۱۹۶۵ء میں جامعہ رحمانیہ مدن پورہ بنارس کے ہوسٹل دار الاقامہ (پانڈے حویلی ) میں آتے جاتے میں نے آزاد صاحب کا ذکر خیر سنا اور معلوم ہوا کہ آپ شاعر وادیب ہیں۔ آزاد تخلص ہے ۔اسی سے شہرت ہے۔ ابتدائی ایام میں ہم لوگ آزاد صاحب کی طرح مولانا محمد عابد حسن رحمانی کو بھی عابد صاحب کہتے تھے۔ ایک بڑے طالب علم نے تنبیہ کی کہ عابد صاحب نہ کہو ، مولانا کہو، وہ شاعر نہیں ہیں۔ آزاد تو لقب ہے،نام مولانا محمد ادریس رحمانی املوی ہے۔ اس کے بعد ہم شیخین کے درمیان فرق کرنے لگے۔اب عابد صاحب مولانا عابدصاحب ہوگئے اور آزاد صاحب ، آزاد صاحب ہی رہے۔البتہ بات چیت میں ہم انھیں مولانا صاحب کہتے تھے۔
علامہ نذیر احمدرحمانی املوی [وفات۱۹۶۵ء]جامعہ رحمانیہ کے شیخ الحدیث تھے۔ سب انھیں ’’بڑے مولانا‘‘ کہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آزاد صاحب محدث عبدالرحمن مبارکپوری اورشیخین: شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری اور شیخ الحدیث نذیر احمد رحمانی املوی کے شاگرد رشید ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاب گڑھی سے بھی انھیں شرف تلمذ حاصل ہے۔
جامعہ رحمانیہ میں عربی جماعت رابعہ تک کے اساتذہ چند ہی تھے۔ ۶۶ء میں جامعہ سلفیہ میں تعلیم کے افتتاح کے بعد حضرات اساتذہ کرام جامعہ رحمانیہ: آزاد صاحب، شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحیدرحمانی بنارسی اور مولانا محمد عابد حسن رحمانی رحمہم اللہ تعالی عیدالاضحی کےبعد جامعہ سلفیہ منتقل ہوگئے۔ رہائش بھی وہیں تھی۔ ہم رحمانیہ کے طلبہ ہفتے میں کئی روز عصر کے بعد جامعہ سلفیہ کی سیر کرنے جاتے تھے۔ وہاں پر آزاد صاحب کو دوسرے اساتذہ کے ساتھ دیکھتے۔
جامعہ سلفیہ کی تاسیس ۱۹۶۳ء میں ہوئی۔ اس وقت سے ۱۹۶۸ء تک کے جامعہ کے سارے اشتہارات، خطوط اوراستقبالیہ خطبے سب کے لکھنے لکھانے کے ذمے دارآزاد صاحب ہی تھے۔ آپ انتہائی دلچسپی اور اخلاص کے ساتھ ہنستے مسکراتے برضا ورغبت جامعہ کی تعمیر وترقی میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔
تدریس وافتاء کے فرائض بھی بھرپور انداز سے انجام دیتے ۔پریوا سے ہم چار طلبہ :میں ، میرے بھانجے کفایت اللہ بن حمایت اللہ خان، خاندانی رشتے کےبھتیجے محمد عفان بن محمد سلیمان خان اوراستاذمحترم مولاناابوالخیر رحمانی فاروقی کے صاحبزادے محمدابوالقاسم عربی کی تیسری جماعت کے طالب علم تھے۔ مولانا عبدالوحید رحمانی (جو بعد میں شیخ الجامعہ کے نام سے مشہور ہوئے) کے بھائی عبید اللہ ابو القاسم ہم سبق تھے۔فاروقی صاحب کے شاگرد اور ہم وطن ہونے کی وجہ سے اساتذہ بالخصوص شیخ الجامعہ اورآزاد صاحب کی ہم لوگوں پرخصوصی عنایات وتوجہات کچھ زیادہ ہی رہیں۔
جامعہ رحمانیہ کے پرانے استاذماسٹر عبدالحمید جونپوری، فاروقی صاحب کے یار غار تھے۔ ان کی سرپرستی اورخصوصی توجہ بھی ہمیں حاصل رہی ۔ان تمام امور کی وجہ سے بنارس کا ماحول ہمارے لیے گھر جیسا تھا۔شیخ ا لجامعہ کا پیار ملا۔اسی انسیت کے ماحول میں اساتذہ کرام کی چھوٹی موٹی خدمت بھی تھی ،جو ہمارے لیے ایک اعزاز سے کم نہ تھی۔شیخ الجامعہ زیادہ تر شام کے وقت آزاد صاحب کے کمرے میں تشریف لاتے۔ چاے پان کا دور چلتا۔ کبھی میٹھے سموسے والا آواز لگاتادارالاقامہ بلڈنگ کی چوک میں داخل ہوجاتا ۔طلبہ کے ساتھ اساتذہ بھی سموسے خریدتے۔اونچی کلاس کے ایک طالب علم بونڈیہارکے مولانا عبدالودود آزاد صاحب اور شیخ الجامعہ سے بڑے مانوس تھے۔ وہ سموسے لے کر ان کے کمرے میں جاتے۔شیخ الجامعہ کا دولت خانہ مدن پورہ محلے میں دارالاقامہ سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ آپ مجھے اکثر اپنے گھر بھیجتے کہ جاکر میرے لیے کھانا لے آو۔ آزاد صاحب کے کمرے میں شیخ الجامعہ ہمیشہ تشریف رکھتے تھے ۔ دونوں میں مثالی محبت اور دوستی تھی۔
ابتدا میں اساتذہ کرام میں مولانا محمد عابد حسن رحمانی اور مولانا عبد الوحید رحمانی نے ہمیں عید الاضحی کی چھٹی تک پڑھایا۔ مولانا عبد الحمید رحمانی بھی ۱۹۶۶ء میں رحمانیہ میں ہمارےمدرس تھے۔ بعد میں مولانا عبد السلام رحمانی جو الدار القیمۃ بھیونڈی میں تھے، ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مولانا محمد عابد حسن کے فاضل بھتیجے بنارس کے رحمانی فضلاء میں سے ہیں، وہ بھی تشریف لانے والےہیں۔ ان کی بھی تشریف آوری ہوئی ۔ کونڈوو،بونڈیہار(گونڈہ) سے مولانا عزیز احمد ندوی اور مبارکپور سے مولانا قرۃ العین تشریف لے آئے ۔ ان چاروں اساتذہ کرام سے تیسری جماعت میں ہم مختصر سی جماعت نے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ ماسٹر فیروز مرزاپوری انگریزی پڑھاتے تھےاور ماسٹر عبد الحمید صاحب جونپوری قرأت وتجوید۔ آزاد صاحب سے نہ پڑھ پانے کی خلش تھی، لیکن یہ اطمینان تھا کہ اگر اللہ نے توفیق دی تو جامعہ سلفیہ میں عالمیت میں دو سال بعد ان سے اور دوسرے اساتذہ کرام سے تحصیل علم کا سنہری موقع ملے گا۔رحمهم الله وغفر لهم جمیعا۔
جامعہ رحمانیہ میں شوال سے ذی الحجہ تک دار الاقامہ میں مقیم بڑی جماعت کے طلبہ سے بزرگ اساتذہ بالخصوص آزاد صاحب کے بارے میں خوب خوب تعریفیں سنتے رہے۔
۱۹۶۸ء میں جامعہ سلفیہ میں داخلہ ملتے ہی آزاد صاحب سے استفادے کے بھرپور مواقع فراہم ہوے۔ جامعہ رحمانیہ ہی سے ان مشایخ کرام رحمہم اللہ سے تعارف کی بنا پر ۶۸ء میں جیسے ہی استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری استاذ کی حیثیت سے جامعہ تشریف لائے، وہ پڑھنے لکھنے والے آدمی تھے۔ ازہری کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ ان سے تعارف ہوا۔ابتدا ہی سے شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید رحمانی اور آزاد صاحب مختلف مقالات و مضامین نقل کرنے کے لیے مجھے بلاتے تھے۔ میں الحمد للہ خوش خط تھا اور زود نویس بھی۔ ازہری صاحب نے مجلہ المعارف (اعظم گڑھ) میں اشاعت کے لیے کوئی مضمون تیار کیا تھا۔ جب میں شیخ الجامعہ اور آزاد صاحب کی ایک مجلس میں گیا تو شیخ الجامعہ نے فوراً کہا کہ ڈاکٹر صاحب پریوا کے طالب علم یہ عبد الرحمن ہیں، ان کو مقالہ صاف کرنے کے لیے دے دیجیے ،ان کی تحریر اچھی ہے۔ چند دنوں میں ڈاکٹر صاحب کے مقالے کو صاف کرکے ان کی خدمت میں حاضر کر دیا۔اس طرح سے ازہری صاحب کی توجہات وعنایات بھی حاصل ہوگئیں ۔
استاذ محترم آزاد صاحب پان خوری اور چائے نوشی میں مشہور تھے۔ عالمیت سال دوم کے طالب علم ہمارے محترم دوست ڈاکٹر عبدالوہاب صدیقی رحمہ اللہ کو آپ سے خصوصی تعلق خاطر تھا۔ وہ مولانا کی ٹوٹ کر خدمت کرتے تھے۔ چائے پان لانے اور بازار جانے کی خدمات محترم عبد الوہاب صدیقی اور مولانا عبدالرقیب بہاری عموما انجام دیتے تھے۔ آزاد صاحب کبھی کبھار مجھ سے بھی چائے منگواتے تھے، لیکن اکثر مجھ سے مقالات صاف کرواتے یا جامعہ کے نظام الاوقات اورنظام الامتحانات وغیرہ کے چارٹ تیار کرنےکی خدمت لیتے تھے۔
