شیخ عبد الرحمان بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علم و عمل اور اخلاق و کردار میں اپنی مثال آپ تھے، وہ نمونہ سلف تھے، بیک وقت کئی اسلامی علوم و فنون کے ماہر و متخصص تھے، ان کا درس مرجع خلاق ہوتا تھا،عالم عرب ان کی جلالت شان اور علمی مرتبہ سے بخوبی واقف ہے، لیکن برصغیر کا ایک بڑا علمی طبقہ آج بھی ان کی عظیم علمی شخصیت اور مختلف فنون میں لکھی گئی ان کی گراں مایہ تالیفات و تصنیفات سے نا آشنا ہے، ایسے ہی افراد کی واقفیت کے لیے ذیل کی سطور میں شیخ عبد الرحمٰن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کی عبقری شخصیت پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
نام و نسب:
مکمل نام ابو عبد اللہ عبد الرحمن بن ناصر بن عبد اللہ بن ناصر آل سعدی ہے، وہ قبیلہ تمیم سے تعلق رکھتے تھے، قصیم کے شہر عنیزہ میں ان کی ولادت۱۲؍ محرم۱۳۰۷ھ میں ہوئی۔ ان کی عمر جب چار سال کی تھی تو والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا اور جب سات سال کے تھے تو والد محترم بھی دار بقا کو کوچ کر گئے۔ پرورش یتیمی کی حالت میں ضرور ہوئی لیکن تعلیم و تربیت اچھے ماحول میں ہوئی، وہ بچپن ہی سے اس قدر ذہین و فطین اور علم کے اتنے شوقین تھے کہ جلد ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے،والد کی وفات کے بعد قرآن پڑھنا شروع کیا اور گیارہ سال کی عمر میں پختگی کے ساتھ مکمل قرآن کے حافظ بن گئے۔اس کے بعد شہر کے علماء و فضلاء اور باہر سے تشریف لائے ہوئے دیگر اساطین علم و فن سے کسب فیض شروع کردیا اور پوری محنت و لگن اور جد و جہد کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ علوم شرعیہ کے تمام فن میں مہارت حاصل ہو گئی اور 23 سال کے ہوتے ہی مسند تدریس پر فائز ہوگئے۔اس دوران وہ پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے اور اسی مشغلہ تعلم و تعلیم میں ان کا مکمل وقت گزرتا تھا، یہاں تک کہ۳۷ سال کی عمر میں عنیزہ شہر کے اندر ان کا درس مرجع خلائق بن گیا اور طلبہ دیوانہ وار ان سے استفادہ کرنے لگے۔
اساتذہ:
(۱)شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کے سب سے پہلے استاذ شیخ ابراہیم بن حمد بن جاسر ہیں جن سے انھوں نے کافی اخذ و استفادہ کیا، وہ اپنے بیان و کتاب میں ان کا ذکر علم حدیث میں ان کی مہارت کی وجہ سے بارہا کیا کرتے تھے،خاص طور سے ان کے زہد و تقوی اور غرباء و مساکین کے تئیں ان کی محبت و غمخواری کا تذکرہ کیا کرتے۔انھوں نے بتایا کہ کئی بار ایسا ہوا ٹھنڈی کے دنوں میں ان کے پاس غریب آتا اور وہ اپنے دو کپڑوں میں ایک کپڑا جسم سے اتار دیتے اور خود کی ضرورت اور تنگی کے باوجود غریب کو وہ کپڑا پہنا دیا کرتے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔ آمین
(۲)شیخ محمد بن عبد الکریم الشبل:
یہ بھی شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کے استاذ تھے، آپ نے ان سے فقہ، اصول الفقہ اور دیگر عربی علوم کی تعلیم حاصل کی، ان کی وفات۱۳۴۳ھ میں ہوئی۔
(۳)شیخ صالح بن عثمان القاضی:
یہ اپنے زمانے میں عنیزہ شہر کے قاضی تھے،ان سے شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ نے عقیدہ، تفسیر، فقہ و اصول الفقہ اور عربی زبان و ادب کی تعلیم لی، شیخ سعدی رحمہ اللہ نے اپنے تمام اساتذہ میں سب سے زیادہ انھی سے کسب فیض کیا اور پوری زندگی یہاں تک کہ موت(۱۳۵۱ھ) تک ان سے چمٹے رہے اور استفادہ کرتے رہے۔
علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کے دیگر اساتذہ میں شیخ عبد اللہ بن عائض العویضی الحربي (وفات۱۳۲۲ھ)، شیخ صعب بن عبداللہ بن صعب التويجری(وفات۱۳۳۹ھ)، شیخ علی بن محمد بن ابراہیم السنانی،شیخ علی بن ناصر ابو وادی (وفات۱۳۶۱ھ)، شیخ محمد بن شیخ عبد العزیز المانع(وفات۱۳۸۵ھ ) شیخ محمد الأمين محمود الشنقيطی(وفات۱۳۵۱ھ) جیسے اساطین علم و فن خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
