سالار قافلہ حق کی رحلت: ملت کا خسارہ
(ڈاکٹر محمد لقمان محمد یاسین السلفی:۱۹۴۳-۲۰۲۰ء)
الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلين أما بعد:
دکتورمحمد لقمان السلفی ۱۰-۷-۱۴۴۱ھ=۵-۳-۲۰۲۰م کو اللہ کو پیارے ہوگیے۔ إناللہ وإناإلیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرماے،خطاوں کومعاف فرماے ، ان کے درجات کو بلند فرماےاورانھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام دے، آمین۔
آدمی دنیامیں آتا ہی اس لیے ہے کہ یہاں ایک مدت گزارکر وہ اگلے مرحلے کی راہ لے۔اس دوسرے مرحلے کو برزخ کہتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آدمی اگرصراط مستقیم پرچل رہاتھا توجس دن اس کا بلاوا آگیا وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ قبر میں نیکی کے فرشتے اسےخوش آمدید کہیں گے۔ تنگ قبر اس کے لیےبے پایاں وسعت کی جگہ اورباغ وبہار بن جاے گی۔ جنت کی کھڑکیاں اس کے لیے کھول دی جائیں گی۔ قبر میں وہ نعمت الہی کی لذت سے لطف اندوز ہوگا۔ اسی وجہ سےاسلامی شریعت میں ہے کہ میت کی تجہیزوتکفین میں تاخیرنہیں ہونی چاہیے۔ آدمی اگراللہ تعالی کا سچا بندہ ہے، تو اس کے حق میں یہی بہترہے کہ وہ جلد از جلددنیوی جیل سے باہر نکل کرقبر کی آرام گاہ میں انعام الہی سے ہم کنار ہو۔ اگروہ نیک اور سچا نہیں ہے توخس کم جہاں پاک۔فرشتے اس کو رب کی معصیت کا مزہ چکھانے کے انتظار میں رہتے ہیں۔اسے عذاب قبر کی سختیوں کا سامنا ہوگا۔اسی لیے نماز میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے۔
محترم ومکرم ڈاکٹرشیخ محمدلقمان سلفی رحمہ اللہ وغفر لہ کی شخصیت پرروشنی ڈالناسورج کو چراغ دکھانے کا عمل ہے۔ برصغیرکے علمی ودعوتی حلقوں میں وہ محتاج تعارف نہیں ہیں ۔ عربی دنیامیں بھی ان کی شخصیت کافی مشہورہے۔ وہ جامعہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ،بہارکے ہونہارطالب علم تھے۔فراغت کے بعد سلفی کالقب ان کے نام کا جز ہوگیا۔ اس طرح سے وہ جامعہ احمدسلفیہ کے تعارف اور ا س کی شہرت کا عنوان بن گئے۔
جامعہ احمدیہ سلفیہ کے اساتذہ کرام:
دکتور مرحوم نے۱۹۵۶ء میں جامعہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں داخلہ لیا۔۶سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ فراغت سے ایک سال پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ہوگیاتو مدینہ منورہ چلے گیے۔مشہور اساتذہ یہ ہیں:مولانا ظہور احمدرحمانی، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی اورمولاناعین الحق سلفی-رحمھم اللہ۔
شیخ محمد لقمان رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہندستان سے آنے والے پہلے ۱۷؍اولین طلبہ میں سے تھے، جن کو مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔جامعہ کا پہلا تعلیمی سال ربیع الاول ۱۳۸۱ھ تاماہ ذی ا لحجہ۱۳۸۲ھ تھا۔ موصوف تاخیر سے ۱۴رمضان کو مدینہ پہنچے۔کالج میں داخلے کی عمر ۱۸سال کی ہوتی ہے۔ موصوف ۱۶ سال ہی کے تھے۔عمر کی کمی کی وجہ سے ثانویہ کےپہلےسال میں داخلہ ملا۔تعلیمی مدت کے صرف ڈیڑھ ماہ ملے،تیاری کر کے امتحان اچھے نمبرات سے پاس کر لیے۔دوسرے سال ثانویہ کے خاتمے کے بعدسپلی منٹری امتحان میں تیسرے سال کا امتحان پاس کیا ۔ اگلے سال ۱۳۸۴ھ میں کلیۃ الشریعۃ کے پہلے سال میں داخل ہوے۔ ۱۹۶۷ء=۱۳۸۷ھ میں بی اےاعلی پوزیشن سےپاس کر لیا۔ مشاہیرعصر اساتذہ کرام کے سامنےزانوے تلمذ تہ کیا۔جن میں سے بعض کے اسماے گرامی یہ ہیں:علامہ ابن باز، شیخ محدث محمد ناصر الدین البانی، شیخ مفسر محمد امین شنقیطی،محدث حافظ محمدگوندلوی،شیخ عبدالغفار حسن رحمانی -رحمھم اللہ۔
