ارنب گوسوامی چیٹ لیک اور میڈیا کی حیثیت

ابوالمیزان منظرنما

کوئی بھی کام ہو اسے کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک ہی کام کے مقاصد میں تبدیلی کے ساتھ اس کے اصولوں میں تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ دنیا میں جتنی حکومتیں ہیں، سب کی اپنی اپنی آئیڈیالوجی ہے اسی لیے ان کے طرز حکومت میں بھی نمایاں فرق ہے۔ حکومت ہو یا رعایت، ایک طریقہ اللہ کا بتایا ہوا ہے۔ اسے چھوڑ کر دنیا میں جتنے طریقے بھی رائج ہیں سب مختلف ہونے کے باوجود ایک ہیں، یہ وحدت ہی ان میں مشترک ہے۔ الکفر ملة واحدة
ہماری دنیا میں کچھ سادہ لوح مسلمان ایسے بھی ہیں جنھیں صحافت صلاح الدین ایوبی کی طرح ہاتھ میں تلوار لیے گھوڑے پر سوار نظر آتی ہے، عدلیہ سے جو امیدیں نہیں بندھتیں وہ صحافت سے باندھ لی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہی صحافت بادشاہت کے زمانے میں قصیدہ گوئی سے اپنا پیٹ پالتی رہی ہے۔ شعراء ہجو بھی تبھی کرتے تھے جب نوازش روک لی جاتی تھی یا حسب توقع نہیں ملتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ زمانے کے اعتبار سے صحافت کے فارم اور وسائل بدلتے رہے ہیں۔ کبھی شعر مقبول تھا اب نثر زیادہ ہے۔
متعینہ اصولوں پر حکومت ہوتی ہے اور طے شدہ آدرشوں پر ہی صحافت بھی۔ صحافت کوئی اللہ کی پیغمبری تھوڑی نہ ہے کہ خیر کی وکالت کرے گی۔ صحافت ڈیموکریسی میں یا تو حکومت کی مشنری ہوتی ہے یا پھر اپوزیشن کی دفاعی اور الزامی مشین۔ حکومت کے زیر نگیں ہوگی تو قصیدہ خوانی کرے گی اور اپوزیشن کی ماتحتی میں ہوگی تو بر سر اقتدار پارٹی کی ہجو۔ میڈیا کی ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے جو خالص تجارت کرتی ہے، حکومت جیسی طاقت ور چیز کے سامنے یہ تبھی ٹھہرتی ہے جب اس کا سرمایہ دارانہ مرتبہ بڑا ہوتا ہے حالانکہ ڈیموکریسی میں اسے بھی زیر کرلیا جاتا ہے اور عارضی طور پر ہی سہی اس کی حیثیت حکومتی مشنری کی ہوجاتی ہے۔ یوں بھی جس کے اصول تجارتی بنیادوں پر قائم ہوں اس کے لیے منافع کی اہمیت ہوتی ہے خواہ اشتہارات سے کمائی ہو یا حکومت کی قصیدہ خوانی سے۔
میڈیا کی ان مختلف شکلوں کے درمیان ذاتی مفاد سے بالاتر ایک معمولی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو ایمان والے ہوتے ہیں اور اللہ کے دین پر قائم رہتے ہوئے خیرو شر کے مابین تمیز کرکے جیتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے طریقے سے صحافت کرتے ہیں، انھیں دوسرے مقاصد زیر نہیں کرپاتے۔ یہ لوگ تمام انبیاء، ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے راستے پر چلتے ہیں۔
تھوڑی دیانت گنتی کے کچھ غیر مسلموں میں بھی ہوتی ہے، صحافت میں وہ بھی بددیانتی نہیں کرتے۔ روش کمار صاحب اس کیٹیگری کی ایک مثال ہیں۔ اللہ رب العالمین ایسے دیانت دار صحافیوں کو دین اسلام کی دولت سے مالامال کرے۔
ڈیموکریسی کا چوتھا ستون تو ہے میڈیا مگر اقتدار کے لیے، عوام کے لیے نہیں۔ پالیٹکس میں جس کے پاس پاور ہوتا ہے اسی کی پولیس بھی ہوتی ہے اور اسی کی پترکاریتا بھی۔ جو پولیس پاور کے مفاد میں کام نہیں کرتی اس کا حشر کرکرے جیسا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو پترکاریتا پاور کے خلاف جاتی ہے اس کا انجام گوری لنکیش جیسا ہوتا ہے۔
ارنب گوسوامی کے چیٹ لیک میں مندرجہ بالا تمام باتوں کے شواہد موجود ہیں۔ یہی شواہد حقائق ہیں، تلخ حقائق۔ ان کا ادراک ہونا چاہیے۔ چہ جائیکہ ہم مطلق صحافت سے پیغمبری کی امید رکھیں۔

آپ کے تبصرے

3000