اگر بنیاد نہ ہو تو گھر نہیں بن سکتا، اگر جڑ نہ ہو تو درخت سرسبز نہیں رہ سکتا۔ اگر ایمان واخلاق نہ ہو تو فرد مردہ ہے۔ اگر اصولی اتحاد نہ ہو تو قوم بے جان ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے ایمان واخلاق میں یکتائی، فکرونظر میں ہم آہنگی، کردار وعمل میں مضبوطی اور ضمیر کی آزادی نہایت ضروری ہے۔ ان کے بغیر توانائی، ترقی، عزت اور مقام مل ہی نہیں سکتا۔
اس سے آگے قیادت کا مسئلہ آتا ہے۔ قیادت کے لیے ضروری ہے کہ امانت دار ہو خیرخواہ ہو۔ باضمیر وباشعور ہو، علم وبصیرت سے مزین ہو۔ قوت فیصلہ اور ہمت وحوصلہ رکھتی ہو۔ عزیمت واستقامت سے مالا مال ہو۔ بکے اور جھکے نہیں۔ شہرت اور مال ومنصب کی دیوانگی نہ ہو۔ خودغرض اور مفاد پرست نہ ہو۔ ملت فروشی ضمیر فروشی نہ کرتی ہو، احساس ذمہ داری سے سرشار ہو۔ اجتماعی اور سماجی شعور رکھتی ہو۔ قوم وملت کے نفع وضرر کا اسے شدت سے احساس ہو۔ اور فلاح امت کے لیے سب کچھ داؤں پر لگادینے کے لیے تیار ہو۔ اصولوں پر کبھی سودا کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔
عوام ملت اور قیادت کی ہم آہنگی اور اشتراک عمل سے کامیابی اور ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ اور اگر ان کے درمیان قرب کے بجائے بعد ہو، ہم آہنگی کے بجائے افتراق ہو۔ ساری اکائیاں ایک دوسرے سے جدا ہوں تو کبھی ملت کو کامیابی نہیں مل سکتی۔ کامیابی کے لیے ان تینوں اکائیوں کو ان خطوط پر چلنا ہوگا جنھیں شریعت نے طے کردیا ہے۔ تینوں اکائیوں کو شرعی خطوط پر چلے بغیر راہ نجات نہیں مل سکتی ہے۔ فرد اور سماج کو دینی خطوط پر چلتے ہوئے دینی قیادت کو تیار کرنا، فروغ دینا پہچاننا اور ان کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ اسی طرح قیادت کے اوپر لازم ہے کہ اپنی تمام دینی خصوصیات کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائے۔
مسلم فرد، مسلم سماج اور مسلم قیادت کی ساری دینی شرطیں مفقود ہیں۔ ان کی کمی کی کسی کو پروا بھی نہیں ہے۔ نہ ترابط کا کوئی سلسلہ موجود ہے۔ اکائیاں بکھری ہوئیں۔ فرد وسماج بکھرے ہوئے قیادت مفقود ہے۔ انفرادیت پسندی ہرایک پر سوار ہے، امت کی حیثیت سے کسی طرح کا تصور ہی نہیں رہ گیا ہے۔ نہ منزل، نہ مقصد، انتشار ہی انتشار، شیرازہ بکھرا ہوا۔
صورت حال یہ ہے کہ پوری ملت اسلامیہ ہند کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ حتی کہ فیملی اقدار خاندانی وجاہت اور اوصاف اشراف بھی باقی نہیں رہے۔ فرد فرد بکھر چکا ہے، خاندان خاندان بکھر گیا ہے۔ ادارے، تنظیمیں اور دینی جماعتیں بکھراؤ کا شکار ہیں۔ ملت کے افراد اور اکائیاں علاقائی بنیادوں پر، رنگ ونسل ذات برادری اور پیشوں کی بنیاد پر بکھر گئی ہیں۔ مذہبی، سیاسی، سماجی اور دینی اکائیاں رجحانات التزامات اختیارات اور نقصانات کی بنیادوں پر انتشار اور نفاق وشقاق کا شکار ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر فرد فرد ذاتی مفادات، ذاتی مصالح کا اسیر ہے اور معمولی فائدوں کی خاطر دین اخلاق ضمیر احساس غیرت وحمیت، ملت ومفادات ملت داؤں پر لگ جاتے ہیں بلکہ بسااوقات ذاتی مفادات کی خاطر ان سب کا سودا ہوجاتا ہے۔ ملت ایک گرتی ہوئی دیوار بن گئی۔ ملت کے ٹوٹنے گرنے لرزنے سمٹنے سکڑنے بگڑنے کا دلدوز منظر روز سامنے آتا ہے۔ عوام حال مست اور زعماء قال مست۔ نہ ان کو شعور، نہ ان کو خبر، مفادات کے حمام میں سب عریاں۔