دکتور مرحوم نے۱۹۷۰ء میں المعھد العالی للقضاء سے ایم اے کیا۔بعد میں کلیۃ اصول الدین جامعۃ الامام سے حدیث میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔یہاں کے اساتذہ میں سے علامہ عبدالرزاق عفیفی، علامہ عبداللہ بن حمید،شیخ مناع القطان اور ڈاکٹر محمد ادیب صالح ہیں۔
دکتور مرحوم کےرفقاے درس:
جامعہ اسلامیہ میں پہلے سال میں ۱۵ طلبہ کا داخلہ ہوا تھا۔علامہ احسان الہی ظہیربھی سلفی صاحب کی طرح کم عمر تھے،اس لیے ان کا داخلہ بھی ثانویہ میں ہوا ۔دونوں بی اے تک ہم درس رہے۔پہلے سال کے طلبہ میں شیخ ہلال احمد بن نذیر احمد املوی، مولانا حفیظ الرحمن عمری اعظمی اورشیخ عبدالرحمن مبارکپوری بھی تھے، جو سلفی صاحب سے ایک سال پہلے فارغ ہوے۔پاکستانی طلبہ میں شیخ محمد ابراہیم خلیل اور صہیب حسن بن عبدالغفار صاحبان بھی تھے۔سلفی صاحب نے ڈاکٹر صہیب صاحب سے انگریزی زبان میں استفادہ کیا تھا۔
اردو،عربی ،انگریزی اور فارسی زبانوں میں مہارت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سلفی رحمہ اللہ کوتقریر وتحریرکے میدان میں بھی شہرت حاصل تھی۔ فراغت کے بعد ۱۳۸۸ھ=۱۹۶۸م میں دارالافتاء کے شعبہ ادارہ الدعوہ فی الخارج میں انگریزی مترجم کی حیثیت سے ان کاتقرر ہوگیا۔ دارالافتاء جیسے موقرادارےمیں رہ کر دھیرے دھیرے علمی اور دعوتی حلقوں میں متعارف ہوے۔ انتظامی امورمیں مہارت وتجربہ، حسن کارکردگی اورمتنوع علمی صلاحیت کی بناپرجلدہی شیخ ابن بازکے آفس میں وہ انگلش ترجمے کے ذمے دار بناے گئے۔اس کے بعد کبیرالمستشارین کے منصب پر فائزہوے۔اردو ہندی اورانگریزی سےمتعلق امورکے وہ نگراں ہوے۔نومسلموں کے مسائل کی ذمے داری بھی نبھائی۔
۱۳۹۵ھ میں سعودی شہريت حاصل ہوگئی تو اس سے استقرارنصیب ہوا۔ دار الافتاءکے دعاۃ ومبلغین ساری دنیامیں پھیلے ہوےتھے۔اس لیےڈاکٹرمحمدلقمان سلفی کا دائرہ تعارف وتعلقات بھی عالمی ہوگیا۔ دارالافتاءمیں آنے جانے والےعلماء، دعاۃ، مصنفین، مترجمین، طلباءاورعوام سب کامرجع بن گئے۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی مرحوم سے میری پہلی ملاقات ۲۶؍جنوری ۱۹۷۴ءکوریاض العلوم دہلی میں ہوئی تھی۔ پھر۱۹۷۴ءکےاواخرمیں مدینہ منورہ آنےکی سعادت حاصل ہوئی تو مکہ، مدینہ،طائف اورریاض میں مرحوم سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔اکثر لوگ بڑی حیثیت والوں اور اپنے مرتبے کے لوگوں کی عزت افزائی کرتے ہیں اور انھی کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں،لیکن خردوں کو نوازنےکاعمل کم نظرآتاہے۔ ڈاکٹر صاحب چھوٹے بڑے سب کو عزت دیتے تھے۔ان کا دارالضیافہ اوروسیع دسترخوان ہمیشہ اس بات کا شاہد رہا ہے۔ ایک ہی محلےمیں دو بزرگ رہتے تھے، دونوں دارالافتاءمیں ملازمت کرتےتھے، ایک تو دکتورسلفی اور دوسرے مولاناعبدالرشیدازہری بن مولانا عبدالسلام بستوی،جو شعبہ مراقبۃالمطبوعات میں تھے۔ مہمان نوازی اورخردوں کی عزت افزائی میں دونوں ایک سے بڑھ کر تھے۔ دونوں ایک ہی محلے میں تھے، ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کرتے تھے۔میں جب بھی ریاض آتا، انھی دونوں کےیہاں قیام رہتا۔ انھی کی گاڑیوں پردار الافتاءآتا اور ان ہی کے ساتھ ان کے گھرواپس جاتا۔
حج میں بھی کئی بار ساتھ رہا۔ اس معنی میں کہ موصوف توہمیشہ شیخ ابن بازکی معیت میں پورے موسم حج میں مکہ اور منی ہی میں ہوتےتھے۔ حج بھی ساتھ کرتےتھے۔ ہم لوگوں کی ملاقات مکہ سے لے کر منی تک میں برابرہوتی رہتی تھی۔جامعہ سلفیہ بنارس سےمرحوم کے تعلقات گہرے تھے۔ وہاں سے اردو وعربی مجلات ان کے پاس آتے تھے۔مطبوعات بھی پہنچتی تھیں۔ اس طرح سےمیری بعض کتابیں اورمقالات بھی ان کی نظرسے گزر چکے تھے۔ غالبا اسی وجہ سے وہ مجھ سے حسن ظن رکھتے تھے۔مہر و محبت والے تعلقات کے ساتھ بے تکلفی بھی کالج کے زمانے ہی سے ہوگئی تھی۔ ایک مرتبہ حرم کے پاس یوم الترویہ کے دن ہم سب صبح کے وقت منی جانےکے لیے تیارہورہے تھے، مرحوم نےاز راہ مزاح تبصرہ فرمایا: عبدالرحمن صاحب تو عمر کےاتنے سال میں ہوں گے،یہ کہہ کر ہنسنے لگے۔ میں نے فوراً کہا کہ ذرا قینچی تو لائیے، ابھی دیکھتے ہیں کہ کون کتنی عمرکا ہے۔ دکتور اور حاضرین ہنس پڑے۔
