آج(۲۵؍جنوری۲۰۲۱) جب یہ خبر ملی کہ صفی مدنی صاحب کا انتقال ہوگیا تو ذہن میں بچپن کی یادیں گھوم گئیں۔ماہ وسال تو یاد نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ اپنی ہمشیرہ کی نسبت کے تعلق سے بنارس سے بذریعہ ٹرین وایا مدراس شہر گلزار بنگلور کا سفر تھا۔حصول معاش کی خاطر ہندوستان میں شہر بنارس کے بعد اہالیان بنارس کا سب سے بڑا حلقہ بنگلور میں آباد ہے۔والدین، ہم دو بھائی اور ایک بہن کے ساتھ فضیلۃ الشیخ استاد محترم سعید میسور مدنی (مدیر ھيئۃ الاختبار بالجامعۃ السلفیہ)حفظہ اللہ بھی ہم رکاب تھے۔
بنگلور سے ہماری واپسی حیدرآباد کے راستے طے تھی اور اسی بہانہ مرحوم سے پہلی بار روبرو ہوئے۔
اللہ غریق رحمت فرمائے، دکن پہنچے تو ہمارے لیے رائچوری صاحب نے سرخ قالین بچھا دی۔(رائچور کو خیر باد تو کب کا کہہ چکے تھے لیکن علمی حلقوں میں ’رائچوری صاحب‘سے ہی شہرت تھی)میزبانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شہر کے تاریخی مقامات کی سیر و تفریح کا بھی بہت عمدہ نظم فرما دیا۔ آج بھی حیدرآباد کا تاریخی میوزیم اور یاد گار گھڑی حافظے کا حصہ ہیں۔
والد محترم اور استاد محترم سعید میسور حفظہما اللہ کا خصوصی تعلق تو تھا ہی تاہم یہ خوش خلقی آپ کی فطرت میں شامل تھی۔اس قدر ذرہ نوازی کہ ہم سب شرمندہ ہوگئے۔ دوران قیام جو ضرورت ہوئی بلا تاخیر شیخ نے بندوبست کیا۔رخصت ہوتے وقت بھی گراں قدرتحائف سے ہم بچوں کا دل جیت لیا۔ اس قدر پر تکلف ضیافت کہ یادوں کے دریچے جب بھی وا ہوں گے ہمارے دلوں سے دعائیں نکلیں گی۔
دعوت وتبلیغ کے لیے پوری عمر سرزمین حیدرآباد کے حوالے کر دیا۔علمی سرگرمیوں کی وجہ سے تا عمر جامعہ سلفیہ بنارس سے بھی آپ کا تعلق رہا۔اکثر مرکزی دارالعلوم میں آپ کا ورود مسعود ہوتا۔جامعہ کی علمی محفلوں میں آپ کی شرکت ہوتی۔دوران تعلیم آپ کو جامعہ سلفیہ میں جب بھی دیکھا علمی مجالس کا حصہ پایا۔
۲۰۱۳ءمیں ’سنت نبوی اور امن عالم کانفرنس‘ میں شرکت کے موقع پر شاید دوسرا دیدار ہوا ملاقات کر کے بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔نہایت خوش مزاج تھے،درد وتکلیف کے باوجودطلبہ کی دلجوئی کے لیے ثقافتی پروگرام میں شامل ہوجاتے۔نماز ظہر یا عصر کے بعد مسجد جامعہ میں طلبہ کو نصیحت فرماتے۔
استاد محترم فضیلۃ الشیخ عبدالوہاب حجازی حفظہ اللہ خوبیوں کے اعتراف میں بڑے بےباک تھے۔کہتے تھے:’’توحید واستقامت کے حوالے سے رائچوری صاحب کے کلمات طلبہ کے لیے بڑے قیمتی ہیں۔‘‘
غالبا نصاب تعلیم کمیٹی کا بھی آپ حصہ تھے،نصاب تعلیم میں تجدید کے تعلق سے منعقد ایک نشست میں بطور رضاکار میں موجود تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ نصاب کے تعلق سے آپ کی گفتگو اور تجاویز پر ارباب مجلس کی خاص توجہ ہوتی۔عقیدہ کے سلسلے میں گفتگو کا آغاز ہوا شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی ’کتاب التوحید‘کا ذکر ہو رہا تھا مرحوم نے اس ضمن میں جو کچھ کام کیا تھا اس کا مسودہ ناظم جامعہ کی خدمت میں پیش کردیا۔
اللہ مغفرت کرے اور آپ کی علمی خدمات کو نجات کا ذریعہ بنا دے۔
جامعہ سلفیہ بنارس میں داخلے سے قبل صفی رائچوری صاحب کا نام شفیع تھا شیخ الجامعہ عبدالوحید رحمانی رحمہ اللہ نے اس کو معمولی تبدیلی کے ساتھ صفی کر دیا۔(بروایت والد محترم)
رائچوری صاحب اور ان کے کچھ ساتھیوں کا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ منظور ہو گیا تھا، کسی بنا پر ویزا میں تاخیر ہو رہی تھی، آپ رحمہ اللہ نے سعودی شاہ کی خدمت میں ٹیلیگرام ارسال کر دیا، پیغام موصول ہوتے ہی حکام میں ہلچل مچ گئی، تنہا رائچوری صاحب کی حکمت عملی رنگ لائی فوری کارروائی کے نتیجے میں دیگر تمام احباب کو بھی ویزا موصول ہوا۔(بروایت والد محترم)
جامعہ اسلامیہ مدینہ میں طالب علمی کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یوں ہے:
مصر کے ایک جید استاد فواد قندیل صاحب تھے ان کے زیر تدریس حاضر العالم الاسلامی کا مادہ تھا، ایک روز جب ان کی طبیعت ناساز تھی طلبہ کو کہا کہ آپ میں سے ہی کوئی محاضرہ دے، اللہ کے فضل و کرم سے مرحوم کو عربی زبان و بیان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ فی البدیہہ گھنٹے بھر تک لیکچر دے ڈالا، بڑی پذیرائی ملی۔(بروایت والد محترم)