اس شکست وریخت اور بحرانی صورت حال میں پتہ نہیں وہم پرستوں اور خواب پرستوں کو کیسے سیاسی بیداری یا دینی بیداری نظر آتی ہے۔ لگتا ہے نگاہوں کی ہوس انھیں روشنی معلوم ہوتی ہے۔ اور آرزوئیں حقیقت نظر آتی ہیں۔
ضابطوں اصولوں ایمان واخلاق اور عظمت کردار کو کہاں ڈھونڈیں، ملنے سے رہے۔ مفادات ملت کے تحفظ کی فکر کس دل میں ہے؟ صورت حال کو درست کرنے کا منصوبہ کس کے پاس ہے؟ فکر ونظر بصیرت وبصارت کو کون استعمال کررہا ہے؟ قیادت کی صلاحیت کہاں نظر آرہی ہے؟ کس میدان میں تعمیر فرد وتعمیر ملت کا کام ہورہا ہے؟ دین کے نام پر تجارت، سیاست کے نام پر ہوس رانی اور مال ومنصب، دولت وشہرت کے حصول کی للک اور تڑپ، تعلیم کے نام پر ٹھگی، سماجی خدمت کے نام پر شکم پروری، دعوت دین کے نام پر عیش پرستی اور تردامنی۔ ارادوں اور نیتوں کا حال برا۔ دل بجھا ہوا، حوصلے پست، غفلت وبے حسی کا راج۔ بداخلاقی غبن خیانت اور بے ایمانی کا دور دورہ، جہالت کارفرما، فقرومحتاجی حاوی خوف ودہشت طاری۔
یہی ہماری ملی کمائی ہے اور یہی ہمارا خرمن حیات ہے۔ پھر بھی ہزاروں ایسے مفکر، دانشور مل جائیں گے جنھیں سب کچھ خیر نظر آتا ہے۔ اور اپنی اپنی دکانوں کو چمکانے کے لیے خیروخوبی کے لمبے لمبے اشتہارات وبیانات شائع کرتے ہیں۔ ہر ادارے والے، ہر جماعت کے لوگ، ہر تنظیم وپارٹی کے ذمہ دار ایسے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ جیسے ملت ان کے کندھوں پر ٹکی ہوئی ہے اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔
ابتری کی حالت انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ ملت کے علماء زعماء اور قائدین عموما ایسے ہیں کہ ان سے خیر کا صدور مشکل سے ہوتا ہے اور خیر کا ان سے صدور ہو بھی تو ان کے مفادات کی کوکھ سے خیر بر بنائے خیر کا صدور مشکل سے ہوتا ہے۔
ابتری کی حالت یہ ہے کہ دینی اداروں اور جماعتوں میں، تعلیمی اور سیاسی اداروں اور تنظیموں میں غبن خیانت بے ایمانی عام ہے۔ جبر واستحصال، انانیت وموروثیت کا چکر چلتا ہے۔ معمولی جھگڑے ایسے پھیلتے ہیں کہ ان کا حل نہیں نکلتا۔ بڑے بڑے اتقیاء اور اصحاب جبہ ودستار ذاتی مفادات کی خاطر ایسی سطحیت پر اتر آتے ہیں اور ایسی چھچھوری حرکتیں کرتے ہیں کہ ابلیس اپنی توقع سے بڑھ کر کامیابی پرناچ اٹھتا ہے۔ اورچند سکوں کی خاطر یا آرزؤں کی برومندی کے لیے وہ طوفان بے تمیزی اٹھتا ہے کہ انسانیت حیران وشسدررہ جاتی ہے۔ بے اعتباری کا ایسا ماحول بنتا ہے کہ شریف انسانوں کو اپنے سایوں سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔ بے آبروئی، بیزاری اور اتہمامات کی وہ بدبو اٹھتی ہے کہ کائنات تف تف کر اٹھتی ہے۔ شروفساد اور فتنوں کا وہ طوفان اٹھتا ہے اور وہ جھکڑ چلتا ہے کہ خیر کے اقدار کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ اور ان فتنوں کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
