اس کتاب کا پورا نام ’ التنبیہ والایضاح عما وقع من الوھم فی کتاب الصحاح‘ ہے اور علمی دنیا میں حواشی ابن بری کے نام سے معروف ہے۔ اسے مصر کے ’مجمع اللغہ العربیہ‘ نے مصطفی حجازی اور عبد العلیم کی تحقیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
اس کتاب کی تالیف کا مقصد یہ ہے کہ امام جوہری سے تاج اللغۃ میں جو کمی واقع ہوئی ہے اسے بیان کرنا، غلطی کی اصلاح اور جو چیزیں چھوٹ گئی ہیں ان کا تدارک کرنا۔
امام جوہری کی کتاب ’تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ‘ کی شرح وتعلیق، تنقید وتبصرہ اور اس کے استدراک و اختصار پر جو کتابیں مرتب کی گئی ہیں ان میں حواشی ابن بری سب سے اہم اور قدیم کتاب ہے۔ یہ ان گنے چنے چند کتابوں میں سے ایک ہے جن پر ابن منظور نے اپنی کتاب لسان العرب کی ترتیب پر اعتماد کیا ہے۔ معاجم کی تنقید وتبصرہ کے باب میں یہ کتاب سنگ میل اور اہم مصدر ومرجع کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لیے علماء لغت نے اسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ہر زمانہ میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔
اس کے مؤلف ابن بری(ت۵۸۲) نصوص کو یاد کرنے، عربی زبان میں عبور حاصل کرنے اور نحو وصرف پر خاص توجہ دینے سے پہچانے جاتے تھے۔
اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے مؤلف نے اپنی تنقید وتبصرہ میں امام جوہری کا خوب ادب واحترام کیا ہے، طنز وتعریض اور اسلوب مباشر سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ جچے تلے الفاظ واسلوب کے استعمال کو اپنا شیوہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاج العروس کے مؤلف مرتضی الزبیدی اس طریقۂ تنقید کو بے حد پسند کرتے تھے اور ابن بری اور فیروزآبادی کی تنقید کے درمیان موازنہ کرتے تھے۔ ابن بری تنقید کرتے وقت ’ ولیس کما ذکر‘ اور ’ولیس الامر کما ذکر‘ جیسے عمدہ اسلوب کا استعمال کرتے ہیں جبکہ فیروزآبادی اس کے لیے ’أخطأ الجوہری، وھم الجوہری، وقول الجوہری۔۔۔ غلط‘ جیسے اسلوب کو اختیار کرتے ہیں،دونوں اسالیب میں فرق واضح ہے۔ اسی لیے جن علماء نے ابن بری کی سوانح عمری لکھی ہے انھوں نے ان کے لیے بہت زیادہ تعریف وستائش کے پل باندھے ہیں۔ چنانچہ امام سیوطی فرماتے ہیں:
’’مصر میں ان کی طرح کوئی عالم نہ تھا، انھیں علم نحو، عربی زبان وشواہدمیں کافی دسترس حاصل تھی۔‘‘
علامہ قفطی کہتے ہیں:
’’ان کی سیبویہ کی کتاب اور دیگر نحو کی کتابوں پر اچھی پکڑ تھی، زبان اور اس کے شواہد پر خاصی عبور رکھتے تھے، ان کی کتابیں بہت اچھی اور معلومات سے بھر پور ہوتی ہیں، مصر کے اکثر حکام نے ان سے استفادہ کیا ہے۔‘‘
اگر ہم منہجی یا موضوعی طریقہ پر اس کتاب کی خوبیوں کو اجاگر کرنا چاہیں تو چند نکات میں بیان کر سکتے ہیں:
۱۔ابن بری نے اپنی کتاب میں ان الفاظ کی نشاندھی کی ہے جن کی ترتیب میں جوہری سے خلل واقع ہوا ہے جیسے: لفظ ’الأباءة‘ کو معتل کے ضمن میں ذکر کرنا حالانکہ اس کی ہمزہ اصلی ہے، یعنی اس کو مہموز کے باب میں ذکر کرنا چاہیے تھا۔
۲۔نحوی، صرفی اور لغوی شواہد میں ان کا استدراک کرنا جیسے: جوہری نے کبھی کبھی شواہد کو بغیر قائلین کے ذکر کر دیاہے، ابن بری نے ان شواہد کو قائلین کی طرف نسبت کر کے بیان کیا ہے۔
۳۔علامہ جوہری سے شواہد کی نسبت میں جو غلطیاں ہوئی ہیں، ابن بری نے ان کی تصحیح کی ہے۔
۴۔جوہری کبھی کبھی شواہد کو ناقص بیان کرتے ہیں، یعنی شعر کے اس مصرعہ کو بیان کرتے ہیں جس میں لفظ شاہد ہو، ابن بری اس کے دوسرے سابقہ یا لاحقہ والے مصرعہ کو بھی بیان کر دیتے ہیں
