خدمت دین و ملت کے تین تجربے

عبدالمعید مدنی عقائد

امام عصر شیخ ابن باز بذات خود ایک امت تھے، تمام اصحاب بصیرت علماء اور مشائخ کے نزدیک وہ اپنے دور کے امام تھے۔ انھیں امامت حاصل تھی علم میں، بصیرت میں، تقوی میں، فقہ وافتاء میں، دعوت وتبلیغ اور جود وسخا میں، مہمان نوازی اورغریب پروری میں، تواضع انکساری اور حلم وتانی میں، تناصح اور تعاون میں، بے تعصبی اور رد باطل میں، علماء وطلباء کی عزت افزائی اور قدردانی میں۔
وہ مقام تجدید پر فائز تھے، وہ شیخ الاسلام والمسلمین تھے۔ علماء عوام، امراء اور وزرا نے انھیں یکساں طور پر مانا جانا اور ان کی تکریم کی اور ان سے عقیدت ومحبت کا اظہار کیا۔
آج بے جا عقیدت اور لمبے القاب وآداب کی وہ ہوڑبازی ہے کہ جو ایک گاؤں یا قصبے میں رہتا ہے اور جسے کچھ ہی لوگ جانتے ہیں۔ اور جس کے پاس علم کے بجائے کج فکری اور کج خلقی ہوتی ہے وہ بھی غلو قلم کے سہارے امام بن جاتا ہے حکیم امت کہلاتا ہے۔ حجۃ الاسلام شمار ہوتاہے، شیخ العرب والعجم لکھا جاتا ہے، شیخ الاسلام اور حکیم الاسلام شمار ہوتا ہے۔ اس خود پرستی کے دورمیں کون کیا ہے کسے خبر ہوسکتی ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں بھی فیوض وافاضات اثرات وافادات اور خصائص ومجہودات کے سبب شیخ عالمی شخصیت بن گئے تھے۔ اور بہت سے امور میں انھیں امامت مل گئی تھی۔
سلفیت کا راستہ روکنے کے لیے ہر طرف باطل کے نمائندے موجود رہتے ہیں اور اسے بدنام کرتے پھرتے ہیں لیکن امام عصر کی بھرپور شخصیت کے سبب کتاب وسنت کی دعوت آگے بڑھی اور شرپسندوں کی رات دن کی ریشہ دوانیوں کے باوجود سارے عالم میں عام لوگوں نے اس کی حقانیت کو جانا بھی اور اسے تسلیم بھی کیا۔
امام عصر کے دور میں بے شمار تحریکیں اٹھیں، انجمنیں قائم ہوئیں، شور اٹھا، ہنگامے ہوئے، اور اس شور ہنگامے کو صحوۃ اسلامیہ کا نام دیا گیا، شیخ نے اسلامی جذبے کے تحت ہرجگہ اس کی تائید کی اور اپنے سلفی موقف کے تحت کسی حزبیت اور تعصب کے بغیر ان کا بھرپور تعاون کیا۔ لیکن ان کا حاصل؟ قابل غور۔ کسی دینی جدوجہد کو تحریک کہنا خود اس کی نفی ہے۔
امام عصر نے اسلامی حکومت کے اندر رہ کر والی کی سربراہی میں کام کیا نہ کوئی تحریک چلائی نہ کوئی جماعت بنائی، نہ کسی ممبرسازی کی مہم چھیڑی دعوت وتعلیم کے اداروں کے ذریعہ اپنا کام کیا۔ اور خالص کتاب وسنت کی تعلیمات کو لوگوں کے اندر عام کیا اس کے مطابق دینی زندگی گذارنے کی لوگوں کو تعلیم دی۔ اور اسلام کی بالادستی وفروغ کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی، اور ہر ممکن جدوجہد میں شریک ہوئے۔ نہ کسی مغرب کی فکر سے متاثر ہوئے نہ کفر ونفاق کے کسی شاخسانے کو ادنی اہمیت دی، نہ فکر وفلسفے کے خارزار میں اترے۔ خالص دین کی دعوت دی اور اس قدر کامیاب ہوئے کہ ساری تحریکیں مل کر شاید اس قدر کامیاب نہ ہوسکیں۔