سیاسی جھگڑوں، انتشار اور خرافات کی بات گھٹیا تر ہے ان کے ذکر سے قلم کو آلودہ کرنا زیبا نہیں ہے۔ علماء اور زعماء کی حالت پر دلی تکلیف ہوتی ہے امت کے یہ اسوہ وقدوہ حضرات عموما بندگان دنیا بن گئے ہیں۔ اور جن کے اندر خیر ہے وہ شروفساد کی بنائی ہوئی سطح پر آنا نہیں چاہتے ہیں۔
اور حیرت اس پر ہے کہ یہ بندگان دنیا اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ساری دنیاداریاں اوپر اپنے دل ودماغ میں انڈیلے ہوئے ہیں اور ان کا فکروخیال گوشت پوست اور خون دنیاداری کی گندگیوں سے لت پت ہے مگر اس آلودگی سے ان کے جسم وجان کو ذرا حیرانگی نہیں، نہ ان کے احساسات پر کوئی بوجھ ہے۔ امت مسلمہ کے قائدین اور یہ ابتری! حیرت ہی حیرت ہے مگر ان بندگان دنیا کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں۔ مفادات اور خیانات کے ان بندوں اور نفاق کے ان قیدیوں کی کھال اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ گینڈے کی کھال بھی اتنی موٹی نہ ہوگی۔ خطاکار ی بھی اور اکڑ بھی۔ شرور بھی اور خیر کا نمائندہ بننے کی دعوی دار ی بھی۔ احساس زیاں اور شعور نقص بڑی دولت ہے خطاکار اس شعور کے تحت کسی بھی وقت درکبریا پر بازیاب ہوسکتا ہے۔ لیکن اس شعور کے فقدان کے بعد دل ودماغ میں خیر کا پود مرجاتا ہے اور ایسے بے شعوروں اور خطاکاروں کی خطاؤں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور ارتکاب شروفساد کو عملا اپنے لیے واجب مانتے ہیں۔
خیر کی قدروں کے تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہرشے کو مادیت کی نگاہ سے آنکا جاتا ہے۔ اگر اس کے اندر مادی فوائد کے نموو پرداخت اور کاشت کی توقع نہ ہو تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ حرص ولالچ، فائدے اور مصلحت کی چکی میں ہر فرد کی شخصیت اور کردار پس چکا ہے۔ اونچی دکان پھیکی پکوان کا تجربہ ہر قدم پر ہوتا ہے۔ جس کو اسپ تازی سمجھا وہ خرِ لنگ نکلا۔ جس کو ہیرا جانا وہ خزف ریزہ ثابت ہوا۔ جن کے اندر خوشبو پیوست جانا وہ گندگی کا ڈھیر ثابت ہوا۔ دعاوی تمادح بانگ بلند، چرب زبانیاں اونچی ٹوپیاں، لمبی شروانیاں، دربار، جمگھٹا، بھیڑ، مریدین کی کثرت فدا کاروں کی بھیڑ!! سطوت، ولولے، طنطنے۔ مگر ان سب کے پیچھے گرگ زادگی ٹھگی عیاری اور دنیاداری۔ مرگ انسانیت تجھ پر کتنا ماتم کیا جائے۔ اور ماتم بھی ہو تو کیا انسانیت کے یہ قاتل ماتم کا مذاق اڑانے کو بھی تیار نہیں رہتے ہیں۔
دولت کی حرص، شہرت کی خواہش اور منصب کی طلب نے انھیں دیوانہ بنادیا ہے اور ان کے حصول کے لیے انھیں کسی جائز ناجائز کام کرنے میں عار نہیں ہے۔ اور اس طلب اور خواہش نے شوق علم وعمل ان سے چھین لیا ہے اور سارے ادارے متوقع ثمرات اور نتائج دینے سے عاری ہیں بلکہ بسااوقات شروفساد کا بول بالا ہوتا ہے۔