دکتور مرحوم کی اہلیہ محترمہ ام عبد للہ مہمانوں کی خدمت میں ہمہ وقت مستعد رہتی تھیں۔ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا کہ ام عبدللہ کو اللہ تعالیٰ نے کتنا حوصلہ دیا ہے کہ وہ ہمیشہ مہمانوں کی ضیافت کا ہرطرح سے خیال رکھتی ہیں۔ ناشتے سے لے کر مختلف وقتوں میں چائے وائےاورکھانے کے اوقات میں ہمیشہ دسترخوان سجے رہتے تھے۔
میرے ایم اے کرلینے کے بعد شیخ محمد امان علی الجامی رحمہ اللہ نے خصوصی طورپر خط لکھ كر مجھے شیخ ابن بازکے پاس مکہ مکرمہ میں بھیجا اورمیری سفارش کی کہ انھیں دارالافتاء میں ملازمت مرحمت فرمائیں۔ میں اپنا مقالہ لے کر حاضرہوا ، جمعہ کا دن تھا، جمعے کے بعد شیخ ابن باز کے دولت خانےپر بڑے بڑے مشایخ ان کی زیارت کے لیے آے ہوےتھے۔ ان میں شیخ صالح الحصین اور ڈاکٹر صالح بن حمید بھی تھے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی عادت تھی کہ اگر کوئی شخص کوئی کتاب لےکرآتاتو اس سے کچھ پڑھواتے ضرورتھے۔ مجھے بھی حکم دیا کہ کچھ پڑھو۔ شیخ کی مجلس اورعلماء کی موجودگی میں، میری زبان سوکھنے لگی، جمع خاطر کرکے میں نے مقدمے میں سےایک صفحہ پڑھ کر سنایا۔ شیخ کی عادت تھی کہ اگرکوئی پڑھنے میں نحوی غلطی کرتا تو اصلاح ضرورکرتے ۔مجھے بھی ایک دوبار لقمے دیے۔ شیخ ابن باز سب کےشیخ تھے۔ میں تو پہنچاہی شیخ محمدامان کے خط کے ساتھ تھا ۔ شیخ کے پرائیویٹ آفس سکریٹری شیخ ابراہیم الحصین، شیخ محمد امان کو ٹوٹ کرچاہتے تھے۔ شیخ نے ہماری درخواست کو آگے بڑھایا۔اپنے عملےکےذمے داران کوحکم دیا کہ وہ میری ملازمت کوپختہ کریں۔ میں مراجعت کے لیے ریاض آیا توشیخ محمدلقمان صاحب کے گھر پرٹھہرا،ان کو اپنارازدار بنایا۔ دار الافتاء میں جن جن اداروں سے کاغذات گزرنے تھے، وہاں مرحوم نےبھاگ دوڑکی۔ باتوں باتوں میں بتایا کہ شعبۂ ملازمت(ادارۃ شئون الموظفین) کا افسربہت بدخلق ہے۔ میں جب اس کے آفس میں گیا تو وہاں کے ایک ملازم نے میرے سامنےمیری فائل پھینک دی اور کہا کہ شیخ ابن باز ایسے ہی سب کے بارے میں لکھ دیتے ہیں، ہمارے یہاں وظائف نہیں ہیں۔ ادارے کے جنرل سکریٹری شیخ عبداللہ الشبانہ تھے۔ بڑے خوبصورت اور وجیہ، چہرے پر بھر پور داڑھی، مسکراتے ہوے میرا استقبال کیا اورکہا کہ آپ کو اس ملازمت سے معمولی مشاہرہ ملے گا، دراصل آپ لوگوں کی خدمات سے اصل فائدہ ہمارے ادارے کاہے۔ اندر کی اس کارروائی میں ناکامی کے بعد شیخ ابن باز نے دیوان ملکی سے اجازت کے لیے خط لکھا، لیکن وہاں سے بھی جواب آیا کہ نظام کے مطابق معاملہ کیا جاے۔ دراصل سعودی عرب کے جامعات کے غیرسعودی فارغین کے بارے میں شاہ فیصل کی قرار داد۱۹۶۷ء ہی سے یہ تھی کہ ملک کےاندر کسی کی پوسٹنگ نہیں ہوگی، باہرجاکر دارالافتاء کی طرف سے دعوت کا کام کریں۔ڈاکٹر لقمان سلفی مرحوم کو بڑا اشتیاق تھا کہ میں ریاض آجاؤں اور ہماری ایک ٹیم ہوجاے گی۔انھی ایام میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تقریبا تیارکرلیاتھا۔ متنوع فہارس بنانے کا کام ابھی باقی تھا۔ مجھ سے کہا کہ آپ یہ کام کردیں۔ میں نے مقالہ لے کر چنددن میں یہ کام کردیا ۔ بہت خوش ہوے۔