دنیا میں دینی کام کے تین اتجاہات پائے جاتے ہیں اور تینوں اتجاہات اہل سنت سے نسبت کرتے ہیں تحریکی وعصرانی اتجاہ، صوفی اتجاہ اور سلفی اتجاہ۔ تحریکی یا عصرانی اتجاہ ہر اس اتجاہ کو کہا جاتا ہے جس کا خمیر وقتی ومقامی افکار ومسائل سے بنا ہو اور حالات کے دباؤ اور ضروریات کے تحت اس اتجاہ کے بانیوں اور اسے اپنانے والوں کا ذہن ومزاج بنا ہو۔ کرانیکل تھاٹ کے تحت ان کی سرگرمیاں جاری ہوں۔ عصری اور وقتی مسائل کا تعلق عموما مباحات یا مجتہدات سے ہوتا ہے ان کا حل اسلام کی روشنی میں آنا چاہیے اور نصوص کتاب وسنت میں یہ حل تلاش کرنا چاہیے لیکن بسا اوقات تحریکی اتجاہ کے حاملین غیردینی افکار سے زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں اور پورے دین کو عصری فکر اور ضرورت کے تحت ڈھالنے میں لگ جاتے ہیں یا اساسیات کو نظر انداز کرکے کسی ایک وقتی مسئلے کو اٹھاکر اس پر ایسا زور باندھتے ہیں کہ اسے اصل اسلام بنادیتے ہیں اور اس سے جڑے لوگ اس کی راگ الاپتے رہتے ہیں اور اسے مستند بنانے کے لیے تاویلات تحریفات نقاشات ومباحات کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ اور پھر فتنوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
تحریکی اتجاہ:
ہندوستان میں تحریکی اتجاہ کی صدا کرامت علی جونپوری (شیعہ) سے شروع ہوئی اور پھر تحریکیت کا فلڈگیٹ کھل گیا اور اس سیلاب بلا میں بے حد وعد بہنے لگے۔ سرسید اور ان کے سارے رفقاء، سارے منکرین حدیث ۱۲۲؍ فرقو ں کے ساتھ، سارے حکومت الہیہ اور سیاسی اسلام کے دعاۃ اور مخصوص حکومت کے قیام کی فکر کے حاملین، اور سارے استشراقی مسلم دانشور، اور کل کے کل الحادی فکر کے حاملین، یا علوم شریعت سے بے خبر فیشن دولت اور شہرت کے دیوانے خود ساختہ مفکرین ومبلغین اور نئے دور میں حد یبیائی سلم یا انسانیت نواز صلح کل تحریکیں یا تحریکی وعصرانی مفکرین جیسے وحید الدین خان، غامدی گروپ اور ڈاکٹر اسرار احمد کا گروپ۔ تحریکی اتجاہ کے حاملین خواہ کسی گروہ سے ہوں چاہے ان کے افکار فرق باطنیہ سے مستعار ہوں یا شرق وغرب سے یا تاویلات باطل سے خواہ کوئی بھی نام دیں انھوں نے ہر وقتی کاز کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی اور اسے اپنے فکر کے مطابق ڈھالا۔ اور اسے خوب اچھالا اور بڑا نام ہوا لیکن اثرات؟ سب کے اثرات مضرت کے ناحیے سے قریبا یکساں رہے۔
تحریکیت اگر اسلامی نام سے ہے پھر بھی اس کی کجیاں گوارا کیے جانے کے قابل نہیں ہیں مثلا اخوانی یا جماعت اسلامی اور اس کے آف شوٹ ہیں۔ انھوں نے اپنی تمام تر قابل قدر جہود کے باوجود جو اثرات چھوڑے ہیں وہ نہایت بھیانک ہیں اور نہایت قابل غور بھی ہیں۔
ایمان وعمل مرجوح قرار پائے اور اسلامی حکومت کے قیام کا عمل راجح قرار پایا۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی جگہ حکومت نے لے لی۔ تحریکیت میں انسان حالات زمانہ کا ایسا اسیر بن جاتا ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر وقتی ترجیحات اس کی اولویات میں داخل ہوجاتی ہیں۔ بس مل کر زور لگاؤ اسلامی حکومت قائم ہوجائے یہ نہ دیکھو کس کا کیا عقیدہ وعمل ہے۔ قیام حکومت کی جدوجہد میں دعوت ضروری ہے لہٰذا سیاست کرنی مجبوری ٹھہری اس طرح دعوت کی جگہ سیاست آگئی۔ پھر سیاست نے سماج یا حکومت وقت کے ساتھ تال میل تفاہم تناصح اور اصلاح وسدھار کے برخلاف بغاوت وثوریت کا راستہ دکھلایا۔
اسلامی تحریکیت تجدد پسندی یا عصرانیت نے جب اپنی ترجیحات میں حکومت سیاست اور ثوریت کو داخل کیا تو اس اتجاہ کی زد کہاں کہاں پڑی غور کرنے کی جا ہے۔ عقیدے کی اہمیت گھٹی، عمل مرجوح ہوا۔ ایمانیت کو ثانوی درجہ ملا۔ سنت کو مشکوک کردیا گیا اس کی اہمیت کے متعلق عمومی ذہن یہ بن گیا کہ بسااوقات اس کے حامل مولوی اور مسٹر سب سنت کو اخباری بیان کا درجہ دینے لگے اور علوم حدیث ان کے نزدیک کسی کام کا نہ رہا۔ خلافت وملوکیت کی سیاست نے صحابہ کی عظمت خاک میں ملادی صحابہ کے بارے میں کتاب وسنت کے نصوص کے مطابق بنے اہل سنت کے موقف کو رد کردیا گیا اور انھیں وکیل صفائی کے درجے میں رکھا گیا ہے، تشیع سے انسیت بڑھ گئی، اسلامی تاریخ کو حقارت سے ٹھکرادیا گیا۔ تاریخ اسلام عظمت صحابہ اور سنت کی اہمیت کی ایسی پامالی مستشرقین ہی کے ذریعہ ہوئی ہے۔ علماء ومحدثین اور علوم اسلامیہ بے وقعت ٹھہرے اجتماعیت کا شعور ختم ہوگیا، ادب وتہذیب کا فقدان ہوگیا پھر یہ کہ عدم منہجیت اور جواربھاٹا والی سیاست پل پل بدلتی رہی۔ کبھی ٹھیٹ صالح حکومت صالح نمائندہ صالح معاشرہ اور صالح انقلاب کی بات۔ کبھی سیکولر جمہوریت کی بات کبھی اس کے لیے لڑائی۔ کبھی اس کے ساتھ۔ کبھی سب مرفوص۔ کبھی سب مقبول۔ کبھی خمینی حق پرست، کبھی صدام حق پرست اور حزبیت کا ایسا گاڑھا رنگ کہ مطلب پر سب اپنے اور فائدے پر سب غیر اتحاد کا علم بھی اور گاڑھی حزبیت کا تماشا بھی۔ تضادات مفادات، تاویلات، تغیرات! اللہ کی پناہ ایک لامتناہی سلسلہ دین کا سرا ملے تو کہاں۔ حق کی دریافت ہو تو کیسے؟
جب اسلامی تحریکیت کا یہ حال ہے تو منحرف تحریکیت کا حال کیا ہوگا۔ اس پر تمام دیگر تحریکوں اور تحریکیوں کو قیاس کرلیا جائے۔ دیگر تحریکیں تو صرف گمراہی پھیلانے کا باعث بنیں۔
تحریکیت وعصرانیت کا مزاج مفاد اور وقتی فائدے کا ہوتا ہے۔ اس اتجاہ کو اپنا کر انسان لامحالہ ہر خرابی اور بگاڑ کے لیے اپنے دل ودماغ کے دروازے وا کرسکتا ہے۔ تحریکیت ایک وقتی داعیہ ہوتا ہے اور اسلام ایک ابدی دعوت اور عقیدہ ہے۔ ابدی دین دعوت اور عقیدے اور تحریکیت کے درمیان عموما تخالف ہوتا ہے اور توافق کی ایک ہی شکل ہے کہ نوازل اور وقتی افکار ومسائل کو دین کی تعلیمات کی روش میں دیکھا جائے اور ان کا اسلامی حل نکالا جائے۔ لیکن اگر اساسی طور پر تحریکیت اپنی بنیاد خود رکھے اور اس کو دین کا لبادہ پہنائے یا دین کو دین کے نصوص کو کھینچ کر عصری افکار پر فٹ کرے تو تحریکیت اور دین میں ہمیشہ تخالف کا تعلق رہے گا۔
تحریکی رویے کے نتیجے میں اسلامی ذہن بننا مشکل ہوتا ہے اولویات اور ترجیحات غلط ہوتے ہیں سرگرمیاں غلط ہوتی ہیں اور نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہیں۔ سارے عالم میں تحریکیت کا یہی حال ہے۔
دوسرا اتجاہ صوفی اتجاہ ہے:
اس اتجاہ کی بنیاد تصوف وتقلید ہے۔ یہ اتجاہ اتنا مستحکم ہے کہ ماضی میں صدیوں کے تمام انسانی تجربات جو مسلم معاشرے میں ہوئے خواہ دینی اساس پر، یا مستعار افکار پر، وہ کل کے کل صحیح وغلط اچھے اور برے اتجاہ کے لوگوں کو قابل قبول ہیں، یہ کبھی ان سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ بلکہ انھی کے طریقے پر ہر روز ان میں فکری وعملی رواسب کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس اتجاہ کے اندر اتنے انحرافات ہیں کہ ان کے رہتے کبھی ملت اسلامیہ فلاح یاب نہیں ہوسکتی۔ اس اتجاہ میں ایسی گنجائش ہوتی ہے کہ کفر عین اسلام بن جائے اور شرک عین توحید۔