دولت کی حرص منصب کی طلب اور شہرت کی خواہش نے آج مسلم علماء زعماء اور قائدین کو عموما یا تو بھکاری بنادیا ہے، یا کاسہ لیس، یا پھر دونوں اورہیہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں نے انھیں ناکارہ بنادیا ہے۔ کاسہ لیسی اور بھکاری پن میں ایک مضبوط رشتہ ہے۔ دونوں پن میں مبتلا فرد کو بے شرم، چہرے کا پانی اترا ہوا، سطحی، بے کردار اور کمزور بنادیتے ہیں۔ ایسوں کی کوئی پہچان اور شناخت نہیں رہ جاتی، یہ ہر جمشید کا ساغر اور ہر کس وناکس کا کف گیر بننے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان کی لذت حیات اس میں پنہاں ہوتی ہے کہ تملق کریں۔ ہمیں است ماہ وپروین کا ورد کریں۔ دوسروں کی آقائیت کا کلمہ پڑھیں، انھیں خوش کرنے کا ہر جتن کریں، طفلانہ حرکتیں کریں۔ اور میمنوں کی طرح ممیائیں۔ اور مفادات کے مطابق گرگٹ کی طرح رنگ بدلیں، آقاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں، وفادار کتوں کی طرح دم ہلاتے لیٹ جائیں اور ماتحتوں کے سامنے اکڑ اور جبروت کا مظاہرہ کریں اور ہر لمحہ ان کی گردن پر سوار رہیں۔
یہ ساری حرکتیں محض ایک نہایت چھوٹے کام کے لیے ہوتی ہیں ان کا حاصل فقط یہ ہوتا ہے کہ مادی مفادات حاصل ہوجائیں۔ فردی خواہشات پوری ہوجائیں۔
مستقبل کا مورخ اگر آج کے ان قائدین کی حالت پر لکھنے کے لیے قلم کو حرکت دینا چاہے گا اور ان کا گہرائی سے جائزہ لے گا تو حیرت زدہ رہ جائے گا کہ اس عصر علم وآگاہی اور حریت میں مسلمانوں کی دینی وملی قیادت ایسی نکما گھٹیا اور ناکارہ ہے۔
جس قوم کی قیادت بھکاریوں اور کاسہ لیسوں کے ہاتھ میں آجائے ان سے کسی خیر کی توقع عبث ہے۔ غیروں کے دست نگر اور دوسروں کی مسیحائی کے امیدوار قوم کو کیا دے سکتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ قوم وملت کی خدمت کے لیے سرمایہ فراہم کرنا ایک نہایت ہی نیک کام ہے۔ ہر دور میں ہر ملک میں ہر قوم میں تعلیم، خدمت خلق اور خدمت دین کے لیے زعماء علماء اور قائدین کو سرمایہ فراہم کرنے کی ضرورت پڑی ہے اور انھیں عوام اور سرمایہ داروں کے پاس جانا پڑا ہے اور اپیل کرنی پڑی ہے۔ اس دور میں اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، اقوام متحدہ چندوں پر قائم ہے۔ دنیا کے ساری رفاہی ادارے چندوں سے چلتے ہیں سارے این جی او کا انحصار چندوں پر ہے۔ سارے جمہوری ملکوں میں چندوں کے بل پر الیکشن لڑا جاتا ہے۔
اسلام نے خدمت دین، خدمت خلق اور خدمت ملک وقوم کے لیے چیریٹی کے راستے خاص کر کھولے ہیں۔ اور انفاق فی سبیل اللہ کی بے شمار راہیں نکالی ہیں۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے اندر جو جذبہ انفاق پیدا کیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ مسلم اہل ثروت دل کھول کر دست تعاون بڑھاتے ہیں۔