تلامذہ:
اگر علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کے شاگردوں کی بات کریں تو ان کی تعداد اتنی ہے کہ اس کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اوپر کی تحریر میں یہ بات گزر چکی ہے کہ شیخ سعدی رحمہ اللہ اپنے زمانے کی عبقری شحصیت تھے، آپ اسلامی علوم و فنون کے ماہر مانے جاتے تھے، اسی وجہ سے آپ طلبہ کے لیے مرجع و مرکز کی حیثیت رکھتے تھے، کیا طالب کیا عالم کیا چھوٹا کیا بڑا کیا مرد اور کیا عورت سب آپ کے دروس میں بڑے شوق و دلچسپی کے ساتھ شریک ہوا کرتے تھے۔ ویسے آپ کے خاص شاگردوں میں کئی علوم و فنون کے ماہر و متخصص فقیہ، اصولی، مفسر، محدث،نحوی، مدرس، ادیب اور نابغہ روزگار شخصیت شیخ محمد بن صالح العثيمين(وفات۲۰۰۱ ء) سر فہرست ہیں، ان کے علاوہ شیخ سعدی رحمہ اللہ کے ممتاز تلامذہ میں بطور نمونہ سلیمان بن ابراہیم البسام، عبداللہ بن عبد العزیز بن عقیل، محمد عبدالعزیز المطوع، عبد العزیز السبیل، سلیمان الصالح الخزیم ہیں۔
اخلاق و کردار:
شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کو اللہ تعالی نے جو مقام بلند اور عظمت شان عطا کی تھی، اسی قدر آپ رحمہ اللہ اخلاق و کردار کے اعلی مرتبہ پر فائز بھی تھے، آپ اوصاف حمیدہ اور خصال کریمہ کا نمونہ تھے، آپ چھوٹے بڑے اور امیر غریب سب سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے، آپ الگ سے وقت نکال کر ایسے لوگوں کی بیٹھک کرتے تھے جو آپ سے ملنے کے خواہش مند اور آپ سے سیکھنے کے شوقین ہوتے تھے، چنانچہ آپ اس طرح کی مجلس کو علمی و دینی بنا دیتے اور لوگوں کو دین و شریعت کے احکام و مسائل بتانے کے علاوہ ان سے سماجی مسئلوں پر بھی گفتگو کرتے تھے، اس طرح سے آپ کی عام بیٹھک اور مجلس بھی عبادت و سعادت کا ذریعہ اور دین و دنیا کی بھلائی سمیٹے کا سبب بن جایا کرتی تھی۔ آپ کی عادت تھی کہ آپ مجلسوں میں ہر فرد سے اس کی دینی و دنیوی بھلائی کی خاطر باتیں کیا کرتے، آپ آپسی تنازعات اور اختلافات کو طرفین کی رضامندی سے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ختم کر دیتے تھے، آپ نے کتنی ہی بار مشکل مسائل کا حل بآسانی نکال لیا۔
آپ فقراء و مساکین پر رحم دل تھے، آپ ہمیشہ استطاعت کے مطابق ان کا تعاون کیا کرتے، اور ساتھ ہی بعض موقعوں پر اہل خیر اور محسنین سے جن سے آپ خیر کی امید رکھتے تھے غرباء کی مدد کے لیے درخواست کیا کرتے۔آپ کے اندر تہذیب و شائستگی اور عفت و نفاست بدرجہ اتم موجود تھی،آپ ہر کام عزم و استقلال اور دور اندیشی سے انجام دیتے تھے، آپ لوگوں کے اچھے معلم اور ان کے مخلص ناصح تھے، آپ کے تعلیم و تدریس کے اوقات مرتب ہوتے تھے، آپ طلبہ سے ان کی فکری صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے علمی موضوعات پر مناقشہ کرتے تھے،جو طلبہ متون یاد کرتے انھیں بطور انعام رقم سے نوازتے تھے۔ آپ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ جب بھی آپ کو نئی کتاب کا درس شروع کرنا ہوتا تو پہلے آپ طلبہ سے کتاب کے سلسلے میں مشورہ کر لیتے تھے اور اس کے بعد درس کے لیے مناسب اور مفید کتاب کا انتخاب فرماتے،آپ کی علمی صلاحیت و لیاقت کے طلبہ اس قدر دلدادہ تھے کہ آپ کا درس طویل کیوں نہ ہو جاتا اس سے طلبہ کبھی نہیں اکتاتےاور آپ کی مجلس سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے طلبہ کی بڑی تعداد نے کسب فیض کیا، اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اور پوری امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے