونا اس کے لیے جنت کی گارنٹی نہیں بن سکتا۔ ورنہ یہ لازم آئے گا کہ جو کفار ومنافقین یہاں مدفون ہیں وہ بھی جنتی ہیں، کیونکہ عہد رسالت میں مدینے میں وفات پانے والے کفار ومسلمین سب کا یہ قبرستان تھا۔ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی بھی یہاں قبر ہے تو کیا نعوذ باللہ وہ بھی جنتی ہے؟ [دیکھیں: المدينۃ النبويۃ في فجر الإسلام والعصر الراشدي لمحمد حسن شراب: ٢/٣٤٤، وخمسون سؤالا وجوابًا حول البقیع والشہداء بالمدینۃ النبویہ لمنصور بن صالح السلامہ: ص١٦١]
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے اسی نام سے یاد کریں جو اللہ تعالی، جبریل امین علیہ السلام، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیارے صحابہ نے اس کے لیے استعمال کیا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حق بات کہنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کے تبصرے