پنچ وقتہ نمازوں میں نماز عصر کو ایک خاص مقام اور فضیلت حاصل ہے، اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے اسے ’الصلاة الوسطى‘ درمیانی نماز کہا ہے اور اس کو ادا کرنے کی خاص تاکید فرمائی ہے ۔
جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
حَافِظُوۡا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الۡوُسۡطٰى وَقُوۡمُوۡا لِلّٰهِ قٰنِتِيۡنَ(البقرة:۲۳۸)اپنی سب نمازوں کی محافظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔
چونکہ مسلمانوں کی اکثریت پانچوں نمازوں سے عموماً اور نماز عصر سے خصوصاً غافل ہے اور اس کے چھوڑنے اور ضائع کرنے کے انجام سے بے فکر ہے لہذا مناسب معلوم ہوا کہ محض نماز عصر سے غفلت اور اسے ترک دینے کے ایک نقصان سے آگاہ کر دیا جائے تاکہ عبرت حاصل کرنے والا عبرت حاصل کرے اور اس کے ترک سے خوف کھائے ۔
چنانچہ ابو الملیح کہتے ہیں:
كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ : بَكِّرُوا بِصَلَاةِ الْعَصْرِ ؛ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ ( صحيح البخاري | كِتَابٌ : مَوَاقِيتُ الصَّلَاةِ. | بَابُ مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ : ۵۵۳)ہم ایک ابر آلود دن میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ، تو انھوں نے کہا:عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا۔
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ محض عصر کی نماز چھوڑ دینے سے انسان کا عمل ضائع اور بے کار ہو جاتا ہے ۔
عمل ضائع ہونے کا مفہوم:
اس سلسلے میں علماء کے کئی اقوال ہیں:
پہلا قول:
اس کے گزشتہ تمام کے تمام نیک اعمال ضائع اور برباد ہو جائیں گے ۔ کیونکہ یہی لفظ ’ حبط‘ اللہ تعالی نے ’مشرک‘ اور’ مرتد‘ کے سلسلے میں استعمال کیا ہے ۔
چنانچہ مشرکین کے بارے میں فرمایا:
وَلَوۡ أَشۡرَكُوا۟ لَحَبِطَ عَنۡهُم مَّا كَانُوا۟ یَعۡمَلُونَ(الأنعام:۸۸)اگر یہ (انبیاء) بھی شرک کر لیں تو ان کے بھی اعمال اکارت ہو جائیں گے ۔
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا :
لَىِٕنۡ أَشۡرَكۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِینَ(الزمر:۶۵)اگر تو نے شرک کیا تو ضرور تیرے اعمال اکارت ہو جائیں گے اور تو خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا۔
اسی طرح مرتد کے سلسلے میں فرمایا:
وَمَن یَرۡتَدِدۡ مِنكُمۡ عَن دِینِهِۦ فَیَمُتۡ وَهُوَ كَافِرࣱ فَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ حَبِطَتۡ أَعۡمَـٰلُهُمۡ فِی ٱلدُّنۡیَا وَٱلۡـَٔاخِرَةِۖ وَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ أَصۡحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِیهَا خَـٰلِدُونَ (البقرة:۲۱۷)اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے پھر اس حالت میں مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اسی بنا پر بعض لوگوں نے صلاۃ عصر کے چھوڑنے کو کفر کہا ہے ، جیسا کہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد استدل بهذا بعض العلماء على أن من ترك صلاة العصر كَفَر، لأنه لايحبط الأعمال إلا الرِّدة كما قال تعالى: ومن يَرتَدِدْ منكم عن دينه فيُمت وهو كافر فأُولئك حَبِطت أعمالهم في الدنيا والآخرة وأُولئك أصحاب النار هم فيها خالدون ۔ وهذا القول ليس ببعيد من الصواب، لأن حبوط العمل لايكون إلا بالكفر والردة (شرح ریاض الصالحین :۵/۵۹) بعض علماء نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی تو گویا اس نے کفر کیا ، اس لیے کہ اعمال صرف اسلام سے مرتد ہو جانے کی وجہ سے ضائع ہوتے ہیں، جیسا کہ اللہ نے فرمایا :’’ اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور کفر ہی کی حالت میں وہ مر جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور یہی لوگ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔اور یہ کوئی بعید بات نہیں ہے اس لیے کہ عمل اسی وقت برباد ہوتا ہے جب بندہ کافر ہو جائے اور دین اسلام سے پھر جائے۔
البتہ یہ بات اس وقت درست ہو سکتی ہیں جب انسان مکمل طور پر اسے چھوڑ دے، کبھی کبھار چھوڑ دینے سے عمل تو ضائع ہو سکتا ہے مگر وہ کافر نہیں ہوگا۔
جیسا کہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن العمل إذا أطلق لم يدخل فيه الايمان وإنما يراد به أعمال الجوارح، وبهذا فارق قول السلف قول الخوارج؛ فإنهم أحبطوا بالكبيرة الإيمان والعمل، وخلدوا بها في النار، وهذا قول باطل (فتح الباری لابن رجب:۴/۳۰۷) جب عمل بولا جاتا ہے تو اس میں ایمان داخل نہیں ہوتا بلکہ اس سے اعضاء و جوارح کا عمل مراد ہوتا ہے ، اسی ضابطے کی روشنی میں سلف اور خوارج کے قول کے درمیان فرق معلوم ہوتا ہے کیونکہ خوارج کبیرہ گناہ کی وجہ سے ایمان اور عمل دونوں کو ضائع سمجھتے ہیں اور دائمی جہنم کا حکم لگا دیتے ہیں جو کہ ایک باطل قول ہے۔
