علماء کے حقوق

عنایت اللہ سنابلی مدنی تعارف و تبصرہ

عرض ناشر (طبع دوم)
کتاب و سنت کے نصوص میں جابجا وارثین انبیاء یعنی علماء کرام کا ذکر کیا گیا ہے، اہل ایمان کے درمیان ان کا خاص مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے، ان کے اوصاف اور خوبیاں ذکر کی گئی ہیں، انھیں اللہ سے سچا ڈرنے والا بتایا گیا ہے، امت میں انھیں خیر و سعادت کا حقیقی مستحق بتلایا گیا ہے نیز یہ کہ علماء اللہ کی توحید کے سچے گواہان ہیں، الغرض امت میں اہل علم کے فضائل ومناقب اور حقوق کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کیا گیا ہے اور امت کو ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی گئی ہے۔
علماء کے مقام و مرتبہ اور ان کے حقوق کی وضاحت اور اس کا دل نشیں تذکرہ کرتے ہوئے امام ابوبکر محمد بن حسین آجری بغدادی (۳۶۰ھ) اپنی مایہ ناز کتاب ’’أخلاق العلماء‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُهُ، اخْتَصَّ مِنْ خَلْقِهِ مَنْ أَحَبَّ، فَهَدَاهُمْ لِلْإِيمَانَ، ثُمَّ اخْتَصَّ مِنْ سَائِرِ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ أَحَبَّ، فَتَفَضَّلَ عَلَيْهِمْ، فَعَلَّمَهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَفَقَّهَهُمْ فِي الدِّينِ، وَعَلَّمَهُمُ التَّأْوِيلَ وَفَضَّلَهُمْ عَلَى سَائِرِ الْمُؤْمِنِينَ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ زَمَانٍ وَأَوَانٍ، رَفَعَهُمْ بِالْعِلْمِ وَزَيَّنَهُمْ بِالْحِلْمِ، بِهِمْ يُعْرَفُ الْحَلَالُ مِنَ الْحَرَامِ، وَالْحَقُّ مِنَ الْبَاطِلِ، وَالضَّارُّ مِنَ النَّافِعِ، وَالْحَسَنُ مِنَ القْبَيِحِ، فَضْلُهُمْ عَظِيمٌ، وَخَطَرُهُمْ جَزِيلٌ، وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقُرَّةُ عَيْنِ الْأَوْلِياَءِ … هُمْ أَفْضَلُ مَنْ الْعُبَّادِ، وَأَعْلَى دَرَجَةً مِنَ الزُّهَّادِ، حَيَاتُهُمْ غَنِيمَةٌ، وَمَوْتُهُمْ مُصِيبَةٌ، … جَمِيعُ الْخَلْقِ إِلَى عِلْمِهِمْ مُحْتَاجٌ، وَالصَّحِيحُ عَلَى مَنْ خَالَفَ بِقَوْلِهِمْ مِحْجَاجٌ، الطاَّعَةُ لَهُمْ مِنْ جَمِيعِ الْخَلْقِ وَاجِبَةٌ، وَالْمَعْصِيَةُ لَهُمْ مُحَرَّمَةٌ، مَنْ أَطَاعَهُمْ رَشَدَ، وَمَنْ عَصَاهُمْ عَنَدَ، مَا وَرَدَ عَلَى إِمَامِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ أَمْرٍ اشْتَبَهَ عَلَيْهِ، حَتَّى وَقَفَ فِيهِ فَبِقَوْلِ الْعُلَمَاءِ يَعْمَلُ، وَعَنْ رَأْيِهِمْ يَصْدُرُ، وَمَاَ وَرَدَ عَلَى أُمَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ حُكْمٍ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ فَبِقَوْلِهِمْ يَعْمَلُونَ، وَعَنْ رَأْيِهِمْ يَصْدُرُونَ، وَمَا أَشْكَلَ عَلَى قُضَاةِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ حُكْمٍ، فَبِقَوْلِ الْعُلَمَاءِ يَحْكُمُونَ، وَعَلَيْهِ يُعَوِّلُونَ، فَهُمْ سِرَاجُ الْعِبَادِ، وَمَنَارُ الْبِلَادِ، وَقِوَامُ الْأُمَّةِ، وَيَنابِيعُ الْحِكْمَةِ، هُمْ غَيْظُ الشَّيْطَانِ، بِهِمْ تَحْيَا قُلُوبُ أَهْلِ الْحَقِّ، وَتَمُوتُ قُلُوبُ أَهْلِ الزَّيْغِ، مَثَلُهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَثَلِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ، يُهْتَدَى بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، إِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُومُ تَحَيَّرُوا، وَإِذَا أَسْفَرَ عَنْهَا الظَّلُامُ أَبْصَرُوا‘‘۔
(أخلاق العلماء ص:۱۵-۱۷)
حمد وصلاۃ کے بعد: اللہ عز وجل نے اپنی مخلوق میں سے اپنے محبوبوں کو چنا اور انھیں ایمان کی توفیق بخشی، پھر تمام مومنوں میں سے اپنے چہیتوں کا انتخاب کیا اور انھیں اپنے فضل و کرم سے نوازا چنانچہ انھیں کتاب وحکمت کا علم عطا فرمایا اور دین کی سمجھ دی، نیز انھیں تفسیروبیان سکھائی اور تمام مومنوں پر فضیلت عطا فرمائی، اور یہ معاملہ ہر دور میں رہا، اُنھیں علم کے ذریعے بلندی عطا فرمائی اور حلم سے آراستہ کیا، اُنھی سے حلال و حرام، حق وباطل، مفید و مضر اور اچھے بُرے کی معرفت حاصل ہوتی ہے، ان کی بڑی فضیلت ہے اور ان کی ناقدری کا خطرہ نہایت سنگین ہے، وہ انبیاء کے وارثین اور اللہ کے اولیاء کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں … وہ عابدوں سے افضل ہیں اور زاہدوں سے بلند درجہ رکھتے ہیں، ان کی زندگی غنیمت اور ان کی موت مصیبت ہے، … ساری مخلوق ان کے علم کی محتاج ہے اور صحیح موقف والا اپنے مخالف پر انھی کے اقوال سے حجت پیش کرتا ہے، ساری مخلوق پر ان کی اطاعت واجب ہے اور ان کی نافرمانی حرام ہے، جس نے ان کی اطاعت کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے ان کی نافرمانی وہ سرکش ہوگیا، جب بھی امام المسلمین کے پاس کوئی پیچیدہ مسئلہ آتا ہے جو اس کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے تو وہ علماء ہی کے قول پر عمل کرتا ہے اور انھی کی رائے سے آگے بڑھتا ہے، اور جب بھی مسلم امراء کے پاس کوئی فیصلہ آتا ہے جس کا اُنھیں علم نہیں ہوتا تو وہ انھی کے قول پر عمل کرتے ہیں اور انھی کی رائے سے آگے بڑھتے ہیں، اور جب بھی مسلم قاضیان کے پاس کوئی پیچیدہ قضیہ آتا ہے وہ علماء ہی کے قول پر فیصلہ صادر کرتے ہیں اور اسی پر تکیہ کرتے ہیں، لہٰذا علماء بندگان الٰہی کے چراغ، شہر وممالک کے مینار، امت کا بنیادی ستون اور علم وحکمت کے سرچشمہ ہیں، وہ شیطان کے غیظ وغضب کا سبب ہیں، انھی سے حق پرستوں کے دلوں کو زندگی ملتی ہے اور انھی سے کج فکروں اور گمراہوں کے دلوں کو موت ہوتی ہے، روئے زمین میں ان کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے، جن سے بحر و بر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، جب ستاروں کی روشنی ماند پڑجاتی ہے تو وہ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں اور جب تاریکی چھٹتی ہے تو انھیں دکھائی دینے لگتا ہے۔
سلف امت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے دلوں میں علماء کا یہی مقام و مرتبہ رہا اور جب تک یہ امت اپنے علماء و مصلحین سے وابستہ رہی، ان کی قدر و منزلت پہچانتی رہی اور ان کے مطلوبہ حقوق ادا کرتی اور آداب بجالاتی رہی اُمت کا شیرازہ متحد رہا اور امت اپنے علماء کی رہنمائی میں اللہ کی رضا کی راہوں پر گامزن رہی اور نتیجۃً امت کا ماضی روشن اور تابناک رہا اور بالعموم ان میں خیر وسعادت کا پہلو غالب رہا، لیکن افسوس جوں جوں یہ امت اپنے علماء سے دور ہوتی گئی، نت نئے نعروں اور کھوکھلے شعاروں اور ہر ایرے غیرے کی آواز کے پیچھے بھاگنے لگی اور فقہ الواقع، نھضۃ، صحوۃ، تجدید کاری، روشن خیالی کے نام نہاد نعروں سے علماء کی تنقیص و توہین کرنے والے سیاسی