۶۸ء ہی میں ایک دن آفس میں مجھے بلایا گیا تو میں زیادہ جھک کر نظام الاوقات کو پڑھنے لگا۔ ایک استاذ نے کہا : لگتا ہے تمھاری نظر کمزور ہے۔ میں نے فوراً اسی دن آنکھ چیک کرائی تو پتا چلا کہ اب مجھے عینک لگانی پڑے گی۔ واقعی آنکھ کمزور تھی۔
استاذ محترم آزاد رحمانی کا طریقۂ تدریس وتالیف،ترجمہ ، فتوی نویسی، خطوط واشتہارات کا لکھنا اور بڑھ چڑھ کر سب کام کرنا ہماری نظر میں ان کی مزید وقعت واحترام کا سبب بنا۔
ہم لوگوں نے آپ سے حدیث میں صحیح مسلم اور سنن ابی داود، فقہ حنفی میں شرح الوقایہ والہدایہ اور فرائض میں سراجی، متعدد کتابیں پڑھیں۔
آزاد صاحب مفتی، فقیہ، محدث اور فرائضی ہونے کے ساتھ عربی، اردو اور فارسی زبان کے بھی ماہر تھے۔ اردو کے شاعر وادیب تھے۔ اس لیے کلاس اور انجمن میں بعض اوقات مناسبت سے اشعار بھی مسکراکر پڑھ دیتے تھے،جس سے ہم سب بڑا لطف اندوز ہوتے۔ فقہی کتابوں کے درس کے دوران کبھی طلبہ ٹیڑھے سوالات کرتے تو برجستہ جواب کے ساتھ زبان سے ظریفانہ جملے بھی نکل جاتے۔ ایک بار کسی طالب علم نے مدت رضاعت کے بعد عورت کے دودھ پینے سے اثبات رضاعت کے حکم کے بارے میں سوال کیا تو اس کی وضاحت فرمائی۔ ایک طالب علم نے مسکرا کر پوچھا کہ اگر آدمی اپنی بیوی کا دودھ پی لے ؟ فوراً مسکرا کر فرمایا کہ خوب پیو! پوری مجلس قہقہے میں ڈوب گئی ۔ آزاد صاحب بھی کھلکھلا پڑے۔ کتاب بند کرکے ہنستے ہوئے کلاس روم سے باہرنکل گئے۔ بر صغیر کے بریلوی اور دیوبندی احناف کے یہاں حلالے کا مسئلہ بھی ہمیشہ فقہاے کرام کے یہاں موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ حلالہ کے مسئلے پر بھی ایک بار بڑا ظریفانہ جملہ کسا۔ رحمہ اللہ۔
طریقۂ درس وتدریس:
آپ کا طریقہ درس وتدریس بڑا دل نشیں تھا،جس کو مختصرا سادگی وپرکاری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ تفصیل سے مسئلے کو آسان انداز سے سمجھاتے ،جس سے مشکل اور ادق مسائل بآسانی سمجھ میں آجاتے۔ طالب علمی کے زمانے میں طلبہ کی نظر میں اساتذہ کرام کی وہ وقعت نہیں ہوتی جو عملاً شعوری زندگی میں تجربے کے بعد ہوتی ہے۔ اگر ہم کچھ لکھ پڑھ لیتے ہیں تو اللہ تعالی کے بعداس کا فضل اساتذہ کرام ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ جس میں آزاد صاحب سر فہرست ہیں۔جزاہم اللہ خیرا، وارحمہم رحمۃ واسعۃ۔
تعلیمی وتدریسی لیاقت سے زیادہ اساتذہ کے اخلاقی رویے اورحسن سلوک سے طالب علم متاثر ہوتا ہے۔ا ٓزاد صاحب کے تواضع ،اخلاق اور اخلاص کا کون قائل اوران سے متاثر نہیں ہوگا؟
عالمیت کے سالوں میں ہم نے عالم (الہ آباد بورڈ) کا امتحان دیا۔ اس کے بعد دوسرے سال منشی فارسی کا۔ فارسی ۶۴ء میں مولانا ابوالخیر صاحب رحمانی فاروقی رحمہ اللہ سے گاوں میں تھوڑی سی پڑھی تھی، لیکن اتنی استعداد نہیں تھی کہ منشی کے امتحان میں بلا تیاری شرکت ممکن ہوتی۔ میں نے آزاد صاحب سے عرض کیا کہ مجھے فارسی پڑھا دیں۔ فوراً تیار ہوگئے ۔ دوسرے دن سے رات میں آپ سے گلستان کا درس لینے لگا۔ الحمدللہ فارسی میں اتنی شدبد ہوگئی کہ امتحان میں فرسٹ کلاس پاس ہوا۔ بعد میں گاہے بگاہے، لوگوں سے ملاقات میں یا تحقیق وترجمے میں کچھ نہ کچھ اس سے کام چلتا رہا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
فتوی نویسی:
آزاد صاحب کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں فتاوے اس اندازسے تحریر فرماتے تھے کہ آپ کے مسودے ہی کو سائل کے پاس بھیج دیا جاتا تھا اور وہ رجسٹر پر نقل کرلیے جاتے تھے۔
مقالات بہت مفصل اور مدلل لکھتے۔ مولانا عامر عثمانی مدیر تجلی کے قلم کی تیزی، شوخی اور قلندری ان کی تحریریں پڑھنے والوں سے مخفی نہیں ہیں ۔ مولانا نے طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں حنفی مذہب کی تائید میں خامہ فرسائی کی تو آزاد صاحب رحمہ اللہ نے اس کا نوٹس لیا اور مدیر تجلی کے سہ آتشہ تفقہ کے عنوان سے کئی قسطوں میں مضمون شائع فرمایا۔مولاناعامر عثمانی کے انتقال پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریروں کے تعاقب میں مجھے بھی لکھنے کاموقع ملتا تھا۔ اب یہ موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔
میں صوت الجامعہ عربی کے مقالات کو صاف کرنے اور پروف ریڈنگ کا کام کرتا تھا۔ میرے رفیق درس ڈاکٹر عبد الحنان بن لعل محمد آزاد صاحب کے فتاوے رجسٹر پر نقل کرتے تھے۔
آزاد صاحب نے مستقل طور پر تصنیف وتالیف اور ترجمے کا کام نہیں کیا۔ درس وتدریس، فتوی نویسی، مقالہ نگاری، مجلے کی نگرانی اور جامعہ کے کاموں میں مشغولیت نے اس کے لیے وقت ہی نہ چھوڑا۔ شعر وشاعری میں بھی غالبا زیادہ اشعار نہیں چھوڑے۔
استاذ محترم کے مقالات پندرہ روزہ الہدی، دربھنگہ، صوت الجامعہ (بعد میں محدث)،جریدہ ترجمان وجریدہ اہل حدیث دہلی وغیرہ جماعت کے رسائل ومجلات سے جمع کیے جائیں تو اندازہ ہے کہ ایک متوسط جلد میں آئیں گے۔رہ گئے فتاوے تو ان کی اشاعت کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی۔
ٍآپ کی پوری جدوجہد علماء کی کھیپ تیار کرنے پر مرکوز تھی۔ اللہ تعالی نے اس میں بظاہر برکت بھی دی اور جامعہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، جامعہ رحمانیہ بنارس اور جامعہ سلفیہ کے فضلاء نے مختلف انداز کی خدمات سے مسلک ودعوت کی ترویج واشاعت کا کام انجام دیا۔ ان شاء اللہ ہمارے اساتذہ کرام رحمہم اللہ بھی اس اجر میں برابر کے شریک ہوں گے۔
آزاد صاحب مطالعے، فتوی نویسی اور مقالہ نگاری اور دوسری جامعہ کی دفتری انداز کی خدمات میں محنت کرکے چور چور ہوجاتے تھے۔ روزانہ صرف عصر کے بعد آپ، شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید رحمانی، محمد ہارون بنارسی جنھیں ہم لوگ ’’ہارون دا‘‘ کہتے تھے اور مد ن پورہ کے اکرام الحق صاحب ۔ یہ چار یار ٹہلنے نکلتے اور زیادہ تر سونار پورہ، نیو کالونی کے علاقوں کی طرف جاتے ۔ راستے میں ایک ہوٹل میں چائے پیتے اور وقت مقررہ پر واپس آجاتے۔
استاذ محترم میری ہی طرح پستہ قد اورخوب موٹے تازے تھے۔ عموماً صحت اچھی تھی۔ بدن درد کرتا تو کبھی کبھی میں بھی ان کا بدن دباتا ۔ ان کے سر میں تیل لگاتا۔ کہتے تھے کہ ذرا زور سے دباو ، اتنا کہ بس بوٹی ہاتھ میں نہ آجائے ۔ یہ کہہ کر مسکرادیتے تھے۔بدن کڑا تھا ، میں اسے صحت کی علامت سمجھتا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ صحت کی علامت نہیں تھی۔ لیکن آزاد صاحب کی ہمت اور عزیمت نے انھیں چاق وچوبند بنا رکھا تھا۔بعد میں شوگر کے مریض ہوے، جس کا اثر آنکھوں پر پڑا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