جن لوگوں کو خدمت دین علم اور خدمت خلق کے لیے سرمایہ ملتا ہے ان کی شرعی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ اسے امانت جانیں، اس میں شرعی طور پر تصرف کریں۔ جائز جگہوں پر خرچ کریں۔ شفافیت کو ملحوظ رکھیں اور قوم کے سامنے حساب کتاب پیش کریں۔ یا کم ازکم رفقاء کو صحیح حساب کتاب سے آگاہ رکھیں۔ اگر کسی فرد یا انجمن کو امانت ودیانت سے دین وملت کی خدمت کی توفیق ملتی ہے اور بے نفسی و اخلاص کے ساتھ راہ دین میں بھاگ دوڑ ہوتی ہے تو ایسے لوگ اور ایسی انجمن کے لوگ قوم کے محسن اور مقدس لوگ ہیں اور قوم وملت کے لیے مایہ ناز ہیں اور باعث افتخار بھی۔ ایسے لوگ برگزیدہ ہوتے ہیں اور نازش ملک ووطن اور اللہ کے محبوب بندے۔ لیکن خدمت دین وملت کے نام پر آج ایک جم غفیر ایسا ہے جو اصحاب خیر سے سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ اور اسے ذاتی ملکیت اور مال غنیمت بنالیتا ہے اور اس میں خود مختارانہ اور آزادانہ تصرف کرتا ہے۔ اسے امانت کے ساتھ صحیح مصارف میں خرچ نہیں کرتا۔ اور پھراسے مال موروث بنا ڈالتا ہے۔ پہلے کمیشن کا چکر تھا۔ اب کلی ذاتی ملکیت کا مسئلہ ہے۔ خدمت دین وخدمت خلق ذاتی اور سری مسئلہ نہیں ہے یہ ملی وسماجی مسئلہ ہے۔ فرد واحد کی سریت ذاتی اختیار اور فردی تصرف شرعا غلط ہے اور اگر اس امانت میں کھلی جارحیت اور غبن وخیانت ہو تو مسئلہ نازک تر اور خطرناک ترین بن جاتا ہے۔ اور کار خیر بھی فساد اور فتنے کا سبب بن جاتا ہے۔خیرات کے مال پر ایسے تماشے ایسی بوالعجبیاں اور ایسی شیخیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ خون پسینے کی کمائی پر بھی شریف انسان ایسی عیاشیوں کروفر اور چم خم کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ لمبی خیرات پانے والے بگڑے ہوئے نوابوں کی روش پکڑے ہوئے ہیں۔ وہی اٹکھیلیاں، وہی ناز نخرے، وہی غرورنخوت، دین کے نام پر ثروت جمع کرنے والے اور اسے ذاتی ملکیت کی طرح اپنے تصرف میں کام لانے والے دراصل بھکاری ہیں۔ بھکاری بھی صرف اپنی ذات ہی کے لیے مانگتا ہے اور اپنی جیب وپیٹ کے لیے مرتا ہے۔ افسوس اس وقت ملت اسلامیہ ہند میں سفید پوش، کارنشین بھکاریوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ بھکاریوں اور ان سفید پوش بھکاریوں کے درمیان ذہنیت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونو ں کے ہاں ماء الوجہ بھی نہیں ہوتا۔دونوں پستی میں گرے ہوتے ہیں۔ دونوں کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خیراتی پیسے کے بل پر یہ بگڑے سماج میں جگہ بنالیں اور ان کے لیے جگہ بنانا لازمی ہوتا ہے اور لازما ایسا سفید پوش بھکاری کرتے ہیں۔ سفید پوش بھکاری بسا اوقات تضرع، پستی، گڑگڑا نے اور اصرار والحاح کرنے میں اصلی بھکاریوں سے آگے ہوتے ہیں۔ سفید پوش بھکاری رعونت، تلون مزاجی اور کاسہ لیسی میں اصلی بھکاریوں پر سبقت لے جاتے ہیں۔ سفید پوش بھکاری رعونت، تلون مزاجی اور کاسہ لیسی میں ااتنے آگے ہوتے ہیں کہ ایک خراب ترین دنیا دار اس نچلی سطح تک نہیں اترسکتا۔
ان سفید پوش بھکاریوں کو بھکاری کہنا مال غیر کو اپنا بنانے، اپنا سمجھنے اور بے اصولی طور
پر اپنی خواہش نفس کے مطابق عیاشی تن پروری اور جائداد وپراپرٹی بنانے کے سبب ہے۔ ان کے لیے یہ ہلکا خطاب ہوسکتا ہے۔ ورنہ خیانت غبن فصول خرچی بے ایمانی کی کون سی فساد کی ادا ہے جو ان سے چھوٹی ہوئی ہے۔
