تڑپ تڑپ کے پکارے شہادتوں کا لہو
نہ ہونے پائے زمیں پر صداقتوں کا لہو
جہاں میں ناچ رہی ہیں قطاریں لاشوں کی
مچل رہا ہے ورق پر عبارتوں کا لہو
اٹھو کہ ظلم کے ہاتھوں کو ہے قلم کرنا
جو پی رہے ہیں ابھی تک شرافتوں کا لہو
پڑھے نماز تو بدلے میں دولتیں مانگے
کرے یہ آج کا زاہد عبادتوں کا لہو
شب سیاہ سے نکلو کرن کی صورت اب
چراغ بن کے کرو پھر سے ظلمتوں کا لہو
گلوں کا قتل ہوا تو اٹھے گا حشر یہاں
صبا نہ کر تو گلستاں میں نکہتوں کا لہو
کیا ہے خوب نئی بدعتوں کے خنجر سے
جہاں پرست مسلماں نے سنتوں کا لہو
خدا نے جن کو نوازا ہے فضل سے شمسیؔ
قدم قدم پہ کریں وہ قرابتوں کا لہو
آپ کے تبصرے