آزاد صاحب نے ایک تعطیل کے موقعے پر نماز نبوی پر اپنی ایک کتاب شائع فرمائی۔ جب ہم گھر سے جامعہ واپس آئے تو پیلے غلاف کی یہ کتاب جس میں بعض اغلاط کی تصحیح بھی ہاتھ سے کی گئی تھی ، کا ایک نسخہ مجھے عنایت کیا۔ میں نے ان غلطیوں کا سبب جاننا چاہا تو عرض کیا کہ جی مجھ ہی سے یہ غلطیاں ہوگئی تھیں۔ سبحان اللہ! یہ اعتراف ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
اہل حدیث اور سیاست تالیف علامہ نذیر احمد املوی کی اشاعت آپ کی نگرانی میں ہوئی، جس پر آپ نے مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔بعض اساتذہ کی رائے میں اس کتاب میں کچھ تبدیلی اور حک واضافے کی ضرورت تھی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے فرمایا: مجھے استاذ محترم کی اس کتاب میں کسی طرح کی اصلاح منظور نہیں ہے۔ میں اسے بعینہٖ شائع کروں گا۔
مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ عام دیوبندی علماء کی طرح اختلافی مسائل میں مسلکی تعصب کا نہ صرف شکار تھے ،بل کہ اس کو ہوا دینے والوں میں سے تھے ۔لیکن باہر کی دنیا میں حدیث کی موٹی موٹی کتابوں کی تحقیق و اشاعت کی وجہ سے ’محدث کبیر‘ کی شہرت بھی رکھتے تھے۔دراصل آپ کی تحقیقی کتابوں پر’محدث کبیر‘ کے لقب کی اشاعت نے بھی اپنا کام کیا۔باہر کی دنیا میں خدمت حدیث کی شہرت کے علی الرغم مئوناتھ بھنجن میں مذہبی تعصب کی آبیاری میں ان کا حصہ کسی متعصب دیوبندی عالم سے کم نہ تھا۔ تراویح کے موضوع پر ان کی کتاب کے جواب میں مولانا نذیر احمد املوی نے قلم اٹھایا تو اسے اپنے شاگرد رشید مولانا آزاد صاحب کے نام سے ’انتقاد صحیح بجواب رکعت تراویح‘ کتاب شائع فرمائی۔
جب تک آپ با حیات رہے مجلہ کے مدیر رہے۔ آپ کے رشحات قلم اور دوسرے اساتذہ کرام کے مقالات پر مشتمل اردو مجلے کو ایک بار الہ آباد میں منعقد ایک مسلم پرسنل لا کے آل انڈیا اجلاس میں ، میں نے مولانا سعید احمد اکبرآبادی مدیر مجلہ برہان (ندوۃ المصنفین، دہلی) کو دیا تو انھوں نے الٹ پلٹ کر دیکھا اور تبصرہ فرمایا کہ اس مجلے کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کے مقالات اساتذہ جامعہ تحریر فرماتے ہیں۔
ہفتہ واری ندوۃ الطلبہ کے پروگراموں میں طلبہ کی تقریری وتحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں آزاد صاحب کی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔ ہر طالب علم کی تقریر یا تحریر کو غور سے سن اور پڑھ کر اس پر تبصرہ فرماتے ۔ معنی ومضمون کے ساتھ زبان اور اصطلاحات کی غلطیوں کی بھی نشان دہی فرماتے۔
ایک مرتبہ انجمن ندوۃ الطلبہ کے مجلے ’المنار‘ کے مضامین کے بارے میں عرض کیا کہ پہلے بڑی جماعتوں کے طلبہ ان کی اصلاح کردیں، اس کے بعد انھیں میرے پاس لے آو ،ورنہ بہت زیادہ اصلاح کرنی پڑے گی۔
آزاد صاحب انجمن میں طلبہ کی اغلاط کی نشان دی تفصیل سے کیا کرتے تھے، میں نے ایک بار انجمن کے ختم ہوجانے کے بعد پوچھا۔ مولانا! ابوبکر کاف کے سکون کے ساتھ پڑھا جائے گا یا فتحے کے ساتھ؟ مسکرا کر کہا: سکون کے ساتھ ۔ آزاد صاحب کی زبان سے فتحے ہی کے ساتھ سنا تھا، اس لیے یہ استفسار کیا۔ موجود طلبہ ہنسنے لگے۔آزاد صاحب نے یہ محسوس کرتے ہوے کہ یہ ایک طرح سے ان پر اعتراض تھا، اس کی پرواہ کیے بغیر صحیح نطق کی تصریح فرمادی۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
ایک بار ایک طالب علم نے تقریر کے دوران ’ساتھیو‘ کا لفظ استعمال کیا تو آپ نے تنبیہ فرمائی کہ یہ لفظ کمیونسٹ استعمال کرتے ہیں، تم دوستو اور بھائیو کے الفاظ استعمال کرو۔
ایک بار دوران تقریر ایک ساتھی مولانا عبد الرقیب بہاری مرحوم نے امام الائمہ اور امام اعظم وغیرہ کے الفاظ اس انداز سے کہے کہ میں نے محسوس کیا اس میں بعض ائمہ کی کچھ تنقیص ہے۔ میری باری آئی تو دوران تقریر میں نے تلخ آمیز لہجے میں اعتراضا چند جملے کہہ دیے تو آزاد صاحب نے اس پر چٹکی لیتے ہوئے تبصرے میں عرض کیا کہ پتا نہیں مولوی عبد الرحمن اس اصطلاح پر اتنے زیادہ کیوں چراغ پا ہوگئے؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟بعد میں پتا چلا کہ امام ابن خزیمہ امام الائمہ کے لقب سے مشہور ہیں ۔ امام ابویوسف اور امام محمد اپنے استاذ امام ابوحنیفہ کو امام اعظم کا لقب دیتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس مخصوص لقب کو امام ابوحنیفہ کی سارے ائمہ پر فضیلت ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاے۔
فضیلت کے آخری سال انجمن کا انعامی مقابلہ تھا، جس کی نگرانی آزاد صاحب اور دوسرے اساتذہ کرام ہی کرتے تھے۔ طلبہ نے مجھ سے کہا کہ اساتذہ ناراض ہیں کہ پروگرام کے بارے میں انھیں پہلے سے کیوں باخبرنہ کیا گیاتھا؟ میں فوراً اٹھا اورجاکر آزاد صاحب سے کہ وہ سرخیل اساتذہ تھے ،عرض کیا: میں سارے طلبہ کی طرف سے اس غلطی پر غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔ آپ حضرات پروگرام میں تشریف لے چلیں۔ اساتذہ فوراً انجمن کے جلسے میں تشریف لے گئے اور سارا پروگرام بحسن وخوبی انجام پا گیا۔ فالحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔
استاذ محترم کے طلبہ سے لگاؤ اور ان کی علمی استعداد سے متعلق انجمن ندوۃ الطلبہ کے سن ۱۹۶۹ء کے افتتاحی اجلاس کی رپورٹ میں آپ کے یہ کلمات زریں ملے: ’’استاذ محترم مولانا آزاد صاحب رحمانی نے خاص طور سے طلبہ کی توجہ کو تقریر وتحریر کی طرف مبذول کرایا۔ آپ نے فرمایا: عزیز بھائیو! قوموں کے عروج وزوال کا راز تقریر وتحریر کی بے پناہ قوتوں میں مضمرہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ اگر تقریر وتحریر نے کسی قوم کو اوج ثریا پر پہنچایا تو اس کی زبان وقلم کی کرشمہ سازیوں نے دوسری قوم کو زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے، جب ہم عربوں کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں جو اپنے سحر انگیز بیانات اور پُر اثر تقریروں سے بڑے بڑے معرکے سر کیا کرتے تھے۔ زبان و قلم کی طاقت سے بڑی سے بڑی جنگوں کی فتح کو شکست اور شکست کو فتح میں بدلنا بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ یہی وقت آپ کے سیکھنے کا ہے۔ اگر آپ نے اس قیمتی وقت کو ضائع کردیا تو پھر زندگی بھر پچھتانا پڑے گا۔ مرکزی دار العلوم میں رہ کر آپ اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کیجیے کہ اپنے اندر ہر طرح کی استعداد پیدا کریں تاکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ہمارے اکابر نے مرکزی دار العلوم کو اسی مقصد کے لیے قائم کیا ہے کہ یہاں سے اسلام کے ایسے جانباز سپاہی تیار ہوکر دنیا میں پھیلیں جو زبان وقلم کے شہ سوار اور تقریر وتحریر کے بادشاہ ہوں تاکہ اپنی زبان وقلم کی بے پناہ قوتوں سے الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا منہ موڑ دیں اور اشتراکیت وکمیونزم جیسے فساد انگیز اور غلط نظریات کا خاتمہ کردیں۔ (اخبار اہل حدیث، ۷؍فروری ۱۹۶۹ء ، ص ۱۱)
