پیش لفظ – رقیہ مروجہ کے منکرات

عبدالسلام سلفی تعارف و تبصرہ

الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد خاتم النبیین، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔ أما بعد!
امت کی اصلاح سعادت مندی کا عظیم عمل، رضاء الہٰی اور نجاتِ دارین کا ذریعہ ہے، اسی کے لیے انبیاء مبعوث کیے گئے، کتابیں نازل کی گئیں، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا نظام مقرر کیا گیا، وارثین انبیاء، علماء حق اور مصلحین کا سلسلہ قائم ہوا، تاکہ علم نبوت یعنی کتاب وسنت کے نور سے شرک وبدعت، اوہام وخرافات کے ساتھ ہر طرح کی اعتقادی وعملی تاریکیوں کو دور کرنے کا کام کریں۔
يَحمِلُ هذا العِلمَ مِن كلِّ خَلَفٍ عُدُولُه، ينفُونَ عنه تحريفَ الغالِين، وانتحالَ المُبطِلِين، وتأويلَ الجاهلِين

علماء کو بصیرت وفراست، درد مندیِ خلق الہٰی، جذبۂ اصلاح ودعوت اور خشیت وانابت میں اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے، وہ حق وباطل بخوبی گہرائی سے پہچانتے ہیں، اسی لیے حق سے میلان وانحراف کے حالات میں وہ ثابت قدم اور سلامت رہتے ہیں، ان کی حیثیت علم ویقین میں پہاڑ جیسی ہوتی ہے، جو ہر طرح کے طوفان میں اپنی جگہ ثابت اور اٹل رہتا ہے، شبہات کی موجیں بھی انھیں شکوک واضطراب میں مبتلا نہیں کرسکتیں۔
علماء ہر زمانے، ہر قوم میں رہے اور قیامِ قیامت تک رہیں گے، وہ دلائل وبرہان کی قوت سے غالب رہیں گے اور برابر فساد وبگاڑ میں اصلاح ورہنمائی کا کام کرتے رہیں گے:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ
(صحیح مسلم: ۱۰۳۷)
علماء کتاب وسنت کے ساتھ سلف کے عقیدہ ومنہج، ان کے علم وعمل کا گہرا علم رکھتے ہیں، وہ کتاب وسنت کو صحابہ اور ان کے سچے متبعین کے فہم کے مطابق سمجھتے ہیں، قرآن انھی کی زبان میں اترا اور قرآن اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ جن کی زندگی میں ڈھل گیا تھا ان سے براہ راست فیض لینے والے تھے، اسی لیے ہر دور کے ائمہ ومصلحین دین کے ہر مسئلہ ومعاملہ میں جو طریقہ سلف نے اختیار نہیں کیا اسے اختیار کرتے ہیں نہ ہی قبول کرتے ہیں، امت کی اصلاح کے لیے ان کا موقف دو ٹوک ہوتا ہے، جس طریقے سے امت کے اولین کی اصلاح ہوئی تھی اسی طریقے سے بعد والوں کی بھی اصلاح ہوسکتی ہے۔’’لن یصلح آخر ھذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولھا‘‘۔
علماء اثبات نے عقیدہ ومنہج میں اصلاح اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کوئی نیا طریقہ، نئی شکل اختیار کرنا تو دور کی بات اس کا نظریہ بھی مسترد کردیا، حتی کہ امت کو دوبارہ سربلندی اور غلبہ حاصل ہو اس کے لیے بھی علماء نے بدلائل کتاب وسنت اسلام خالص اور سنت کی طرف رجوع کو لازم ٹھہرایا ہے۔
موجودہ دور میں بہت سارے فتنوں کے ساتھ جن وشیاطین، نظر بد، جادو، ٹونا کی دہشت اور خوف عام کیا گیا اس کے لیے نت نئے طریقے نکالے گئے، جب کہ یہ ہر دور کا مسئلہ رہا ہے، ہر دور میں ان کا وجود، ان سے حفاظت، ان سے نجات کا چیلنج رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان فتنوں سے بچنے اور نکلنے کا وہی طریقہ صحیح، موثر اور کامیاب ہے جسے قرآن وسنت نے دیا ہے، جسے ہمارے اسلاف اور علماء ربانیین نے اختیار کیا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ شیاطین کے اثرات، سحر اور نظر بد وغیرہ کے علاج کے نام پر امت میں غیر مسلموں تک کا طریقہ اور دور جاہلیت کی روش عام ہے، سلفی کہلانے والوں کے یہاں بھی معتدبہ تعداد میں اس مسئلہ میں منکرات ہیں۔ شرعی رقیہ کے نام پر غیر شرعی رقیے کا رواج ہے، جہالت میں ایمان واعتقاد کی بربادی کا لاشعوری طور پر کام چل رہا ہے:
إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذا نشأ في الإسلامِ من لا یعرِفُ الجاھِلیّۃَ۔

