غزلیات شمس: فکروفن کا دلچسپ شعری منظرنامہ

ڈاکٹر ریاض توحیدی تعارف و تبصرہ

میں کر رہا تھا اس کو بھلانے کا فیصلہ
یک لخت اس کی کوئی ادا یا د آگئی
شاعری کی شعریات کو پیش نظر رکھیں توشعر اور شعور کے مابین ایک طرح سے جمال آفریں فکری و نفسیاتی ربط ہوتا ہے۔جب شعر ی خیال میں شعوری رو دوڑتی ہے تو وہ شعر قاری کے شعور کو جمال آفریں لطافت سے محظوظ کرتا ہے۔اس تناظر میں دیکھیں تو اردو کی بیشتر غزلیہ شاعری شعور کے جمالیاتی لمس کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ غزل میں غزلیہ لمس کے ظہور میں تخیل آفرینی،تخلیقی رچاؤ،جمالیاتی احساس،فنی صنعت گری کے علاوہ ایک اہم شعری جز (Poetic element) تغزل (Lyricism) ہے اور تغزل کی یہ چاشنی غزلیت کے برتاؤ سے نمو پذیرہوتی ہے۔ان معروضات کے زیر نظرڈاکٹر شمسؔ کمال انجم کے شعری مجموعے ’’پھولو ں کی بارش‘‘ کی بیشتر غزلوں یا غزلیہ اشعارمیں تخئیل آفریں تخلیقی رچاؤ کے ساتھ ساتھ جمال آفریں شعوری رو دوڑتی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے یہ اشعار قاری کو جمال آفریں لطافت سے محظوظ کرتے ہیں۔زیر تجزیہ کلام میں جو غزلیات ہیں ان میں فکر وفن اور تخئیل وتخلیق کاایسا شعری منظرنامہ سامنے آتا ہے کہ کہیں شعر میں شعری کردار (Poetic Character) شاعر کی قلبی واردات اور ذہنی آسودگی کی فنی ترجمانی کرتا ہے اور کہیں راست انداز میں خود شاعر اپنے تفکرات کو شعری قالب میں پیش کرتا ہے۔شعری تکنیک (Poetic tecnique) یا شعری اسالیب (Poetic style) کی یہ ہنرمندی ہر زبان کی معیاری شاعری میں نظر آتی ہے۔اب اگر کوئی قاری شعری کردارکا تصور پڑھ کر تھوڑا سوچ میں پڑجائے کہ کیا شاعری یا شعر میں بھی کردار ہوتا ہے تو اگر اردو کی ہی بات کریں تو مثنوی کیا ہوتی ہے۔ مثنوی ایک طرح سے واقعات، داستان یا فکشن کا منظوم اظہار ہوتی ہے۔اس میں کردار بھی تو ہوتے ہیں، انھیں شعری کردار کی بجائے کیا کہیں گے۔ہم عام طور پر شعر کی تشریح یا توضیح کرتے ہوئے روایتی یا نصابی انداز یعنی شاعر فرماتے ہیں یا شعر کا مطلب یہ ہے،دوہراتے رہتے ہیں۔ٹھیک ہے کہیں کہیں شعر میں شاعر ہی فرماتا ہے لیکن کہیں کہیں شاعر کے فکر وخیال کی ترجمانی کوئی شعری کردار ہی کرتا ہے۔ ایسی غزلوں یا نظموں کے تجزیے کے دوران جدید تنقیدی تھیوریزیا فرانسسی نقادمالارمے (Mallarme) کے اس خیال کے مطابق ’’تحریر لکھتی ہے نہ کہ قلمکار‘‘’(Writing writes not authors) کو پیش نظر رکھ کر ہی صحیح ڈھنگ سے بات ہوسکتی ہے۔(خیریہ مسئلہ ایک طویل بحث کا تقاضا کرتا ہے۔) اس مباحثہ کے ضمن میں جب زیر نظر شعری مجموعہ کی غزلیات پرغور کریں تو ان میں بیشتر اشعار فنی اسالیب کے تحت تخلیقی شعری زبان (Creative poetic language) کے معیاری اظہار میں کہیں شاعر کے راست انداز بیان اور کہیں شعری کردار کے وسیلے سے فکر و تخئیل کا تخلیقی اظہار کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ شعر میں شاعر کا مشاہدہ اور تجربہ فن اور تخلیق کے امتزاج سے سامنے آتا ہے۔اب اس میں کس قسم کا اسلوب، خیال اورتجربہ پیش ہوا ہوگا تو تنقیدی نقطہ سے اسی پر ارتکاز کرنا پڑے گا تاکہ اس خیال وتجربہ اور اسلوب کے اکتشاف کے ساتھ ساتھ تخلیق یا فن پارے کا موضوعاتی کینوس کھل کرسامنے آسکے۔ اس تناظر میں شامل کتاب کئی اشعار پر گفتگو ہوسکتی ہے تاہم یہاں چند ہی اشعارکو موضوع سخن بنایا جائے گا۔