اسی سال جب میں عالمیت سال دوم کا طالب علم تھا تو انجمن کے ایک انعامی تقریری مقابلے میں میں نے بھی شرکت کی تھی۔ موضوع ’علامہ ابن تیمیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے‘ تھا۔ اس اجلاس کی صدارت شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید صاحب نے فرمائی اور حکم کی حیثیت سے مولانا محمد ادریس صاحب آزاد رحمانی، مولانا عبد المعید بنارسی، مولانا شمس الحق بہاری اور ما سٹر شمس الدین متعین کیے گئے۔ اس مقابلے میں پہلا انعام مولانا رفیق احمد سلفی(عالمیت سال سوم)، دوسرا انعام ڈاکٹر عبدالمنان بن محمد شفیع لیثی(عالمیت سال اول) ا ور تیسرا انعام ناچیز کو ملا۔ فالحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔(اخبار اہل حدیث، دہلی، ۲۱؍ ستمبر ۱۹۶۹ء)
تیسیر العزیز الحمید کا ترجمہ:
توحید باری تعالی پر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی مختصر سی کتاب اپنی جامعیت وافادیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔اس کی بہت ساری چھوٹی بڑی شروح ہیں، جن میں آپ کے ایک پوتے علامہ حسن بن عبدالرحمن بن شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی تالیف فتح المجید اور دوسرے پوتے علامہ سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب کی تالیف تیسیر العزیز الحمید اس کی مبسوط شرحیں ہیں۔ میں نے دیکھا کہ پاکستان سے فتح المجید کا ترجمہ ہوا ہے اور سعودی عرب میں اسے ادارہ شئون الحرمین الشریفین وغیرہ کی طرف سے مفت تقسیم بھی کیا جارہا ہے۔ ایک بزرگ دوست مولانا عطاء اللہ ثاقب صاحب نے فتح المجید اور کئی کتابوں کو اردو میں شائع کیا تھا۔آزاد صاحب کی سلفی منہج اور عقیدے میں شیفتگی، توحید باری تعالی کو عام کرنے کی لگن اور آپ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہوے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آزاد صاحب مرحوم کو تیسیر العزیز الحمید کے اردو ترجمے کی طرف توجہ دلائی جائے اور اس عظیم خدمت کے انجام دینے پر آپ کو آمادہ کیا جائے۔ میں نے اس سلسلے میں فورا آپ کو ایک خط لکھا اور عرض کیا کہ آپ کے قلم سے اگر اس کتاب کا ترجمہ شائع ہوجاتا تو یہ ایک عظیم خدمت ہوگی۔ آزادصاحب نے ترجمے کا کام فوراً شروع کردیا، لیکن نصف کتاب تک پہنچے تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے بلاوا آگیا۔ رحمہ اللہ۔ ان کے داماد سعید صاحب نے اس ترجمے کی اشاعت کی۔ پھر ہمارے رفیق درس مولانا اقبال سلفی نے اس کی تکمیل کی اور وہ بھی شائع ہوا۔ مرحوم عالیہ میں استاذ تھے۔ جوانی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
آج پھر ضرورت ہے کہ اس عظیم دینی خدمت کو نئے انداز سے شائع کیا جائے، اس لیے کہ تیسیر العزیز الحمید توحید باری تعالی کے موضوع پر انسائیکلوپیڈیا ہے۔
آزاد صاحب کا جامعہ سلفیہ کی تعمیر وترقی سے والہانہ تعلق تھا۔ پچھم کی طرف جہاں اس وقت جامعہ کی مسجد ہے، کی زمین کا مقدمہ چل رہا تھا۔ راجگیر برادری کا اس زمین پر دعوی تھا۔ معاملہ سنگین تھا۔ آزاد صاحب رحمہ اللہ رات میں اٹھ کر خصوصی طور پر مقدمے کی کامیابی کے لیے اللہ تعالی کے حضور روتے گڑگڑاتے تھے۔ اللہ تعالی کی توفیق سے عدالت نے جامعہ کے حق میں فیصلہ کیا۔ آج جامعہ کی مسجد اسی علاقے پر قائم ہے۔
جامعہ میں کبھی کبھار طلبہ شعر وشاعری کے لیے طرحی مشاعرے کا انعقاد کرتے ۔ آزاد صاحب ان پروگراموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے بل کہ اس کو کامیاب بنانے کی بھی پوری کوشش کرتے تھے۔
جامعہ میں تعطیل کے مواسم اور آزاد صاحب کا سفر املو:
املو (اعظم گڑھ) بنارس سے ڈیڑھ سو کلو میٹرکے فاصلے پر واقع مشہور قصبہ آپ کا گاؤں ہے۔ یہی مولانا نذیر احمد املوی کا مسکن تھا۔ مبارکپور سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر یہ مشہور بستی ہے جہاں اہل حدیث کثیر تعداد میں آباد ہیں۔جب بھی تعطیل کا وقت قریب آتا، آزاد صاحب کا وطن جانے اور بال بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کا شوق تیز ہوجاتا۔ اس کی تیاری میں لگ جاتے ۔ بچوں کے لیے ہدایا وتحائف اور گھر گرہستی کے سامان سب کو بڑے شوق سے خرید تے اور لد پھند کر عازم سفر ہوتے۔ ہم لوگ کہتے کہ آزاد صاحب کا شوق سفر دیدنی ہے۔ گھر سے واپس آنے کے بعد اگر کوئی ضروری چیز کی گھر والوں کی طرف سے ہدایت ہوتی تو پہلے ہی دن کسی نہ کسی طالب علم کو بلاکر کہتے کہ عبد الواحد کی والدہ نے فلاں چیز کا مطالبہ کیا ہے، اسے اسی دن خرید کر رکھ لیتے۔
آپ ایک بار پریوا کے ایک اجلاس عام میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے۔ مجھے معلوم ہوا کہ آزاد صاحب جلسے میں شریک تھے۔ لیکن تفصیل نہیں معلوم تھی۔ سالانہ تعطیل کے موقعے پر جب میں گاؤں آیا تو دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ، خاص کر ہمارے خاندان کی خواتین میں عقیقے کے مسئلے کا چرچا ہے۔ انھوں نے ذکر كیا کہ آزاد صاحب نے ہر نومولود کے عقیقے کے وجوب کا فتوی دیا ہے۔ اس دلیل سے کہ اگر ماں باپ نے اپنے بچے کا عقیقہ نہ کیا تو وہ اللہ رب العزت کے یہاں ان کی شفاعت نہیں کرے گا۔ میں نے بنارس آکر آپ سے ملاقات کی اور اس مسئلے کے بارے میں استفسار کیا کہ پریوا میں عقیقے کی اہمیت اور اس کے وجوب کے بارے میں آپ کے فتوے یا تقریر کا بڑا چرچا ہے۔ لیکن پوری بات کوئی نہیں بتاپارہا ہے، جس سے اس مسئلے کے سمجھنے میں مدد ملتی ۔بعض لوگ جن سے اس مسئلے میں آپ کی تقریر کی تفصیل ملنے کی توقع تھی، وہ یا تو جلسے کے انتظام میں مشغول تھے یا جلسے ہی سے دور تھے۔ آپ نے فوراً اٹھ کر سنن ابو داود مع عون المعبود نکالی اور عرض کیا کہ جی! میں نے اپنے خطاب میں امام احمد کا حدیث کی شرح میں قول نقل کیا تھا۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث آئی ہے: کل غلام مرتھن بعقیقتہ۔ احمد بن حنبل اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث کا تعلق شفاعت سے ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر بچے کا عقیقہ نہیں کیا گیا اور بچپن ہی میں وفات پا گیا تو وہ اپنے والدین کی شفاعت نہیں کرے گا۔ھذا فی الشفاعۃ یرید انہ اذا لم یعق عنہ، فمات طفلاً لم یشفع فی أبویہ۔
آزاد صاحب کے حدیث عقیقہ کی شرح وتفسیر کا مقصد اس سنت موکدہ کی اہمیت کو واضح کرنا تھا۔ اسی سلسلے میں ا مام احمدکا یہ قول نقل کیا۔ بچہ والدین کی شفاعت نہ کرے گا۔ اس جملے نے لوگوں کے کان کھڑے کردیے اور عورتوں نے اس سلسلے میں زیادہ چھان بین کی۔