مکہ مکرمہ میں ایک بار وہ اپنے آفس میں تشریف رکھتے تھے۔ میں ملنے گیا توکہنے لگے کہ ایک تادیبی کمیٹی بنانے کا مشورہ ہواہےتا کہ جو لوگ اکابر جماعت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، ان سے بازپرس کی جاے۔میں نے فوراً کہا کہ مجھے بھی اس مجلس کا رکن بنائیے گا۔بہت زورسے ہنسے اورکہا کہ آپ کی شرارت نہیں جاے گی۔ دراصل اس زمانے میں ہندوپاک کے جماعتی نظم میں بڑا خلل محسوس ہوتاتھا۔ ہم لوگ کھلے اور دبے لفظوں میں اس صورت حال پر تبصرےبھی کردیاکرتے تھے۔میں کچھ زیادہ ہی بدنام تھا۔ باتیں اگر ذمہ داران تک پہنچ جاتی تھیں تو وہ ان کے طبع نازک پر گراں گزرتی تھیں۔اس طرح کی شکایت ڈاکٹرصاحب تک پہنچی اورشاید ان سے اس طرح کی بات ہوئی ہوگی کہ ایک مجلس محاسبہ بنے۔ مکہ مکرمہ ہی میں۱۹۷۸ءمیں ایک میٹنگ ہوئی جس میں میں بھی حاضرتھا۔ استاذ محترم ڈاکٹرعبدالعلیم البستوی نےطوائف الملوکی میں ملوک الطوائف پرتبصرہ کرتے ہوے فرمایاکہ اس وقت جماعت فیل پا کا شکار ہے،مرکز دبلاہوگیاہے، شاخیں وسعت میں فیل پا کے مثل ہیں۔ یہ تنقید بڑی سخت تھی۔ اس سے پہلے ہندوستان میں ایمرجنسی لگی تو اس وقت بھی جماعت کے موقف کے بارے میں کچھ باتیں آئی تھیں۔ ایک ذمہ دار نے کچھ غیر معقول بات کی تو ایک بزرگ مرحوم دوست نے اپنےرد عمل کااظہار کیااور کہا کہ پتانہیں ان ذمہ داران کی عقل کہاں چلی گئی ہے۔ اس کے جوا ب میں جماعت کے ایک بزرگ کاتبصرہ میں نے خودسنا کہ پوری عقل تو مکے اورمدینے آگئی ہے۔
ڈاکٹرمحمدلقمان صاحب کا جماعت میں بڑا احترام تھا۔ وہ بھی جماعت سےگہرا تعلق رکھتے تھے۔ دامے درمے قدمے سخنے ہمیشہ جماعت کے ساتھ کھڑے رہتےتھے،اس لیے جماعت کے فیصلوں میں ان کی رایوں کا بڑا احترام تھا۔ بنگلور میں ۱۹۸۵ء میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کےمنعقد اجلاس میں مولانا عبدالسلام رحمانی کو ناظم اعلی بنایا گیا تو ان کی نیابت کے لیے ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی مرحوم نے مولانا عبدالوہاب خلجی کانام پیش کیاتھا۔ موصوف کی تجویز پر وہ نائب ناظم کے منصب پر فائز ہوے۔ آگے چل کر ناظم اعلی بنے۔ اس سے پہلےشیخ عبدالسلام رحمانی جب فیجی منتقل ہوے تو دارالافتاء سےفیجی میں ان کی ملازمت کے لیے ڈاکٹرسلفی صاحب نے کوشش فرمائی تھی۔(صفحہ ۳۵۴)
بہار سرکاری بورڈسے ملحق مدارس اسلامیہ کی ناگفتہ بہ تعلیمی صورت حال سے مایوس ہوکر ڈاکٹر صاحب نے اپنے قصبے چندن بارہ،چمپارن میں جامعہ ابن تیمیہ کی تاسیس کا فیصلہ کیا۔اپنی تمام ترصلاحیتیں اس کی تعمیر وترقی پر لگادیں۔شیخ ابن بازسے قربت، دارالافتاءکے دوسرے ذمہ داروں سے روابط اوراس حوالے سے اہل خیرسے تعلقات کی بنا پرادارے کی ترقی کی راہیں آسان تھیں، دیکھتے دیکھتے جنگل میں منگل کا سماں ہوگیا۔تعلیم وتعلم کا ایک شہر آباد ہوگیا۔ قال اللہ وقال رسول اللہ سے فضا گونجنے لگی۔جامعہ ابن تیمیہ کی ملک کے اندر اور باہراہمیت اورشہرت پرکچھ لکھنےکی ضرورت نہیں ہے۔
جامعہ کے ابتدائی عہدمیں جب میں بنارس میں مدرس تھاتودکتورمرحوم نےمجھے اورشیخ احمدمجتبیٰ کو جامعہ کا ممبربنایاتھا۔اسی تعلق کی بناپرمیرے مشورے سےمولاناریاض احمدسلفی اور مولانا رحمت اللہ سلفی کوجامعہ ابن تیمیہ میں تدریس کے لیے منتخب کیاگیا۔ یہ دونوں میرےشاگردتھے۔ انھوں نے ایک مدت تک جامعہ کی خدمت کی۔
جامعہ کے خلاف علاقے کے تنگ نظراہل تقلیدنے سازش رچی تو انھی ایام میں، مولانا احمدمجتبیٰ سلفی اورمولانا اصغرعلی امام مہدی کی معیت میں مجھے بھی چندن بارہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ جامعہ میں خطاب ہوا، جامعہ کی علاقےمیں اہمیت اور اس کے خلاف متنوع سازشوں کے تناظرمیں اس کے دفاع میں میں نے جوباتیں کہیں، اس سے سامعین کو حوصلہ ملا۔پتاچلا کہ ڈاکٹرسلفی مرحوم کو بھی میرا خطاب بہت پسندآیاتھا۔
۱۴۱۲ھ میں جامعہ الإ مام میں مدرس بن کر ریاض آیا تودکتورمرحوم سے ملنے جلنے کے مواقع زیادہ میسر آے، فیملی تعلقات آج تک قائم ہیں۔ میرے بڑے بیٹے عبداللہ شوقی اور آپ کے صاحب زادےڈاکٹرعبداللہ سلفی میں گہری دوستی ہے۔
ریاض کی اکثرمجالس میں دکتور مرحوم ہمارے سرپرست ہواکرتے تھے۔ مشورے میں نرمی وگرمی کے بعد آپ ہی کی بات حرف آخر ہوتی تھی۔کبھی ناراض ہوجاتے، لیکن مجلس ہی میں بالکل نارمل بھی ہوجاتے۔یہ بھی ایک طرح کی بزرگی اورخرد نوازی کی بات تھی۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی نظامت علیاکے لیے مولانا اصغرعلی کے انتخاب سے پہلے اخوان ریاض کا ایک مشاورتی اجتماع ہوا۔ دکتور مرحوم کچھ دیرسے پہنچے۔ مشورہ اس مسئلے پر تھاکہ ہم لوگ اس انتخاب میں اپنے مشورےکے لیے کون سا صیغہ استعمال کریں۔ دکتورمرحوم مجلس میں پہنچے توفرمایا کہ مجمل باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، لکھناہو توصاف طورپر لکھاجاے کہ فلاں کو ہم نظامت کا اہل سمجھتے ہیں۔ دکتورمرحوم کے زوردینے پر لکھاگیا کہ ہم لوگوں کی راےہے کہ مولانااصغرعلی کو نظامت کی ذمہ داری تفویض کی جاے۔ اتفاق سےانتخاب کے وقت کاماحول کچھ ایسا بناکہ عملاً آگے چل کر امیرمحترم حافظ محمدیحییٰ صاحب دہلوی نے مولانا اصغرعلی کو ناظم نامزد کیا۔ اس میں اخوان ریاض کے مشورے کی کوئی بات نہ تھی۔ اس کےرد عمل میں بہت سی باتیں سننے میں آئیں۔ الزام تراشیاں کی گئیں، لیکن لوگوں نے اس حقیقت کے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ انتخاب کے وقت جو صورت حال پیداہوئی وہ کیاتھی ؟پھرمولانا اصغرعلی کی نامزدگی کیسے عمل میں آئی؟
بات سے بات نکلتی ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں ۱۳۹۹ھ میں میرا ایم اے کا پہلا سال تھا، ہم لوگ بالخصوص جامعہ سلفیہ کے فارغین کبھی کبھی شیخ عبدالصمدالکاتب کے گھر اکٹھا ہوتے تھے۔ ایک اجتماع میں یہ طے ہوا کہ ہندستان کی جمعیت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک وفدشیخ عبدالصمدالکاتب کی قیادت میں ہندستان کا دورہ کرے۔ میں پہلےاجتماع میں شریک نہیں تھا، دوسرےاجتماع میں میں نے حاضرین سے عرض کیاکہ گھوم پھرکر آنے کاکیانتیجہ نکلےگا۔ ایک جگہ باقاعدہ اجتماع ہونا چاہیے، تاکہ سب کے سامنے جماعت کی تعمیر وترقی کی ضرورت کے بارے میں ہمارے خیالات سامنے آسکیں۔ چنانچہ ایک وفد تشکیل پایا، جس میں شیخ محفوظ الرحمن سلفی، شیخ عبدالحکیم بن عبدالسلام اور شیخ عبدالوہاب خلجی،حافظ محمد الیاس اور کئی احباب نے شیخ عبدالصمد کی قیادت میں ہندستان کا دورہ کیا۔ میں نےاسی مجلس میں اس دورے کانام یہ رکھا تھا: اللجنة الصمدية لتنشيط الدعوة السلفية اس پرشیخ عبدالصمدبہت ہنسے۔
دلی میں ایک اجتماع ہوا، اتفاق سے شیخ عبدالعلیم بن عبدالعظیم بستوی بھی اس اجلاس میں حاضر تھے۔ اناونسری کے فرائض بھی انھوں نے انجام دیے تھے۔ جمعیت کے نظم وضبط اور تعمیر وترقی پر مشورے میں ایک مرحلہ ایسا آیاکہ اس وقت کے امیر جمعیت مولانا سیدعبدالحفیظ سلفی صدر جامعہ احمدیہ سلفیہ(لہریا سراے، دربھنگہ) نے امارت سےاستعفی دے دیااور مولانا عبدالوحید سلفی ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ کوامیر منتخب کیاگیا۔ بعد میں جامعہ احمدیہ سلفیہ کےبعض فضلاء نے اس پراپنی ناراضی کااظہار بھی کیا۔ بعض لوگ الزام تراشی پراترآے کہ یہ سب ایک سازش تھی۔ اب تو اس کے اکثرگواہ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ اللہم اغفرلہم وارحمہم۔ میں پوری ذمے داری اورقطعیت سے یہ بات کہہ سکتاہوں کہ دونوں انتخابات میں کسی طرح کی زور زبردستی اور سازش نہیں تھی۔یہ سب اتفاقیہ طورپر ہوا۔ ڈاکٹرعبدالحفیظ سلفی ہم سب کے بہت محترم بزرگ تھے۔ شیخ عبدالصمدالکاتب سلفی دعوت سے محبت میں انتہائی مخلص تھے، دین داری کے اعلیٰ مقام پرتھے، ان کے بارے میں سوءظن بالکل لغوبات ہے۔
دکتور محمد لقمان سلفی مرحوم نے دارالافتاء میں رہ کر عالمی طورپر دعاۃ ومبلغین کی خدمت کی، ان کی سرپرستی فرمائی۔ سب کی خدمت میں آگے آگے رہے۔ ریاض میں سلفی اورغیرسلفی احباب جوبھی ان سے تعلق رکھتا،سب سے ان کےاچھے تعلقات تھےاوروہ سب سے مہرومحبت کا معاملہ کرتے تھے۔