تخیل کے پرندے اڑ رہے ہیں
غزل کا حسن مطلع ہو رہا ہے
……
مشام جاں معطر ہیں ہمارے
کوئی پھولوں کی بارش کر رہا ہے
……
ظلمت شب میں چراغوں کی طرح رہتے ہیں
ہم سمندر میں جزیروں کی طرح رہتے ہیں
……
شاعری بے لباس لگتی ہے
اس میں جب تک نہ رکھو نکتہ کوئی
……
انھیں ہے شوق خلاؤں میں اڑتے رہنے کا
جنھیں پتہ نہیں قدموں کو کیسے رکھا کریں
شاعری کیا ہے؟ ایک طرح سے تخیل کی پروا ز کا نام ہے ،جس کو فنی ہنر مندی سے متن میں پیش کیا جاتا ہے۔ پہلے شعر میں شاعر خود کے اس شاعرانہ تجربے کو حسین پیرایے میں بیان کررہا ہے کہ اس وقت وجدانی کیفیت میں تخیل کے پرندے یعنی خیال آفرینی کی پرواز اتنی بلند ہورہی ہے کہ مطلع کے ساتھ ساتھ حسن مطلع میں بھی خیالات رواں ہورہے ہیں،نہ کہ کسی سوچے سمجھے ارادے کے تحت۔ شاعری کا یہ تخلیقی تجربہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔کیونکہ اسی قسم کا شعر اپنا تخلیقی تاثر قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ جب شاعر کا ادراک ’’سرحد ادراک‘‘سے نکل کر تخیل کی فضاؤں میں ایک آزاد پرندے کی طرح اڑان بھرتا ہے تو ہی تصورات، تخلیقی خیالات (Creative Thoughts)کے شعری پیکر میں ڈھل جاتے ہیں اور شاعرفکری طورپریہ کہنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے کہ’’تخیل کے پرندے اڑ رہے ہیں‘‘۔
دوسرے شعر میں شاعر کا خیال ایک شعری کردار کے ذریعہ پیش ہورہا ہے نہ کہ پہلے شعر کی طرح شاعر اپنی نجی تجربے کا اظہار خود کررہا ہے۔یہاں شاعر نے شعری کردار کو اپنے خیالات پیش کرنے کا ایک وسیلہ بنایا ہے کہ’’مشام جاں معطر ہوگئے ہیں‘‘ یعنی کوئی فرضی شعری کردار کسی محفل میں کسی شخصیت کی آمد، موجودگی یا گفتارسے متاثر ہوکر کہہ رہا ہے کہ دل و دماغ معطر ہوگئے ہیں ۔ایک طرح سے ’’ہوگئے ہیں‘‘ کی ترکیب سے شعری کردار کئی لوگوں کے احساسات کی ترجمانی کررہا ہے جس کا منطقی جواز پھولوں کی بارش سے فراہم ہورہاہے۔ اب پھولوں کی بارش کا اگر لفظی معنی لیں تو کسی کے پھولوں کی بارش سے نہ صرف فضا معطر ہوگئی بلکہ موجودلوگوں کے دل ودماغ بھی معطر ہوگئے ہیں کیونکہ پھولوں کی مہک سے انسان کا دماغ معطر ہی ہوجاتا ہے لیکن شعر کا ابہام انگیز معنوی کینوس اس کی تفہیم کو استعاراتی جامہ پہنا رہا ہے کہ کوئی ایسی علمی یا باکمال شخصیت لوگوں کے درمیان موجود ہے جس کے افکار و خیالات سے دل معطر ہورہے ہیں۔تخلیقی اور معنی لحاظ سے یہ شعر معنی آفریں جہت کی بہترین عکاسی کرتا ہے ۔
مشام جاں معطر ہیں ہمارے
کوئی پھولوں کی بارش کررہا ہے
اب تیسرے شعر کی علامتی اور تشبیہی ساخت پر غور کریں تو اس میں تصور کے ساتھ ساتھ تخلیقی تخئیل (Creative Imagination)کا حسین امتزاج نظر آتا ہے ۔اس میں صرف کوئی منظوم تصور ہی نہیں پیش ہوا ہے بلکہ شعر کی تخلیقی حیثیت کا بھر پور ثبوت ملتا ہے۔شعر میں دو طرح کے تجربوں کا اظہار ہوا ہے،ایک ظلمت شب، سمندر اور دوسرا چراغ اور جزیروں کی خیالی تجسیم کاری جس کو معنوی ربط میں صنعت تشبیہ کی کاریگری سے جوڑ دیاگیا ہے۔