عقیقہ سنت موکدہ ہے۔ سمرہ کی حدیث مسند احمد اور سنن ابی داود ، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے۔امام ترمذی نے اس پر صحیح حسن کا حکم لگایا ہے۔ ائمہ اسلام کے یہاں اس سنت پر عمل کرنے کا اہتمام تھا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اہتمام کے ساتھ نومولود کا عقیقہ سنت رسول کے احیا کی نیت سے کریں۔ یہ ایک اہم عبادت ہے۔ اللہ کے نام پر ذبح کرنا خالص رب کی عبادت کاکام ہے، اسی لیے غیر اللہ کے نام ذبح کرنا کفر اکبر کہلاتا ہے۔
آزاد صاحب سے تعلقات کی کچھ مثالیں
۷؍جون ۱۹۷۳ء میں میری شادی کی تقریب تھی۔ میں نے آزاد صاحب کو خط لکھ کر دعوت دی تو شادی کی تہنیت پر پوسٹ کارڈ ارسال فرمایا۔ ایک جملہ یاد ہے کہ شادی کے ہنگامے سے فارغ ہوکر اب آپ تکان اتار رہے ہوں گے۔
مولانا کے بڑے صاحبزادے عبدالواحد دوران تعلیم ہم لوگوں سے بڑے مانوس تھے۔ آزاد صاحب سے میرے گہرے تعلق کا بھی انھیں اندازہ تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے بہت بعد ایک دن وہ پریوا تشریف لائے۔ ساتھ میں وہ خط بھی تھا جس میں میں نے آزاد صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ تیسیر العزیز الحمید کا اردو میں ترجمہ کریں۔ عزیز گرامی عبد الواحد نے اپنی معاشی پریشانیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ آپ کا یہ خط والد صاحب کے اوراق میں ملا تو میں نے سوچا کہ آپ سے ملاقات کروں ۔ اس سلسلے میں آپ سے مشورہ کروں اور عرض کیا کہ میرے لڑکے عبدالحسیب نے حفظ قرآن کے ساتھ مولوی کا کورس بھی مکمل کیا ہے۔ اس کو سعودی عرب میں کوئی جگہ دلا دیجیے۔ اللہ تعالی کو منظور ہوا تو میرے لیے رزق میں آسانی ہوجائے گی ان شاء اللہ۔ میں نے فوراً ہامی بھرلی اور عرض کیا کہ فی الحال آپ انھیں میرے یہاں مدرسے میں بھیج دیں۔ یہاں رہ کر کچھ پڑھیں لکھیں۔ خاص کر حفظ قرآن کو پختہ کریں اور تجوید وقرأت کی تعلیم حاصل کرلیں۔ عزیزم عبد الحسیب آئے۔ ایک مدت یہاں پر قیام کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا، ایک دوست نے عرض کیا کہ مجھے ایک ایسا آدمی چاہیے جو میرے بچوں کو قرآن کی تعلیم دے اور گھر کے کاموں میں میرے اور میرے والد صاحب کا ہاتھ بٹائے۔ میں نے ویزہ اور ٹکٹ بھیج کر عبدالحسیب کو ریاض بلا لیا۔ سعودی عرب میں ملازمت میں جو پہلی بار ٹک جائے گویا اس نے تسخیر جن کا معرکہ سر کرلیا ۔ کچھ دن عزیمت کے گزرے، جب وہ وہاں کے ماحول کے عادی ہوگئے تو دھیرے دھیرے اکتاہٹ اور الجھن بھی جاتی رہی۔ محلے میں چند کلومیٹر کے فاصلے پران کی رہایش تھی۔ کبھی کبھار میں ان کے پاس چلاجاتا،کبھی وہ میرے گھر بھی آجاتے تھے۔ بعد میں ان کے آنے جانے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ جس آدمی کے یہاں ملازمت تھی، میرا بھی ان سے بھی رابطہ منقطع رہا۔ اس چھوٹی ملازمت سے یقینا خاندان کو کچھ نہ کچھ راحت مل ہی گئی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آزاد صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی آل واولاد کو بھی دنیا وآخرت میں سعادت مند بنائے۔
مذکور بالا مشاہیر علماء کے علاوہ بھی اساتذہ ہیں۔ لیکن ان کا تذکرہ اس وقت میرے موضوع سے باہر ہے۔ اسی طرح سے آپ کے شاگردوں کی تعداد کا معاملہ ہے۔ جامعہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، جامعہ رحمانیہ اور آخر میں جامعہ سلفیہ کے یوم تاسیس وافتتاح سے انتقال تک نہ جانے کتنے طلبہ نے آپ سے استفادے کے لیے زانوئے تلمذ تہ کیے۔ ان میں اداروں کے فارغین فضلاء کی سن وار تفصیلات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جامعہ سلفیہ کے فضلاء میں سے جو درس وتدریس ، ترجمہ، افتاء، خطابت اور صحافت وغیرہ سے جڑے ہیں اور جو اداروں کے چھوٹے بڑے موسسین وسربراہان ہیں خود ان کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
رحمانی فضلاء میں دینی علوم وفنون اور درس وتدریس، افتاء وترجمہ میں آپ کا نام سرفہرست ہے۔ صوت الجامعہ سہ ماہی (۱۳۹۳ھ = ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۶ء تک) کے ایڈیٹر آزاد صاحب رہے۔
مؤلفات:
استاذ محترم ( ۱۹۱۶ء – ۱۹۷۸ء) کی تصنیفی خدمات سے متعلق ہمارے پاس معجم اعلام الہند میں درج ذیل معلومات ہیں:
۱۔عصمۃ الانبیاء ابن حزم کی الملل والنحل سے ایک طویل فصل کا اردو ترجمہ (مخطوط)
۲۔صلاۃ النبی ﷺ صفات ۵۶، پہلا اڈیشن دربھنگہ، ۱۹۶۷ء
۳۔انتقاد صحیح بجواب ذیل رکعات تراویح، ص ۱۷۸، ط۔ لکھنو، یہ ذیل رکعات تراویح تالیف مولانا عبدالباری قاسمی کی تردید میں ہے۔ واضح رہے کہ مولانا عبد الباری قاسمی نے علامہ نذیر احمد املوی کی تالیف انوار المصابیح پر رد لکھا تھا، یہ کتاب انھی کے رد میں ہے۔
۴۔تاریخ مرکزی دار العلوم، (جامعہ سلفیہ) [مخطوط]
۵۔خطبۂ استقبالیہ (اہل حدیث کانفرنس املو، اعظم گڑھ میں پیش ہوا۔ اس میں تاریخ اہل حدیث کا تذکرہ آ گیا ہے)
۶۔ترجمہ تیسیر العزیز الحمید شرح کتاب التوحید (نصف اول) عدد صفحات۵۴۸، آزاد صاحب کے داماد جناب سعید سالم اور ان کے املو کے دوستوں کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت ۱۹۸۴ء میں ہوئی۔
۷۔سیرت محمد ﷺ (مخطوط)
۸۔ابوبکر وعلی رضی اللہ عنہما کی سیرت ایک جائزہ، ابن حزم کی الملل والنحل سے ترجمہ۔
۹۔آیات بینات: صفحات ۴۴، ط۔ ۱۹۷۵ء ، اس کتاب میں شرک وبدعت سے متعلق دو سوالات کے جوابات ہیں۔
۱۰۔جواب الجواب للآیات البینات (قلمی) اس میں قبر پرستوں کے آیات بینات پر اعتراضات کے جوابات ہیں۔
۱۱۔فتاوی رحمانی (دار الافتاء جامعہ سلفیہ میں موجود ہیں)
آزاد صاحب کی زندگی کے کئی مراحل ہیں۔
۱۔ پیدائش اور نشو ونما سے لے کر دار الحدیث میں داخلے تک
۲۔ دار الحدیث کے ایام تعلیم وتربیت
۳۔ جامعہ احمد سلفیہ میں تدریسی فرائض اور جامعہ کے آرگنـ الہدی کی ایڈیٹری۔
۴۔ جامعہ رحمانیہ کے تدریسی ایام
۵۔ جامعہ سلفیہ کی تاسیس سے وفات تک کی خدمات۔
عموما میری گذارشات کا تعلق آخری چوتھے اور پانچویں فقرے سے ہے۔کاش کہ خودمولانا کی زبانی ان کے حالات سن کر قلم بند کرلیے ہوتے۔ لیکن اب تو ان کے اور دوسرے اساتذہ کرام کے حالات پر کچھ لکھتے یہ شعر نوک قلم آجاتا ہے؎
ہم آج بیٹھے ہیں ترتیب دینے دفتر کو
ورق جب اس کا اڑا لے چلی ہوا اک اک
استاذ محترم رحمہ اللہ کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ افسوس کہ مدت مدید سے خواہش کے باوجود جمع خاطر نہ ہو پایا کہ آپ کی سیرت وخدمات سے متعلق اپنے تاثرات قلم بند کر سکوں، لیکن تدریس، تصنیف وتالیف اور ترجمے کے کاموں میں عمومی طور پر اساتذہ کرام یاد آتے رہے کہ انھی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا ثمرہ ہے کہ اس میدان میں باعزت زندگی گزر گئی۔ اساتذہ کا شمار تو محسنین میں ہوتا ہی ہے۔ ان میں سر فہرست آزاد صاحب ہیں۔ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
