مولانا صفی احمد مدنی رائچوری حیدرآبادی رحمہ اللہ:حیات وعمل کے درخشاں پہلو

عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی سوانح

جنوبی ہندوستان میں اسی(۸۰) کے دہے بعد جماعت اہل حدیث اور منہج سلف کے فروغ واستحکام میں جو ہستیاں سرفہرست رہیں ان میں ایک نام شیخ صفی احمد مدنی رائچوری کا بھی ہےجواب رحمہ اللہ ہوچکے ہیں۔اس خطے کی آپ انتہائی ملنسار اور فعال شخصیت تھے اورہمیشہ تعلیم و دعوت کے فروغ اورصحیح عقیدے کی نشرواشاعت کے لیے فکرمند رہاکرتے تھے۔
میری ملاقات دعاۃ کے بعض علمی ملتقی اور آل انڈیا کانفرنسوں کے اسٹیج پر رہی،نام تو بہت پہلے سے ہی سننے میں آیاکرتاتھا۔آپ نے مجھے حیدرآباد آنے کی دعوت بھی دی مگر عروس البلادممبئی میں تعلیمی ودعوتی مصروفیت اورجماعتی مشن سے وابستگی ومشغولیت کی وجہ سے کوئی موقع نہ مل سکا،ادھرادھر ملاقاتیں ہوتی رہیں، کیا پتہ تھا کہ کورونا کے اس مشکل ترین فترے میں آپ بھی راہی ملک بقاہوجائیں گے۔آج اچانک خبر لگی تو دل ایک دم مسوس کررہ گیا، مولی غریق رحمت فرمائے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے ۔
ذیل کے سطور میں آپ کی زندگی کے نقوش اوراس کے درخشاں پہلؤوں کو درج کیاجارہاہے تاکہ نسل نو کے لیے عبرت اورہمت کاسامان رہے۔
نام ونسب:
صفی احمد بن محمد احمد بن معین الدین
پیدائش:
اکتوبر۱۹۴۵ء
آبائی وطن اورخاندانی پس منظر:
آپ کا آبائی وطن رائچور،صوبہ کرناٹک ہے ۔یہیں آپ کی پیدائش ہوئی۔
والد بہت زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے،کتابوں کے تاجر تھےاوررائچورہی میں مدینہ بک ڈپو کے نام سے کتابوں کی دکان چلاتے تھے،مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی فکر سے بےحد متاثر تھے اورجماعتی خیالات کے حامل تھے۔آج بھی رائچور میں وہ دکان موجود ہے ۔بیٹے کو عالم بنانے کاشوق تھا، عمر آباد اورسلفیہ بنارس میں تعلیم دلائی اور بحمداللہ ہونہار بچہ کامیابی کی طرف گامزن ہوچلا، اورنہ صر ف یہ کہ علم وعمل میں پختگی آئی بلکہ عقیدہ اور فکر بھی مستحکم ہوااور مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد۱۹۸۵ میں حیدرآباد سکونت پذیر ہوگئے اورطائفہ منصورہ اورمنہج سلف کی داعی جماعت اہل حدیث سے وابستہ ہوکر آخری سانس تک اس کے میر کارواں اورسرخیل بھی بنے رہے۔پوری زندگی تعلیم و دعوت اور عقیدہ صحیحہ کی ترویج واشاعت میں لگادی اورجنوبی ہندوستان میں جماعت کے استحکام اورسلفی دعوت کے فروغ میں بیش بہا قربانی پیش کی ۔اللہ شرف قبولیت عطا فرمائے۔آمین
تعلیمی مراحل:
ابتدائی تعلیم آبائی وطن کے نیا مدرسہ رائچورمیں حاصل کی پھر عربی جماعت خامسہ تک جامعہ دارالسلام عمرآبادمیں تعلیم پائی ۔بقیہ عالمیت وفضیلت جامعہ سلفیہ بنارس میں مکمل کیا اور۱۹۷۸ء میں جامعہ سلفیہ بنارس سے ہی فضیلت کی ڈگری لے کر فارغ التحصیل ہوئے ۔خاص طور پر صحیحین شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی سے پڑھی ۔
رفقاءدرس:
آپ کے ساتھیوں میں بروقت جماعت کے چوٹی کے علماء شیخ عبدالمعید مدنی، شیخ ظفر الحسن مدنی، شیخ احسن جمیل مدنی اورڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری قابل ذکر ہیں ۔اورسبھی باحیات ہیں ۔متعنا اللہ ببقاءھم وطول حیاتھم ۔
فراغت کے بعد جامعہ دارالسلام عمر آباد میں تدریس سے وابستہ ہوگئے،اسی دوران قسمت نے وفا کی اور۱۹۸۰ ءمیں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ۔وہاں چارسال رہ کر کلیۃ الدعوۃ سے۱۴۰۳ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ماجستر (یعنی ایم اے) میں بھی آپ کو داخلہ ملا، دوسال مکمل ہونے کے قریب تھے کہ طبیعت خراب ہوئی اورپھر آپ وطن واپس آگئے ۔اس طرح ایم اے کی تکمیل نہ کرسکے ۔
مشاہیر اساتذہ:
عمرآباد میں مولانا عبدالسبحان اعظمی، مولانا ظہیرالدین اثری رحمانی اور مولانا ابولبیان حماد عمری، بنارس میں مولانا شمس الحق سلفی، مولانا عبدالوحید رحمانی اور مولاناادریس آزاد رحمانی، مدینہ میں شیخ عبدالعزیز بن ربیعان جیسے اساطین علم وفن سے کسب فیض کیا۔اسی کے ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ میں تعلیم کے دوران عالم اسلام کی معروف شخصیت مفتی مملکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ اورشیخ صالح فوزان حفظہ اللہ جیسی کبار شخصیات سے ملاقات و استفادہ کا شرف بھی آپ کوملا۔
تدریسی ودعوتی خدمات:
فراغت کے بعد جامعہ دارالسلام عمر آباد میں تدریس سے منسلک رہے۔ اسی دوران ۱۹۸۰ ء میں مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی منظوری ملی اور مدینہ روانہ ہوگئے ۔
وہاں سے فراغت کے بعد۱۹۸۵ء میں حیدرآباد سکونت اختیار کرلی اور کئی اداروں میں تدریس سے وابستہ رہے ۔جن میں جامعہ رحمانیہ اے سی گارڈ،جامعۃ البنات حیدرآباد، جامعۃ المفلحات حیدرآبادوغیرہ ہیں۔
مسجد محبوبیہ چنچل گوڑہ حیدرآباد کے آپ مستقل خطیب تھے۔جامعۃ المفلحات میں ہفتے میں دودن درس، اسی طرح یومیہ بعد نماز فجر درس،ہفتے کےروزعشاء کے بعد عقیدے کادرس اورساتھ ہی افتاءوغیرہ کاکام بھی کرتے تھے۔۸سے زائد بارآپ نے مکمل قرآن مجید کا درس بھی ختم کیاتھا ۔
شہری جمعیت اہل حدیث حیدرآباد میں شعبہ افتاء سے منسلک تھے اورآخری وقت تک اس سے جڑے رہے ۔
حیدرآباد شہرکے شاہین نگر علاقے میں جامعہ سلفیہ کے نام سے آپ نے ایک ادارہ بھی قائم کیاتھا جہاں عالمیت تک تعلیم ہوتی تھی، وہاں سے طلباء رائیدگ اورعمرآباد جاتے تھے۔شعبہ حفظ بھی جاری تھا، دس سال تک یہ ادارہ چلا، مگر مالی مسائل کی وجہ سے بند ہوگیا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں بھی آپ برابر مدعو کیے جاتے تھے۔
تصنیفات وتالیفات:
کلام حکمت (منتخب احادیث کی تشریح)
تحفہ رمضان (مختصر دروس)
العقیدہ للسحیمی( ترجمہ)
العقیدہ الواسطیہ( ترجمہ)
مسلمان کاعقیدہ (ترجمہ واضافہ)
جمہوریت کی حقیقت
دعاؤں کا محفوظ قلعہ( دعاؤں کامجموعہ)
انبیاءکرام ونیک لوگوں کی دعائیں (ترتیب وترجمہ)
بدعات ومنکرات کابیان شیخ ابن باز (ترجمہ)
کتاب التوحید (ترجمہ)
اس کے علاوہ متعدد مضامین جو مختلف مجلات میں شائع ہوئے۔
حیدرآباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’مجلہ گلستان حدیث‘کے مدیر بھی تھے۔
اہم عہدے اورمناصب:
امیر شہری جمعیت حیدرآباد وسکندرآباد
ناظم صوبائی جمعیت اہل حدیث آندھراپردیش
رکن عاملہ وشوری مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند
امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث آندھراپردیش(۲۰۰۸ تا۲۰۱۳)
نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث آندھراپردیش
رکن مسلم متحدہ محاذ، آندھرا
نائب صدر دینی مدارس بورڈ آندھرا
صدرعلماء بورڈ، صوبہ تلنگانہ
ازدواجی زندگی:
۱۹۸۰ءمیں آپ کی شادی ہوئی، دوبیٹے سعید اور خالد ہیں اورچاربیٹیاں ہیں، سب تعلیم یافتہ ہیں، ایک بیٹی عالمہ ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ پر خوش وخرم ایمان وعقیدے کے ساتھ خوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔اللہ انھیں دین وایمان پر سلامتی نصیب فرمائے ۔
بیماری ووفات:
جوانی سے ہی آپ بیمار رہاکرتے تھے ۔مگر علاج معالجے اورہمت سے کام لیتے ہوئے اللہ پر توکل ویقین کے ساتھ راہ دعوت میں لگے رہے اورپورے حوصلے کے ساتھ رب العالمین کی توفیق سے عمر عزیز کی قیمتی بہاریں مکمل کرلیں ۔رفتہ رفتہ شوگر کے دائمی اور شدید مریض بھی ہوگئے۔ابھی جلد ہی بیمار پڑے تھے، مگر صحت یاب ہوگئےتھے، یہاں تک کہ وفات سے ایک دن پہلے جماعت کے ایک دینی پروگرم میں شریک تھے، خطاب بھی کیاتھا مگردوسرے دن شوگر لیول بہت بڑھ گیا ۔طبیعت بگڑتی چلی گئی اورپھر سنبھل نہ سکی۔ بالآخر علم وعمل کا یہ آفتاب۲۲؍ جمادی الآخر۱۴۲۲ھ/ مطابق۲۵؍جنوری۲۰۲۱بروزپیر کو زندگی کی قیمتی بہاریں مکمل کرکے اپنے پیچھے ہزاروں سوگواروں کو غمزدہ چھوڑکرغروب ہوچلا۔اللھم اغفرلہ وراحمہ وعافہ واعف عنہ
حق تعالی مغفرت فرمائے اورلحد پر شبنم افشانی کرے ۔آمین تقبل یارب العالمین

آپ کے تبصرے

3000