دوسرا قول:
اس کا پورا عمل ضائع نہیں ہو گا ، چنانچہ بعض گناہ حبط اعمال بن جاتے ہیں، جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑنا یا آواز بلند کرنا، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ وَلَا تَجۡهَرُوۡا لَهٗ بِالۡقَوۡلِ كَجَهۡرِ بَعۡضِكُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ(الحجرات:۲)اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو ، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
اسی طرح ریا کاری کرنا وغیرہ ۔
البتہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے سابقہ تمام اعمال ضائع ہو جائیں ، کیونکہ اس قسم کا احباط تو کفر اور ارتداد ہی کی بنا پر ہوتا ہے ۔لہذا اس دن کے اعمال ضائع ہو جائیں گے، یا اس نماز کا اجر ضائع ہو جائے گا۔
جیسا ابن بطال کہتے ہیں کہ اسے وقت کے اندر نماز پڑھنے والے کا اجر نہیں ملے گا اور اس کا عمل فرشتے لے کر نہیں جائیں گے۔ ( شرح صحيح البخاری لابن بطال:۲/۱۷۶)
نیز ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والذي يظهر في الحديث – والله أعلم بمراد رسوله – أن الترك نوعان : ترك كلي لا يصليها أبدًا فهذا يحبط العمل جميعه، وترك معين في يوم معين فهذا يحبط عمل ذلك اليوم، فالحبوط العام في مقابلة الترك العام، والحبوط المعين في مقابلة الترك المعين ( كتاب الصلاة ، ص :۶۵)
حدیث سے جو ظاہر ہو رہا ہے وہ (الله أعلم بمراد رسوله) یہ کہ ’ ترک ‘ کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ترک کلی: یعنی انسان کبھی اسے پڑھے ہی نہ؛تو ایسی صورت میں اس کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔
۲۔مخصوص دن میں ترک معین :یعنی کسی خاص دن میں اسے نہ پڑھے ؛ تو ایسی صورت میں صرف اسی دن کے اعمال ضائع ہوں گے ، چنانچہ احباط عام ترک عام کے مقابلے میں اور احباط معین ترک معین کے مقابلے میں۔
مزید برآں علامہ احمد اثیوبی کہتے ہیں:
عندي أن حمل حبط العمل بترك صلاة العصر على ظاهره هو الأولى، لعدم ما يمنع منه، ولا يلزم منه أن يكون تركها محبطا لجميع أعماله كإحباط الكفر. إلا إذا اقترن معه الجحد لوجوبها.وحاصله أنه إحباط دون إحباط الكفر، فيصدق أن يحبط بعض أعماله من صحائفه بسبب تركها، كما أن الارتداد عن الإسلام يحبط جميعها. والله أعلم (زخیرة العقبى فی شرح المجتبى :۶/۳۰۳) میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ عصر کی نماز چھوڑنے کی وجہ سے عمل کے برباد ہونے کو ظاہر پر محمول کرنا ہی اولی اور افضل ہے اس لیے کہ یہاں پر کوئی مانع نہیں ہے اور نہ ہی یہ لازم آتا ہے کہ عصر کی نماز چھوڑ دینے سے تمام اعمال برباد ہو جائیں گے جس طرح کافر ہونے سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں جب تک کہ اس ترک کے ساتھ وجوب صلاة کا انکار شامل نہ ہو ۔خلاصہ یہ ہے کہ ترک صلاۃ کی وجہ سے عمل کا برباد ہونا کفر کی وجہ سے عمل کے برباد ہونے سے کم تر ہے ، چنانچہ عصر کی نماز چھوڑنے کی وجہ سے اس کے نامہ اعمال سے کچھ اعمال برباد ہو جاتے ہیں ، جبکہ اسلام سے مرتد ہوجانے کی وجہ سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔
تیسرا قول:
تہدید اور تشدید کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے ، حدیث کا ظاہر مراد نہیں ہے۔
یعنی: اس کا یہ جرم اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سارے کے سارے اعمال ضائع کر دیے جائیں اس قول کو ابن حجر رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے۔(فتح الباری:۲/۳۳)
راجح:
اس سلسلے میں راجح کی تعیین کرنا مشکل ہے کیونکہ اس میں تینوں قول کا احتمال نظر آتا ہے، جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
تفسير حبوط العمل في هذا الحديث اختلفوا فيه كثيرًا ؛ بحيث أنه لا يبدو لنا وجهٌ لترجيح قولٍ على قول . بمعنى : هل هو شامل لكل عمل صالح عَمِلَه منذ أن دخل في سِنّ التكليف، أم حبط عمله في ذلك اليوم، والله أعلم بالحقيقة (جامع تراث العلامة الألبانی فی الفقه :۲/۱۸۷)اس حدیث کے اندر ’حبط اعمال‘کی تفسیر میں علماء کرام نے کافی اختلاف کیا ہے، جس کی بنا پر ہمارے نزدیک کسی بھی قول کو راجح قرار دینے کی کوئی وجہ ظاہر نہیں ہوتی ۔کیا یہ ان تمام اعمال کو شامل ہے جنھیں انسان نے مکلف ہونے کے بعد انجام دیا یا صرف اسی دن کا عمل مراد ہے،اللہ ہی بخوبی جانتا ہے۔
لہذا ان تمام احتمالات سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان کبھی بھی نماز عصر کو ترک نہ کرے۔
آپ کے تبصرے