اپنے علمی شوق کی تکمیل اورجامعہ ابن تیمیہ کی ترقی کے لیے دارالداعی کے نام سے ایک تجارتی مکتبہ بھی کھولا، بہت ساری علمی اور مفیدکتابوں کی تالیف واشاعت کااہتمام کیا۔ ترجمہ وتحشیہ قرآن کریم کی خدمت کی سعادت سےبھی بہرہ ورہوے۔ دار الداعی کے اہم منصوبوں میں فتاوی نواب صدیق حسن صاحب کی تعریب واشاعت بھی تھی۔
دکتورمرحوم نے تصنیف وتالیف اور ترجمے کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیا۔اپنی چھوٹی بڑی ۴۵کتابوں کا ذکر سوانح میں کیا ہے۔(صفحہ۴۴۱- ۴۴۴)
سات سال تک مجلۃ الدعوۃ سے جڑے رہے۔ آپ کے بیان کے مطابق اس میں آپ کے ۳۷۵ مقالات شائع ہوے۔(صفحہ ۴۳۸)
دارالافتاء میں غیرمسلموں کو ۱۸سال تک اسلام کا تعارف اور نومسلموں کو کلمہ پڑھانے کا شرف بھی حاصل کیا۔شعبہ جالیات کے ریاض اورباہر کے اجتماعات میں بھی شرکت فرماتے رہے۔گھرپر بھی ۴۰ سال تک دروس کا سلسلہ قائم رہا۔(صفحہ۴۳۴)
درجن بھر سے زیادہ اپنے دعوتی اسفار کی تفصیل بھی اس کتاب میں بیان فرمائی ہے۔
ان تمام اوصاف کے ساتھ آپ لقمان حکیم بھی تھے۔ہومیو پیتھک علاج میں مہارت تھی۔ اپنا اور اپنے بچوں کا علاج خود ہی کرتے تھے۔ ہم لوگ بھی آپ کی تشخیص اور علاج سے مستفید ہوتے تھے۔
دکتور مرحوم گیارہ بچیوں کی پرورش وپرداخت، سب کی شادی خانہ آبادی سےفارغ ہوے۔جامعہ ابن تیمیہ بھی ایک تناوردرخت بن گیا ۔ان کے گرامی قدرصاحب زادےعزیزم ڈاکٹرعبداللہ سلفی پوری طرح آپ کی نیابت کے اہل ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ کے یہاں سے ان کابلاوا آگیا۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ واعف عنہ۔
میں کافی دنوں تک ہندستان رہا، واپس آنے کے بعد ایک دن پتا چلا کہ مرحوم بیمار ہیں،پھر معلوم ہوا کہ آئی سی يو میں بھرتی ہیں۔ اس دوران میرا مکہ مکرمہ جاناہوا۔ریاض واپسی پر ایرپورٹ سے لوٹتے ہوے راستے میں میرے چھوٹے بیٹے احمد سلمہ اللہ جو گاڑی چلارہے تھےاور میں تلاوت قرآن کی مشق کا ریڈیوکا ایک پروگرام سن رہاتھا، کچھ غنودگی کا عالم تھا، اچانک تیزجھٹکے سے گاڑی تیزآوازکے ساتھ رکی، گردن میں سخت دھچکا لگا،درد سے میں بے قرار ہوگیا، کئی ہفتے میں گردن کے علاج میں رہا۔ کئی بار پروگرام بنانے کے باوجود بھی اسپتال عیادت کے لیے نہ جاسکا اور دکتورمرحوم اللہ کو پیارے ہوگیے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
ڈاکٹرصاحب کے خاندان کا تعلق سیداحمدرائےبریلوی اورشاہ محمداسماعیل دہلوی کی جماعت الدعوہ سے تھا، جسے عرف عام میں تحریک شہیدین وتحریک جہاد کہاجاتاہےاور جس کی جڑیں بہار اوربنگال میں کافی گہری تھیں۔ اس کے اثرات سے اہل حدیث کی تعدادان علاقوں میں کافی ہے۔قدیم زمانے سے دعوت وتبلیغ، تصنیف وتالیف اور کثرت مدارس کے لیے یہ علاقہ مشہورہے۔ تعلیم وتعلم سے لگاؤ، دعوت سے دل چسپی، جماعت کے کام کو آگے بڑھانے کی جدوجہداورحوصلہ گویاکہ ان کووراثت میں ملاتھا۔ احمدیہ سلفیہ میں اساتذہ کی تربیت، پھرجامعہ اسلامیہ میں مشایخ عصرسے کسب فیض نےان کی جدوجہدکا رخ متعین کردیاتھا۔
دکتور مرحوم نے شعوری طورپرانفرادی اوراجتماعی ذمہ داریوں کے اداکرنے میں پوری زندگی گزاری۔ رشتے ناطےکے لوگوں سے بھرپورصلہ رحمی کا مثالی معاملہ کیا، دوست احباب کے ساتھ مہرومحبت کاتعلق رکھا، اپنی ساری جدوجہد دعوت وتبلیغ اور تعلیم وتعلم میں صرف کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہےکہ وہ آپ کی مغفرت فرماےاور جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔عزیزگرامی عبداللہ سلفی کو آپ کاسچا اورمخلص وارث بناے کہ وہ آپ کے چھوڑے ہوے کاموں کی تکمیل فرمائیں اورجامعہ ابن تیمیہ کی تعمیروترقی کو اپنی زندگی کا ہدف بنائیں۔والد مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوے ہم سب اور ان کے یااحباب کا بھی خیال رکھیں۔