۵۔ابن بری کہیں کہیں نئے شواہد کا اضافہ کرتے ہیں، شواہد سے استدلال و استشہاد میں جو غلطی ہوتی ہے اس کی تصحیح کرتے ہیں۔ نیز جوہری کی طرف سے بعض مواد یا بعض کلمات کو نظر انداز کر دینے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
۶۔نحوی وصرفی مسائل کے تحلیل ومعالجہ میں غلطی کی اصلاح کرتے ہیں۔
۷۔کبھی کبھی جوہری کی تعبیرمیں عدم دقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے ابن بری نے کہا:
’’وقول الجوھری ان البوادر من الانسان اللحمۃ۔۔۔ لیس بصحیح وصوابہ ان یقول: إن البوادر جمع بادرة للحمة التي بين المنكب والعنق‘‘
۷۔تشکیل وضبط میں غلطی کی اصلاح کرنا۔
۸۔مسائل کی تحلیل میں دوسری رائے کو بیان کر کے جوہری کا تعاقب کرتے ہیں۔
۹۔ابن بری کبھی کبھی جوہری کے علاوہ دوسرے علماء لغت کی بھی تنقید کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے حریری کی تنقید کی ہے، چنانچہ ابن بری لکھتے ہیں:
’’وفي هذا البيت شاهد على صحة السل؛ لانّ الحريري ذكر في كتابه (درة الغواص) أنه من غلط العامة، وصوابه عنده السلال، ولم يصب في إنكاره السل لكثرة ما جاء في أشعار الفصحاء، وقد ذكر سيبويه أيضا في كتابه‘‘۔
اس اقتباس کے اندر ابن بری نے جوہری کی نہیں حریری کی غلطی کی اصلاح کی ہے۔
اگر آپ حواشی ابن بری کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو آپ کو اس میں کچھ خامیاں بھی نظر آئیں گی اور وہ یہ ہیں:
۱۔کچھ لوگ کہتے کہ ہیں یہ تاج اللغہ وصحاح العربیہ پر مکمل تعلیق نہیں ہے، بلکہ مادہ (وَقَش) پر جا کر رک گیا ہے، پھر اسے دوسرے عالم عبد اللہ بن محمد البسطی نے پورا کیا ہے۔
۲۔یہ کتاب تنقید وتبصرہ کے تمام مجالات پر مشتمل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے مولف نے بہت ساری ایسی چیزوں کو نظر انداز کردیا ہے جن کو علامہ صغانی نے اپنی کتاب (العباب الزاخر) اور فیروز آبادی نے اپنی کتاب (القاموس المحیط) میں بیان کیا ہے۔
اگر چہ کتاب حواشی ابن بری جوہری کی کتاب ’تاج اللغہ وصحاح العربیہ‘ کی تنقید پر مشتمل ہے، تاہم اس کے درجہ واہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ بلکہ اس سے معاجم کی کتابوں پر عمومی طور پر تنقید وتبصرہ کے طریقہ کار کو نیا رخ ملا ہے، اس سے تصحیح واستدراک کے عمل کو کافی حد تک تقویت ملی ہے، نیز اسے زبان ولغت کے باب میں اس کے ما قبل کتابوں کا تکملہ سمجھنا چاہیے۔ چنانچہ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر محمد بن یعقوب لکھتے ہیں:
’’عربی زبان کے مواد کو جمع کرنے میں قدیم علماء کی کوششیں مسلسل اور مختلف رہی ہیں، ان کا مقصد تصحیف وتحریف کی توضیح، نقص کی جگہ اور شواہد کی طرف اشارہ کرنا، بعض اصول کو ذکر کرنے اور بعض دوسرے اصول کو نظر انداز کرنے کی خامی کی طرف نشاندہی کرنا تھا۔ در حقیقت اس طرح کی تصنیف ایک دوسرے کی کوششوں کا تکملہ ہے۔ ان کتابوں میں اہم التنببه والايضاح عما وقع من الوھم في الصحاح از ابن بری، نفوذ السهم فيما وقع فيه الجوهرى من الوهم از الصفدی اور القاموس المحیط از فیروز آبادی ہیں۔ ابن بری کی یہ کتاب صرف تنقید ہی نہیں زبان وادب کے باب میں ایک طرح کی عملی کوشش بھی ہے۔‘‘
اس کتاب کے بارے میں مزید جانکاری کے لیے قارئین درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں:
۱۔البحث اللغوي عند العرب از ڈاکٹر احمد مختار عمر
۲۔البلغة فی اصول اللغة از نواب صدیق حسن خواں القنوجی
۳۔المعجم العربی نشأتہ وتطورہ از ڈاکٹر حسین نصار
۴۔مقدمۃ احمد عبد الغفور عطار علی کتاب تاج اللغۃ وصحاح العربیہ
۵۔تداخل الأصول اللغویہ واثرہ فی بناء المعاجم از ڈاکٹر عبد الرزاق الصاعدی، استاذ الجامعہ اسلامیہ بالمدینۃ المنورۃ
وصلى الله على نبينا محمد وسلم تسليما كثيرا
بہت خوب تعارف وتبصرہ ہے