ظلمت شب کی علامتی ترکیب،ظلم و تشدد، ناانصافی اور حق تلفی وغیرہ جیسے منفی مناظر کی عکاسی کرتی ہے اور شعری کردار بصورت شاعر اس مایوس کن ماحول میں اپنے جذبہ استقامت کا مثبت اظہار بصورت چراغ کی روشنی کی علامت سے کرتا ہے اور پھر صنعت تشبیہ سے پورے قصے کی معنوی ساخت کو سمندروں کے جزیروں سے جوڑ دیتا ہے۔یعنی خون آشوب ماحول میں زندگی گزارنے کی حوصلہ افزا اور جرأت مندانہ عزم کا شاعرانہ تخلیقی اظہار۔اب اگر اس شعر کی معنویت اور تفہیم پر ادبی تھیوری کا اطلاق کریں اور ’معنی کے مقررہ مراکز‘(Fixed centers of meaning) کے برعکس متن کی متحرک معنوی جہت کو ذہن میں رکھیں تو پیش نظر شعر کی تفہیم کا اطلاق کشمیر کی اندوہناک صورتحال، فسادات کے خوں آشام حالات اور دنیا کے کسی بھی خطے کے پرتشدد حالات وواقعات پر ہوسکتا ہے ۔جو بھی انسان یا قوم اس قسم کی صورتحال سے گزر رہی ہو تو شعر کا معنوی اطلاق اس پر ہوسکتا ہے۔کیونکہ شاعر نے شعر کو موضوعاتی طور پرکسی مخصوص انسان،قوم یا خطے تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ علامتی پیکر میں خیالات و تجربات کو شعر کا حصہ بنایا ہے۔
ظلمت شب میں چراغوں کی طرح رہتے ہیں
ہم سمندر میں جزیروں کی طرح رہتے ہیں
اب اس کے بعد یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
شاعری بے لباس لگتی ہے
اس میں جب تک نہ رکھو نکتہ کوئی
……
نہیں ہے شوق خلاؤں میں اڑتے رہنے کا
جنھیں پتہ نہیں قدموں کو کیسے رکھا کریں
ان اشعار میں خیالات کی بالقصدترجمانی (Intentional representation)نظر آتی ہے۔جس میں نظریاتی طور پر شاعری کے بامقصد’’جب تک نہ رکھو نکتہ کوئی‘‘اور اصلاحی طور پر طنز ملیح(Sweet irony) ’’جنھیں پتہ نہیں قدموں کو کیسے رکھا کریں‘‘کا نظریاتی اور اصلاحی پہلو واضح طور سے جھلکتا ہے۔اب شاعر، شعر میں خصوصاً غزل میں نثری انداز خطاب تو کرنہیں سکتا ہے بلکہ وہ شعری محاسن اشاروں کنایوں سے کام لے کر اپنا مدعا بیان کرتا رہتا ہے۔اس لیے مجموعے کے کئی اشعار میں یہ شعری محاسن بخوبی نظر آتے ہیں۔
شاعری میں جتنا اہم رول فن کاری کا ہوتا ہے اتنا ہی شعر کی کامیابی کا مدار کبھی کبھی معنی پر بھی ہوتا ہے۔ معنوی پہلو کو زیر نظر رکھیں تو اس میں مقصدیت کا پہلو نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔غالب ؔ کے کلام میں بھی بامقصداور اخلاقی پیام کے حامل ’’نہ سنو گر برا کہے کوئی ۔۔۔روک دو گر غلط چلے کوئی‘‘ جیسے اشعارنظر آتے ہیں اور علاّمہ اقبالؔ کے بیشترکلام میں مقصدیت کاپہلو تو نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ شاعری صرف خواص کے لیے نہیں ہوتی ہے کہ ہم کہیں اس میں مقصدیت نہیں ہونی چاہیے بلکہ شاعری عام انسان کے لیے بھی ہوتی ہے۔اس لیے بامقصد شعر جب عام انسان کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے تو وہ فن کو چھوڑ کر اس کے مقصدی پہلو سے ہی متاثر ہوکر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ زیر نظر مجموعہ میں بھی کئی اشعار فنی دروبستگی کے مقصدیت کے حامل نظر آتے ہیں جن میں اخلاقی و اصلاحی پیام اور طنزیہ اسلوب بھی جگہ جگہ نظر آتا ہے:
حسین لفظوں کا گلدستہ لیے پھرتا ہے وہ لیکن
مجھے معلوم ہے وہ سب سے مکاری سے ملتا ہے