اس اتجاہ کے دائرے میں جو بھی آتے ہیں قریب قریب ان کے اعمال وافکار میں یکسانیت ہے۔ تحریکی اتجاہ کے ماننے والوں میں جو تفاوت ہے ویسا تفاوت یہاں نہیں ہے۔ اسلوب اور لب ولہجے میں تفاوت ہوسکتا ہے۔ قبر کی پرستش اور قبر پر اعتکاف ومراقبہ دونوں شرک ہی ہیں۔
یہ اتجاہ اتنا سکہ بند ہے کہ اس میں تغیر کی گنجائش نہیں ہوسکتی ہے البتہ تنزل گوارا ہوسکتا ہے، یہاں تنازل اور تفاہم کا بھی سوال نہیں ہے۔ لیکن خلق کثیر رواج اور روایت کی ڈور میں بندھی ہے اس سے وابستگی رکھتی ہے۔ اس اتجاہ سے کتنا اصلاح وسدھار کی توقع ہوسکتی ہے؟ یہ سوالیہ نشان ہمیشہ رہا اور رہے گا۔
یہ اتجاہ مسلسل انحرافات کی طرف بڑھتا رہا ہے مرور زمانہ کے ساتھ اس میں خرابیاں بڑھتی جائیں گی۔ اس اتجاہ میں ایک ہزاریہ سے زیادہ وقفے کی خرابیاں بڑھتی اور پھیلتی رہیں اور آگے بھی بڑھیں گی اور پھلیں پھولیں گی ض۔ انسانی تجربات واخطاء دین کا درجہ اختیار کرتے جائیں گے، یہ اتجاہ جمود وانحراف کا آئینہ دار رہے گا۔ اور روایتی فکر وعمل کا نمائندہ بنارہے گا۔ جمود وانحراف کا تسلسل قائم رہنا اس کا خطر وافر ہے۔ مسلم سماج میں امکانی کوشش کے باوجود اس سے خیر کی امید کرنی مشکل ہے۔
تیسرا اتجاہ سلفی اتجاہ ہے:
اس اتجاہ کے مطابق خالص دین کتاب وسنت پر مبنی قابل قبول ہے۔ اس کا سلفی منہج دین کے فہم وعمل میں صحابہ تابعین اور تبع تابعین قرون مشہودلہا بالخیر کے طریقہ کار کو مستند مانتا ہے۔ اور ہر مسئلے کے پیچھے کتاب وسنت کی دلیل مانگتا ہے۔ اس کے اندر نہ تشیع کا شائبہ قابل قبول ہے نہ خارجیت، نہ تقلید وتصوف، نہ تعقل پرستی، نہ تجدد پسندی وعصرانیت وتحریکیت اسے گوارا ہے۔ نہ ثوریت وبغاوت اسے قابل قبول ہے۔ نصوص کتاب وسنت بغیر تاویل وتعطیل کے اسے جہاں لے جائیں وہیں جائے گا۔
امام عصر نے اسی اتجاہ کی نمائندگی کی۔ اور سلف کے طریق پر چلے اور اصلاح وسدھار کا کام کیا۔ دعوت وتبلیغ کی، امربالمعروف نہی عن المنکر کا حق ادا کیا۔ خلفشار وانتشار، تجددپسندی، تصادم ثوریت وخارجیت سے جس کو بچا سکے بچایا، راہ سنت پر لوگوں کو لگایا، تعاون اور وحدت کی راہ کھولی، تناصح اور تواصی کا راستہ اپنایا۔ آسان دین کو آسان زبان میں سارے عالم میں پہنچایا اور اکیلے سب پر بھاری رہے۔
تینوں اتجاہات کے سارے تجربے سامنے ہیں کس نے کیا بویا کیا کاٹا وہ سامنے ہے، تعنت چھوڑ کر ان تجربات پر غور کرنا چاہیے۔ تحریکیت ناکام رہی اس کے اپنے بہت سے تشیع اور خمینیت کے اسیر ہوگئے۔ توڑ پھوڑ کی ذہنیت سے بہت سے مسموم ہیں۔ بہت سے سنت سے بے زار ہیں، فکری انتہا پسندی اور خارجیت کے اکثر نوجوان شکار ہیں۔ بہت سے دین کو فیشن بناچکے ہیں۔ اور اکثریت صحابہ کی عظمت سے ناآشنا ہے کچھ اباحیت کے شکار ہیں۔ اور کچھ جمہوریت اور سیکولرزم کے۔ صوفی اتجاہ کی روایت پرستی آشکارا ہے۔
ضرورت ہے کہ شیخ عصرکے تجربے کو حرز جان بنایا جائے اور اس کی افادیت کو تسلیم کیا جائے اور ان کے اختیار کردہ طریقہ سلف کو اپنایا جائے اس میں دنیاوآخرت کی کامیابی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000