گداگری کا بڑھتا رجحان نکاح مشکل سفاح آسان

تسلیم حفاظ عالی سماجیات

زمانہ جیسے جیسے ماڈرن بنتے جارہا ہے ویسے ویسے گدا گری کی مختلف قسمیں بھی معاشرے کے اندرترقی پذیر ہوتی جارہی ہیں۔ گدا گر تواضع کند خوے اوست کے تحت عام مشاہدہ یہ ہے کہ بھیک مانگنے والا عاجزی وخاکساری اختیار کرتا ہے، بھیک دینے والے کے سامنے لجاجت وفروتنی کا مظاہرہ کرتا ہے ، الحاح و زاری کرکے بھیک کی کمیت کو فزوں سے فزوں تر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن گدا گری کی ایک ایسی قسم معاشرے کے اندر دن بہ دن زور پکڑتی جارہی ہے جس میں بھیک دینے والا ہی رو بہ قفا اورمجبور محض دکھائی دے رہا ہے، اسے ہی منت سماجت کرنی پڑ رہی ہے اور اپنی مجبوری و بے بسی کا اظہار بڑے ہی درد و کرب کے ساتھ کرنا پڑ رہا ہے۔
شرمناک گدا گری کے اس تیز وتند جھکڑ کی زد میں ان تمام بہنوں کی آہیں اور سسکیاں دم توڑ رہی ہیں جن کے باپ کی خالی جھولیاں کاسہ ہاے گداگرانِ بے آبرو کو بھرنے سے قاصر ہیں ۔ کتنی بہنیں باپ کی مجبوری اور اپنی بے بسی کے الم دل سوز کو برداشت نہیں کر پاتی ہیں اور اپنے آپ کو فنا کر لیتی ہیں اور کتنی دخترانِ حوا مجبور باپ کی چوکھٹ پر خاوند نادیدگی کے غم جاں گسل کے ساتھ ایام شباب گزار رہی ہیں۔
عہد نبوی کی شادیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ مال کا مطالبہ نکاح کے اشتیاق مند مردوں سے کیا جاتا تھا، لڑکی اور اس کے والدین کو ذرا سی بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے بعد مدینے میں شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :«كَمْ سُقْتَ؟» مہر کتنا ادا کیا، تو انھوں نے کہا گٹھلی کے برابر سونا ۔(بخاری:۲۰۴۸)
آپ کے پاس ایک عورت آتی ہے اور کہتی ہےکہ میں اپنے آپ کو آپ پر ہبہ کرتی ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھنے کے بعد کسی طرح کا اظہار خیال نہیں کرتے ہیں ۔ ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر آپ کو اس سے شادی نہیں کرنی ہے تو میری کردیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ: «هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْئٍ؟ »کیا تمھارے پاس اسے دینے کے لیے کچھ ہے؟ جواب ملتا ہے نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گھر جاؤ اور تلاش کرو شاید کچھ مل جائے۔ وہ شخص گھر کی تلاشی لیتا ہے پر کچھ نہیں ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دیکھو گرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی سہی ۔ جواب ملتا ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوہے کی انگوٹھی تک بھی دستیاب نہیں۔ بس میرے پاس ایک لنگی ہے اس کا آدھا حصہ اسے دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس سے کیا کام بنے گا اگر تم اسے پہنوگے تو اس پر عریانی طاری رہے گی اور اگر وہ پہنے گی تو تم بے ستر ہو جاوگے ۔ بالآخر تعلیم قرآن کے عوض نکاح انجام پذیر ہوتا ہے ۔(بخاری:۵۰۸۷)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فاطمہ کی میرے ساتھ رخصتی کردیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :«أَعْطِھَا شَيْئًا»اسے کچھ دو۔میں نے کہا کہ میرے پاس توکچھ بھی نہیں ہے۔آپﷺ نے فرمایا کہ تمھاری حطمی زرع کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ میرے پاس ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: «فَأَعْطِھَا إِيَّاهُ» تو پھر وہی اسے دے دو۔( صحیح نسائی:۳۳۵۷)
مذکورہ بالا مثالوں اور کتاب و سنت کی دیگر نصوص پر غور کیجیے تو پتہ چلےگا کہ مال کا مطالبہ مردوں سے کیا جانا چاہیے نہ کہ عورتوں سے۔ اللہ تعالی نے مردوں کو قوام بنایا ہی اس لیے ہے کہ وہ عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ مرد کی انفاق کی صفت وخصوصیت اگر مفقود ہوجائے تو اس کی قوامیت کا مسلوب ہونا اور اس کی رجولت کا خطرے میں پڑنا لابدی امر ہے۔ اور اس کے مظاہر واثرات ہر ذی شعور کے سامنے عیاں وبیاں ہیں۔