……
فکر اپنے بچوں کی ضروری ہے مگر
اپنی بوڑھی ماں کابھی بوسیدہ آنچل دیکھ
……
پہلے باہر آئیے اپنی انا کی قید سے
پھر سلگتے مسئلوں کا بیٹھ کر حل سوچیے
یہ مجموعہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ اردو غزل اب اگرچہ محبوب کی سراپا نگاری سے خود کو بہت حد تک آزاد کرچکی ہے اور اب اس میں زندگی کے بیشتر موضوعات کی فنی عکاسی ہوتی ہے، تاہم پھر بھی غزل کا بیشتر حصہ عشق وعاشقی کے شیریں خیالات پر مشتمل ہے اور یہ غزل کی اصلی پہچان بھی ہے۔تو ایک جینوئن تخلیق کی حیثیت سے شاعر نے بھی غزل کے اس روایتی موضوع کو برتتے ہوئے فن کاری کے کامیاب جلوئے دکھائے ہیں:
بہت رنگین ہوجاتی ہے دنیا
کسی کے عشق میں سرشار ہوکر
……
مجھے یہ پتہ ہے کہ وہ بے وفا ہے
مگر میرا دل تو اسی پر فدا ہے
……
میں کر رہا تھا اس کو بھلانے کا فیصلہ
یک لخت اس کی کوئی ادا یاد آگئی
……
کچھ باتیں کسی کو بھی سکھائی نہیں جاتی
مضمون محبت کے پڑھائے نہیں جاتے
شاعری میں جب شاعر’ سہانے لفظوں‘کے ذریعے شہد جیسے بول بولتا ہے تو یہ شاعری سننے والے کے کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔شمس کمال انجم کی شاعری کے شہد جیسے بول بھی قاری اور سامع کی سماعتوں میں رس گھول دیتے ہیں ۔کیونکہ اس میں شاعری بھی ہوتی ہے،ترنم ریز آہنگ بھی،تغزل بھی اور فکروفن کی دلکشی بھی۔ ان کی چند غزلیں غالب کی زمین میں لکھی گئی ہیں اور کہیں کہیں ردیف وقافیہ بھی یکساں نظر آتا ہے لیکن لفظوں اور تراکیب کی نئی معنویت کے ساتھ:
میرے شعروں میں تغزل کا بھرم ہے تجھ سے
تو ہی تشبیہ مری تو ہی کنایہ میرا
……
کس کے لفظ سہانے ہیں یہ شہد کے جیسے کس کے بول
کانوں میں کس نے رس گھولے ہیں خوشبو خوشبو پرچھائی ہے
……
پہلے نفرت کے شعلے بجھا دیجیے
پھر چراغ محبت بھی جل جائے گا
……
تم زباں سے گلابوں کی بارش کرو
خار بھی میرے دل سے نکل جائے گا
……
حرف آخر گرچہ ہے لکھا ہوا تقدیر کا
معجزہ بھی رنگ لاتا ہے بہت تدبیر کا
……
اس نے اس درجہ سلیقے سے لکھی ہے کائنات
ہر کس و ناکس ہے عاشق شوخی تحریر کا
مجموعے کی غزلوں یا کئی اشعار کی فنی شگفتگی اور معنوی جہات کے پیش نظر مزید گفتگوبھی ہوسکتی ہے۔
مجموعی طور پر زیر نظر شعری مجموعہ کی بیشتر غزلیں فنی وفکری اور تخلیقی خوبیوں سے مزین ہیں۔جو کہ ڈاکٹر شمس کمال انجم(صدر شعبۂ عربی و اسلامیات،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری) کی سخن وری، شعر فہمی اور فنی چابکدستی کا عمدہ ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
موصوف کی علمی وادبی شخصیت کا یہ نمایاں پہلو ہے کہ آپ عربی زبان کے استادہونے کے باوجود عربی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی اپنے افکار و خیالات بصورت شعر ونثر پیش کرتے رہتے ہیں۔ تحقیق و تنقید اور ترجمہ نگاری میں درجن بھر کتابیں لکھ چکے ہیں،جن میں چند عربی میں ہیں اور چند اردومیں۔عربی تحقیق و تنقید کی چند اہم کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ایک قابل تحسین کام انجام دے چکے ہیں جن میں عربی نثر کا فنی ارتقاء،تاریخ ادب عربی،عربی تنقید کا سفر،جدید عربی ادب وغیرہ شامل ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000