علم واصول سے بے بہرہ لوگوں کے ہاتھوں اصلاحِ امت وعقیدہ کے نام پر ہر میدان میں کھیل جاری ہے، اس سے پورا دین تباہ ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ ہی حفاظت واصلاح فرمانے والا ہے۔
راقیوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور بڑھتی جارہی ہے، جو ملک کے اکثر حصوں میں رقیہ کو پیشہ بنا کر اس کے لیے تفرغ اختیار کیے ہوئے ہیں جگہ جگہ سینٹر بھی قائم ہورہے ہیں، ایسا اپنے ملک میں بیس بچیس سال پہلے نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے آج سے دو دہائی قبل ممبرا شہر میں پہلی بار دیکھا، یہاں ایک فریبی راقی بن کر آیا، ریاض کے علماء سے رقیہ کا عمل سیکھا ہے اس بات کا جھانسہ دے کر کچھ اچھے سلفی نوجوانوں کو بہکانے میں کامیاب ہوگیا۔ ان سے ایک جگہ حاصل کرکے وہاں رقیہ سینٹرقائم کرلیا، ہمارے نوجوان رقیہ کو اصلاحِ عقیدہ کا بڑا ذریعہ سمجھ بیٹھے، لیکن سلف کی راہ چھوڑ کر اصلاح کے دعویدار امت کی اصلاح کیا کریں گے؟ خودبدعقیدگی اور فساد کا شکار ہوجائیں گے، اور واللہ ایسے ہی ہوا۔ جب نوجوانوں نے قریب سے اس عیار راقی کے یہاں کہانت دیکھی، غیب کا دعویٰ دیکھا، گھروں خاندانوں میں فتنے پھیلانے حتی کہ اخلاق ومروت سے گری حرکتیں دیکھیں، شیاطین سے استعانت کا عمل دیکھا، تو خود انھی شباب نے اسے اپنے دیے ہوئے سینٹر سے بے دخل کیا اور اس کے فسادات سے بالخصوص ممبرا کو بچانے کے لیے پوری صلاحیت لگا دی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے۔
حالانکہ میں نے ان بھائیوں کو پہلے ہی منع کیا تھا کہ یہ ہمارے سلف کا طریقہ تھا نہ ان کے سچے پیروکار اہل علم نے علاج اور اصلاحِ عقیدہ کے نام پر اسے پیشہ بنایا، نہ رقیہ کا یہ طریقہ ان میں تھا نہ کوئی راقی کی حیثیت سے معروف ہوا، خیر اب یہی ہمارے بھائی اپنی استطاعت بھر پیشہ ور راقیوں سے لوگوں کو خبردار کررہےہیں۔ فللہ الحمد۔
اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تقاضہ کے باوجود ہمارے سلف اور ان کے سچے پیروکار علماء نے رقیہ کا موجودہ مروجہ طریقہ کیوں نہیں اپنایا تھا؟ جبکہ امت کی اصلاح اور ان میں پھیلی بد عقیدگی کے ازالہ اور ان کو نفع رسانی کے لیے بعد والوں سے وہ زیادہ فکر مند اور کام کرنے والے تھے، اس لیے ہمارا راستہ اس مسئلہ میں بھی سلف سے مختلف نہیں ہونا چاہیے۔
صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اپنےاہل علم ودعاۃ اور دیگر مقتدر علماء سے پیش آمدہ مسائل میں تبادلۂ خیال کرتی رہتی ہے، حتی الامکان تقاضوں پر کام بھی کرتی ہے، رقیہ مروجہ کے فسادات کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت تھی کہ جن و شیاطین، نظر بد رقیہ شرعیہ، رقیہ کے متعلقات اور رقیہ مروجہ کے منکرات پر ایک علمی دستاویز پیش کی جائے، بالآخر فاضل جماعت شیخ محمد مقیم فیضی حفظہ اللہ نے جو اپنی مسلکی ومنہجی غیرت اور علمی وفقہی بصیرت میں معروف ہیں، یہ ذمہ داری اٹھائی اور رات دن ایک کرکے ان مسائل پر مفصل اور مبسوط کتاب دو جلدوں میں تیار کی۔فجزاہ اللہ خیرا۔
رقیہ کی شرعی حیثیت کے تعارف اور رقیہ مروجہ کے رد میں حسب تقاضہ علماء کی ایک بڑی تعداد پوری ایمانداری سے کام کررہی ہے، یہاں بھی ہر طرح سے ساتھ ہے، جن کا نام بنام ذکر نہیں کیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے، ان کے علم وعمل میں مزید برکت عطا فرمائے۔ کچھ معروف اہل علم کی طرف سے رقیہ کے پیشہ بنانے اور اس کے لیے تفرغ اور سینٹر قائم کرنے کی ضرورت پر زور بھی دیا جاتا ہے۔ خیر اختلاف کس مسئلہ میں نہیں ہے، یہاں بھی اختلاف ہے، لیکن آدابِ اختلاف اور اختلاف سے بچنے کے اسباب کیا ہیں علماء نے بہت تفصیل سے لکھا ہے، ہمیں اسے بغور پڑھنا چاہیے اور اللہ سے راہِ سلف کی توفیق مانگنی چاہیے۔
صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے شعبہ نشر واشاعت سے اس اہم علمی دستاویز کی اشاعت پر ہم سب سے پہلے اللہ کی توفیق پر اس کے شکر گذار ہیں اس کے بعد شیخ محمد مقیم فیضیؔ حفظہ اللہ اور دیگر علماء جماعت جن کی فکر مندی، غیرت وتعاون سے یہ کام ہوا ان کے بھی شکر گذار ہیں، اللہ تعالیٰ اس کوشش کو امت وجماعت کے حق میں مفید بنائے اور اس اہم سلسلہ کی اشاعت میں اللہ تعالیٰ سارے معاونین کے تعاون کو قبول فرمائے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وصحبہ وسلم
۲۷؍ستمبر ۲۰۱۹ء

آپ کے تبصرے

3000