ان بھکاریوں میں سب سے آگے وہ لوگ ہیں جو دانشور قسم کے ہیں۔ یہ تھوک کے حساب سے جھوٹ بول سکتے ہیں۔ جھوٹ کو سچ بناکر ڈھٹائی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ انھیں آتا ہے۔ اور کبھی پوری ملت اسلامیہ ہند سے کم پر سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ شعوری مسلمان اور مسٹر قسم کے لوگ ہیں۔ ملت کا درد ان کے اندر اتنا ہوتا ہے کہ یہ درد ان کے پورے جسم سے اٹھتا ہے خصوصا جیب اور شکم سے اٹھتا ہے۔ درد ملت سے سارا جسم چھلنی ہے درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے۔ دانشور قسم کے ان بھکاریوں کی ٹیم بھی ہے اور انفرادی شکل بھی ہے۔ یہ یورنیورسٹی، ہاسٹل، ہاؤسنگ اور سیاسی ترقی سے کم کی بات نہیں کرتے۔ یہ جب بھیک مانگنے اٹھتے ہیں تو اسخیا کی سخاوت کو چیلنج کردیتے، وزارتوں اور اوقافوں کو ہلاکر رکھ دیتے ہیں۔ انھیں یہ بتلاتے ہیں دیکھو حکومت ہند ہمارے دم سے قائم ہے۔ دین کے ہم ٹھیکیدار ہیں۔ مسلم سماج پر ہمارا کنٹرول ہے۔ کار دین ہم ہی چلاتے ہیں۔ مسلم بچوں کی تعلیم کے ہم ذمہ دار ہیں۔ غیرمسلموں میں دعوت وتبلیغ کی ہلچل ہم سے بپا ہے۔ بیواؤں یتیموں کو ہم پالتے ہیں۔ ہماری جھولی بھردو، ورنہ قیامت کے روز ہم تمھارا دامن پکڑیں گے۔
دانشور قسم کے بھکاری تھوک کے حساب سے جھوٹ بولتے ہیں پلان اور منصوبوں کا جال بچھاتے ہیں لب ولہجے کو جذبات کے آنسوؤں میں بھگوکر باعث کشش بناتے ہیں۔ اپنے جھوٹے کارناموں کو ضرب وتقسیم کے حسابوں کے ساتھ سناتے اور پیش کرتے، اپنی قابلیت صلاحیت اور سچائی کی قسمیں کھاتے ہیں اور جب توقع سے بڑھ کر زر و مال مل جاتا ہے تو آل اولاد خاندان دوست احباب کے مستقبل کو مزدھر بنانے کا منصوبہ بنانے لگتے ہیں۔ اور بیٹھ کر سازشیں کرتے ہیں مکر و فریب کی رپورٹیں بنتی ہیں۔
یہ سارے کے سارے مطلب پرست، مادہ پرست اور روباہ صفت ہیں اور بھک منگائی کی عادت میں اتنا پختہ ہوتے ہیں کہ زرو مال کے سوا انھیں کبھی کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ مفادات کے حصول کے ایسے دیوانے ہوتے ہیں کہ نصف النہار میں بھی خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے دل وجان حب مال کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں اور اس کی خاطر تقارب وتوادد کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔
ایسے دانشور بھک منگے قسم کے مولویوں سے اس فن میں ہزار گنا آگے ہیں۔ ایسے بھکاری خاص کر لکھنؤ، علی گڑھ، دہلی اور ممبئی میں ہیں اور ان کی طرح دوسرے درجے میں دوسری جگہ بھی ہیں۔ ان میں کوئی دین وملت کا ٹھیکیدار ہے کوئی علم کا، کوئی سماج کا، کوئی تہذیب وثقافت کا اور کوئی پوری ملت اور دین کا۔ کوئی ٹی وی کے سہارے اور حوالے سے بھیک مانگ رہا ہے، کوئی تعلیم کے نام پر مانگتا ہے کوئی مطالعات کے نام پر۔۔۔ یہ ننگ قوم وملت کیڑے ہیں۔ کہیں بھی مال وزر کے حصول کے لیے جاسکتے ہیں۔ اساڑھ کی مچھلیوں کی طرح بولائے ہوتے ہیں۔