دکتورمرحوم نے اپنی زندگی کے بارے میں خودتفصیل سے لکھ دیاہے۔ اپنی سر گزشت کے ساتھ اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کا بھی ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ اس لیے اب اس پر اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ خود نوشت کارروان حیات کے نام سےجون ۲۰۱۵ء=شعبان۱۴۳۶ھ میں ۷۱۸ صفحات میں دارالداعی سے شائع ہو چکی ہے۔ آپ کی زندگی کھلی کتاب تھی،متنوع کارنامےبھی سب کے سامنےہیں۔ ہم لوگوں کو ایسی مقتدراوراہم شخصیات کی زندگی کے آئینےمیں دیکھ کر خیرکے میدان میں سبقت کرنی چاہیے۔ یہی اسلام کا مطلوب ہے، یہی وقت کاتقاضاہے، اسی میں برکت ہے،ہم اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
کاروان حیات سے متعلق چند ملاحظات:
الحمد للہ یہ کتاب گنجینہ معلومات ہے۔لیکن نئے ایڈیشن میں اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اپنے تاثرات قید کرنے کے بعد جب یہ کتاب اٹھائی تو پڑھتا چلا گیا۔چند ملاحظات قید تحریر کیے،جو درج ذیل ہیں:
(۱)ڈاکٹر محمد لقمان سلفی مرحوم نے ایک سے زائدبار ذکر کیا ہے کہ:
’’محدث گوندلوی ۱۳۳۹ھ میں ۲۲ سال کی عمر میں میاں نذیر حسین سےعلوم وفنون کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کےاپنے وطن گوندلانوالہ واپس آگئے۔‘‘
میاں صاحب کا انتقال۱۳۲۰ھ میں ہوا۔سلفی صاحب کی وضاحت کے مطابق مولانا گوندلوی کی ولادت ماہ رمضان۱۳۱۵ھ=۱۸۹۷ء ہے۔ میاں صاحب ۱۳۲۰ھ=۱۹۰۲م میں انتقال کر گیے۔اس حساب سے میاں صاحب کے انتقال کے وقت گوندلوی صاحب صرف ۵ سال کے تھے۔سلفی صاحب نے گوندلوی کے ۹ ؍اساتذہ کا ذکر کیا ہے۔ اس فہرست میں میاں صاحب کا نام نہیں ہے۔(ملاحظہ ہو: کاروان حیات:۲۰۹-۲۱۱/۲۱۵-۲۱۶)
(۲)صفحہ۳۱۹:شیخ عبداللہ بن ابراہیم بن فتوح میں ’فتوح‘ تحریف ہے، صحیح ’فنتوخ‘ہے۔اسی صفحے پر’فسیح عربی‘ لکھا ہے۔درست ’فصیح عربی‘ہے۔
(۳)صفحہ۳۳۰پر مولانا انور کشمیری کے ذکر میں آیا ہے کہ وہ اپنی آخری عمر میں پاکستان چلے گیے تھے۔ان کا انتقال ۲۸مئی ۱۹۳۳ء کو ہوگیا تھا۔اور پاکستان ۱۹۴۷ء میں بنا۔ مولف کویہاں سہو ہوگیا۔ دراصل ہجرت کرنے والے ان کے شاگرد رشیدمفتی محمد شفیع ہیں۔ مولانا انور کشمیری نے اس بات پر اظہار ندامت کیا تھا کہ میں نے خدمت حدیث کے بجاے حنفی مذہب کی تائید کے دلائل میں زندگی گزاردی۔اس کے ناقل مفتی صاحب ہیں۔یہ حکایت مفتی صاحب کے رسالے’ وحدت امت:صفحہ۱۵‘ میں موجود ہے۔ان کے الفاظ یہ ہیں: میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک دن نمازفجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑ ے ہوے بہت غمزدہ بیٹھے ہوے ہیں۔میں نے پوچھا: مزاج کیسا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، ٹھیک ہی ہے۔میاں مزاج کیا پوچھتے ہو؟ عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا : حضرت،آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوے اور خدمت دین میں لگے ہوے ہیں۔آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ حضرت نے فرمایا:میں تمھیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی۔میں نے عرض کیا: حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا،ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مذہب کی ترجیح قائم کردیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔
(۴)صفحہ۳۵۱ پرآیاہے:حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کے بارے میں لکھاہے کہ وہ حدیث جسے ابن تیمیہ نے قبول نہیں کیا وہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ابن عبدالبر کی وفات ۴۶۳ھ میں ہوئی۔ابن تیمیہ کی۷۲۸ھ میں۔اس قول کے قائل شیخ الاسلام کے شاگردامام ذہبی(۷۴۸ھ) ہیں۔ان کے الفاظ یہ ہیں:کل حدیث لم یعرفہ ابن تیمیہ؛ فلیس بحدیث۔یہاں حدیث جاننے اور اس سے مطلع ہونے کی بات ہے، قبول کی نہیں۔یہ واضح رہے کہ صفحہ۱۴۰ پر ابن تیمیہ کے اس جملے کاصحیح مفہوم موجود ہے۔
(۵)صفحہ۳۵۲:’عبدالفیظ‘۔صحیح’عبدالحفیظ‘۔
(۶)صفحہ۴۲۶ میں حافظ عبدالرحمن مدنی کے بارے میں آیا ہے: حافظ صاحب سے میری پہلی ملاقات جامعہ اسلامیہ میں ۱۹۶۳ء میں ہوئی، جب وہ یونیورسٹی کی تاسیس کے غالبا چوتھے سال پاکستان سے حصول تعلیم کے لیے آے تھے۔ان کا داخلہ کلیۃ الشریعۃ کے سال اول میں ہوا تھا۔اس سے پہلے صفحہ۱۰۲ میں آیا ہے کہ جامعہ اسلامیہ کا قیام ۱۹۶۱=۱۳۸۲ھ میں ہوا۔دکتور مرحوم ۱۴ رمضان ۱۳۸۲ھ کو مدینہ پہنچے تھے۔(صفحہ۱۰۳)۔ اس حساب سےمدنی صاحب کے تاسیس کے غالبا چوتھے سال میں داخلے کی بات صحیح نہیں ہے۔
(۷)دکتور صالح بن حمید کے بارے میں صفحہ ۴۸۹ پرآیا ہے کہ ان کی ولادت ۱۳۹۶ھ میں ہوئی۔صحیح ۱۳۶۹ھ ہے۔
کتاب میں عناوین کی سٹنگ اور پروف ریڈنگ میں کافی غلطیاں ہیں۔فہرست مضامین میں بھی کمی ہے۔آئندہ اشاعت میں ان کی اصلاح ہوجاے تو کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاے گی۔وصلی اللہ علی نبینامحمدوعلی آلہ وصحبہ وسلم
الحمد للہ،فضیلۃ الدکتور کا بہت بہت شکریہ کہ انھوں نے رجال اہل حدیث پر اپنی یادوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔محترم نے بھرپور علمی زندگی گزاری ہے ،ان کے مشاہدات اور تجربات اہل علم کے لیے ان شاء اللہ منارۂ نور ثابت ہوں گے۔محترم سے درخواست ہے کہ جماعت اہل حدیث سے متعلق آپ کے پاس جو سرمایہ موجود ہے ،اسے شائع کرادیں۔یہ عین ممکن ہے کہ کہیں کہیں خلا ہوگا،کچھ چیزیں غیر مرتب ہوں گی اور بعض شخصیات کے تعلق سے کچھ چیزوں کی تلاش ہوگی،اب وقت نہیں ہے کہ ان کا انتظار کیاجائے جو کچھ ہے… Read more »
ما شاء اللہ اللہ جزائے خیر دے فریوائی صاحب کو کہ آپ نے شاندار فریضہ انجام دیا ہے‘اللہم زد فزد‘اور کبار مشایخ کی حیات و خدمات پرلکھنا اور اپنے تجربات شیر کرنا شروع کردیا ہے‘جو کہ انتہائی خوش آئند امر ہے‘اللہ مزید توفیق عنایت فرمائے ڈاکٹر صاحب سے ادبا گزارش کروں گا کہ اس طرح کی معلومات کے خزینے ہم خردوں پر لٹاتے رہیں‘تاکہ ہم مستفید ہو سکیں ۔ دوران مطالعہ ڈاکٹر صاحب نے تقریبا تین بار سلفی صاحب۔رحمہ اللہ۔ کے بارے میں (اللہ کو پیارے ہوگئے)لکھا ہے‘عرصہ ہوا خاکسار ہیچمداں نے ایک مضمون(اللہ کو پیارے ہوگئے) لکھا تھا‘اس کی… Read more »
گزشتہ کئی برسوں سے سعودی جامعات کے مشائخ سے فیض یاب ہمارے کئی ایک اسکالرس اردو زبان میں مروج بعض الفاظ وتراکیب کو عقیدہ ٔ اسلامی کے خلاف قرار دے کر ان کے سلسلے میں اردو دنیا کی رہنمائی فرمارہے ہیں ،ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ اردو زبان میں مروج محاورات اور مصطلحات کو تبدیل کرکے وہی تعبیر اختیار کی جائیں جو کتاب وسنت میں ملتی ہیں۔جذبہ نیک ہے اور بہ ظاہر ایسا سوچنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔خدا کی جگہ پر اللہ،نماز روزہ کی جگہ پر صلوۃ وزکوۃ،رحمۃ اللہ علیہ کی جگہ پر… Read more »
مضمون مکمل پڑھا ،دکتور لقمان علیہ الرحمہ کی واقعاتی زندگی کے بعض اہم گوشے پر روشنی ڈالی گئی ہے ،اللہ مضمون نگار کو جزائے خیر سے نوازے ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اولین مقبول ہندوستانی طلبہ کے تئیں تحریر میں دو مختلف تعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ایک جگہ پندرہ تو دوسری جگہ سترہ بیان کیا گیا ہے ،جوکہ صحیح نہیں ، جامعہ اسلامیہ کے ریکارڈ کے مطابق اولین مرحلے میں بارہ ہندوستانی طلبہ مقبول ہوئے تھے .
Jazakumallahu khaira Shaikh