بازیگروں کے دام فریب میں آکر امت کے علماء حق، سچے فقہاء اور ناصحین و مصلحین سے کنارہ کش ہوتی گئی اور خود رائی، تعالم، جذباتیت، جنونی خطابت، عقلانیت، رافضیت، تفلسف، اعتزال جدید، خارجی فکر وغیرہ کے نشے میں دھت ہوتی گئی، علماء حق کی تنقیص و توہین کرنا، ان کی عیب جوئی کرنا اور ان پرطعن و تشنیع کے نشتر لگانا ہر مجلس میں ان کا محبوب مشغلہ اور لذیذ میوہ بن گیا، اور پھر کیا تھا ظالموں نے علامہ ابن حجر، بیہقی، نووی وغیرہ ائمہ حدیث و سنت سے لے کر علامہ البانی، امام ابن باز، امام ابن عثیمین، صالح فوزان، غدیان، لحیدان، بکر ابوزید، اراکین کبار علماء بورڈ و ممبران دائمی فتویٰ نیز برصغیر ہند و پاک کے علماء حدیث و شارحین سنت کسی کو نہ چھوڑا، سبھوں کی تجہیل وتسفیہ کر ڈالی اور اُنھیں حیض و نفاس کے علماء، پریشرائزڈ اور حکومت کا آلۂ کار اور غلام قرار دیا، اور یہی نہیں بلکہ بعض مفکرین، عقل پرستوں اور لبرل لوگوں نے اپنی ہوا پرستی سے حضرات صحابۂ کرام اور تابعین عظام کو بھی روندنے سے دریغ نہ کیا!! فاللہ المستعان۔
زیر نظر کتاب ڈاکٹر عبد الرحمن بن معلا اللویحق کی مایہ ناز تصنیف کے اردو ترجمہ ’’علماء کے حقوق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ہے، جب کہ اس کا پہلا ایڈیشن تقریباً ساڑھے تین سال پیشتر مئی ۲۰۱۷ء میں صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی سے شائع ہوکر ممبئی اور ملک کے دیگر گوشوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ مگر ہرطرف سے اس کی شدید طلب کے پیش نظر امیر محترم شیخ عبد السلام سلفی حفظہ اللہ وعافاہ نے کورونا مہاماری اور لاک ڈاؤن میں بے سروسامانی کے باوجود اس کی اشاعت کا فیصلہ کیا، فجزاہ اللہ خیراً۔
یوں تو کتاب کے ترجمہ اور پہلی اشاعت کے موقع پرمولف سے کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا تھا، لیکن جنوری ۲۰۱۸ء میں عمرہ کے سفر کے دوران ڈاکٹر عبد الرحمن اللویحق سے مسجد نبوی میں میری اچانک ملاقات ہوگئی، آپ مسجد نبوی میں’امن و امان سے متعلق ہفت روزہ دورۂ علمیہ‘ کے لیے ریاض سے بحیثیت محاضر مدینہ تشریف لائے تھے، میں نےصلاۃ عشاء کے بعد شیخ کو کتاب کا نسخہ پیش کرتے ہوئے کہا ’’شیخ یہ آپ کی کتاب ’قواعد فی التعامل مع العلماء‘ کا اردو ترجمہ ہے جسے شہر ممبئی ہندوستان کی جمعیت نے ترجمہ کراکے شائع کیا ہے! کتاب دیکھ کر شیخ متعجب ہوئے اور حد درجہ خوشی کا اظہار کیا اور ناچیز اور امیر محترم کو خوب دعاؤں سے نوازا، اور جمعیت کی اس خدمت کی بڑی سراہنا کی اور کہنے لگے: آپ نے میری کتاب کا ترجمہ کرکے میرا اجر وثواب بڑھا دیا ہے، ساتھ ہی میری ہندوستان سے اور اپنی ریاض سے مدینہ آمد اور مسجد الرسول ﷺ میں اتفاقی ملاقات پر اللہ کی حمد وثنا فرمائی، فجزاہ اللہ خیراً، ملاقات کے وقت برادرم ابو الحسن چودھری، برادر عزیز شیخ الطاف الرحمن مدنی اور ریاسہ برائے امور مسجد نبوی کے بعض ذمہ داران بھی موجود تھے۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اس کتاب کے عربی نسخہ کی طرح اردو ایڈیشن سے بھی مستفید ہوکر اہل علم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے اور مولف، مترجم، مقرظ اور صوبائی جمعیت کے ذمہ داران بالخصوص امیر محترم شیخ عبد السلام سلفی اور تمام معاونین کو جزائے عطا فرمائے، آمین۔
(۱۶/دسمبر ۲۰۲۰ء)

آپ کے تبصرے

3000