جہیز کی قباحت وشناعت اور اس کی تباہ کاریوں پر وافر مقدار میں مقالات و بیانات اور کتابیں موجود ہیں۔ اس کی موجودہ بدترین شکلوں کے پیش نظر اسے میں نے گدا گری کا نام دینا ہی مناسب سمجھا ہے۔ قبل از نکاح لڑکی کے باپ سے موٹی رقم کا مطالبہ اور اسی رقم سے نکاح کے اخراجات کی تکمیل اور براے نام مہر وغیرہ کی ادائیگی کس قدر غیر شرعی اور شرمناک عمل ہے۔ظاہر ہے نکاح خوانی سے پہلےوصول کردہ رقم مروجہ غیر شرعی جہیز کے باب میں بھی نہیں آتی بلکہ یہ کھلی دریوزہ گری ہے۔اس بے رحم وبے مروت گدا گری نے کتنی بنات حوا کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں، کتنے مجبور باپ کو خود کشی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کی حد تک محدود رہنے والے لوگوں کو اس کا اس قدر صحیح احساس نہیں ہو سکتا جتنا عینی شاہدین کو ہو سکتا ہے۔ ایک غریب باپ ان گدا گروں کی جھولیاں بھرنے کے لیے بیٹی کی پیدائش کے دن ہی سے پائی پائی جوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ کتنے تو اپنی رہائش گاہ تک کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تعلیم وتربیت اور سیرت وصورت اس گھٹیا گدائی کے سامنے دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ کوئی باپ اپنی لخت جگر اور لاڈلی کی لاکھ تربیت کرلے اور اسے تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کرلے اسے ان بھک منگوں کےرذیل مطالبات پورےنہ کرنے کی صورت میں مایوس ہونا ہی پڑتا ہے۔پائے گدا لنگ نیست و ملک خدا تنگ نیست کے بمصداق یہ بھک منگے سیرت وصورت اور دین داری و تقوی شعاری کے اوصاف کو پس پشت ڈال کر کشکول بھرنے کے چکر میں در در کا چکر لگاتے پھرتے ہیں ۔ کہیں نہ کہیں سے کشکول تو بھر جاتا ہے لیکن تعلیم و تربیت کو نظرانداز کرنے کی پاداش میں ایسے پائے در گل کے دل میں ہمیشہ نشتر چبھتا رہتا ہے اور کبھی انھیں حقیقی چین و سکون میسر نہیں ہوتا۔
جوانی کا اپنا تقاضا ہے۔ اللہ تعالی نے فرزندان آدم و دختران حوا کے اندر جنسی قوت و کشش اور نفسانی خواہشات و تقاضے ودیعت کیے ہیں۔ان کی عدم تکمیل کی صورت میں نفس کے میلانات و اشتیاقات پر کنٹرول کر پانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔جس کی خشیت وتقوی شعاری شیطانی ترغیبات پر غالب رہتی ہے وہ اپنے دامن کو داغدار ہونے سے بچا لیتا ہے اور جو مرغوبات نفس کی رو میں بہہ جاتا ہے وہ اپنے دامن کو کیچڑ آلود ہونے سے نہیں بچا پاتا ہے۔
نکاح ایسا پاکیزہ اور مقدس فریضہ ہے کہ اس کے ذریعے جنسی جذبات کی تسکین کے ساتھ ساتھ الله تعالی دو اجنبیوں کے درمیان ایسے حسین تعلقات استوار فرمادیتا ہے اور ایسی الفت ومحبت پیدا کردیتا ہے کہ اگر ساری کائنات بھی اکٹھی ہوجائے تو اتنی محبت نہ پیدا کرسکے۔اسی عدیم المثال باہمی خوشگوار محبت کی وجہ سے جہاں بیوی اپنے شوہر کے لیے سکون قلب اور گھریلو اطمینان کا ذریعہ بنتی ہے، جس کی وجہ سےوہ تمام تر دینی ودنیوی مشاغل وواجبات بھرپور نشاط وانبساط کے ساتھ سر انجام دیتا ہے وہیں شوہر اپنی بیوی کو معاشی الجھنوں سے نجات اور چادر وچہار دیواری کا مضبوط حصار فراہم کرتا ہے اور اس کی عزت وآبرو کا محافظ بنتا ہے۔اسی اسلامی طرز معاشرت کے ذریعے ہی انسانی معاشرے میں عفت وپاکدامنی اور امن وآشتی کی استواری ممکن ہے۔اس لیے مذہب اسلام نے نکاح کو آسان سے آسان تر بنانے کا حکم دیا ہے تاکہ سفاح مشکل سے مشکل تر ہوجائے اور اس کے سارے دروازے مسدود ہوجائیں۔ لیکن جب ہم نے اسلام کے اس خوشگوار نظام حیات سے انحراف کرکے ابلیسی نظام کو اپنا لیا اور شیطانی رسم ورواج کی ترویج واشاعت میں مگن ہوگئے تو اسلام کا آسان کردہ نکاح مشکل ہوگیا اور زنا کاری وبدکاری آسان و عام ہوگئی۔
عزم مضبوط ہو اور حوصلہ بلند ہو تو کوئی بھی کام مشکل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے دردمندان قوم وملت سر جوڑ کر سوچیں،ان بھک منگوں کی کلاس لیں اور یہ ٹھان لیں کہ اس ابلیسی رواج تباہ کن کی بیخ کنی کرکے ہی دم لیں گے۔ اللہ تعالی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000