مسلک سے لگاو، اس کی اشاعت کی تڑپ اور اس کے لیے ہمہ وقتی جد وجہد اور فکر، طلبہ سے ہمدردی، جماعت اہل حدیث اور جامعہ سلفیہ کی والہانہ اور بے لوث خدمات سے رب عز وجل کے حضور دعا ہے کہ استاذ محترم کو ان خدمات کااجر جزیل عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے۔
طب کی تعلیم:
استاذ محترم آزاد رحمہ اللہ نے دہلی کی اقامت اور اس کے علمی ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فراغت کے بعدطب کی تعلیم مکمل فرمائی۔ مستقل علاج معالجے سے تو نہیں جڑے۔ لیکن کچھ نہ کچھ تعلق رہا۔ یاد آتا ہے کہ ایک بار لال تیل تیار کیا۔ اگر حافظہ خطا نہ کر رہا ہو تو اس کا نام فقیری تیل رکھاتھا۔ ہمارے ہم سبق مولانا عبد الجبار ضیغم ناگپوری رحمہ اللہ کو بعض امراض لاحق تھے۔ آزاد صاحب نے ان کے لیے جو نسخہ تجویز کیا تھا وہ مزاج کے موافق نہ ہوا، جس سے دوسرے امراض بھی لاحق ہو گئے۔ شفا تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ حکماء اور اطباء کے نسخے تو سبب ہیں، جسے اختیار کرنا بھی مشروع ہے۔ اصل شفا کا مالک رب عزوجل ہے، جو سب کا شافی اور سب کے لیے کافی ہے۔ مولانا ضیغم مسلسل بیماریوں کا شکار رہے لیکن دور سے ان کی آواز سن کر یا ان سے مل کر آدمی جلدی یہ محسوس نہیں کرتاتھا کہ وہ بیمار ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنی عافیت میں رکھے۔
مولانا محدث عبد الرحمن مبارکپوری مشہور جراح تھے ۔ اسی پیشے سے جڑے رہے اور فراغت سے سلفی دعوت اور حدیث کی خدمت کی۔ہمارے گاوں کے مولانا عبد الستاررحمہ اللہ دہلی میں مدرسہ عزیزیہ کے فارغ تھے۔ طب کی تکمیل بھی انھوں نے کی اور گاوں میں ایک چھوٹی دکان مع مختصر سے طبی عمل سے گزارہ کرتے رہے اور دعوت وتبلیغ بالخصوص جمعہ پڑھانے کا کام بڑے شوق سے کرتے رہے۔
گاوں ہی کے دوسرے فاضل مولانا حکیم محمد اکبر فاروقی رحمانی نے بھی تکمیل الطب کا کورس پورا کیا۔ علمی اور تدریسی میدان میں نہ رہے۔ دہرہ دون میں طب یونانی کے ہسپتال میں ملازمت کی۔چند سال پہلے انتقال ہوا۔رحمہ اللہ۔
حکیم ضیاء الدین ضیاء(مئوآئمہ، الہ آباد) نےدارالحدیث رحمانیہ سے پڑھ کر تکمیل الطب کا کورس پورا کیا۔ الہ آباد میں شفاخانہ کھول کر علاج معالجہ کرتے رہے۔ آخری عمر میں لکھنو کے طبیہ کالج کے پرنسپل ہوئے۔
مولاناحکیم عبیداللہ رحمانی بن مولانا عبدالرحمن ڈوکموی (راے بریلی) سعیدیہ ،دارانگر، بنارس اور دارالحدیث رحمانیہ میں تعلیم کے بعدطب کی تعلیم حاصل کی اور دعوت وتبلیغ کے ساتھ اس پیشے سے جڑے رہے اور ایک مدت تک کشمیر میں طبیہ کالج میں پروفیسر رہے۔
دہلی اور لاہور جیسے علم وحکمت کے مراکز میں تعلیم حاصل کرنے والے دینی مدارس کے طلبہ کی ایک اچھی تعداد نےاس زمانے کے رواج کے مطابق دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ یا بعد میں طب یونانی کا کورس بھی پوراکیا۔ حصول رزق کے لیے طب کا پیشہ تیر بہدف نسخہ ہے قبل اس کے کہ طبیب سے مریض کو فائدہ ہو۔
ماضی میں ہمارے اکابر علوم شریعت کے ساتھ طب سے بھی تعلق رکھتے تھے۔دارالحدیث رحمانیہ، دہلی کے سر پرستوں اور ممتحنین میں امام العصر حافظ حدیث علامہ محمد گوندلوی نے دہلی میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور فراغت کے بعد تدریس وتبلیغ کے ساتھ اس پیشے سے بھی جڑے رہنا چاہا، لیکن ایسا نہ کرسکے، یکسو ہوکر صرف تدریسی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ایک عالم نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ حکیم اجمل کہتے تھے کہ جب محمد گوندلوی درس میں ہوتے ہیں تو مجھے سوچ سمجھ کر اور تیاری کرکے کلاس میں آنا اور بولنا پڑتا ہے۔
آزاد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے طبیب القلوب والاذہان بنایاتھا۔ آپ نے عملی طور پر پوری زندگی علم ودعوت کی آبیاری میں گزاری اور آپ سے مستفیدین ہندستان اور اس سے باہر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اجر وثواب کی بارش برسائے اور جنت الفردوس میں آپ کو اعلیٰ مقام دے۔
آزاد صاحب مرنجاں مرنج آدمی تھے۔ استاذ محترم مولانا عبد الوحید صاحب سے ان کی دوستی اور تعلق خاطر ضرب المثل اور قابل تقلید وستائش تھا۔ ہم نے دونوں کو پوری زندگی ہم پیالہ وہم نوالہ دیکھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کسی بات پر شیخ الجامعہ اور آزاد صاحب میں ناچاقی ہوگئی۔ وہ منظر بھی بڑا عجب تھا۔ آزاد صاحب کی بے چینی قابل دید تھی۔ تین دن کے اندر اندر پھر مجمع البحرین ہو گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
آزاد صاحب کی ایک بڑی پیاری عادت تھی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ بھی تربیت کا ایک انداز تھا۔ جب حدیث کی کوئی کتاب ختم ہوتی تو مطالبہ کرتے کہ تم لوگ پارٹی کرو۔ ہم لوگ خوب شوق سے آپس میں چندہ اکٹھا کرتےاور جشن مناتے۔ ہمارے اساتذہ کرام پارٹی کے دن خوش خوش تشریف لاتے۔ مسرت کے ماحول میں ہم طلبہ کے ساتھ مٹھائی اور نمکین پھر چائے پان سے لطف اندوز ہوتے اور دعاوں کے ساتھ رخصت ہوتے۔
اساتذہ اور طلبہ کا یہ اجتماع در اصل محدثین کے یہاں اپنے اصحاب کے ساتھ جو تعلق خاطر رہتا تھا کی ایک تصویر تھا۔ یہ عادت اور سلیقہ بھی سکھانا تھا کہ ہم آپس میں مل جل کر بعد میں بھی اسی طرح پیار ومحبت سے رہیں۔
جامع صفات:
آزاد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جامع صفات بنایا تھا۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ایک مدرس صرف اپنے فن میں مہارت رکھتا ہے۔ دوسرے علوم وفنون سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زندگی کے ہنگاموں سے دور ہوتا ہے۔ انتظامی امور سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اور رحمت ومہربانی سے ایسی شخصیات بھی پیدا فرماتا ہے، جن سے مختلف شعبوں میں امت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
فرائض:
آزاد صاحب یقینا جامع المعقولات والمنقولات تھے۔ علم الفرائض کو بڑا ہم اور مشکل علم مانا گیا ہے۔ اس کے ماہرین کم ہی پائے جاتے ہیں۔ آزاد صاحب اس فن میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ جامعہ میں فرائض میں السراجی آپ ہی پڑھاتے تھے۔
علوم حدیث:
علوم حدیث یعنی مصطلح حدیث،فقہ حدیث اور رجال حدیث سب پر آپ کی عمیق نظر تھی۔ اس میدان میں آپ کی صلاحیت کا مظاہرہ تدریس وافتاء اور مقالہ نگاری کے میدانوں میں واضح تھا۔
حنفی فقہ اور تقابلی مطالعہ:
بر صغیر کے مسلمانوں کی فقہی فروع میں اکثریت حنفی مسلک والوں کی ہے۔ وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے نام سے منسوب فقہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس فن میں مہارت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔آزاد صاحب کو حنفی فقہ واصول فقہ میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ آپ فقہی مسائل کی تشریح اور صحیح حدیث کے مخالف مسائل کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان فرماتے اور محقق فن کی حیثیت سے کلام فرماتے تھے۔ آپ کے تلامذہ ومستفیدین آپ کی اس مہارت کے شاہد ہیں۔ا ٓپ کی تحریریں بھی اس کی شاہد عدل ہیں۔
منطق وفلسفہ:
منطق وفلسفہ کی کتابیں آپ نہیں پڑھاتے تھے، لیکن مناظروں اور تقابلی مطالعے میں بر صغیر کے علماء کے یہاں اس میں بھی مہارت کی اہمیت ہے۔ آزاد صاحب کی تحریروں سے پتاچلتا ہے کہ اس فن سے بھی آپ کو لگاو تھا۔
ادیان ومذاہب:
ادیان ومذاہب کا مطالعہ بھی ہمارے علماء کے یہاں دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ استاذ محترم اہل حدیث علماء کی طرح احقاق حق کے مقصد سے اسلامی فرقوں کے عقائد وآراء کے ساتھ غیر اسلامی مذاہب کا مطالعہ بھی کرتے تھے، خاص کر مناظرہ میں اس علم کی ضرورت سے انکار نہیں۔ امام ابن حزم کی الملل والنحل سے دو عنوان کے اردو ترجمے سے اس فن سے آپ کے لگاو کا پتا چلتا ہے۔
عربی اور اردو زبان وادب اور شعر وشاعری:
آزاد صاحب کا تعارف ان کے تخلص سے عام تھا۔دہلی میں دوران اقامت داغ کے شاگرد ساحل سے اصلاح لیتے تھے۔ آپ ایک پختہ شاعر تھے۔ رحمانیہ دہلی کے سخت قوانین کے باوجود کسی نہ کسی طرح دہلی کے مشاعروں میں بھی شرکت فرما لیتے تھے۔ جامعہ کے طلباء کے اشعار وقصائد کی تصحیح کا کام بھی کرتے تھے۔ شاعر چاہے اردو کا ہو یا عربی کا یا کسی اور زبان کا، اس کے لیے علم عروض وقوافی سے شناسائی ضروری ہے۔ خاص کر دوسروں کی اصلاح کے وقت تو اس علم سے واقفیت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ استاذ محترم کو اس فن سے بھی اچھا خاصا لگاو تھا۔
اردو شاعری میں تو آپ نے بہت ساری حمد ونعت ، مدح صحابہ اور دوسرے موضوعات پر اسلامی نظمیں چھوڑیں۔ طلبہ جامعہ کے مجلہ المنار کی زینت آپ کے اشعار ہوا کرتے تھے۔ اس وقت میرے سامنے ۱۹۶۸ء کا ایک نمبر ہے۔ حسن اتفاق سے اس میں آزاد صاحب کی دو نظمیں بھی ہیں۔ قارئین کرام کی ضیافت طبع اور نئی نسل کے سامنے آپ کی شاعری کے نمونے پیش کرنے کے لیے یہ دونوں نظمیں یہاں لکھی جاتی ہیں۔
(۱)اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم
چرخ ہدایت کے مہ و انجم رضی اللہ تعالی عنہم
جن کے نقش قدم پر ہم تم رضی اللہ تعالی عنہم
باعث رونق دین محمدوجہ بہار ملت احمد
گلشن دیں میں ان سے تبسم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
خم کدۂ ایمان کے ساقی ان سے حق کی آن ہے باقی
بادۂ دین و عرفاں کے خم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
پاکے نبی کا ایک اشارہ دار پہ چڑھ جانا ہے گوارا
دین خدا کا ان سے تحکم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
اپنی حیات پاک میں ہر دم راتوں کو با دیدۂ پر نم
رہتے طاعت خالق میں گم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
سوز یقیں سے دل میں حرارت ختم کیا باطل کی شرارت
پیش نظر تھا حق کا تقدم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
حامی حق اسلام کے غازی عربی عجمی اور حجازی
غیر کی خاطر موج تلاطم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
ان سے ملی ہے دولت ایماں آزادؔ وہ ہیں لطف کے ساماں
آو کہیں ان کے لیے ہم تم رضی اللہ تعالیٰ عنہم
(۲)میرے جوانو! بڑھو
خیال دار ورسن کیا ہے مسکرا کے بڑھو
سوئے حیات بڑھو! زندگی لٹا کے بڑھو
فلک کو پھر سے تمھارا ہے امتحاں مقصود
خوشی سے خنجرقاتل گلے لگا کے بڑھو
جہاں ہے تنگ کہ تم عاشق محمد ہو
ہزار حیف ہے طوفاں کی طرح چھا کے بڑھو
تمھاری غیرت حق اور دب کے رہ جائے
غرور و نخوت باطل مٹا مٹا کے بڑھو
لگے ہیں گھات میں ایمان و دین کے رہزن
کمال بازوئے حیدر انھیں دکھا کے بڑھو
بھڑک رہا ہے جہاں میں شراربو لہبی
مرے عزیز جوانو! اسے بجھا کے بڑھو
عطا ہوا ہے جو نور چراغ مصطفوی
اٹھو دلوں کو ذرا اس سے جگمگا کے بڑھو
صنم کدوں کو براہیم کی ضرورت ہے
تبر اٹھاو، عزائم جواں بنا کے بڑھو
غم حیات سے آزادؔ کیوں ہو آزردہ
خدا کے لطف کو اب مہرباں بنا کے بڑھو
[المنار، جلد۲، ۱۹۶۸ء = ۱۳۸۸ھ ، ص۱۴۳-۱۴۴، ندوۃ الطلبہ، مرکزی دار العلوم، جامعہ سلفیہ بنارس]
(۳)آہ سیف الملۃ والدین
(مولانا محمد ابو القاسم سيف بنارسی كی رحلت پر)
آزاد رحمانی مبارکپوری
خزاں نے لوٹ لیا آج گلستاں سارا
ہے پتی پتی بنی جیسے ایک انگارا
بنا ہے درد مجسم ہر ایک دل یارب
فغاں کے ضبط کا باقی نہیں ہے اب یارا
ابھی تو ظلمت عصیاں جہاں میں باقی ہے
غروب ہوگیا ملت کا آج کیوں تارا
غضب ہے اٹھ گئے دنیا سے سیف بوالقاسم
چلاے گا سر بدعت پہ کون اب آرا
کہاں سے آے گی آواز قال قال رسول
زبان سیف کھلے گی نہ پھر جو دوبارا
کریں گے دین پہ حملے جو دشمنان رسول
فمن یقوم لدین النبی انصارا
غضب ہے بجھ گئی شمع شریعت روشن
بہے گا کیسے زمانے میں نور کا دھارا
جہاں میں عاشق ذکر نبی تھے بو القاسم
نصیب ہو انھیں جنت کا خوب نظارا
جناں میں جا کے رہیں خلد ہو مقام ان کا
وہاں بھی اوج پہ ان کی قسمت کا ہو تارا
رہے ہیں سیف کے دنیا میں جو عقیدت مند
انھیں ہو میرے خدا غم کے ضبط کا یارا
دعا ہے آج یہ آزاد کی خدا تجھ سے
کہ کر عطا توکوئی سیف دیں دوبارا
[نور توحید لکھنو: مولانا سیف بنارسی نمبر،ص۶۰]
ترجمہ کے فن میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔ابن حزم کی الملل والنحل اور تیسیر العزیز الحمید آپ کے فن ترجمے پر قدرت کی شاہد عدل ہیں۔
اسلامی تاریخ:
سیرت نبوی، اسلامی تاریخ و تمدن بھی ہمارے علماء کی دلچسپی کے موضوعات ہوتے تھے۔ آزاد صاحب نے اس سلسلے میں بعض کتابیں تصنیف فرمائیں۔
عقیدہ:
صحیح اسلامی عقیدے کا موضوع مسلک اہل حدیث کے عاملین کا بہترین موضوع رہا ہے۔ آزاد صاحب نے ایسے اساطین فن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے تھے، جن کا اوڑھنا بچھونا عقیدہ ہی تھا۔ اس سلسلے میں آپ کی دلچسپی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ کتاب التوحید کی شرح تیسیر العزیز الحمید تالیف علامہ سلیمان بن عبداللہ بن شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا اردو ترجمہ کر دیجیے تو فوراً قلم لے کر بیٹھ گئے۔ تمام طرح کی مشغولیات وامراض کے ساتھ عمر کے آخری پڑاو میں آپ نے اس ضخیم کتاب کے نصف اول کا ترجمہ مکمل کردیا جو اشاعت پذیر بھی ہوا۔
تمام علمی خوبیوں کے باوصف آزاد صاحب دو موقر علمی جرائد کے ایڈیٹر بھی رہے۔ دربھنگہ میں جامعہ احمدیہ سلفیہ کے آرگن پندرہ روزہ الہدی اور جامعہ سلفیہ بنارس کے آرگن محدث (صوت الجامعہ) آپ کی صحافتی خدمات ، آپ کے کامیاب صحافی ہونے کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ مقالہ نگاری میں تو آپ کو شہرت تھی ہی۔