ان بھکاریوں میں ایسی ایسی بیر بہوٹیاں ہیں کہ اصلی بیر بہوٹیاں ان کے سامنے پانی بھریں۔ ان کے خیالات ایسے بھنگ ودھتورے ہیں کہ صحیح العقل سلیم الطبع انسان ان کی دمک کو دیکھ کر چکرا جائے اور ان کی بوئے بے مثال سے بے ہوش ہوجائے۔
ان متسول دانشوروں کے بجٹ اور منصوبے کروڑوں میں جاتے ہیں، اخباروں میں ایک گروہ متسولین کے ایک عظیم منصوبے کی خبر شائع ہوئی۔ پچپن سو کروڑ ض، شاید منصوبہ سازوں کی جیب میں پچپن روپئے نہ ہوں مال مفت دل بے رحم۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں جینے اور کشکول گدائی رکھنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے، اڑنے چہکنے مچلنے میں آسانی ہوتی ہے اور بڑا لطف بھی آتا ہے۔
ان متسولین کے پاس سیاسی ذوق بھی ہے اور سیاسی جال میں نیتاؤں شریفوں رذیلوں اور نہ معلوم کن کن لوگوں کو اسیر کر رکھا ہے اور بھانت بھانت کے سیاسی جانوروں کو پال بھی رکھا ہے۔ ان کی لنگڑی بے منفعت اور شیخ چلیوں والی سیاست کاری فقط دماغ کی کھجلی دور کرنے کے لیے ہوتی ہے اور محض الھڑپن اور پھکڑپن۔
ان میں اڈوانی قسم کے متسول کارواں نکالنے، نیتاؤں اور پبلک میں بھاؤ بڑھانے کے بڑے شوقین ہیں۔ ان کے تعلقات نیتاؤں سے تاریکی میں بھی بنتے ہیں اور دن کے اجالے میں بھی۔ اور جو بھی پوزیشن میں ہو وہ ان کے ڈیڈی اور دیدی ہوتی ہیں۔ یہ ڈھٹائی کی سانس لیتے ہیں اور بے شرمی کا لقمہ کھاتے ہیں، علم سے انھیں بیر ہے۔ تاکہ علم کی بیڑی پاؤں میں نہ پڑے اور نشاط کار میں کمی نہ آئے، اور کرایہ کے قلمکاروں سے تعلق ہے تاکہ یافت میں کمی نہ آجائے اور ان یتامی پر ان کا راج قائم رہے۔
ان سے زیادہ خطرناک وہ سرمہ باز طروں اور کشتی نما ٹوپیوں والے کفش بردار کاسہ لیس سیاسی مولوی ہیں جو ملت کا دہائیوں سے سودا کرتے ہیں، سیاست کی کمائی کھاتے ہیں اور باوجود ریش اطول جبہ دراز خونخوار بھیڑیوں کی طرح ہردم باہم لڑتے اور دانت نکالتے رہتے ہیں اور نذرانہ عقیدت بھی وصول کرتے ہیں۔ دبائیوں سے تین پشتوں سے ذلت کی روٹی کھانی ان کی زندگی کا مشغلہ ہے۔ حال ہی میں اس قبیلے کے ایک سورما نے جے بھیم کے نعرے کے ساتھ ایک دلت پارٹی میں داخلہ لیا ہے۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اس قبیلے نے اتراکھنڈ یوپی کی یاترا کی، کانگریس، لوک دل، ایس پی، بی ایس پی کا طواف کیا ہے۔ پتہ نہیں کب تک یہ کاسہ لیسی بے ضمیری اور بے شرمی کا سفر جاری رہے گا۔ ملت کی سوداگری کی قیمت کھانے کا بہت اچھا اثر پڑا ہے۔ پوری نسل ہی ذلت کی خاک چاٹنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ یہ شریف ذات چندہ خوری اور چندہ بٹوری اور ذلت چٹوری میں بھی ماہر ہے، گویا اس ذات شریف میں دونوں خوبیاں جمع ہیں۔ بھکاری پن بھی اور کاسہ لیسی بھی۔ یہ ذات شریف مجمع البحرین ہوئی۔ جس قوم میں ایسے یکتائے روزگار ہوں اس قوم کی بربادی کے لیے کسی دشمن کی ضرورت ہے؟
