بچو! ۲۶؍جنوری ایک قومی تہوار ہے جسے ہندستان کے کونے کونے میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور وطن سے اپنی الفت و محبت کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ ۲۶؍جنوری کیوں منایا جاتا ہے؟ آخر اس دن بطور جشن سب ہندوستانی اپنے اپنے انداز میں خوشیوں کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟
جی ہاں! تو آئیے ہم معلوم کرتے ہیں کہ اس دن جشن کیوں منایا جاتا ہے؟ ہندوستان۱۵؍ اگست۱۹۴۷ کو انگریز کے چنگل سے آزاد ہوا ، جس کے بعد۲۶؍ جنوری۱۹۵۰کو ہندوستان جمہوری ملک میں بدلا اور اسی دن ملک میں نیا قانون نافذ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال۲۶؍ جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔
بچو! تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی ملنےکےبعد ہندوستان کے لیے سب سےبڑامسئلہ یہ تها کہ ملک کادستورکیساہو؟ مذہبی ہو یا لامذہبی؟اور صرف یہی نہیں بلکہ اقلیت واکثریت کےدرمیان حقوق کس طرح طےکیےجائیں؟ لہذا اس سلسلے میں سربرآوردہ لوگوں کی ایک اہم میٹنگ منعقد کی گئی جس میں تقریبا ملک کے مختلف حصے سے تشریف فرما۳۰؍ نمائندے شریک ہوئے جن میں سر فہرست بھیم راو امبیڈکر ، سنجے فاکے، جواہر لعل نہرو، ابو الکلام آزاد،چکرورتی راج گوپال، راجندر پرساد ،سندیپ کمار پٹیل، نینی رنجن گھوش،سروجنی نائیڈو ، وغیرہ کے نام نمایاں ہیں ۔ یہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے مل جل کر قانون بنانے میں اہم کردار ادا کیا، آخر کار۲۶؍ جنوری۱۹۵۰ کو یہ قانون بن کر تیار ہوا اور اسی دن نافذ ہوا۔
اس ملک کے قانون نے سب کو برابر جینے کا حق دیا ہے، کسی پر کوئی زیادتی نہیں، کسی کی کوئی حق تلفی نہیں ، بلکہ ’ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی‘ کا درس دیا ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج اس وطن عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی کہ بد امنی و بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور فسادات کا ایسا ماحول بن گیا ہے جسےدیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے ،آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور بے اختیار آنکھیں ماقبل کی اس پر امن فضا کو تلاش کرنے لگتی ہیں جسے شاعر اجمل سلطانپوری نے اس طرح بیان کیا؎
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم
جو دے یکجہتی کی تعلیم
مٹاکر کنبوں کی تقسیم
جو کر دے ہر قالب اک جان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
واقعی افسوس ناک مرحلہ ہے کہ وہ ہندوستان جس میں ہر کوئی امن و چین سے رہتا تھا آج اسی ہند میں ایسا ماحول ہے کہ ہندو مسلم کے نعرے لگ رہے ہیں ، ہر طرف مذہب کے نام پر قتل و خون ریزی کا عجب سماں ہے اور بطور خاص مسلمانوں کو وطن کے غدار کہہ کر وطن سے نکالنے کی دھمکیوں پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں ، حالاں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دی ہیں ۔سچ کہا ہے کسی شاعر نے؎
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
اب یہ کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا، تمھارا نہیں
کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ جن کاجنگ آزادی میں کوئی رول نہیں، وطن کی تعمیرمیں کوئی کردارنہیں بلکہ ان کے سروں پر بابائے قوم گاندھی جی کاخون ہے،جس کی پیشانی پرمذہبی تقدس کوپامال کرنےکاکلنک ہے اورجس کےسروں پرہزاروں فسادات، لاکهوں بےقصورانسانوں کےقتل کا گناه ہے ایسے مجرموں کا کہنا کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں،انھوں نے ہندوستان کو کیا دیا؟ تو ایسے لوگ اس حقیقت کے مصداق ہیں کہ اگر دن میں چمگاڈر کو نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟ اگر انھیں معلوم نہیں تو تاریخ کی ورق گردانی کرے ، تاریخ سچ بتائے گی کہ آزادی کی لڑائی شروع کرنے والا مسلمان ہی تھا،انگریز کو للکارنے والا ٹیپو سلطان مسلمان ہی تھا،جنگ میں قیادت کرنے والا محمود الحسن مدنی مسلمان ہی تھا،تحریک آزادی میں پیش پیش رہنے والا مولانا ابو الکلام آزاد مسلمان ہی تھا،ہندستان کا ترانہ لکھنے والا علامہ اقبال مسلمان ہی تھا،اس ملک کو تاج محل اور لال قلعہ دینے والا شاہ جہاں مسلمان ہی تھا۔
الغرض اس ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں کا زبردست کردار رہا ہے جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی ، یہ الگ بات ہے کہ عصبیت کے شکار لوگ عمدا اپنے دریچہ ذہن سے اس کردار کو نکال دیں ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ؎
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں سبھی کا خون شامل ہے، سچ کہا ہے مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری صاحب نے؎
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس ملک میں ہر شہری کے حقوق برابر ہیں، کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کر سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو اس ملک سے باہر نکالنے کا ادھیکار رکھتا ہے،اس لیے ہر کوئی خود چین سے رہے اور دوسروں کو رہنے دے، امن و آشتی کو بڑھاوا دے، ظلم و بربریت اور فرقہ پرست عناصر کی بیخ کنی کرے، یہی جمہوریت کی پہچان ہے،یہی لوک تنتر کی شان ہے ، یہی۲۶؍ جنوری کا پیغام ہے۔
لہذا اب ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ فسادات ، چیرہ دستیاں ،ظلم وزیادتی کا خاتمہ کرکے امن وامان کو بحال کرے، تاکہ ہر شخص چین و سکون سے اپنی زندگی گزار سکے؎
مل کے سب امن و چین سے رہیے
لعنتیں بھیجیے فسادوں پر
آپ کے تبصرے