خطابت:
آزاد صاحب کی خطابت مولانا ابو الکلام آزاد والی گھن گرج اور آہنگ والی خطابت نہ تھی۔ علمی اور دعوتی مسائل کی شرح کے لیے علمی اسلوب کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ مدلل خطابت کے قائل تھے۔ آپ کا خطاب عام فہم ہوتا ، جو محدثین کی شان خطابت کا آئینہ دار تھا۔
انتظامی صلاحیت:
پہلے گزرا کہ آزاد صاحب جامعہ سلفیہ کی تاسیس ۱۹۶۳ء سے تا حیات ۱۹۷۸ء جامعہ کے انتظامی امور سے جڑے رہے۔بلکہ اپنے بڑے اور بزرگوں کی طرح آپ کا بھی شمار جامعہ کے بانیوں میں سے ہے۔بلکہ عملی اعتبار سے اس مہم میں سب سے آگے تھے۔ جامعہ کے تعارف میں شائع ہونے والے سارے پمفلٹ، اشتہارات اور چندے کی روئیدادیں، مطبخ اور بورڈنگ کی نگرانی، طلبہ کی انجمن کی نگرانی، امتحانات کی نگرانی ، نتیجہ بنانے نکالنے اوراس کے اعلان کے سارے مراحل میں آپ آگے آگے رہتے تھے۔
امتحان سے قبل پرچوں کی تیاری، پھر سائیکلو اسٹائل پر اس کی چھپائی۔ جامعہ سلفیہ کا مکتبہ پہلے جامعہ کے گیٹ کے سامنے راہ داری کے اوپر بلڈنگ کے درمیان تھا جس پر جامعہ کے خوشنما گنبد بنے ہوئے ہیں۔ہمارے طالب علمی کے زمانے سے آزاد صاحب کے انتقال تک جامعہ کے پاس سامنے کے دس کمروں والی صرف دو منزلہ خوبصورت بلڈنگ تھی۔ وہی درس گاہ، اساتذہ کی رہائش کی بھی ہوتی تھی۔ آزاد صاحب کی دار الحدیث کے بائیں طرف کے مشرقی کمرے میں رہائش تھی۔مکتبہ عامہ میں سائیکلو اسٹائل مشین پر آزاد صاحب جس انہماک ولگن سے رات دیر تک پرچے چھاپتے اور مخصوص انداز کے کپڑے استعمال کرتے تھے۔ بالکل میدان جنگ میں انہماک کا عمل ہوتا اور رات میں چائے پان کا دور بھی چلتا۔ امتحانات میں آپ، شیخ الجامعہ اور دوسرے اساتذہ کے ساتھ امتحان ہال میں مستعد نظر آتے۔طلباء کے مختلف مضامین کے نمبرات آپ کے پاس جمع ہوتے اور نتیجے کی اصلی کاپی آپ ہی کے پاس ہوتی۔ آپ اور شیخ الجامعہ بنیادی طور پرا س کے ذمہ دار ہوتے تھے۔
دراصل آزاد صاحب صرف کسی ایک فن کے مدرس نہ تھے، بلکہ مختلف علوم وفنون کے ماہر، مدرس، مفتی، شیخ الحدیث وشیخ الفقہ،شیخ الفرائض، ادیب وشاعر سب کچھ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے۔ آپ نے خوب خوب یہ دولت لٹائی۔ ہر شخص آپ سے آسانی سے مستفید ہوسکتا تھا۔
میری خواہش یہ تھی کہ اگر آپ کی کوئی کتاب سامنے ہوتی یا فتاوے ہوتے تو ان کے نمونے قارئین کرام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا۔
سیاسی بصیرت:
ہندستان وپاکستان کے باشندوں کو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات سے متعلق معلومات جاننے اور ان کے باشندوں کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ لوگ پریشان رہتے ہیں۔شیخ مجیب الرحمن نے جب پاکستان سے الگ ہوکر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا نعرہ لگایا ۔ تحریک اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی تو میں نے ایک دن استاذ محترم سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے خیال میں مجیب الرحمن کا خواب پورا ہوگا اور پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جائے گا۔ فوراً فرمایا: جی اس کی تحریک کامیاب ہوجائے گی۔ بنگلہ دیش بننا نوشتہ دیوار ہے۔ استاذ محترم کی سیاست بصیرت کی داد دینی پڑے گی کہ بالکل شروع ہی میں اندازہ لگا لیا تھا کہ اب تقسیم در تقسیم ہونی ہے۔ وللہ الامر من قبل ومن بعد۔
میرے سامنے اس وقت استاذ رحمہ اللہ سے متعلق کسی شاگردیا کسی عالم دین کی تحریر نہیں ہے کہ اس سے اس مقالے میں استفادہ کرتا۔یہ مقالہ بہت پہلے لکھ چکا تھا۔ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے اپنے اساتذہ کرام کے ذکر میں آزاد صاحب کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں فرمایا ہے،جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
حضرت مولانا محمدادریس آزادرحمانی رحمہ اللہ نے حدیث میں ہمیں سنن ابی داود اور فقہ حنفی کی مشہور زمانہ کتاب ’الہدایہ‘ پڑھائی۔ آپ بہت ہی مشفق اورنرم دل انسان تھے۔ دار العلوم احمدیہ سلفیہ سے شائع ہونے والے ’مجلہ الہدیٰ‘ کے بہت سالوں تک چیف ایڈیٹررہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریرکا بہت اعلیٰ ملکہ عطافرمایاتھا۔ الہدایہ پڑھاتے ہوئے بارہا اُن سے الجھ جاتا اورپوچھتاکہ حضرت یہ تومسلک حنفی کی فقہی کتاب ہے، جس میں قرآن وسنت کے دلائل کافقدان ہے اور ہماری فقہ کی بنیاد توقرآن وسنت پرہے، وہ فقہ ہمیں کہاں ملےگی اور اس فقہ کی کتابیں کون کون سی ہیں؟ مولانا ہربارمجھے یہی کہہ کر خاموش کردیتے کہ اہل حدیث کی فقہ حدیث کی کتابوں میں ہے اور جب تم حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کروگے تو تمھیں قرآن وسنت پر مبنی مسائل فقہیہ مل جائیں گے۔ ہمارےاستاذمحترم مولاناآزاد رحمانی عربی، فارسی اور اردوتینوں زبانوں پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ ایک بارمجھے عربی میں ایک مقالے کی ضرورت پڑی، میں ان کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ مطلوب مقالہ میرے لیے تیارکردیں۔ انھوں نے اسی وقت کہا کہ قلم اورکاغذ لواور لکھنا شروع کرو۔چنانچہ انھوں نے املا کرانا شروع کردیااورمیں لکھتارہا، یہاں تک کہ وہ مقالہ پورا ہوگیا۔ ان کی عظمت وبڑائی، علمی صلاحیت اور تواضع وخاکساری کو دیکھ کر جی چاہا کہ اُن کی پیشانی چوم لوں، لیکن حدِّادب مانع رہا اور میں ایسا نہ کرسکا۔اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرماےاورانھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔(کاروان حیات:ص۴۹-۵۱)
ما شاء اللہ ۔ بہت زبردست ‘شاندار اور جاندار آزاد صاحب پر لکھی یہ شاہکار تحریر پڑھ کر مزہ آگیا ‘لیکن کئی جگہوں پر بعض امور کی وجہ سے ذہن میں تکدر پیدا ہوگیا (۱)مولانا نے اپنے ہم سبق ساتھی (عبد الرقیب ) کے نام کے ساتھ بہاری لکھا جو اچھا نہیں لگا(اسے عبد الرقیب بہار‘لکھتے تو تحریر کی شگفتگی برقرار رہتی) (۲)شیخ الحدیث علامہ شمس الحق کو بھی (شمس الحق بہاری) لکھا‘اگر مولانا شمس الحق سلفی لکھتے تو کتنا بہتر ہوتا (۳)دار العلوم احمدیہ سلفیہ کو ڈاکٹر صاحب نے دو جگہ (جامعہ احمدیہ سلفیہ) لکھا ہے‘حالانکہ احمدیہ سلفیہ کا… Read more »
نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ شہروں یا علاقوں کی طرف نسبت کرتے وقت اہل زبان یہی لکھتے بولتے ہیں۔ (دہلوی وغیرہ)
ہاں!کچھ لوگوں کے منفی استعمال سے تکلیف ہوتی ہے۔تاہم مذکورہ تحریر میں انداز بیان مثبت ہے۔(گستاخی معاف!)
معذرت کی قطعی ضرورت نہیں
شکریہ
لیکن اسی منفی استعمال کے پیش نظر ہی خاکسار نے یہ لکھا ہے