سیاسی کاسہ لیس مسٹروں اور مولویوں کی ایک فصل ہے۔ ایک وحشی ڈار ہے۔ جو دنیا کے سارے رذائل کو بخوشی اپنائے اٹھائے اور انجام دینے کے لیے تیار ہے۔ گاؤں تحصیل قصبہ تھانہ صوبہ اور ملک کے پیمانے پر ایسے رسوائے زمانہ سیاسی حیوانوں کی بھیڑ لگی ہے۔ قطار اندر قطار ان کا تانتا بندھا ہوا ہے اور سارے مجرم نیتاؤں کے کارواں میں شامل، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں۔ اور انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کی طرف کوئی ٹکڑا پھینک دیا جائے۔ یہ بندگان رذالت قوم کو سوائے رسوائیوں کے اور کیا دے سکتے ہیں۔ حیرت ہے یہ سیاسی ذلیل ذات، دشمن انسانیت دہشت گرد، مسلم دشمن پارٹیوں کے ٹھگ خونخوار اور ڈاکو لیڈروں کی جوتیاں سینوں سے لگائے پھرتے ہیں۔
بھکاریوں کی ایک قسم دنیا دار علماء سوء کی ہے۔ اگر انھیں یافت کی امید ہو تو کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ کہیں بھی لائن لگاسکتے ہیں۔ بات بنانی انھیں آتی ہے۔ اور ہرایک منہ پر ہاں کہنا وہ جانتے ہیں۔ شکل وصورت دیندارو ں کی سی اور ہر ایک پر فدا ہونے کو تیار اور تنہائی میں بالکل اس کے الٹا جو محفل میں ہے، ہوس زر میں طاق، مگر غم ملت میں گھل گھل کر موٹے۔ یہ بھکاری سماج کے لیے گھن بن گئے ہیں۔ اقدار حیات، مروت واخلاق کے دشمن ہیں اور ملت کے لیے ننگ ہیں۔ نفاق کوئی ان سے سیکھے، مکر کے ماہر آراجیت کے فنکار لوگوں کو بے وقوف بنانے میں ماہر یہ ہیں۔
یہ روگ اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ لاعلاج ہوا جارہا ہے۔ ان سے فتنہ وفساد زیادہ پھیلتا ہے اور خیر کم۔ جو لوگ بے دین فسادی بے آبرو ننگے اور خائن ہوں ان سے خیر کی امید کیسے کرسکتے ہیں۔ ایسے فاسق وفاجر علمی ودینی محفلوں میں صدر محفل بننے کے بھی خواہش مند رہتے ہیں اور بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انھیں ہارمالا بھی پہنانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
اور بہت سے متفلسف یوں بھی فیصلے سناتے ہیں کہ کوئی بات نہیں کام تو ہوتا ہے کھالینے دو آدھا، آدھا تو قوم کو دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو امانت میں معمولی خیانت کو بھی جہنم کا پیش خیمہ قرار دیں اور امتی دین کا سارا اختیار لینے کو تیار، اباحیت غبن فساد اور بے ایمانی کو جائز قرار دینے پر تلے نظر آئیں۔
ان دنیادار، روباہی صفت دانشوروں اور علماء سوء کو چاہیے کہ ایک مقدس کام کو جس طرح پامال کرتے ہیں اس سے باز رہیں یا کم ازکم ہاتھ میں کشکول رکھا کریں تاکہ لوگوں کو یہ اندازہ ہوجائے کہ یہ قوم وملت کے خادم نہیں۔ یہ ڈھونگی ہیں۔ محض اپنا پیٹ پالتے ہیں اور شیخی بگھارتے ہیں اور بے خبر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کوئی ان کا محاسبہ کرنے والا نہیں۔ اس لیے ان کی اکڑ اور نخوت بڑھتی جارہی ہے۔
یہاں پھر اس حقیقت کا اعادہ ضروری ہے کہ جو اخلاص اور امانت داری کے ساتھ دین وملت کی خدمت کرتے ہیں اور سرمایہ فراہم کرنے کے لیے گلی گلی کی خاک چھانتے ہیں وہ انبیائی مشن میں لگے ہیں۔ ان کا احترام کرنا ہر ایک کے اوپر لازم، وہ قوم کے محسن ہیں۔ ملت ان کے دم سے زندہ ہے، ان کی حرارت ایمانی سے سماج میں توانائی برقرار ہے۔ وہ ملت کے لیے سرمایہ ناز ہیں اور نازش قوم وملک ہیں۔ اللہ ان کی محنتوں کو بارآور کرے۔
آپ کے تبصرے